رویش کا بلاگ: دی ہندو کی رپورٹ سے اٹھا سوال، کس کے لئے رافیل ڈیل میں ڈیلر اور کمیشن خور پر مہربانی کی گئی؟

آخر مودی حکومت فرانس کی دونوں کمپنیوں کو بد عنوانی کی حالت میں کارروائی سے کیوں بچا رہی تھی؟ اب مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ بد عنوانی ہونے پر سزا نہ دینے کی مہربانی انہوں نے کیوں کی۔ کس کے لئے کی۔ The post رویش کا بلاگ: دی ہندو کی رپورٹ سے اٹھا سوال، کس کے لئے رافیل ڈیل میں ڈیلر اور کمیشن خور پر مہربانی کی گئی؟ appeared first on The Wire - Urdu.

آخر مودی حکومت فرانس کی دونوں کمپنیوں کو بد عنوانی کی حالت میں کارروائی سے کیوں بچا رہی تھی؟ اب مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ بد عنوانی ہونے پر سزا نہ دینے کی مہربانی انہوں نے کیوں کی۔ کس کے لئے کی۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

آج کے دی ہندو میں رافیل ڈیل کی فائل سے دو اور صفحے باہر آ گئے ہیں۔اس بار پورا صفحہ چھپا ہے اور جو باتیں ہیں وہ کافی خوفناک ہیں۔ دی ہندو کی رپورٹ کو اپنی زبان  میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔حکومت بار بار کہتی ہے کہ رافیل ڈیل میں کوئی بد عنوانی نہیں ہوئی ہے۔ وہی حکومت ایک بار یہ بھی بتا دے کہ رافیل ڈیل کی شرطوں میں بد عنوانی ہونے پر کارروائی کے اہتمام کو کیوں ہٹایا گیا؟ وہ بھی وزیر اعظم کی صدارت والی دفاعی معاملوں کی کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں اسے ہٹایا گیا۔

کیا آپ نے دفاعی خرید کی ایسی کوئی ڈیل سنی ہے جس کی شرطوں میں سے کسی ایجنسی یا ایجنٹ سے کمیشن لینے یا غیر ضروری دباؤ ڈالنے پر سزا کے اہتمام کو ہٹا دیا جائے؟ مودی حکومت کی مبینہ طور پر سب سے شفاف ڈیل میں ایسا ہی کیا گیا ہے۔ مودی جی بتا دیں کہ کس ڈیلر کو بچانے کے لئے اس شرط کو ہٹایا گیا ہے؟

دی ہندو نے اپنے پہلے صفحے کی پوری کور پر تفصیل سے اس کو چھاپا ہے۔ اگر سب کچھ ایک ہی دن چھپ جاتا تو حکومت ایک بار میں رد عمل دےکر نکل جاتی۔ اب اس کو اس پر بھی رد عمل دینا ہوگا۔ کیا پتہ پھر کوئی نیا نوٹ جاری کر دیا جائے۔ این رام نے جب 8 فروری کو نوٹ کا آدھا صفحہ چھاپا تو حکومت نے پورا صفحہ جاری کروا دیا۔ اس سے تو آدھے صفحے کی بات کی ہی تصدیق ہوئی۔ لیکن اب جو نوٹ جاری ہوا ہے وہ اس سے بھی خوفناک ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں افسران  وزیر اعظم دفتر(پی ایم او) کے متوازی طور سے دخل دینے کو لےکر فکرمند تھے۔

این رام نے دفاعی خرید کی کارروائی  کی شرطوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 2013 میں بنائے گئے اس اصول کو ہر دفاعی خرید پر نافذ کیا جانا تھا۔ ایک اسٹینڈرڈ پروسیس کو اپنایا گیا تھا کہ کوئی بھی ڈیل ہو اس میں چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ مگر حکومت ہند نے فرانس کی دو کمپنیوں داسسو اور ایم بی ڈی اے فرانس کو بے مثال رعایت دی۔

 وزارت دفاع کے مالیاتی افسر اس بات پر زور دیتے رہے کہ پیسہ سیدھے کمپنیوں کے ہاتھ میں نہیں جانا چاہیے۔ یہ مشورہ دیا گیا کہ سیدھے کمپنیوں کو پیسہ دینے کے بجائے ایسکرو اکاؤنٹ بنایا جائے۔ اس میں پیسے رکھے جائیں۔ یہ کھاتا فرانس کی حکومت کا ہو اور وہ تبھی ادا کرے جب داسسو اور ایم بی ڈی اے فرانس ساری شرطوں کو پورا کرتے ہوئے فراہمی کرے۔ یہ اہتمام بھی ہٹا دیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا۔ کیا یہ شفاف طریقہ ہے؟ سیدھے فرانس کی کمپنیوں کو پیسہ دینے اور اس کو ان کی حکومت کی نگہبانی سے آزاد کر دینا، کہاں کی شفافیت ہے۔

این رام نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ باتیں چھپائی ہیں۔ کیا حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس ڈیل میں قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر اعظم دفتر کے بھی رول  رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب حکومت سے آ سکتا ہے یا پھر سپریم کورٹ سے۔


یہ بھی پڑھیں:  دی ہندو کی رپورٹ میں ہوا انکشاف: رافیل ڈیل میں پی ایم او نے دیا تھا دخل، وزارت دفاع نے کیا تھا اعتراض


این رام کا کہنا ہے کہ بغیر اوپر سے آئے دباؤ کے ان شرطوں کو ہٹانا آسان نہیں ہے۔ بےوجہ دباؤ ڈالنے پر سزا کا اہتمام تو اسی لئے رکھا جاتا ہوگا کہ کوئی خرید عمل میں دوسرے چینل سے شامل نہ ہو جائے اور ٹھیکہ نہ لے لے۔ ایجنٹ اور ایجنسی کا پتہ چلنے پر سزا کا اہتمام اسی لئے رکھا گیا ہوگا تاکہ کمیشن کی گنجائش نہ رہے۔ اب آپ اپنی زبان  میں سوچیں، کیا یہ سمجھنا واقعی اتنا مشکل ہے کہ ان شرطوں کو ہٹانے کے پیچھے کیا منشا رہی ہوگی؟

