اتر پردیش کے کانپور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے صحافی25سالہ شبھم منی ترپاٹھی نے اپنےقتل سے پہلے حکام کو خط لکھ کر علاقے کے زمین مافیا اور ریت مافیا سے اپنی جان کو خطرہ ہونے کی بات کہی تھی۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے اناؤ ضلع میں کانپورکے ایک اخبار کے رپورٹر کا19 جون کوقتل کر دیا گیا۔ الزام ہے کہ صحافی کے قتل کے پیچھےعلاقے میں سرگرم ریت مافیا اور زمین فیا کا ہاتھ ہے۔وہ کانپور سے شائع ہونے والے اخبار کمپو میل میں کام کرتے تھے۔نیوزکلک کی رپورٹ کے مطابق، 25سالہ صحافی شبھم منی ترپاٹھی اپنے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل سے گھر لوٹ رہے تھے اور اسی دوران اناؤ کے گنگاگھاٹ علاقے میں نامعلوم لوگوں نے انہیں گولی مار دی۔ انہیں فوراً کانپور کے اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی موت ہو گئی۔
ترپاٹھی نے گزشتہ 14 جون کو اپنے فیس بک پروفائل پر لکھا تھا کہ ان کی ایک رپورٹ کی وجہ سے مشہور زمین مافیا کے غیرقانونی تعمیرات کو گرا دیا گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس کارروائی سے مافیا غصہ ہو گیا اور اس نے ان کے خلاف ضلع مجسٹریٹ کے پاس فرضی درخواست دی ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق، اس معاملے میں تین لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور دودیگر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔گرفتار کئے گئے ایک ملزم نے پولیس کو بتایا کہ ایک مقامی ریئل اسٹیٹ کاروباری دویہ اوستھی نے ترپاٹھی کی رپورٹ اور فیس بک پوسٹ کے جواب میں ان کے قتل کی سازش کی۔
کمپو میل کے بیورو چیف رتیش شکلا نے نیوزکلک کو بتایا کہ حال ہی میں شبھم کا زمین قبضہ کرنے والوں سے جھگڑا ہو گیا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنے قتل کے خدشے کا اظہار کیاتھا۔ ترپاٹھی کے چچا دھیریندر منی ترپاٹھی نے بھی قتل کی سازش کرنے کے لیے دویہ اوستھی کا نام لیا ہے۔
وہیں، اناؤ کے ایک دوسرےصحافی وشال موریہ نے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے)کو بتایا کہ ترپاٹھی نے پولیس کو اپنی جان کو خطرے کی بات بتائی تھی۔ ترپاٹھی نے 15 جون کو حکام کو خط لکھ کر دھمکی دیے جانے کی جانکاری دی تھی۔ ترپاٹھی نے اس میں 10 لوگوں کے ناموں کا بھی ذکر کیا تھا۔
رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس (آرایس ایف)کے مطابق، اتر پردیش صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک علاقوں میں سے ایک ہے، بالخصوص جو لوگ ریت مافیا کو کور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس این جی او نے کم سے کم پانچ حالیہ واقعات کی فہرست سازی کی تھی، جس میں صحافیوں کو غیرقانونی ریت کھدائی یا زمین قبضہ کرنے کی سرگرمیوں پر رپورٹنگ کے لیے مار دیا گیا یا حملہ کیا گیا۔
سی پی جے اور آرایس ایف دونوں نے بیان جاری کرکے اتر پردیش میں حکام سے کہا کہ وہ قتل کے لیے ذمہ دار لوگوں کو گرفتار کریں۔سی پی جے کے ایشیا پروگرام کوآرڈی نیٹر اسٹیون بٹلر نے کہا، ‘ہم اتر پردیش کے حکام سے ریاست میں کام کر رہے تمام صحافیوں کی حفاظت کے لیے قدم اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔ یہ یقینی بنانا کہ کوئی بھی کسی کو مار نہیں سکتا ہے، سب کے لیے سب سے مؤثرتدبیر ہے۔’
آرایس ایف نے کہا، ‘ہم اتر پردیش سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شبھم ترپاٹھی کےقتل کےہر پہلوکو سامنے لانے کے لیے وہ ایک آزادانہ جانچ کا اہتمام کریں۔’انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں ریت مافیاؤں اورمقامی پولیس سربراہوں کے بیچ رشتے کا یہ مطلب ہے کہ جب صحافیوں کو ان کی رپورٹنگ کے سلسلے میں مار دیا جاتاہے، تو پولیس کی جانچ لگ بھگ ہمیشہ بنا کسی کارروائی کے بند ہو جاتی ہے۔صحافیوں کی تحفظ کی گارنٹی دینے والے قانون کے توسط سے اس کوختم کرنےکی ضرورت ہے۔
بتا دیں کہ ترپاٹھی کے قتل سے ایک دن پہلے ہی اتر پردیش کے ہی وارانسی میں نیوز پورٹل اسکرال ڈاٹ ان کی سپریہ شرما کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف یہ معاملہ لاک ڈاؤن کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے گود لیے گئے گاؤں میں بھوک کی خبر کرنے کی وجہ سے درج کیا گیا ہے۔
وہیں، دہلی واقع رائٹس اینڈ رسک انالسس گروپ (پراگ)نے اپنی رپورٹ میں پایا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ملک بھر میں کم سے کم 55 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، معاملہ درج کیا گیا اور دھمکی دی گئی۔ اس میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے خلاف اتر پردیش پولیس کے ذریعے درج معاملہ بھی شامل ہے۔بتا دیں کہ ورلڈ پریس انڈیکس میں ہندوستان لگاتار نیچے جا رہا ہے۔ پیرس واقع رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس کی جانب سے جاری سال 2020 کے انڈیکس میںہندوستان پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے نیچے 142ویں مقام پر ہے۔