گزشتہ دنوں میں دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کی تحریک کو پاپ گلوکارہ ریحانہ اور ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر جیسی کچھ عالمی ہستیوں نے حمایت کی ہے۔تحریک کی قیادت کر رہے سنیکت کسان مورچہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے کہ حکومت ان کا درد نہیں سمجھ رہی ہے۔
سنگھو بارڈر پر لگے نئے بیریکیڈ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سنیکت کسان مورچہ (ایس کےایم)نے گزشتہ بدھ کو کہا کہ دنیا کی نامورہستیوں کی جانب سے کسانوں کی تحریک کو حمایت فخرکی بات ہے، لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ سرکار ان کا درد نہیں سمجھ رہی ہے۔
دراصل عالمی شہرت یافتہ پاپ گلوکارہ ریحانہ اور ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیرنے کسانوں کی حمایت ٹوئٹ کیا تھا۔
ایس کےایم کے رہنما درشن پال کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا، ‘ایک طرف یہ فخر کی بات ہے کہ دنیا کی نامور ہستیاں کسانوں کی تحریک کی حمایت کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف یہ بدقسمتی ہے کہ سرکار کسانوں کا درد نہیں سمجھ رہی ہے اور کچھ لوگ توامن پسند کسانوں کو دہشت گرد بتا رہے ہیں۔’
مورچہ کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ تحریک ہر دن تیز ہوتی جا رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا، ‘اتر پردیش میں کسان مہاپنچایتوں میں بڑے پیمانے پر حمایت ملنے کے بعد کسانوں نے مدھیہ پردیش کے ڈبرا اور پھول باغ، راجستھان کے مہندی پور اور ہریانہ کے جیند میں مہاپنچایت کی۔ آنے والے دنوں میں بڑی تعداد میں کسان دہلی آئیں گے۔’
بیان میں کہا گیا کہ شاہجہاں پور بارڈر پر ہردن راجستھان اور پنجاب سے کسان آ رہے ہیں۔بیان میں مورچہ کی جانب سے کہا گیا کہ پلول بارڈر پر کسانوں نے پھر سےدھرنا شروع کر دیا ہے اور مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور راجستھان سے کئی کسان آنے والے دنوں میں تحریک میں شامل ہوں گے۔
بتا دیں کہ دہلی کی مختلف سرحدوں پر تین زرعی قوانین کی مخالفت میں 70 دنوں سے جاری کسانوں کی تحریک کو لےکر پاپ گلوکارہ ریحانہ، ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر، امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس، یوٹیوبر للی سنگھ سمیت کئی لوگوں نے حمایت دی ہے۔
اس قدم کے لیے انہیں سوشل میڈیا پر ایک طبقے کی جانب سے ٹرول کیا جا رہا ہے۔
ریحانہ نے ‘انڈیا کٹس انٹرنیٹ اراؤنڈ نیو ڈیلٹی ایج پروٹیسٹنگ فارمرس کلیش ود پولیس’عنوان سے شائع سی این این کی ایک اسٹوری کو شیئر کرکے کسانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی ۔گزشتہ دو فروری ریحانہ نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم کسانوں کی تحریک کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟’
احولیات کے شعبے میں کام کرنے والی گریتا تُنبیرنے بھی سی این این کی اسٹوری شیئر کی اور زیادہ واضح طریقے سے کسانوں کی تحریک کو اپنی حمایت دی ۔۔ گزشتہ تین فروری کو انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم ہندوستان میں کسانوں کی تحریک کے لیے متحدہیں۔
وزارت خارجہ کےترجمان انوراگ شریواستو نے بیان جاری کر کےکہا، ‘سنسنی خیز سوشل میڈیا ہیش ٹیگ اور کمنٹس سے لبھانے کا طریقہ، خاص کر جب مشہور ہستیوں اور دیگر لوگوں کے ذریعے کیا گیا ہو تو یہ نہ توصحیح ہے اور نہ ہی ذمہ دارانہ ہے۔’
اس سلسلے میں وزارت خارجہ نے کہا، ‘اس طرح کے معاملوں پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہم گزارش کرتے ہیں کہ حقائق کا پتہ لگایا جائے اور مدعوں کو ڈھنگ سے سمجھا جائے۔ ہندوستان کی پارلیامنٹ نےمکمل بحث اور چرچہ کے بعد زراعتی شعبے سے متعلق اصلاحی قانون پاس کیے۔’
معلوم ہو کہ کسانوں کی تحریک نے اس وقت عالمی سطح پر توجہ کھینچی ہے، جب دہلی کی سرحدوں کو قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے گاڑیوں کی آمدورفت کو روکنے کے لیے کئی سطح کی بیریکیڈنگ کی ہے۔ انٹرنیٹ خدمات کو بند کر دیا گیا ہے۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔
اس کولےکرسرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئےزرعی قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے اورایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیےجانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)