ریاست میں 1996ء کے بعد سے 2014ء تک ہوئے اسمبلی کے انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ بی جے پی اپنی کارکردگی بہتر کرتی جارہی ہے۔ بی جے پی نے جموں میں ‘ہندو کارڈ’ کھیلتے ہوئے ہندو اکثریتی اضلاع جیسے ادھم پور، جموں، سانبہ، کٹھوعہ اور ریاسی میں کانگریس، نیشنل کانفرنس اور جموں وکشمیر نیشنل پنتھرس پارٹی کا تقریباً صفایا کردیا ہے۔ تاہم ان اضلاع میں کچھ علاقے جیسے نگروٹہ ہیں جہاں نیشنل کانفرنس کی پوزیشن کافی مستحکم ہے۔
حالیہ پارلیامانی انتخابات کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ جموں وکشمیر میں ایک بار پھر کسی ایک جماعت کو بھاری یا مکمل اکثریت حاصل ہوئی نہ مستقبل قریب میں حاصل ہونے کی توقع ہے۔ جہاں وادی کشمیر کی تینوں پارلیامانی نشستیں نیشنل کانفرنس کے کھاتے میں گئیں وہیں جموں کی دو اور لداخ کی ایک نشست پر بی جے پی اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ 2014ء اور 2019ء کے پارلیامانی انتخابات کے نتائج میں فرق صرف اتنا ہے کہ وادی کشمیر میں پی ڈی پی کی جگہ نیشنل کانفرنس نے لی ہے۔ تب پی ڈی پی نے تینوں نشستیں جیتی تھیں اور اب نیشنل کانفرنس کامیابی کا جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ریاست میں پارلیامانی انتخابات کے نتائج اس لحاظ سے اہم ہیں کہ یہاں اسی سال اسمبلی کے انتخابات کا بگل بجنا طے ہے۔ ریاست میں پارلیامانی انتخابات کو سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جارہا تھا اور اس سیمی فائنل کے نتائج نے صاف کردیا ہے کہ ریاست میں ایک بار پھر مخلوط حکومت بنے گی۔ اگر نیشنل کانفرنس اور بی جے پی پارلیامانی انتخابات میں دکھائی گئی کارکردگی کو برقرار رکھتی ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ دونوں جماعتیں اگلے اسمبلی انتخابات میں سب سے بڑی جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں گی۔
جموں وکشمیر اسمبلی میں نشستوں کی کُل تعداد 87 ہے۔ پارلیامانی انتخابات کے نتائج کو اسمبلی حلقوں میں پڑنے والے ووٹوں کے زاویے سے دیکھیں تو بی جے پی کو 87 میں سے کم از کم 29 حلقوں میں سبقت حاصل ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں جنوبی کشمیر کا حساس ترین اسمبلی حلقہ ترال بھی شامل ہے جہاں بی جے پی کو سب سے زیادہ 323 ووٹ ملے ہیں۔ اسمبلی حلقہ ترال میں الیکشن کے بائیکاٹ کا غیرمعمولی اثر دیکھا گیا اور محض ایک ہزار 19 ووٹ ڈالے گئے۔ ان میں سے بی جے پی امیدوار صوفی یوسف کے حق میں 323 ووٹ، نیشنل کانفرنس امیدوار حسنین مسعودی کے حق میں 234 ووٹ، پی ڈی پی امیدوار محبوبہ مفتی کے حق میں 220 ووٹ اور کانگریس امیدوار غلام احمد میر کے حق میں 144 ووٹ پڑے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ترال اسمبلی نشست پی ڈی پی امیدوار مشتاق احمد شاہ نے جیتی تھی۔
نیشنل کانفرنس کی بات کریں تو اسے وادی کی 46 اسمبلی حلقوں میں سے 30 میں سبقت حاصل ہوئی ہے۔ پارٹی نے صوبہ جموں میں کانگریس امیدواروں رمن بھلہ اور وکرم آدتیہ سنگھ کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور وہاں سے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ اسی طرح پارٹی نے صوبہ لداخ میں آزاد امیدوار سجاد حسین کرگلی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم جموں اور لداخ میں نیشنل کانفرنس کی حمایت یافتہ سبھی تین امیدوار انتخابات ہار گئے۔
ما بعد اسمبلی انتخابات کیا ہوگا؟