بہ شکریہ : دی ہندو

بہ شکریہ : دی ہندو

23 ستمبر 2016 کو دہلی میں ہندوستان اور فرانس کے درمیان معاہدہ  ہوا تھا۔ اس کے مطابق دفتار رافیل ایئرکرافٹ کی سپلائی کرے‌گا اور MBDA فرانس ہندوستانی فضائیہ کو ہتھیاروں کا پیکیج دے‌گی۔ اسی مہینے میں پریکر کی صدارت میں دفاعی خرید کونسل کی میٹنگ ہوئی تھی۔اس اجلاس میں خرید سے متعلق آٹھ شرطوں کو بدل دیا گیا۔ ان میں آفسیٹ کانٹریکٹ اور سپلائی پروٹوکول بھی شامل ہیں۔ آفسیٹ کانٹریکٹ کو لےکر ہی تنازعہ ہوا تھا کیونکہ انل امبانی کی کمپنی کو دفاعی آلات بنانے کا ٹھیکہ ملنے پر سوال اٹھے تھے۔ 24 اگست 2016 کو پہلے وزیر اعظم کی صدارت میں دفاع کی کابینہ کمیٹی نے منظوری دے دی تھی۔

ڈیل سے ایجنٹ، ایجنسی، کمیشن اور بےکار دباؤ ڈالنے پر سزا کے اہتمام کو ہٹانے سے جو کمرشیل سپلائر تھے ان سے سیدھے بزنس کرنے کا راستہ کھل گیا۔ اس بات کو لےکر ہندوستانی مذاکرہ کار ٹیم کے ایم پی سنگھ، اے آر سلے اور راجیو ورما نے عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ دی ہندو کے پاس جو دستاویز ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ ان تینوں نے کافی سخت اعتراض کیا ہے۔ دو کمپنیوں کے ساتھ سیدھے ڈیل کرنے والی بات پر نوٹ میں لکھتے ہیں کہ خرید دو حکومتوں کی سطح پر ہو رہی ہے۔ پھر کیسے فرانس حکومت آلات کی فراہمی، انڈسٹریل خدمات کی ذمہ داری فرانس کے انڈسٹریل سپلائروں کو سونپ سکتی ہے۔ یعنی پھر حکومتوں کی سطح پر ڈیل کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے جب حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں رہ جاتی ہے۔

تینوں افسر اس بات کو لےکر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ خرید کے لئے پیسہ فرانس حکومت کو دیا جانا تھا۔ اب فرانس کی کمپنیوں کو سیدھے دیا جائے‌گا۔ مالیاتی ایمانداری کی بنیادی شرطوں سے سمجھوتہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

وزارت کے تین بڑے افسر لکھ رہے ہیں کہ مالیاتی ایمانداری کی بنیادی شرطوں سے سمجھوتہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ کیوں ایسا لکھ رہے تھے؟

آخر حکومت فرانس کی دونوں کمپنیوں کو بد عنوانی کی حالت میں کارروائی سے کیوں بچا رہی تھی؟ اب مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ بد عنوانی ہونے پر سزا نہ دینے کی مہربانی انہوں نے کیوں کی۔ کس کے لئے کی۔ دو ڈیفینس سپلائر کے لئے کیوں کی یہ مہربانی۔

ویڈیو:  رافیل ڈیل میں پی ایم اوکا دخل اور وزارت دفاع کا اعتراض

این رام اب اس بات پر آتے ہیں کہ اس مہربانی کو اس بات سے جوڑ‌کر دیکھا جائے کہ کیوں حکومت ہند نے 70 سے 80 ہزار کروڑ کی اس ڈیل کے لئے فرانس حکومت سے کوئی گارنٹی نہیں مانگی۔آپ بھی کوئی ڈیل کریں‌گے تو چاہیں‌گے کہ پیسہ نہ ڈوبے۔ بیچ میں کوئی گارنٹر رہے۔ مکان خریدتے وقت بھی آپ ایسا کرتے ہیں۔ یہاں تو وزارت دفاع کے افسر کہہ رہے ہیں کہ بینک گارنٹی لے لیجئے، حکومت سے خودمختار گارنٹی لے لیجئے مگر حکومت ہند کہتی ہے کہ نہیں ہم کوئی گارنٹی نہیں لیں‌گے۔ یہ مہربانی کس کے لئے ہو رہی تھی؟

این رام نے لکھا ہے کہ اس کے بدلے حکومت لیٹر آف کنفرم پر مان جاتی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ اس میں یہی لکھا ہے کہ اگر سپلائی میں دقتیں آئیں تو فرانس کی حکومت مناسب قدم اٹھائے‌گی۔

یہ لیٹر آف کنفرٹ بھی دیر سے آیا۔ 24 اگست 2016 کی کابینہ کمیٹی کے اجلاس سے پہلے تک گارنٹی لینے کی تجویز تھی۔ یہی کہ فرانس کی حکومت کے پاس ایک کھاتا ہو جس کو ایسکرو اکاؤنٹ کہتے ہیں۔ اسی کے ذریعے جب جب جیسا کام ہوگا، جتنی سپلائی ہوگی، ان دو کمپنیوں کو پیسہ دیا جاتا رہے‌گا۔ کمپنیاں بھی اس بھروسے کام کریں‌گی کہ مال کی سپلائی کے بعد پیسہ ملے‌گا ہی کیونکہ وہ اسی کی حکومت کے کھاتے میں ہے۔ لیکن وزارت دفاع کے ڈائریکٹر خرید اسمتا ناگراج اس کو ہٹا دینے کی تجویز بھیجتی ہیں اور منظوری مل جاتی ہے۔ وزیر اعظم نے اس کو منظوری کیوں دی؟


