ہریانہ: آگ لگنے کے بعد روہنگیا پناہ گزین اپنے دستاویز اور ضروری اشیا کے لیے پریشان ہیں

ہریانہ کے میوات ضلع کے نوح میں واقع ایک روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں16 -17 دسمبر کی درمیانی شب لگی آگ میں ہندوستان میں ان کےقیام سےمتعلق دستاویز، راشن کپڑے اور دیگر ضروری اشیا جل کر خاکستر ہو گئے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے انہیں پھر سےشناختی کارڈ تقسیم کرنے کے لیے ایک ڈیسک کا قیام کیا ہے۔

ہریانہ کے میوات ضلع کے نوح میں واقع ایک روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں16 -17  دسمبر کی درمیانی شب لگی آگ میں ہندوستان میں ان کےقیام سےمتعلق دستاویز، راشن کپڑے اور دیگر ضروری  اشیا جل کر خاکستر ہو گئے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے انہیں پھر سےشناختی کارڈ تقسیم کرنے کے لیے ایک ڈیسک کا قیام  کیا ہے۔

ہریانہ کے نوح میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں آگ لگنے کے بعد راکھ کے ڈھیر میں سامان تلاش کرتے لوگ۔(تصویر: دی وائر)

ہریانہ کے نوح میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں آگ لگنے کے بعد راکھ کے ڈھیر میں سامان تلاش کرتے لوگ۔(تصویر: دی وائر)

ہریانہ کے میوات ضلع کے نوح میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ میں16-17 دسمبر کی درمیانی شب کو لگی شدید آگ کی وجہ سےبچوں اور خواتین سمیت 100 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔

آگ پر قابو پانے تک 32جھگیاں تباہ ہو چکی تھیں۔ یہاں کے لوگ راکھ کے ڈھیروں میں اپنے دستاویز(ہندوستان میں رہنے سے متعلق)، راشن ، کپڑےاورضروری اشیاکو تلاش کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔

خواتین کے لیے صورت حال اور بھی بدتر ہو گئی ہے، وہ اب پرائیویسی سے لے کر عدم تحفظ تک کے مسئلے سے دوچار ہیں۔

برتن دھوتے ہوئے ایک لڑکی نورکہتی ہے؛میرے پاس گھرہی تھا۔ میں تقریباً تین کیلومیٹرکاپیدل سفر طےکرکےقریب کی مسجد میں جاتی تھی تاکہ ٹوائلٹ استعمال کر سکوں۔ میرے تمام دستاویزجل گئے ہیں۔صرف یہی کپڑے بچے ہیں۔ نہیں معلوم مجھے اگلے وقت کا کھانا کب ملے گا؟

دریں اثنا،اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین(یو این ایچ آر سی) نے مقامی باشندوں کو شناختی کارڈ تقسیم کرنے کے لیے ایک ڈیسک کا قیام کیا ہے۔

یہاں کچھ لوگ بانس کے ڈھانچے تیار کر رہے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اپنے قیمتی سامان، برتن اور کپڑے تلاش کرنے کی امید میں زمین کوکریدتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

راکھ کے ڈھیروں کو کریدتے ہوئے شفیق کہتے ہیں؛48 گھنٹوں سے جب سے آگ بجھی ہے ،ہم اپنا قیمتی سامان تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک بزرگ خاتون کے کان کی سونے کی بالی کا حصہ ملا ہے۔ یہ ہمارے لیےبیش قیمتی ہے-یہ کوئی عام بالی نہیں ہے، کیونکہ یہ ہندوستان میں دستیاب نہیں ہے اور صرف برما (میانمار)میں ملتی ہے۔ یہ ہماری شناخت کا حصہ ہے۔

قابل رحم  حالات

ہندوستان میں روہنگیا تنگ بستیوں میں انتہائی قابل رحم حالات میں رہتے ہیں، اس لیے وہاں آگ لگنے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے اور اب کووڈ 19 کے پھیلنے کا خدشہ بھی ہے۔

آگ لگنے کے کئی حادثات میں نوح کا معاملہ تازہ ترین ہے۔ 2016 کے بعد سے روہنگیا کیمپوں میں11 سے زیادہ بارآگ لگنےکے معاملے سامنے آئے ہیں۔

اس سے قبل 12 جون کو دہلی کے مدن پور کھادر پناہ گزین کیمپ میں بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے تقریباً 56 جھگیاں جل گئی تھیں۔

ایک اور معاملے میں5 اپریل کو جموں میں آدھی رات کو لگی آگ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی ایک درجن سے زیادہ جھونپڑیاں جل گئیں۔ حکام کے مطابق آگ ایک خالی جھونپڑی میں لگی جو جلد ہی جموں کی مراٹھا بستی کی تمام جھگیوں میں پھیل گئی۔

