مرکزی حکومت نےرائٹ ٹو ایجوکیشن قانون کا حوالہ دیتے ہوئے ایک نوٹس جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اس قانون کے تحت پہلی سے آٹھویں جماعت کے طلبہ کو لازمی تعلیم فراہم کر رہی ہے، اس لیے اسکالرشپ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: رائٹ ٹو ایجوکیشن (آر ٹی ای) قانون کے تحت آٹھویں جماعت تک کے تمام طلبہ کے لیے لازمی تعلیم کی فراہمی کا حوالہ دیتے ہوئےحکومت نے اب دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) اور اقلیتی برادریوں کے لیے اپنی پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کو 9 ویں اور 10ویں جماعت کے طلبہ تک محدودکر دیا ہے۔
قبل ازیں، پری میٹرک اسکالرشپ میں پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادریوں کے طلبہ کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے تحت ایس سی ایس ٹی کے طلبہ کو صرف 9ویں اور 10ویں جماعت سے کل وقتی بنیادوں پرکورکیا جاتا ہے۔
حکومت نے ایک نوٹس میں اپنے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون، 2009 ہر بچے کو مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم (پہلی سے آٹھویں تک) فراہم کرنا حکومت کے لیے لازمی بناتا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘آر ٹی ای ایکٹ 2009 حکومت کے لیے ہر بچے کو مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم (کلاس 1 سے 8) فراہم کرنا لازمی بناتا ہے۔ اس کے مطابق، سماجی انصاف کی وزارت اور قبائلی امور کی وزارت کی پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے تحت صرف نویں اور دسویں جماعت میں پڑھنے والے طلبہ کو ہی کور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح، 2022-23 سے اقلیتی امور کی وزارت کی پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے تحت کوریج بھی صرف کلاس 9 ویں اور 10 ویں کے لیے ہوگی۔
انسٹی ٹیوٹ نوڈل آفیسر (آئی این او) یا ڈسٹرکٹ نوڈل آفیسر (ڈی این او) یا اسٹیٹ نوڈل آفیسر (ایس این او) سے کہا گیا ہے کہ وہ اقلیتی امور کی وزارت کی پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے تحت صرف نویں اور دسویں جماعت کی درخواستوں کی تصدیق کریں۔
غور طلب ہے کہ اس سال مارچ میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ 2014-15 سے اقلیتی طلبہ کو 5.20 کروڑ روپے کی اسکالرشپ دی گئی ہیں۔ اس مدت سے پہلے یہ 3.03 کروڑ روپے تھی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ‘اقلیتی طلبہ کو دی جانے والی تمام اسکالر شپ کی کل لاگت اسی مدت کے لیے 15154.70 کروڑ روپے تھی۔’
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) اور جمعیۃ علماء ہند نے اسکالرشپ کی رسائی کو محدود کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اے آئی ایم پی ایل بی کے ایگزیکٹیو ممبرڈاکٹر ایس کیو آر الیاس نے کہا، اقلیتی برادری کو فراہم کی جانے والی مختلف اسکالرشپ – پری میٹرک، پوسٹ میٹرک، میرٹ کم مینس اسکالرشپ – سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد شروع کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھاکہ مسلم کمیونٹی کے بچے ملک میں تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ بچوں میں شمار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ایس سی ایس ٹی کے بچوں سے بھی پیچھے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری نیاز احمد فاروقی نے اخبار کو بتایا،یہ حکومت اساتذہ کو ان کی واجب الادا تنخواہیں ادا نہیں کر سکتی، تو اسکالرشپ کیا دے گی۔
اس فیصلے پر سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا، کئی دہائیوں سےایس سی ایس ٹی بیک گراؤنڈ کے بچوں کو پہلی سے 8ویں جماعت تک اسکالرشپ مل رہی ہے، لیکن حکومت نے 2022-23 سے اسکالرشپ کو روک دیا ہے، جو غریبوں کے خلاف ‘سازش’ ہے۔
انہوں نے کہا، ‘پچھلے آٹھ سالوں سے بی جے پی حکومت نے پسماندہ لوگوں کے حقوق پر مسلسل حملہ کیا ہے، چاہے وہ ایس سی/ایس ٹی/او بی سی-اقلیتوں کے بجٹ میں کمی ہو یا سنگین مظالم۔ ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ یہ فیصلہ فوراً واپس لیا جائے۔
بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رہنما کنور دانش علی نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اقلیتی طلبہ (کلاس 1-8) کو دی جانے والی اسکالرشپ کو روک کر ان غریب بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا ایک نیا طریقہ تلاش کیا ہے۔ علی نے ٹوئٹ کیا،یہ مت بھولیے کہ تعلیم یافتہ بچے خواہ کسی بھی برادری سے تعلق رکھتے ہوں، ملک کو آگے لے جاتے ہیں۔
مروملارچی دراوڑ منیتر کڑگم لیڈر وائیکو نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔
دی ہندو کے مطابق، انہوں نے کہا، یہ صرف مودی حکومت کا ایک حملہ ہے، جو نفرت کی سیاست کے ذریعے اقلیتوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
(
خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)