انتخابی بانڈ اسکیم کو نافذ کرنے کے لئے مودی حکومت نے سال 2017 میں مختلف قوانین میں ترمیم کی تھی۔ اس کے بعد اے ڈی آر نے عرضی دائر کرکے ان ترمیمات کو چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو انتخابی بانڈ اسکیم پر فوری روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن سے دو ہفتے کے اندر جواب مانگا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن سے دو ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔
درخواست گزار اے ڈی آر کی طرف سے پیش وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ اس اسکیم کا استعمال حکمراں پارٹی بی جے پی کے حق میں بےحساب بلک منی کو بھنانے کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ بھوشن نے انتخابی بانڈ اسکیم پر روک لگانے کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک دستاویز کا بھی ذکر کیا۔ بھوشن نے کہا کہ ہر انتخاب میں حکمراں پارٹی کو بڑی رقم چندے میں مل رہی ہے، جس پر عدالت کو روک لگانی چاہیے۔
پرشانت بھوشن نے عدالت میں کہا، ‘ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) اور الیکشن کمیشن نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ ہر انتخاب سے پہلے حکومت انتخابی بانڈ کی اسکیم شروع کر دیتی ہے۔ آر بی آئی اور الیکشن کمیشن بھی مرکزی حکومت کو اس مدعے پر لکھ چکا ہے۔ اب دہلی الیکشن سے پہلے بھی حکومت انتخابی بانڈ لےکر آئی ہے، اس پر روک لگنی چاہیے۔ ‘
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، پرشانت بھوشن نے دلیل دی کہ یہ اسکیم صرف لوک سبھا انتخاب کے دوران طےمدت کے لئے تھی، لیکن ہر ریاستی اسمبلی انتخابات کے لئے اس اسکیم کو غیر قانونی طور پر شروع کیا جا رہا ہے۔ اس سے حکمراں جماعت کو بھاری رقم مل رہی ہے۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے اپنا جواب داخل کرنے کے لئے چار ہفتے کا وقت مانگا لیکن بھوشن نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تک دہلی کے انتخاب ختم ہو جائیںگے۔
بنچ نے کہا کہ ان مدعوں پر پہلے ہی دلیل دی جا چکی ہے تو بھوشن نے کہا کہ نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے پیش سینئر وکیل راکیش دویدی نے کہا کہ ان تمام دستاویزوں کو پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے اس اسکیم کے خلاف این جی او کی عرضی پر جواب دینے کے لئے چار ہفتے کا وقت مانگا۔ بنچ نے کہا، ‘ ہم اس کو دیکھیںگے۔ ہم اس کو دو ہفتے کے بعد لسٹڈ کریںگے۔ ‘
غور طلب ہے کہ انتخابی بانڈ اسکیم کو نافذ کرنے کے لئے مودی حکومت نے سال 2017 میں مختلف قوانین میں ترمیم کی تھی۔ اے ڈی آر نے سال 2017 میں عرضی دائر کر کے انہی ترمیم کو چیلنج کیا تھا۔
گزشتہ سال لوک سبھا انتخاب کے دوران 12 اپریل کو اس وقت کےچیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی تین ججوں کی بنچ نے تمام سیاسی جماعتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ حاصل انتخابی بانڈ کی رقم اور اس کے چندہ دینے والے سمیت تمام جانکاری مہر بند لفافے میں
الیکشن کمیشن کو 30 مئی تک دیں۔ اس سماعت کے بعد سے ابھی تک سپریم کورٹ نے اس معاملے کو لسٹڈ نہیں کیا۔
اے ڈی آر کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ فنانس ایکٹ 2017 اور اس سے پہلے فنانس ایکٹ 2016 میں کچھ ترمیم کی گئی تھیں اور دونوں کو فنانس بل کے طور پر منظور کیا گیا تھا، جن سے غیر ملکی کمپنیوں سے بے شمار سیاسی چندے کے دروازے کھل گئے اور بڑے پیمانے پر انتخابی بد عنوانی کو جواز حاصل ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی سیاسی چندے میں پوری طرح غیر شفافیت ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ قانون میں کی گئی تبدیلیوں کا تفصیل سے جائزہ لےگا اور یہ یقینی بنائے گا کہ توازن کسی پارٹی کے حق میں نہ جھکا ہو۔ حالانکہ اس دوران الیکشن کمیشن نے بھی اس اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں شفافیت کی کمی ہے۔ بتا دیں کہ حال ہی میں الیکشن کمیشن کو دی گئی آڈٹ رپورٹ میں بی جے پی نے بتایا تھا کہ مالی سال 2018-19 میں پارٹی کی کل آمدنی 2410 کروڑ روپے رہی۔
بی جے پی کی کل آمدنی کا 60 فیصد حصہ
انتخابی بانڈ کے ذریعے اکٹھا ہوا ہے۔ انتخابی بانڈ سے ہی بی جے پی کو 1450 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ مالی سال 2017-2018 میں بی جے پی نے انتخابی بانڈ سے 210 کروڑ روپے کی آمدنی ہونے کا اعلان کیا تھا۔