ان حادثات کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور بچوں ہوتا ہے۔

دی وائر سے بات چیت میں نوح پناہ گزین کیمپ میں لگی آگ سے متاثر ہونے والی عارفہ نے کہا، میرے پاس اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیےکوئی جگہ نہیں ہے۔وہ ابھی نوزائیدہ ہے۔ہم خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے ہمیں تعلیم نہیں ملی۔ ہمارے پاس کپڑے نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس برقع ہے۔

عارفہ کے مطابق ،یہ آگ شام کولگی اور آگ لگنے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

انہوں نے کہا، ہمارے پاس اپنی جان کی حفاظت کے علاوہ  کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہمارے پاس صرف وہی کپڑے رہ گئے ہیں جو ہم پہنے ہوئے ہیں۔ ہمیں ہر جگہ ستایا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم جلادیے گئے، ہماری خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم یہاں مشکل حالات میں رہ رہے ہیں۔

ہریانہ کے نوح میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ جہاں آگ لگی تھی۔ (تصویر: دی وائر)

ہریانہ کے نوح میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ جہاں آگ لگی تھی۔ (تصویر: دی وائر)

ہندوستان میں ایک اندازے کے مطابق 40000 روہنگیا ہیں اور ان میں سے کم از کم 16500یواین ایچ آر سی  میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے کئی اپنے آبائی ملک میانمار میں ہوئےتشدد کے بعدسے فرار ہونے کے بعد 2008 سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ 2012 اور پھر 2017 میں ہندوستان میں روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

اس سال 6 مارچ کو جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے تقریباً 170 روہنگیاؤں کو حراست میں لیا اور انہیں تصدیق کےعمل کےتحت ایک ہولڈنگ سینٹر میں بھیجتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انہیں ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

دریں اثنامیانمار انتظامیہ نےمرکزی حکومت سے ان آٹھ پولیس افسران کولوٹانے کو کہا تھا،جنہوں نے میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہندوستان میں پناہ لی تھی۔

اقلیتوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے بڑھتے ہوئے کلچر کے درمیان ہندوستان میں روہنگیا پناہ گزین نہ صرف قابل رحم حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ انہیں اپنے مذہب کی وجہ سے تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

سال 2016 سے، انتہا پسند ہندو گروپوں نے جموں میں روہنگیا پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا  ہےاور ان کی بے دخلی کا مطالبہ کیا ہے۔

روہنگیا مخالف عوامی مہم کے تحت یہ دعویٰ کرتے ہوئےکہ وہ ‘دہشت گرد’ہیں،ان کے خلاف تشدد کوبھڑکا یا گیا تھا،جس کے نتیجے میں جموں  کےبھگوتی نگرمیں شری امرناتھ یاتری نواس میں اپریل2017 میں پانچ روہنگیا گھروں میں نامعلوم حملہ آوروں کے ذریعہ مبینہ طور آگ زنی کی گئی تھی۔

دی وائر سے بات چیت میں ہریانہ میں روہنگیا کے تحفظ کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے چیئرمین محمد عالیشان نے کہا، ہم وہاں کیمپ بناتے ہیں جہاں ہمیں حکومت سے جگہ ملتی ہے۔ ہم بانس اور کارڈ بورڈ سے کیمپ بناتے ہیں۔ ان میں آسانی سے آگ لگ جاتی ہے۔ یہ بار بار ہو رہا ہے۔ ہمیں حکومت سے منظوری چاہیے۔ ہم ان کے رہنے کے لیے بہتر حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

حکومت ہندنے کئی بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جو روہنگیا کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں،جن میں حالیہ نیویارک معاہدہ بھی شامل ہے۔

حکومت ہندمسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کااستقبال  کرتے ہیں۔

دی وائر سے بات چیت میں روہنگیا کے لیے کام کرنے والے ایڈوکیٹ فضل ابدالی نے کہا، 2017 تک روہنگیا کے لیے طویل مدتی ویزا کا اہتمام تھا۔ اس کے بعد حکومت نے اعلان کیا، جس کے بعد روہنگیا کی حیثیت’پناہ گزین’سے ‘غیر قانونی مہاجر’ہو گئی۔

انہوں نے کہا، ہندوستانی آئین کا آرٹیکل21 ہر شہری کو جینے کا حق دیتا ہے۔اس کی بنیاد پر روہنگیا کے حقوق اور سہولیات کا معاملہ مئی2018 میں عدالت میں لے جایا گیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے نوڈل افسران کی تقرری  کی۔ حکومت ہند نے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ روہنگیا کے پاس وہ تمام حقوق ہیں جو اس ملک کے شہریوں کے پاس ہیں۔ اس کے باوجود وہ وسائل، ملازمتوں، خوراک اور سماجی تحفظ کے لیے جدجہد کررہے ہیں۔

دی وائر نے یو این ایچ آر سی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے اس معاملے پر ردعمل  سے انکار کر دیا۔

(اس  رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)