یہ بھی پڑھیں: رویش کا بلاگ: رافیل معاملے میں امبانی کے لئے وزیر اعظم نے وزارت دفاع اور سپریم کورٹ سے جھوٹ بولا


اب آپ یہاں 8 فروری کو چھپی این رام کی رپورٹ کو یاد کیجئے۔ اس رپورٹ میں یہی تھا کہ 24 نومبر 2015 کو وزارت دفاع کے تین اعلیٰ افسر اعتراض کرتے ہیں کہ وزیر اعظم دفتر ہماری جانکاری کے بغیر آزادانہ طورپر اس ڈیل میں گھس گیا ہے۔ جس سے ہماری ٹیم کے مول بھاؤ کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ دفاعی سکریٹری جی موہن کمار بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے وزیر دفاع کو فائل بھیجتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ مناسب ہوگا کہ وزیر اعظم دفتر اس سے دور رہے۔

مودی حکومت کے ذریعے کی گئی تبدیلی، بہ شکریہ : دی ہندو

مودی حکومت کے ذریعے کی گئی تبدیلی، بہ شکریہ : دی ہندو

اس نوٹ پر وزیر دفاع تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد سائن کرتے ہیں۔ 11 جنوری 2016 کو۔ خود وزیر دفاع فائل پر سائن کرنے میں ڈیڑھ مہینہ لگاتے ہیں۔ لیکن وزارت دفاع میں مالیاتی مشیر سدھانشو موہنتی کو فائل دیکھنے کا مناسب وقت بھی نہیں دیا جاتا ہے۔ 14 جنوری 2016 کو سدھانشو موہنتی نوٹ-263 میں لکھتے ہیں کہ کاش میرے پاس پوری فائل دیکھنے اور کئی مدعوں پر خیال کرنے خاطر خواہ وقت ہوتا۔ پھر بھی چونکہ فائل فوراً وزیر دفاع کو سونپی جانی ہے میں مالیاتی نظر سے کچھ فوری تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔

موہنتی لکھتے ہیں کہ اگر بینک گارنٹی یا خودمختار گارنٹی کا اہتمام نہیں ہو پا رہا ہے تو کم سے کم ایک ایسکرو اکاؤنٹ کھل جائے جس کے ذریعے کمپنیوں کو پیسہ دیا جائے۔ اس سے سپلائی پوری کرانے کی اخلاقی ذمہ داری فرانس کی حکومت کی ہو جائے‌گی۔ چونکہ فرانس کی حکومت بھی اس ڈیل میں ایک پارٹی ہے اور سپلائی کے لئے مشترکہ طور پر ذمہ دار ہے تو اس کو اس طرح کے کھاتے سے اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

موہنتی اپنے نوٹ میں حکومت اور کمپنی کے درمیان تنازعہ ہونے پر کیسے حل ہوگا، اس پر جو اتفاق بن چکا تھا، اس کو ہٹانے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ وزارت قانون نے بھی بینک گارنٹی اور خودمختار گارنٹی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ وزارت دفاع کو بھیجے گئے اپنے نوٹ میں۔

کوئی بھی مبینہ طور پر ایماندار حکومت کسی معاہدے سے بد عنوانی کے امکان پر کارروائی کرنے کا اہتمام کیوں ہٹائے‌گی؟ بنا گارنٹی کے 70 سے 80 ہزار کروڑ کا معاہدہ کیوں کرے‌گی؟ کیا بد عنوانی ہونے پر سزا کے اہتماموں کو ہٹانا شفافیت ہے؟ آپ جب ان سوالوں پر سوچیں‌گے تو جواب مل جائے‌گا۔

(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)

The post رویش کا بلاگ: دی ہندو کی رپورٹ سے اٹھا سوال، کس کے لئے رافیل ڈیل میں ڈیلر اور کمیشن خور پر مہربانی کی گئی؟ appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

اتراکھنڈ: انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں بی جے پی کے سابق وزیر کے بیٹے سمیت تین مجرم قرار، عمر قید

ستمبر 2022 میں پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرنے والی  19 سالہ انکیتا بھنڈاری کاقتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی سے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے دو عملے کے ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اب انہیں مقامی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔

انکیتا بھنڈاری کے قتل میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  جمعہ (30 مئی) کو پوڑی کی ایک عدالت نے اتراکھنڈ کے مشہورزمانہ انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں تینوں ملزمان کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رینا نیگی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت سمیت تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے ساتھ ہی  پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کی صبح انکیتا کی ماں سونی دیوی نے کہا، ‘میں مطالبہ کرتی ہوں کہ ملزمین کو پھانسی دی جائے… میں اپنی بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس کے(انکیتا کے) والدین کا ساتھ دیں…’

انکیتا کے والد بیریندر بھنڈاری نے بھی ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ 2023 میں سی ایم پشکر سنگھ دھامی نے انکیتا کے نام پر نرسنگ کالج بنانے کی بات کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

