منگل کو راجیہ سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس اور نہرو-گاندھی خاندان کو نشانہ بنایا تھا اور ملک کے پہلے وزیر اعظم نہرو کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اپنی بین الاقوامی شبیہ کی فکرکرتے تھے، اس لیے گوا کی جدوجہد آزادی میں ستیہ گرہ کرنے والوں کی حمایت نہیں کی۔
نئی دہلی: کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے پارلیامنٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھلے ہی اپوزیشن کی تنقید کریں، لیکن ساتھ ہی انہیں اپنی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہیے۔
گاندھی نے کہا، اگر آپ کونگریس اور نہرو کو کوسنا دینا، ان کی برائی کرناپسندہے تو آپ کا استقبال ہے، لیکن اپنے فرائض تو پورے کیجیے۔
راجیہ سبھا میں صدر کے خطاب پر شکریے کی تحریک کا جواب دیتے ہوئے مودی نے منگل کو کانگریس پر اپنا حملہ جاری رکھا اور نہرو-گاندھی خاندان کو نشانہ بنایاتھا۔
انہوں نےکانگریس پر حملہ کرتے ہوئےاسے ایمرجنسی، سکھ مخالف فسادات اور کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ کنبہ پرور پارٹیوں سے ہے۔
انھوں نے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ اس وقت کے وزیر اعظم نہرو کے لیے ان کی بین الاقوامی شبیہ سب سے زیادہ تشویش کا باعث تھی، اس لیے انھوں نے گوا کی آزادی کے لیے کام کررہے رام منوہر لوہیا کی قیادت والے’ستیہ گرہ کرنے والے لوگوں ‘ کی مدد کے لیے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔
راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی پر جوابی حملہ کیا اور کہا کہ وزیر اعظم کانگریس سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ (کانگریس) سچ بولتی ہے۔
انہوں نے پارلیامنٹ کے احاطے میں نامہ نگاروں سے کہا، وہ کانگریس سے خوفزدہ ہیں، وہ گھبرائے ہوئے ہیں کیونکہ کانگریس سچ بولتی ہے۔ ان کا مارکیٹنگ کا پورا کاروبار ہے، ان کے تعلقات ہیں، ان کے دوست ہیں، جھوٹ پھیلایاہوا ہے۔ اس صورت حال میں ان کے اندر ڈر تو ہوگا ہی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، راہل نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، میرے پرنانا (جواہر لعل نہرو) نے اس ملک کی خدمت کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اس ملک کے لیے وقف کر دی، اس لیے مجھے ان کے لیے کسی سےسند کی ضرورت نہیں۔
بتا دیں کہ وزیر اعظم کے خطاب کے دوران کانگریس نے راجیہ سبھا سے واک آؤٹ کر دیا تھا۔
بہرحال راہل گاندھی نے مزید کہا، وزیراعظم کی پوری تقریر کانگریس کے بارے میں، جواہر لال نہرو کے بارے میں تھی۔ لیکن بی جے پی نے جو کیا وزیر اعظم نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ کچھ نہ کچھ تو ہے، کوئی نہ کوئی ڈر تو ہے۔
گاندھی نے وزیر اعظم کو مزید نشانہ بناتے ہوئے کہا، میں نے تین باتیں کہی تھیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دو ہندوستان بنائے جا رہے ہیں، جن میں سے ایک کروڑوں لوگوں کا ہے اور دوسرا کچھ امیر لوگوں کے لیے ہے۔ دوسری بات میں نے کہی تھی کہ ہمارے تمام اداروں پر یکے بعد دیگرے قبضہ کیا جا رہا ہے جس سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ تیسری بات یہ کہی تھی کہ وزیراعظم کی دیوالیہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے چین اور پاکستان ایک ہو گئے ہیں جو کہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے۔ وزیراعظم نے ان تینوں باتوں کا جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا، میں نے پہلے کہا تھا کہ کووڈ سے خطرہ ہےتو کسی نے میری بات نہیں مانی، حتیٰ کہ وزیر اعظم نے بھی نہیں سنی۔ اب میں نے ایوان میں کہا ہے کہ چین اور پاکستان سے خطرہ ہے، اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے، یہ مذاق نہیں ہے۔ باقی کے دو مسائل کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
