اے آئی ایم آئی ایم کے مصطفیٰ آباد کے امیدوار طاہر حسین نے انتخابی مہم کے لیے پہلے بھی سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پولیس حراست میں مہم چلانے کی اجازت مانگی جسے سپریم کورٹ نے منظور کرلیا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (28 جنوری) کو 2020 میں دہلی میں ہوئے فسادات کے ملزم اور سابق کونسلر طاہر حسین کو راحت دیتے ہوئے حراستی پیرول کی منظوری دے دی ہے۔ عدالت نے انہیں آئندہ دہلی اسمبلی انتخابات کی مہم چلانے کے لیے 29 جنوری سے 3 فروری تک حراست میں پیرول کی اجازت دی ہے۔
طاہر حسین دہلی کی مصطفیٰ آباد سیٹ سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) پارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن لڑ رہے ہیں۔
معلوم ہو کہ طاہر حسین نے اس سے قبل انتخابی مہم کے لیے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، تاہم اسے منظور نہیں کیا جا سکا تھا۔ اب انہوں نے سپریم کورٹ سے پولیس حراست میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت مانگی تھی جسے سپریم کورٹ نے منظور کر لیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس سنجے کرول اور جسٹس سندیپ مہتہ کی خصوصی بنچ نے کہا کہ حسین کو پولیس اسکارٹ سمیت حفاظتی انتظامات کے اخراجات پیشگی ادا کرنے ہوں گے۔ بنچ نے انہیں مصطفیٰ آباد انتخابی حلقہ کے قریب واقع اپنے گھر نہ جانے کی بھی ہدایت دی ہے۔ یہ وہی گھر ہے جو استغاثہ کے مطابق فسادات کی سازش کا مرکز تھا۔
سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت طاہر حسین کو صرف دن میں مہم چلانے کے لیے جیل سے باہر جانے کی اجازت ہوگی اور انہیں ہر رات واپس جیل جانا ہوگا۔ انہیں ہر روز 12 گھنٹے کی حراستی پیرول کے لیے 207429 روپے کی پیشگی رقم جمع کرانی ہوگی، جو ان کی سکیورٹی پر ہونے والے اخراجات کا حصہ ہوگی۔ اس کے علاوہ عدالت نے حسین کو اپنے زیر سماعت مقدمے کی میرٹ پر کوئی عوامی تبصرہ کرنے سے بھی روک دیا ہے۔
اس سے پہلے دن میں بنچ نے دہلی پولیس سے حسین کے لیے کی جانے والی سیکورٹی اور اس طرح کے انتظامات کے اخراجات کے بارے میں بتانے کو کہا تھا ، اگر انہیں 5 فروری کو ہونے والے دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے مہم چلانے کے لیے حراست میں پیرول کی اجازت دی جاتی ہے۔
واضح ہو کہ گزشتہ ہفتے 22 جنوری کو سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے 2020 کے دہلی فسادات کے ملزم طاہر حسین کی درخواست ضمانت پر منقسم فیصلہ دیا تھا۔ طاہر حسین نے آئندہ دہلی اسمبلی انتخابات میں مہم چلانے کے لیے عبوری ضمانت کی درخواست کی تھی جسے جسٹس پنکج متل نے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے جسٹس احسان الدین امان اللہ نے کچھ شرائط کے ساتھ اسے 4 فروری تک کے لیے منظور کر لیا تھا۔
اس کے بعد دو ججوں کی بنچ کے اس منقسم فیصلے کی وجہ سے اس معاملے پر مزید غور کرنے کے لیے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے سامنے رکھا گیا تھا، جس کے بعد تین ججوں کی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
منگل کودہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجونے کہا کہ حسین دو اور معاملات میں حراست میں ہیں اور اگر موجودہ کیس میں عبوری ضمانت مل جاتی ہے تو بھی وہ باہر نہیں آسکیں گے۔ ایس وی راجو نے یہ بھی کہا کہ حسین کو انتخابی مہم کے لیے عبوری ضمانت دینے سے اور بھی بہت سے لوگوں کے لیے دروازے کھل جائیں گے کیونکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی اسی طرح کی راحت کے لیے عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔
سماعت کے دوران طاہر حسین کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے سینئر وکیل سدھارتھ اگروال نے جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس سنجے کرول اور جسٹس سندیپ مہتہ کی بنچ کے سامنے کہا کہ ‘انتخابی مہم میں اب صرف چار سے پانچ دن رہ گئے ہیں۔ ایسے میں انہیں پولیس کی حراست میں ہی انتخابی مہم چلانے کی اجازت ملنی چاہیے۔’
طاہر حسین نے اپنی اپیل میں کہا تھا کہ ‘وہ انتخابی مہم کے دوران اپنے گھر بھی نہیں جائیں گے اور ہوٹل میں قیام کریں گے۔’
طاہر حسین کا گھر مصطفیٰ آباد کے علاقے میں ہے، جہاں دنگا ہوا تھا۔ بنچ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سینئر وکیل نے کہا کہ دیگر مقدمات میں بھی راحت کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔
جب عدالت نے یہ جاننا چاہا کہ حسین کا جیل سے باہر آنا کتنا محفوظ ہوگا، توسی وی راجو نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس کے لیے کتنی سکیورٹی درکار ہوگی؟ اس پر سینئر لاء آفیسر نے ہدایات لینے اور بنچ کو آگاہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
قابل ذکر ہے کہ طاہر حسین عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے سابق رکن ہیں اور اس وقت حراست میں ہیں۔ اس بار آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) پارٹی نے انہیں مصطفیٰ آباد انتخابی حلقہ سے میدان میں اتارا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے پہلے انہیں عبوری ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے لیے انہیں حراستی پیرول دے دیا تھا۔