معلوم ہو کہ 19 سالہ انکیتا بھنڈاری پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرتی تھیں اور 18 ستمبر 2022 کو انہیں اس لیے قتل کر دیا گیا تھاکہ انہوں نے مبینہ طور پر کسی وی آئی پی مہمان کو ‘خصوصی خدمات’ (جنسی کام کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انکیتا کےقتل کے چھ دن بعد اس کی لاش ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔ ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی کے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے عملے کے ارکان – سوربھ بھاسکر اور انکت گپتا کو انکیتا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس دوران کلیدی ملزم پلکت نے خود کو بے قصور ظاہر کرنے کے لیے ریونیو ڈپارٹمنٹ میں انکیتا کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ انکیتا کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھاکہ ریونیو پولیس شروع میں اس معاملے میں خاموش رہی اور بعد میں 22 ستمبر کو کیس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 2023 میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی، جس میں ایس آئی ٹی پر تحقیقات میں جان بوجھ کر لاپرواہی برتنے اوروننترا ریزورٹ پر بلڈوزر چلانے، پولیس ریمانڈ کی مانگ نہ کرنے اور ریونیو پولیس سے لے کراتراکھنڈ پولیس کے گول مول کردار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ اس دوران اتراکھنڈ پولیس نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے آزاد صحافی اور ‘جاگو اتراکھنڈ’ کے ایڈیٹر آشوتوش نیگی کو بھی گرفتار کیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس کو ان جیسے نام نہاد ایکٹوسٹ کی منشا پر شک ہے۔ ان کا ایجنڈا انصاف کا حصول نہیں بلکہ معاشرے میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنا ہے۔

اس معاملے میں ایس آئی ٹی کی جانچ کے بعد استغاثہ نے 500 صفحات کی چارج شیٹ عدالت میں داخل کی تھی ۔ خاندان نے نے معاملے میں حکومت کی جانب سے پیروی کر رہے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر جتیندر راوت کی منشا پر بھی سوال اٹھائے تھے،  جس کے بعد انہوں نے خود کو کیس سے الگ کرلیا تھا۔ اس معاملے میں تاخیر کو لے کر حکومت اور انتظامیہ پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے۔

تقریباً دو سال آٹھ ماہ تک جاری رہنے والے مقدمے کی سماعت میں استغاثہ کی جانب سے تفتیشی افسر سمیت 47 گواہان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 19 مئی کو استغاثہ کے وکیل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے دفاع کے دلائل کا جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی سماعت مکمل ہوگئی۔

اس کے بعد عدالت نے فریقین کے دلائل اور بحث سننے کے بعد فیصلہ سنانے کے لیے 30 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔

Next Article

پنجاب کے تین نوجوان ڈنکی روٹ سے ایران پہنچنے کے بعد لاپتہ، اہل خانہ کا اغوا اور مارپیٹ کا الزام

پنجاب کے جسپال سنگھ، امرت پال سنگھ اور حسن پریت سنگھ اس مہینے کی پہلی تاریخ سے لاپتہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعد سے ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے ۔

علامتی تصویر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فلکر ڈاٹ کام

جالندھر: پنجاب کے ہوشیار پور، نواں شہر اور سنگرور اضلاع کے تین افراد، جو اپنے گاؤں سے ‘ڈنکی’ روٹ سے آسٹریلیا کےلیے نکلے تھے، کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر پاکستانی ایجنٹوں نے مبینہ طور پراغوا کر لیا ہے۔ یہ الزامات ان لوگوں کے گھر والوں نے لگائے ہیں۔

جسپال سنگھ (32)، امرت پال سنگھ (23) اور حسن پریت سنگھ (27) نام کے تین افراد یکم مئی سے لاپتہ ہیں۔ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً 12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعدسے  ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے۔

دی وائر کو پتہ چلا ہے کہ ان تینوں کے جسم پر گہرے زخم تھے اور انہیں مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے یرغمال بنانے کے بعد بے دردی سے مارا پیٹا تھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے ان تینوں سے رہائی کے بدلے  18-18 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔

اس معاملے میں متعلقہ اضلاع میں تینوں کے اہل خانہ کی شکایات پر ہوشیار پور کے تین ٹریول ایجنٹوں دھیرج اٹوال، کمل اٹوال اور سویتا سویا کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 143 (کسی شخص کی اسمگلنگ)، 318 (4) (دھوکہ دہی)، 61 (2) (مجرمانہ طور پرسازش) اور پنجاب ٹریول پروفیشنلز (ریگولیشن) ایکٹ، 2014 کی دفعہ 13کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی  ہے۔

ایف آئی آر کے بارے میں  علم ہوتے ہی ٹریول ایجنٹ فرار

اہل خانہ نے بتایا کہ ایف آئی آر کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد ٹریول ایجنٹ مبینہ طور پر فرار ہوگئے اور انہیں بتایا کہ وہ تینوں کا سراغ لگانے کے لیے ایران جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ایران کے تہران میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا اور کہا، ‘تین ہندوستانی شہریوں کے اہل خانہ نے ہندوستانی سفارت خانے کو مطلع کیا ہے کہ ان کے رشتہ دار ایران کا سفر کرنے کے بعد لاپتہ ہیں۔ سفارت خانے نے اس معاملے کو ایرانی حکام کے ساتھ زوردار طریقے  سے اٹھایا ہے اور درخواست کی ہے کہ لاپتہ ہندوستانیوں کا فوراً پتہ لگایا  جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ ہم سفارت خانے کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں خاندان کے افراد کو بھی باقاعدگی سے اپڈیٹ کر رہے ہیں۔’

غور طلب ہے کہ ایران میں ہندوستانیوں کے لیے صرف سیاحت کے مقاصد کے لیے 15 دنوں  تک کے لیے ویزا فری پالیسی ہے، جس سے ‘ڈنکی’ روٹ کے لیے ایک ممکنہ راستہ بن جاتا ہے۔

معلوم ہو کہ ڈنکی غیر قانونی امیگریشن کا ایک طریقہ ہے، جس میں اکثر خطرناک راستے شامل ہوتے ہیں۔ ایران ،پاکستان، افغانستان، ترکی، عراق، ترکمانستان، آذربائیجان اور آرمینیا سے گھرا ہوا ہے۔

یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب حال ہی میں 5 فروری کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیے گئے لوگوں کو لے کر پہلا فوجی طیارہ امرتسر پہنچا تھا۔ اس کے بعد سے پچھلے تین مہینوں میں 400 سے زیادہ ہندوستانیوں کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

اٹھارہ-اٹھارہ لاکھ روپے اضافی مانگے

دی وائر سے بات کرتے ہوئے ضلع نواں شہر کے گاؤں لنگرویا سے تعلق رکھنے والے جسپال سنگھ کے بھائی اشوک کمار نے بتایا کہ یکم مئی 2025 کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر اترنے کے فوراً بعد ان کے بھائی اور دو دیگر کو پاکستانی ڈونکروں نے اغوا کر لیا۔

انھوں نے کہا، ‘جیسے ہی وہ ہوائی اڈے سے باہر نکلے،ڈونکرزان کی تصویریں لے کر ان کے پاس آئے اور ان کی شناخت کی تصدیق کی۔ تاہم، جب وہ کار میں بیٹھے اور بیچ راستےمیں پہنچے تو ڈونکروں نے انہیں بتایا کہ ان کا اغوا کر لیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ انہیں ڈانکروں کی طرف سے پہلی کال یکم مئی کو موصول ہوئی، جس کے دوران ان کے بھائی نے خاندان کو بتایا کہ انہیں اور دو دیگر افراد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے بھائی نے پہلےہمیں یکم مئی کو تقریباً 2 بجے جاگتے رہنےکے لیے کہا تھا، یہی وہ وقت تھا جب پاکستانی ڈونکرز نے ویڈیو کال کی اور ہر ایک سے 18 لاکھ روپے اضافی کا مطالبہ کیا۔ میرے بھائی کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے ہم نے پہلے ہی 18 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔’

مزدور کے طور پر کام کرنے والے اشوک کمار کے مطابق، خاندان نے رشتہ داروں اور دوستوں سے رقم ادھار لے کر جسپال سنگھ کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے 18 لاکھ روپے کا بندوبست کیا تھا۔

روتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم 11 مئی تک جسپال سے رابطے میں تھے، اس کے بعد ہمارا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ پاکستانی ڈونکرز نوجوانوں کو یرغمال بناکر ان کے کپڑے اتارکر، ان کے جسم پر  گہرے زخم دکھاتے ہوئے، انہیں بے رحمی سے پیٹتے ہوئےہم سے بات کرواتے تھے، اس دوران وہ خود کو بچانے کی درخواست کرتے تھے،نہیں تو پاکستانی ڈونکر انہیں مار ڈالیں گے۔’

انہوں نے کہا کہ ڈونکرز نے انہیں اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹس بھی دیے اور ان سے پیسےدینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں بچا ہے اور ہندوستان سے پاکستان کو کوئی بھی ادائیگی کرنا ناممکن ہے۔ لیکن، انہوں نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمارے بیٹوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔’

اسی طرح ہوشیار پور کے بھوگووال لڈن گاؤں کے امرت پال سنگھ کی والدہ گردیپ کور نے دی وائر کو بتایا کہ ان کا بیٹا 25 اپریل 2025 کو دبئی گیا تھا ،جہاں سے وہ ایران پہنچا۔

انہوں نے کہا، ‘جسپال یکم اپریل کو دبئی پہنچا، جبکہ دیگر دو لڑکے بعد میں اس کے ساتھ شامل ہوئے۔ میرا بیٹا اور دیگر دو نوجوان صرف ویڈیو کال کے ذریعے ہم سے رابطے میں رہے، اس دوران پاکستانی ڈونکرز نے ان کی پٹائی کی۔ وہ ڈونکرز کے چنگل سےانہیں  بچانے کی درخواست کر رہے تھے۔’

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے بات کرتے ہوئے 12 دن گزر چکے ہیں، انہیں امید ہے کہ ہندوستانی حکومت کی مداخلت سے ان کی جان بچ جائے گی۔

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، گردیپ کور بھی کپڑے سلائی کر کے گھر چلاتی  ہے اور نقلی ٹریول ایجنٹس کے خطرناک گٹھ جوڑ کا شکار ہو گئی، جو پنجاب اور مرکزی حکومتوں کے دعووں کے باوجود، سادہ لوح نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

دریں اثنا، سنگرور کے دھوری سے تعلق رکھنے والے حسن پریت کے خاندان نے مرکزی حکومت سے پرزور اپیل کی کہ وہ ان کے بیٹے کو بحفاظت گھر واپس لانے میں مدد کرے۔ اہل خانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے تقریباً 10 دن تک رابطے میں تھے، جس کے بعد انہیں کوئی کال یاپیغام نہیں آیا۔

امرت پال سنگھ کے اہل خانہ نے ہوشیار پور کے ایم پی راج کمار چبیوال اور پنجاب کے این آر آئی امور کے وزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان سے اپنے بیٹے کی جلد رہائی کی اپیل کی ہے۔

جسپال اور حسن پریت کے اہل خانہ نے مقامی رہنماؤں سے بھی ملاقات کی ہے اور ان سے اپنے بیٹوں کو اس مصیبت سے بچانے کی اپیل کی ہے۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

علی گڑھ: بیف اسمگلنگ کے نام پر تشدد کے بعد آئی فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کا دعویٰ خارج

علی گڑھ میں چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر ہندوتوا تنظیموں کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ اب فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کے دعوے کو خارج کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی ملزمین نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو اسی جگہ پرنشانہ بنایا۔

اوپر: گرفتار ملزم کو ، یو پی پولیس نےایکس اکاؤنٹ پراس کی  جانکاری شیئر کی۔ نیچے: علی گڑھ حملے کے زخمی متاثرین

