سوشل میڈیا پوسٹ کے فیکٹ چیک کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت آنے والی کمپنی نے ٹینڈر منگائے

سائبر قانون کے جان کار اور فیک نیوز کا پتہ لگانے والے ماہرین نے اس قدم پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سرکار کے لیے غیرقانونی نگرانی کے راستے کھل جا ئیں گے اور اس کا استعمال لوگوں کو پریشان کرنے کے لیےہو سکتا ہے۔

سائبر قانون کے جان کار اور فیک  نیوز کا پتہ لگانے والے ماہرین نے اس قدم پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سرکار کے لیے غیرقانونی نگرانی کے راستے کھل جا ئیں گے اور اس کا استعمال لوگوں کو پریشان کرنے کے لیےہو سکتا ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: وزارت اطلاعات ونشریات(آئی بی) کے تحت آنے والی پبلک سیکٹر کی سینٹرل کمپنی براڈکاسٹ انجینئرنگ کنسلٹنٹس انڈیا لمٹیڈ (بیسل) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر حقائق  کی تصدیق اور پروپیگنڈہ کا پتہ لگانے سے متعلق  خدمات فراہم  کرنے کے لیے ٹینڈر جاری کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، بیسل نے درخواست  کرنے والی ایجنسیوں کے لیے یہ لازمی  کیا ہے کہ انہیں پروپیگنڈہ کرنے والوں کی پہچان کرنے اور ان کی لوکیشن  کا پتہ لگانے میں بھی اہل  ہونا چاہیے۔بیسل نے لازمی  کیا ہے کہ ایجنسیوں کو ممکنہ  طور پر تشدد پھیلانے والے پیج اور ان کے کے ذریعے سوشل میڈیا پر ڈالے گئے ویڈیو اور تصویروں کی بھی پہچان کرنی ہوگی۔ اس کام میں انہیں آرٹی فیشیل انٹلی جنس کا بھی استعمال کرنا ہوگا۔

حالانکہ سائبر قانون کے جان کار اور فیک نیوز کا پتہ لگانے والے ماہرین نے اس قدم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سرکار کے لیے غیرقانونی نگرانی کے راستے کھل جا ئیں گے اور اس کا استعمال لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے ہو سکتا ہے۔سائبر لاءکمپنی ٹیک لگس ایڈووکیٹس اینڈ سالیسیٹرس کے فاؤنڈر سلمان وارث نے کہا، ‘اگر ہمیں یہی نہیں پتہ ہے کہ فیک نیوز کیا ہے؟ تو ٹینڈر پانے والی کمپنی کیسے یہ طے کرےگی کہ کیا فیک ہے اور کیا نہیں؟ اسے کیسے پتہ چلےگا کہ آخر کس چیز کے بارے میں پتہ کرنا ہے اور جانچ کرنی ہے؟ یہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی  نگرانی کے لیے آسان راستہ ہے۔’

وزارت اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ وہ اپریل میں اطلاعاتی ٹکنالوجی انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اور سوشل میڈیا ریگولیشن، 2020 کے استعمال کے لیے گائیڈ لائنز کی آخری فریم ورک  پر کام کر رہا تھا۔ حتمی  مسودہ کوابھی عوامی  کیا جانا باقی ہے۔وزارت  کے ترجمان نے کہا، ‘ہم ابھی بھی فیک نیوز کے گائیڈ لائنز پر کام کر رہے ہیں۔ پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)کسی بھی فارمل میڈیا رپورٹ یا وائرل ہونے والے رپورٹ پر مبنی فیکٹ چیک کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کا معاملہ الگ ہے۔’

بتا دیں کہ اب تک سرکار فیک  نیوز کے خطرے اور پروپیگنڈہ کو روکنے کی ذمہ داری لگاتار سوشل میڈیا کمپنیوں پر ڈالتی رہی ہے۔اگست، 2018 میں وزیر اطلاعات ونشریات روی شنکر پرساد نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا تھا کہ وہ فیک نیوز اور پروپیگنڈہ کو روکنے کے لیے اپنی تکنیک کا بہتر استعمال کریں۔

پرساد نے یہ بیان سال 2018 میں ملک بھر میں ایک کے بعد ایک سامنے آنے والی ماب لنچنگ کی واقعات کے بعد دیا تھا۔ان معاملوں میں جانچ ایجنسیوں نے کہا تھا کہ بھیڑ نے یہ کام وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کئے گئے ان پوسٹ کی وجہ سے کیے جن میں ان کے علاقے میں ممکنہ  بچہ چور یا بال تسکری والے لوگوں کے ہونے کی جانکاریاں دی گئی تھیں۔

فیکٹ چیک پلیٹ فارم آلٹ نیوز کے بانی ممبر پرتیک سنہا نے کہا، ‘اہم  مدعا یہ ہے کہ آپ اثر ڈالنے والوں کی پہچان کیسے کریں گے؟ لوگ ہمیشہ کسی مقصد سے غلط جانکاریاں  نہیں ڈالتے ہیں۔ وہ ایسا ڈر یا غلط جانکاری کی وجہ سے کر سکتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم غلط جانکاری سے جڑے لوگوں کے مجرم  ہونے کے حمایتی نہیں ہیں۔’

آرٹی فیشیل انٹلی جنس کے استعمال پر سنہا کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا تبھی کیا جا سکتا ہے جب ہمارے پاس اس سے متعلق اعدادوشمارہوں تاکہ سافٹ ویئر اس کے توسط سے مواد کی  زمرہ بندی کر سکیں۔سنہا نے کہا، ‘سب سے اچھا طریقہ ہے کہ لوگوں کو فیکٹ چیک کرنے کے لیے بیدار کیا جائے۔ ٹوئٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارم دوبارہ نشرکئے جانے والے پرانے ویڈیو اور تصویروں پر ڈس کلیمر دے سکتے ہیں۔’