جموں وکشمیر میں 2014ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد مارچ 2015ء میں بی جے پی ۔ پی ڈی پی مخلوط حکومت اس بنیاد پر معرض وجود میں آئی تھی کہ چونکہ وادی کشمیر میں پی ڈی پی اور جموں میں بی جے پی سب سے بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی ہے اس لئے عوامی منڈیٹ کے احترام میں دونوں جماعتوں کا اتحاد ناگزیر ہے۔ اُس وقت نیشنل کانفرنس، کانگریس اور کچھ آزاد امیدواروں نے پی ڈی پی سرپرست مفتی محمد سعید کو بی جے پی کو ریاست میں اقتدار سے دور رکھنے کے لئے غیر مشروط حمایت دینے کا اعلان کیا تھا لیکن موصوف نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا تھا کہ وہ ریاست میں ایک مستحکم حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اگر نیشنل کانفرنس اور بی جے پی پارلیامانی انتخابات میں دکھائی گئی کارکردگی کو اسمبلی انتخابات میں دہرانے میں کامیاب ہوتی ہیں تو ریاست میں مرحوم مفتی محمد سعید کے فارمولے کے تحت اگلی حکومت نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کے اتحاد پر مشتمل ہوگی۔ تب مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے یہ بات بھی کہی تھی کہ جموں میں لوگوں نے بی جے پی کو ایک بڑا منڈیٹ دیا ہے اور اس کو نظرانداز کرکے کشمیر کی مرکزیت والی جماعتوں کی حکومت بنانا جموں کے ساتھ ناانصافی جیسا ہوگا۔
اُس وقت پی ڈی پی کے پاس بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوئی بڑی وجہ نہیں تھی اور وہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی غیر مشروط حمایت حاصل کرکے تینوں خطوں کی یکساں ترقی کو یقینی بناکر ناانصافی کے احساس کا ازالہ کرسکتی تھی۔ لیکن آج نیشنل کانفرنس کے پاس بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کی کئی مجبوریاں ہیں۔ بی جے پی ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کے خلاف اعلان جنگ کرچکی ہے۔ ابھی پارلیامانی انتخابات جیتنے کی خوشیاں منانے کا سلسلہ جاری ہے کہ ریاستی بی جےپی کے دو سینئر لیڈران کے آئین ہند کی ان دفعات کے خلاف بیانات سامنے آچکے ہیں۔ 26 مئی کو ریاستی بی جےپی کے صدر اور شعلہ بیان لیڈر رویندر رینہ نے جموں کے ترکوٹہ نگر میں واقع بی جے پی دفتر پر پریس کانفرنس کرکے آئین ہند کی دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کو بالترتیب ‘آئینی غلطی’ اور ‘نفرت کی دیوار’ قرار دیتے ہوئے ان دفعات کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کرڈالا۔ محض ایک دن قبل یعنی 25 مئی کو سابق نائب وزیر اعلیٰ اور سینئر بی جے پی لیڈر کویندر گپتا نے کہا کہ دفعہ 370 نے جموں کشمیر میں علاحدگی پسندی کو جنم دیا ہے اور اس کو ہٹانا بی جے پی کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
نیشنل کانفرنس کے پاس نہ صرف دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کو بچانے کا چیلنج ہے بلکہ وادی کشمیر میں موت و تباہی کے رقص کو روکنا، مذہبی و علاحدگی پسند تنظیموں بالخصوص جماعت اسلامی جماعت جموں وکشمیر پر عائد پابندی ہٹوانا، سینکڑوں علاحدگی پسند و مذہبی لیڈران جن کو ریاست اور بیرون ریاست کی جیلوں میں بند رکھا گیا ہے کو چھڑوانا، مسئلہ کشمیر کے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول پاکستان سے بات چیت کروانا، حال ہی میں معطل کی گئی ایل او سی تجارت کو بحال کروانا اور کشمیر کے قدرتی راستوں کو کھلوانا جیسے بڑے چینلجز ہیں۔
پی ڈی پی بی جے پی اتحاد کی طرح نیشنل کانفرنس بی جے پی اتحاد کے ناکام ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس سینئر ترین لیڈران سے بھری پڑی ہے اور اس جماعت کے اندر مثالی نظم و ضبط پایا جارہا ہے۔ یہاں ہر ایک فیصلہ تمام لیڈروں کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی لیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس سابقہ پی ڈی پی بی جے پی سرکار کے دوران پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی پر الزامات لگے کہ وہ صرف اپنے کچھ قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کی ہی سنتی ہیں۔
چونکہ جموں وکشمیر ایک غریب ریاست ہے اس لئے اس ریاست کو مرکزی رقومات کی کافی ضرورت پڑتی ہے۔ مرکز میں ایک بار پھر نریندر مودی کی سرکار بن چکی ہے اور ایسے میں جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ دکھانے والی ہر جماعت مالی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے مرکزی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہے گی۔ اور اس ریاست میں یہ روایت رہ چکی ہے کہ کوئی بھی مقامی سرکار مرکزی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہے۔