نئی دہلی: 24 مئی کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر حملہ کیا تھا ۔ اب اس معاملے میں پولیس ذرائع نے دی وائر کو بتایا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت گائے کا نہیں تھا۔

ہردوآ گنج تھانے کے ایس ایچ او دھیرج کمار نے تصدیق کی کہ متھرا کی سرکاری لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے گوشت کے نمونے کی رپورٹ نے اس حقیقت کو مسترد کر دیا ہے کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔

بدھ (28 مئی) کی صبح علی گڑھ پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس بابت پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے الزامات جھوٹے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی  ملزمین کے گروہ نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس بار حملہ آوروں نے گاڑی کو آگ لگا دی اور ہائی وے کو بلاک کر دیا۔

حملے کا ایک نیا ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے، جس میں ملزم پولیس کی موجودگی میں ایک بے ہوش متاثرہ کو پولیس کی گاڑی سے گھسیٹتے ہوئے باہر نکالتے نظر آرہے ہیں۔ جن چار متاثرین کی شناخت ہوئی وہ ہیں-ارباز، عقیل، قدیم اور منا خان ہیں۔ سب علی گڑھ کے اترولی قصبے کے رہنے والے ہیں۔ الزام ہے کہ ہجوم نے انہیں برہنہ کیا اور تیز دھار ہتھیاروں، اینٹوں، لاٹھیوں اورراڈ سے بے دردی سے پیٹا۔

ایس ایچ او دھیرج کمار نے دی وائر کو بتایا کہ اس کیس میں چار ملزمین کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے تین کا نام پہلےسے ایف آئی آر میں درج تھا، جبکہ چوتھے ملزم کی شناخت ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر کی گئی۔

ملزمین کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں 191 (3) (مہلک ہتھیار سے دنگا)، 109 (قتل کی کوشش)، 308 (5) (موت کی دھمکی دے کر جبری وصولی) اور 310 (2) (ڈکیتی) شامل ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ چاروں متاثرین کو مقامی پولیس نے بچا یا تھا، لیکن تب تک وہ شدید زخمی ہو چکے تھے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) امرت جین نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے زخمی افراد کو علی گڑھ کے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا، جہاں تینوں  کی حالت تشویشناک ہے۔

حملے اور فرانزک رپورٹ کے بعد اب متاثرین کے اہل خانہ نے انتظامیہ سے تمام حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور متاثرین کے خلاف درج ‘جھوٹی’ ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

معلوم ہو کہ ایک مقامی شخص وجئے بجرنگی نے چار مسلم نوجوانوں کے خلاف گائے کے ذبیحہ سے متعلق ایکٹ 1955 کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔حالانکہ پولیس نے وجئے بجرنگی کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن ایف آئی آر کو ابھی تک رد نہیں کیا گیا ہے۔

عقیل کے بھائی محمد ساجد نے کہا کہ لیب رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت ‘بھینس’ کا تھا، اس لیے اب جھوٹے مقدمے کو ختم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘حقیقت اب پوری دنیا اور میڈیا کے سامنے ہے۔ اس نے خود کو بچانے کے لیے یہ جھوٹا مقدمہ درج کروایا تھا۔ اگر حکومت خود اس کو ختم نہیں کرتی تو اس سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمارے لیے دوہری مار ہے۔’

انہوں نےمزید کہا کہ ‘مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ یہ فرضی کیس واپس لے لیا جائے گا۔’

اپوزیشن نے کی تھی مذمت

کانگریس، سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم جیسی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے حملے کی مذمت کی تھی اور بعد میں متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات  بھی کی  ہے۔

گزشتہ 27 مئی کو بھیم آرمی چیف اور نگینہ کے ایم پی چندر شیکھر آزاد نے علی گڑھ کے جواہر لال نہرو اسپتال میں متاثرین سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ یہ صرف امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں اور غریب  لوگوں کے کاروبار پر منظم حملہ ہے ۔’

عقیل کے والد سلیم نے پہلے دی وائر کو بتایا تھا کہ جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ان کا کام کاج  پوری طرح سے ٹھپ ہوگیا ہے اور ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی  ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس لائسنس  بھی تھا اور گوشت کا نمونہ بھی پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود ان پر حملہ کیا گیا۔

وہیں، ساجد نے کہا، ‘یہ جو گئو رکشک ہیں ،یہ اب بھتہ خور گینگ بن چکے ہیں۔ انہیں حکومت کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اس بار حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ اسے پولیس کی گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل – یہ سب ایک ہی ہیں۔ انہوں نے سماج کو ہندو-مسلمان کے نام پر تقسیم کرنے کے لیے غنڈہ گردی کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جا رہا تھا، پھر بھی حملہ کیا گیا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

چھتیس گڑھ: ہندوتوا ہجوم کا عیسائی خاندان پر حملہ، پولیس کا ایف آئی آر درج کرنے سے انکار

کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو چرچ سروس کے دوران ہندوتوا ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ متاثرین کا الزام ہے کہ یہ واقعہ برسوں کی ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بھی بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ 18مئی کو  عیسائی اسکول پر ہندوتوا  ہجوم کے حملے کے ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔

کوردھا: چھتیس گڑھ کے کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو اتوار کی چرچ سروس کے دوران ہندوتوا  ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے کو مجبور ہونا پڑا۔

آن لائن نشر ہونے والے ویڈیو کی تصدیق کی گئی  اور اس میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے اراکین کو ہولی کنگڈم انگلش ہائر سیکنڈری اسکول میں داخل ہوتے، ملازمین کے ساتھ مارپیٹ کرتے اور جبراً تبدیلی مذہب کا الزام لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے – ایک ایسا دعویٰ جس کے لیے حملہ آوروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