دریں اثنا، راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ عوامی مسائل پر بات کرنے کے بجائے وزیر اعظم نے صرف کانگریس پر تبصرہ کیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ،وزیراعظم نے ایسی باتیں کیں جو ملک کو تقسیم کرنے والی ہیں، جبکہ کانگریس ہمیشہ ملک کو متحد کرنے کی بات کرتی ہے۔
کانگریس کے چیف ترجمان رندیپ سرجے والا نے ٹوئٹ کیا،مودی جی، آزادی کے 75 ویں سال میں، صرف جھوٹ، نفرت، انا کا پروپیگنڈہ اور سرمایہ داروں کا امرت کال چل رہا ہے۔ نوجوانوں، کسانوں، گھریلو خواتین، غریبوں، چھوٹے دکانداروں اور تاجروں کے لیے تو ‘راہوکال’ چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا،کانگریس ہے، اسی لیے بابا صاحب کا آئین ہے، مجاہدین آزادی کے خواب سچے ہیں، باپو کے نظریات اور آدرش زندہ ہیں، ایٹمی طاقت اور تکنیکی انقلاب ہے، ہم سے ٹکرانے والے پاکستان کے دو ٹکڑے ہو ئے ہیں، عالمی کساد بازاری میں بھی ہندوستان مضبوط رہا ہے، اپوزیشن اور اختلافات کی بھی جگہ رہی ہے۔
ساتھ ہی مودی حکومت کی پالیسیوں پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر مودی حکومت نہ ہوتی تو مہنگائی کا بوجھ نہ ہوتا، پٹرول ڈیزل 100 روپے پارنہ ہوتا۔ 200 روپے پارکھانے کھانے کا تیل نہ ہوتا، 1000 روپے پار گیس سلنڈر نہ ہوتا، 205 فیصد ریل کا کرایہ نہ بڑھا ہوتا، جوتوں چپلوں پر 18 فیصد ٹیکس نہ لگا ہوتا، عوام کا بجٹ لوٹنا حکومت کا مذہب نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا، اگر مودی حکومت نہ ہوتی تو بے تحاشہ بے روزگاری کی مار نہ ہوتی، بے روزگاری کی شرح 8 فیصد پار نہ ہوتی، مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 2.70 کروڑ نوکریاں ختم نہ ہوتیں، لاک ڈاؤن میں 12.20 کروڑ لوگوں کی نوکریاں نہیں جاتیں مرکزی حکومت میں 30 لاکھ آسامیاں خالی نہ ہوتیں، ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ ڈیموگرافک ڈیزاسٹر نہ بنتا۔
وہ یہیں نہیں رکے اور مزید کہا کہ ،مودی حکومت نہ ہوتی تو کمزور وزیراعظم چین کے سامنے بے بس نہ ہوتے، لداخ میں چین سرحدوں کے اس طرف نہ ہوتا، ڈوکلام میں ‘چکن نیک’ تک چین کی سڑکوں کا جال تیارنہ ہوتا۔ ایک سال میں، چین سے درآمدات کا 46 فیصد (97 بلین ڈالر) کا اضافہ نہ ہوتا۔
ساتھ ہی کانگریس کے ترجمان اجے کمار نے کہا، نہرو جی کا 60 سال قبل دنیا سے چلے گئے، لیکن آج وزیر اعظم انہیں بار بار یاد کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی ناکامی چھپا سکیں۔ وزیر اعظم مودی اتنے کمزور ہیں کہ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے بھی انہیں ملک کے پہلے وزیر اعظم کے نام کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
راجیہ سبھا کے رکن شکتی سنگھ گوہل نے کہا کہ وزیر اعظم چین کا نام لینے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔
بتادیں کہ اسی ہفتے دی وائر نےبھی اپنے ایک تجزیے میں یہ بتایا تھا کہ کس طرح وزیر اعظم کی دو پارلیامانی تقریریں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوشل میڈیا اور پری پول بیان بازی سے ملتی جلتی تھیں۔
سوموار کو اپنی لوک سبھا تقریر میں کانگریس کو پہلی بار ‘ٹکڑے-ٹکڑے گینگ’ کا لیڈر کہنے کے بعد مودی نے منگل کو کہا کہ کانگریس ایک طرح سے شہری (اربن) نکسلیوں کے کنٹرول میں ہے اور وہ اس کے خیالات کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)