واضح اکثریت حاصل کرنے کے دعوے
فی الوقت نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کئے جارہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس 1996ء کی کارکردگی کو دہرا کر حکومت بنانے کے لئے درکار 44 سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کررہی ہے۔ بی جے پی جس نے سنہ 2014ء کے اسمبلی انتخابات میں 44 پلس کا نعرہ دیتے ہوئے 25 نشستیں جیتنے میں کامیابی حاصل کی تھی، واضح اکثریت حاصل کرکے جموں سے ‘ہندو’ وزیر اعلیٰ بنانے کا دم بھر رہی ہے۔ تاہم 2014ء میں سب سے زیادہ 28 نشستیں حاصل کرنے والی پی ڈی پی پارلیامانی انتخابات میں بری طرح پٹنے کے بعد سے خاموش اور کوئی بھی دعویٰ کرنے سے گریزاں ہے۔ پی ڈی پی کی طرح کانگریس بھی خاموش ہے۔
منطقی طور پر دیکھا جائے تو نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کے دعوے زمینی حقیقت کے برعکس ہیں۔ بی جے پی صوبہ جموں میں مضبوط ہے جہاں اسمبلی کی نشستوں کی کُل تعداد 37 ہے اور اس میں یہ بھی حقیقت ہے کہ سبھی 37 نشستیں بی جے پی کی جھولی میں نہیں جاسکتیں کیونکہ خطہ چناب کے تین اضلاع اور پیر پنچال کے دو اضلاع میں دیگر جماعتوں بشمول کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا پرانا کیڈر ہے۔ جہاں تک نیشنل کانفرنس کے 1996ء کی کارکردگی کو دہرانے کے دعوے کا تعلق ہے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے وادی کی سبھی 46 نشستیں جیتنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جہاں تک خطہ لداخ کی چار نشستوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے رائے دہندگان مستقل مزاج نہیں اور اسی لئے سبھی جماعتیں وہاں اپنی بنیادیں مضبوط ہونے کا دعویٰ کررہی ہیں۔
نیشنل کانفرنس اور بی جے پی یہ دعویٰ بھی خوب کررہی ہیں کہ کسی بھی صورت میں ایک دوسرے کی اتحادی جماعتیں نہیں بنیں گی۔ ایسا ہی دعویٰ 2014ء میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی طرف سے کیا جارہا تھا۔ پی ڈی پی نے وادی کشمیر میں لوگوں کو بی جے پی سے ڈرایا اور اس جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ووٹ مانگے لیکن پھر کیا تھا کہ دونوں کا آپس میں اتنا زبردست یارانہ ہوا کہ پی ڈی پی کے سینئر لیڈران بی جے پی کے تنظیمی اجلاسوں میں بھی شرکت کرنے لگے۔
پی ڈی پی- بی جے پی حکومت ناکام کیوں ہوئی؟
جموں وکشمیر میں 1990ء میں شروع ہوئی مسلح شورش کے بعد پہلی مرتبہ 1996ء میں اسمبلی کے انتخابات ہوئے جس میں نیشنل کانفرنس نے 57 نشستیں حاصل کرکے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے 8 اور کانگریس نے 7 نشستیں حاصل کی تھیں۔ 1999ء میں مفتی محمد سعید نے پی ڈی پی بنائی اور پھر یہاں سے ریاست میں مخلوط حکومتیں بننے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ریاست میں 2002ء، 2009ء اور 2015ء میں بالترتیب پی ڈی پی کانگریس، نیشنل کانفرنس کانگریس اور پی ڈی پی بی جے پی کے اتحاد پر مبنی سرکاریں بنیں لیکن ان میں سے ناکام ترین پی ڈی پی بی جے پی اتحاد سے بننے والی سرکار ثابت ہوئی۔
پی ڈی پی بی جے پی مخلوط سرکار ایک معاہدہ جسے ‘ایجنڈا آف الائنس’ کا نام دیا گیا تھا، کے بنیاد پر بنی تھی۔ لیکن اس سرکار کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ‘ایجنڈا آف الائنس’ میں شامل ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ پی ڈی پی بی جے پی مخلوط سرکار کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ دونوں جماعتوں کے درمیان تال میل میں کمی اور پی ڈی پی کے اندر ‘خاموش خانہ جنگی’ رہی۔ اس سرکار کے پہلے دن کا آغاز ہی مفتی محمد سعید کے ایک متنازعہ بیان سے ہوا تھا اور اختتام اس طرح ہوا کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان محبوبہ مفتی کو کچھ خبر ہی نہیں کہ ان کے پیروں تلے سے اقتدار کی گدی کھینچی جاچکی ہے۔
ریاست میں پی ڈی پی- بی جے پی پر مشتمل اتحاد نے تین سال سے بھی کم عرصے تک حکومت کی۔ مہینوں اس سوچ بچار پر لگائے گئے کہ ‘حکومت بنائیں کہ نہ بنائیں’۔ مفتی سعید مارچ 2015ء سے اپنے انتقال یعنی جنوری 2016ء تک وزیر اعلیٰ بنے رہے اور اس دوران بھی کوئی عوام دوست کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ پھر کئی مہینوں سوچ و فکر میں لگانے کے بعد محبوبہ مفتی ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں لیکن ان کے کھاتے میں 2016ء کی ایجی ٹیشن کے دوران احتجاجیوں کے خلاف بے تحاشہ طاقت کے استعمال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پی ڈی پی نے جب 2002ء میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنائی تو وہ حکومت بھی اپنے چھ سال کی مدت پوری نہیں کرسکی تھی۔ چونکہ بی جے پی کے ساتھ حکومتی اتحاد ٹوٹنے کے بعد پی ڈی پی کے بیشتر سینئر لیڈران اس جماعت سے الگ ہوگئے تو اسے ابھی اپنی شان رفتہ بحال کرنے میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔
جموں و کشمیر میں بی جے پی کا عروج
ریاست میں 1996ء کے بعد سے 2014ء تک ہوئے اسمبلی کے انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ بی جے پی اپنی کارکردگی بہتر کرتی جارہی ہے۔ بی جے پی نے جموں میں ‘ہندو کارڈ’ کھیلتے ہوئے ہندو اکثریتی اضلاع جیسے ادھم پور، جموں، سانبہ، کٹھوعہ اور ریاسی میں کانگریس، نیشنل کانفرنس اور جموں وکشمیر نیشنل پنتھرس پارٹی کا تقریباً صفایا کردیا ہے۔ تاہم ان اضلاع میں کچھ علاقے جیسے نگروٹہ ہیں جہاں نیشنل کانفرنس کی پوزیشن کافی مستحکم ہے۔ اب بی جے پی خطہ لداخ کے بودھ اکثریتی ضلع لیہہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہے اور کامیاب بھی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ علاوہ ازیں مہاجر کشمیری پنڈتوں اور اپنی سابقہ اتحادی جماعت و مبینہ ‘بی ٹیم’ سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس کے ذریعے وادی کشمیر میں کچھ نشستوں پر قبضہ جمانے کی کوششوں میں ہے۔
اس مسلم اکثریتی ریاست میں بی جے پی کو اُس وقت غیرمعمولی عروج ملا جب 2008ء میں پی ڈی پی کانگریس مخلوط حکومت نے شری امرناتھ جی شرائن بورڈ کے نام سینکڑوں کنال جنگل اراضی منتقل کرڈالی جس کے خلاف وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ لیکن جموں میں بی جے پی اور دیگر سخت گیر ہندو تنظیموں نے لوگوں کو کشمیریوں کے خلاف بھڑکایا، نتیجتاً نہ صرف جموں میں کشمیر مخالف مظاہرے ہوئے بلکہ وادی جانے والی مال بردار گاڑیاں روک کر اس کا عملی اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا۔ امرناتھ ایجی ٹیشن جو قریب دو تین ماہ تک جاری رہی، کے دوران ریاست میں علاقائی تعصب پیدا ہوا جس کا بھرپور فائدہ بی جے پی نے اٹھایا۔
امرناتھ ایجی ٹیشن سے فائدہ اٹھانے کے بعد بی جے پی نے جموں میں لوگوں کو یہ بتانا شروع کردیا کہ ان کے ساتھ ہر معاملے میں ناانصافی ہورہی ہے۔ ہندو وزیر اعلیٰ بنانے کا معاملہ اٹھایا اور گزشتہ کچھ برسوں کے دوران کشمیر میں ملی ٹینسی اور پاکستان کے نام پر جموں کے ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کامیاب کوششیں کیں۔ بی جے پی جس نے 1987ء کے اسمبلی انتخابات میں محض دو نشستیں جیتی تھیں 2014ء کے انتخابات میں 25 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ تاہم یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ کیا آئندہ انتخابات میں پارٹی وادی کشمیر کی 46 نشستوں میں سے کوئی نشست جتینے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ نیز کیا نیشنل کانفرنس اور بی جے پی حریف سے اتحادی بنتی ہیں یا نہیں۔
(مضمون نگار کشمیری صحافی ہیں)