تاہم، متاثرین کا الزام ہے کہ یہ پورا واقعہ برسوں سے جاری ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو اب پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بڑھ گیا ہے۔

‘ہم کئی دہائیوں سے یہاں عبادت کرتے آ رہے ہیں؛ اب ہم مجرم ہیں؟

گزشتہ 18مئی کو، صبح قریب 11:40 بجے، بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے تقریباً 80-100 ارکان اسکول کے احاطے میں داخل ہوئے، جہاں اتوار کی چرچ سروس  چل رہی تھی۔ مبینہ طور پر، ہجوم نے’جئے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئےعبادت گاہ میں گھس کر خواتین اور نابالغوں کوسمیت وہاں موجود لوگوں کو مارا پیٹا، اور ‘بیت الخلاء’ میں چھپی بچیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔

ہولی کنگڈم اسکول کے پرنسپل، پادری جوز تھامس، 35 سال سے زیادہ سے کوردھا میں مقیم ہیں۔ ان کے بیٹے جوشوآ جوز تھامس بتاتے ہیں، ‘ہمارا خاندان تمام برادریوں کو تعلیم فراہم کرنے کے مقصد سے اس اسکول کو چلا رہا ہے۔ لیکن اس بار انہوں نے میری ماں اور چھوٹے بھائی کو زدوکوب کیا۔ میرے والد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب ہم چھپ کر رہ رہے ہیں۔ اور پولیس ہماری شکایت درج نہیں کرے گی۔’

ایک ویڈیو بیان میں پادری تھامس کہتے ہیں، ‘کئی آئی اے ایس افسران، پولیس افسران، ڈاکٹر، انجینئر اور سی اے (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) نے یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ یہ 35 سال پرانا اسکول ہے۔’

گزشتہ 18مئی کے واقعے کے ویڈیو میں مقامی پولیس اور میڈیا حملے کے دوران وہاں نظر  آ رہے ہیں۔ تاہم، پولیس نہ صرف مبینہ طور پر تشدد کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ انہوں نے مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب  کے الزام کی حمایت کرنے کے لیے وہاں موجود لوگوں کو اپنے بیانات بدلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

بتایا گیا ہے کہ پولیس نے حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی قبضے میں لے لی ہے، تاہم، اسے عام نہیں کیا گیا ہے۔

سرکاری دباؤ

حملے کے ایک دن بعدپولیس نے پادری جوز کو مبینہ ‘سی سی ٹی وی تحقیقات’ کے لیے بلایا اور انہیں نامعلوم الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔

مبینہ طور پر بغیر وارنٹ کے ان کے فون کی تلاشی لی گئی اور ان کی بیوی کو بھی طلب کیا گیا۔ ضمانت ملنے کے بعد پادری جوز کو کار کی ڈکی میں چھپ کر کوردھا سے بھاگنا پڑا کیونکہ بجرنگ دل کے لوگ ان سے نمٹنے کے لیے عدالت کے باہر جمع ہو گئےتھے۔

کئی کوششوں کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے خاندان کو منع کر دیا ہے۔

جوشوآنے الزام لگایا کہ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) بگھیل اور ایس پی دھرمیندر سنگھ سمیت مقامی پولیس اہلکار ‘سرکاری دباؤ’ میں کام کر رہے تھے۔

اس دوران بی جے پی کے ضلع صدر راجندر چندرونشی اور ریاستی وزیر داخلہ وجئے شرما سمیت سیاسی لیڈروں پر حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام  بھی لگایا جا رہا ہے۔

ایک ویڈیو میں ایک مقامی خاتون اہلکار، جو بجرنگ دل کے مردوں کے ساتھ بحث کرتی نظر آرہی ہے، کو تبدیلی مذہب کے ‘ہزاروں معاملوں  کی جانچ’ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ تاہم، ایسی کوئی خصوصی مثال کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

جبراً وصولی کی کوشش

جوشواآکا دعویٰ ہے کہ تشدد کے پیچھے اصل وجہ فیس کا تنازعہ تھا۔ بی جے پی لیڈر راجندر چندرونشی نے اسکول کو فون کیا تھا اور بی جے پی کے ایک حامی کے بچے کے لیے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ طلب کیا تھا، حالانکہ فیس دو سال سے ادا نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی کوئی رسمی درخواست دی گئی تھی۔ اسکول نے انکار کیا تو دباؤ اور بڑھ گیا۔

خاندان کا دعویٰ ہے کہ اس کےبعد انہیں دھمکیوں، تاوان کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا – جس میں تبدیلی مذہب کے بیانیے کو دبانے کے لیے 1 لاکھ روپے کا مطالبہ بھی شامل تھا –اس کے ساتھ ہی  میڈیا کی طرف سے بھی پریشان کیا گیا۔

بتایا گیاہے کہ 6 مئی تک بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکنوں نے ایک مقامی آن لائن چینل کے ساتھ مل کر کلکٹریٹ پر احتجاج شروع کر دیا اور اسکول بند کرنے کی اپیل کی۔

بالآخر اسکول نے دباؤ میں آکر سرٹیفکیٹ جاری کر دیا، لیکن حملے یہیں نہیں رکے۔

ہراساں کرنے کا ایک پیٹرن ہے

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تھامس فیملی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2010-11 میں پادری جوز کو جھوٹے الزامات میں 10 دنوں کے لیے جیل میں رکھاگیا تھا، جس کے بعد انہیں عدالتوں نے بری کر دیا تھا۔

اس کے بعد سال 2022 میں 100 لوگوں کے ہجوم نے اسکول کے رہائشی علاقے کے کچھ حصوں کو مسمار کر دیا۔ خاندان کا الزام ہے کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ جیسی ایجنسیوں نے ان کے بینک کھاتوں کو بغیر کسی مناسب کارروائی کے منجمد کر دیا،یہ سب’انہیں باہر نکالنے کی ایک بڑی سیاسی کوشش’ کے حصے کے طور پر کیا گیا۔

ہجوم اب بھی مبینہ طور پر عدالتوں، تھانوں اور اسکول کے باہر روزانہ جمع ہوتا ہے۔

جوشوآ نے کہا، ‘وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے کوردھا  نہیں چھوڑا تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔ کوئی بھی دوست ہمارا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ جن کانگریسی لیڈروں سے ہم نے رابطہ کیا وہ بھی مدد کرنے سے ڈر رہے ہیں۔’

ڈی ایم سے ملاقات کے بعد جوشوآ کی ماں نے ایک شادی کی تقریب میں چھتیس گڑھ کے وزیر داخلہ وجئے شرما سے براہ راست بات کرنے کی کوشش کی۔ جوشوآ کہتے ہیں،’انہوں نے ان سے بات کی اور انہوں نے کہا، ‘ہم دیکھیں گے’، لیکن تب سے یہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا ۔’

حکام خاموش ہیں

ویڈیو، عینی شاہدین کے بیانات اور جوشوآ کی مفصل تحریری شکایت سمیت متعدد شواہد کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔

خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک افسر کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھیڑ کی قیادت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

گزشتہ اتوار کو کوردھا میں کئی گرجا گھر بند رہے، جوشوآ نے کہا۔’لوگ خوفزدہ ہیں۔ یہاں تک کہ جو ہمارے ساتھ کھڑے تھے وہ بھی خود کو دور کر رہے ہیں۔ ہر کوئی صورتحال کے پرسکون ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

دہلی: پچھلے چھ مہینوں میں 700 سے زیادہ غیر قانونی بنگلہ دیشی کو واپس بھیجا گیا

پہلگام حملے کے بعد قومی دارالحکومت کے علاقے میں شروع کی گئی مہم میں دہلی پولیس نے 470 لوگوں کی شناخت غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کے طور پر اور 50 دیگر کی پہچان ایسے غیر ملکیوں کے طور پر کی، جواپنے مقررہ وقت سے زیادہ عرصے سےملک میں  رہ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے بریماری میں ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر ایک نشان۔فوٹو بہ شکریہ؛ وکی میڈیا کامنس /ناہید سلطان۔

نئی دہلی: ہندوستانی حکومت کی ‘پش بیک’ حکمت عملی کے تحت گزشتہ چھ ماہ میں تقریباً 700 ‘غیر قانونی’ تارکین وطن کو دہلی سے بنگلہ دیش واپس بھیجا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ماہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کےعمل میں تیزی آئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، پہلگام حملے کے بعد پوری راجدھانی میں شروع کی گئی ایک مہم تحت دہلی پولیس نے 470 لوگوں کی شناخت غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن اور 50 دیگر کی پہچان ایسے غیر ملکیوں کے طور پر کی، جو مقررہ وقت سے زیادہ عرصے تک ملک میں رہ رہے ہیں۔

اس کے بعد ان لوگوں کو ہنڈن ایئر بیس سے تریپورہ کے اگرتلہ لے جایا گیا اور پھر انہیں زمینی سرحد کے ذریعے بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔

اس سلسلے میں دہلی پولیس کے حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال مرکزی وزارت داخلہ نے انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن اور روہنگیا کی شناخت اور حراست میں لینے کے لیے تصدیقی مشق کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ پچھلے ایک مہینے میں غازی آباد کے ہنڈن ایئر بیس سے تقریباً 3-4 خصوصی پروازیں تمام غیر قانونی تارکین وطن کو چھوڑنے کے لیے اگرتلہ گئی ہیں۔

اخبار کے ذرائع کے مطابق، ‘دہلی پولیس نے تقریباً پانچ عارضی ہولڈنگ سینٹر بنائے ہیں۔ انہیں ایف آر آر او کے ساتھ تال میل کرنے اور غیرقانونی تارکین وطن کوایک خصوصی طیارے سے اگرتلہ ہوائی اڈے اور مغربی بنگال چھوڑ نے کے لیےکہا گیا ہے۔’

بی جے پی مقتدرہ ریاستوں سے کئی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا

دہلی کے علاوہ، ہریانہ، راجستھان، گجرات، مہاراشٹر، اتر پردیش اور گوا سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر اقتدار ریاستوں میں کئی غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا، اور بعد میں انہیں واپس بھیجنے  کے لیے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے حوالے کر دیا گیا۔

دی ہندو کے مطابق ، جنوری کے بعد سے اب تک دہلی پولیس نے سب سے زیادہ تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو حراست میں لیا ہے، جن کی تعداد کم از کم 120 ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹر (کم از کم 110)، ہریانہ (80)، راجستھان (70)، اتر پردیش (65)، گجرات (65) اور گوا (10) کی ریاستی پولیس ہیں۔

ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ بی ایس ایف نے مغربی بنگال-بنگلہ دیش سرحد پر ایک سیکٹر سے 1200 سے زیادہ بنگلہ دیشیوں کو واپس بھیجا ہے۔

افسر نے کہا، ‘یہ گرفتاریاں اس وقت کی گئیں جب وہ زمینی سرحد سے ہندوستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وزارت داخلہ کے حکم پر انہیں آئندہ چند روز میں واپس بھیج دیا گیا۔’

قابل ذکر ہے کہ اس ماہ کے شروع میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے 10 مئی کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت نے قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے دراندازی کو روکنے کے لیے ‘پش بیک’ میکانزم کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وہیں، بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس سے قبل 8 مئی کو ہندوستان کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں ‘لوگوں کو ملک میں ایسے دھکیلنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور ہندوستانی حکومت وطن واپسی کے قائم کردہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔’