عمر عبداللہ کی حکومت ایک امید کے طور پر شروع ہوئی تھی مگر اب وہ ایک علامت بن گئی ہے — ایسی علامت جو بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ مرکز کی بیوروکریسی کے شکنجے میں ہے۔ جمہوریت کا چہرہ زندہ ہے مگر روح خالی ہے۔ اور یہی اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

عمر عبداللہ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)
لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی بیٹھے، اختیارات ہمیشہ کہیں اور سمٹ جاتے ہیں۔
کبھی بندوق برداروں کا خوف تھا، آج لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامیہ، خفیہ ایجنسیاں اور ہندو قوم پرستوں کے نیٹ ورک نے وہی کردار سنبھال لیا ہے۔
عام لوگوں کے لیے جینے، بولنے اور سوچنے کی جگہ تنگ تر ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے میں جب گزشتہ سال اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا تو عوام میں ایک نئی امید جاگی۔
لوگوں کو لگا کہ شاید اب ایک عوامی حکومت قائم ہوگی جو کم از کم سانس لینے کی گنجائش فراہم کرے گی۔
ان انتخابات میں، بالکل 1996 کی طرح، نیشنل کانفرنس کو سبقت حاصل ہوئی۔ نوے رکنی اسمبلی میں اس نے 42 نشستیں جیتیں۔ اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر کامیابی ملی۔ وادی کشمیر کی 47 میں سے 35 نشستیں نیشنل کانفرنس نے جیتیں جبکہ جموں کی 43 میں سے سات نشستیں حاصل کیں۔ بی جے پی جموں خطے میں 29 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بنی۔
ان نتائج نے ایک طرف دہلی کو راحت دی کہ کوئی علیحدگی پسند یا مزاحمتی جماعت اقتدار میں نہیں آئی، مگر دوسری طرف کشمیری عوام کے لیے یہ ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھی گئی جہاں وہ اپنی انفرادیت، آبادیاتی شناخت اور کھوئی ہوئی خودمختاری کے احساس کو دوبارہ بحال کر سکتے تھے۔
مگر ایک سال گزرنے کے بعد وہ تمام امیدیں دھندلی پڑ چکی ہیں۔ عمر عبداللہ کی قیادت میں بننے والی حکومت کے پاس اقتدار تو ہے، مگر اختیار نہیں۔ 16 اکتوبر 2024 کو جب انہوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا تو یہ تصور تھا کہ دہائی بھر کی نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی کے بعد اب ایک جمہوری دور کا آغاز ہوگا۔ بہت سے لوگ اسے نئی صبح کہہ رہے تھے۔
لیکن آج، ایک سال بعد، وہی لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ شاید کشمیر کی تاریخ میں یہ سب سے بے اختیار حکومت ہے۔ خود سرینگر سے نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیامنٹ آغا سید روح اللہ مہدی اس کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔
سینئر صحافی مسعود حسین لکھتے ہیں کہ عمر عبداللہ نے ہچکچاتے ہوئے انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان پر طنز بھی کیا گیا؛’نہ نہ کرتے ہاں کر دی۔’ اب جب ایک سال گزر گیا ہے تو وہ جموں و کشمیر کے سب سے کمزور وزرائے اعلیٰ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ ایک ‘آئینی مجسمہ’ ہیں، جن کے اردگرد طاقت کے سارے بٹن کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔
اصل مسئلہ ڈھانچے کا ہے۔ یونین ٹیریٹری کے نظام میں لیفٹیننٹ گورنر اعلیٰ ترین انتظامی اتھارٹی ہے۔ وہ افسران کی سالانہ خفیہ رپورٹیں لکھتا ہے۔ تمام بڑے فیصلوں کے لیے اس کی منظوری ضروری ہے۔ بیوروکریسی عملاً اس کے سامنے جوابدہ ہے، نہ کہ منتخب وزیراعلیٰ کے سامنے۔ افسران جانتے ہیں کہ ان کے تبادلے، ترقی اور مراعات کا دارومدار راج بھوان پر ہے، اس لیے وہ سیاسی قیادت کے احکامات کو ترجیح نہیں دیتے۔ کئی بار وزیراعلیٰ دفتر سے جاری احکامات بھی محض فائلوں میں دب جاتے ہیں۔
عبداللہ کی مشکلات دہلی کی عام آدمی پارٹی کے ان برسوں کی یاد دلاتی ہیں جب وہ خدمات پر کنٹرول کے لیے لڑ رہی تھی۔ اروند کیجریوال کے ایک معاون نے راقم کو بتایا کہ وہ اکثر میٹنگز بلانے سے ‘ڈرتے’ تھے کیونکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ افسران آئیں گے۔’لہٰذا، شرمندگی سے بچنے کے لیے، ہم نے میٹنگز بلانا بند کر دیا۔’ اگرچہ 2023 میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے دہلی میں اختیارات کو واضح کیا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایک ایسی ہی صورتحال اب سرینگر کو پریشان کر رہی ہے۔ یونین ٹیریٹری کے نظام میں، لیفٹیننٹ گورنر افسران کے سالانہ خفیہ رپورٹس لکھتا ہے۔ منتخب ایگزیکٹو کی بات ماننے کی ترغیب کمزور ہے، اور لاپرواہی عیاں ہے۔
جب نیشنل کانفرنس نے گزشتہ سال کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، تو بہت سے لوگوں نے اسے ایک جیت کی صورتحال سمجھا۔
کشمیر کے لوگوں کے لیے، اس کا مطلب تھا کچھ جوابدہی اور سانس لینے کی جگہ بحال کرنے کا موقع۔ مرکز کے لیے، اس سے ایک ایسی پارٹی کی واپسی یقینی ہوئی جو تحمل اور ریڈ لاینز کراس کرنے سے گریز کرتی ہے۔
‘عبداللہ خاندان سے کبھی توقع نہیں کی گئی کہ وہ دہلی کے کیجریوال کی طرح یا محبوبہ مفتی کی طرح سرخ لکیروں کو پار کریں گے،’ ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار نے کہا۔
پھر بھی، اس خیر سگالی سے کچھ خاص حاصل نہیں ہوا۔ مرکزی قیادت کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کے باوجود، عبداللہ کی انتظامیہ کو کوئی خاص رعایت نہیں ملی—نہ ریاستی حیثیت کی بحالی میں اور نہ ہی بیوروکریٹک سختی کو کم کرنے میں۔
یہاں تک کہ علامتی اقدامات، جیسے کہ وزیراعلیٰ کو سرکاری سکیورٹی جائزوں کی صدارت کرنے یا سینئر تقرریاں کرنے کی اجازت دینا، اب بھی رکے ہوئے ہیں۔ نجی گفتگوؤں اور عبداللہ کے حالیہ ریمارکس میں، جن میں ‘ایک ایسی حکومت جو بغیر اختیار کے حکمرانی کرتی ہے’ کا اشارہ دیا گیا، مایوسی اب واضح ہے۔
کوئی روایتی کابینہ نہیں ہے۔ عبداللہ اور ان کے وزراء ایک مشاورتی کونسل کے طور پر کام کرتے ہیں، جس کے فیصلوں کو راج بھوان سے باضابطہ منظوری درکار ہوتی ہے۔ عبداللہ نے تسلیم کیا کہ مارچ 2025 تک لیے گئے بہت سے ‘کابینہ’ فیصلے ابھی تک منظوری کے منتظر ہیں۔
ایک سینئر بیوروکریٹ نے نجی گفتگو میں کہا،’یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں وزیراعلیٰ کے دستخط کا وزن کم اور نئی دہلی کے نمائندے لیفٹنٹ گورنر کی خاموشی کا اثر زیادہ ہے۔’ عمر عبداللہ کے اقتدار کا پہلا سال اسی توازن کی تلاش میں گزرا ہے، مگر نتیجہ وہی صفر رہا۔ کئی بار اجلاس بلانے کے بعد افسران شریک نہیں ہوئے۔ وزیراعلیٰ دفتر کو خود خط لکھنے پڑے کہ متعلقہ سکریٹری کیوں غیر حاضر ہیں۔
مارچ 2025 تک کابینہ نے جو فیصلے کیے، ان میں سے متعدد آج تک راج بھوان کی منظوری کے منتظر ہیں۔ حکومت کی مشاورتی کونسل کو ایک طرح سے ‘عارضی کابینہ’ بنا کر رکھا گیا ہے، جس کے فیصلے نافذ نہیں ہو سکتے جب تک لیفٹیننٹ گورنر مہر نہ لگائے۔ یہ وہی تاثر ہے جسے عمر عبداللہ خود بھی کئی بار اشاروں کنایوں میں ظاہر کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا، ‘ہم فیصلہ کرتے ہیں مگر عملدرآمد کا اختیار نہیں۔’
یہی نہیں، عبداللہ اپنے قریبی مشیر ناصر اسلم وانی کو باضابطہ تعینات نہیں کر سکے۔ ایڈووکیٹ جنرل، جسے وزیراعلیٰ نے رہنے کے لیے قائل کیا تھا، راج بھوان کی زبانی ہدایت پر واپس نہیں آیا۔ حتیٰ کہ عبداللہ کو پیرس کے ایک سرکاری دورے کو مختصر کرنا پڑا کیونکہ کلیئرنس نہیں ملی۔ دہلی کے ایک عہدیدار نے بعد میں تبصرہ کیا کہ ‘جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ کی حیثیت اب کسی ریاستی وزیر سے زیادہ نہیں رہی۔’
اقتدار کے دھارے کہاں ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امن و امان، پولیس، اینٹی کرپشن بیورو، آئی اے ایس افسران کی تقرریاں، حتیٰ کہ معمول کی انتظامی تبدیلیاں بھی راج بھون کے کنٹرول میں ہیں۔ وزارت داخلہ نے پولیس فورس کا پورا مالی بوجھ اپنے بجٹ میں منتقل کر دیا ہے۔ بیوروکریٹس کے لیے راج بھون حکم ہے اور وزیراعلیٰ محض مشورہ۔
جموں و کشمیر اسٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن، جو ایک منافع بخش ادارہ ہے، اب بھی بیوروکریٹس کے زیر کنٹرول ہے۔ آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز اکیڈمی، جو کبھی کشمیری شناخت کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب وزارت سے باہر ہے۔ ایس کے آئی ایم ایس جیسے اہم ادارے میں بھی ڈائریکٹر وزیراعلیٰ کو نہیں بلکہ براہ راست ایل جی کو رپورٹ کرتا ہے۔
اردو، جو کبھی واحد سرکاری زبان تھی، انگریزی کے دباؤ میں آچکی ہے۔ عبداللہ نے وعدہ کیا تھا کہ سو دن میں کلچر پالیسی لاگو کریں گے، مگر وہ فائل اب بھی راج بھون کے پاس پڑی ہے۔
یہ وہی تصویر ہے جسے کئی لوگ ‘جمہوری فریب’ کہتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو موجود ہے، مگر فیصلہ سازی کے قابل نہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی بیان دیا کہ نیشنل کانفرنس ایک رسمی حکومت بننے کے خطرے میں ہے جو علامت تو ہے مگر جوہر نہیں۔ مرکز کے ساتھ نرمی اور تعلقات کی سیاست نے بھی کوئی فائدہ نہیں دیا۔
عمر عبداللہ نے ہمیشہ ٹکراؤ سے بچنے کی پالیسی اپنائی۔ انہوں نے نہ محبوبہ مفتی کی طرح احتجاج کیا، نہ کیجریوال کی طرح عدالتی لڑائیاں لڑیں۔ مگر دہلی نے اس شائستگی کو کمزوری سمجھا۔ ریاستی درجہ کی بحالی پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
کئی مواقع پر عمر عبداللہ کو سرکاری تقریبات میں نظرانداز کیا گیا۔ 13 جولائی کو انہیں شہداء کے قبرستان جانے کی اجازت نہیں دی گئی، وہ اگلے دن اکیلے گئے۔ مرکزی وزراء کے ساتھ دوروں میں وہ پیچھے کھڑے دکھائی دیے۔
ایک ویڈیو میں بی جے پی کے لیڈر اور اپوزیشن لیڈر سنیل شرما افسران کو بریفنگ دیتے دکھائی دیے، جو عام طور پر وزیراعلیٰ کا کام ہوتا ہے۔ نائب وزیراعلیٰ کو بھی سکیورٹی اور سفر کے مسائل کا سامنا رہا۔ یہ سب مظاہر اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ عمر عبداللہ حکومت محض برائے نام ہے۔
پہاڑی بولنے والے طبقے کو شیڈولڈ ٹرائب میں شامل کرنے سے ریزرویشن کا توازن بگڑ گیا ہے۔ اب تقریباً 70 فیصد سرکاری نوکریاں مخصوص کیٹیگریز کے لیے مختص ہیں۔ اوپن میرٹ سکڑ گیا ہے اور نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
جون 2025 میں پیش کی گئی وزارتی سب کمیٹی کی رپورٹ پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حکومت کے اہداف میں 1120 جے کے پی ایس سی تقرریاں، 5853 ایس ایس بی سلیکشنز اور 75 ہمدردی کی بنیاد پر ملازمتیں شامل تھیں، مگر ان میں پیش رفت معمولی ہے۔
سیب کی فصل کے دوران جب قومی شاہراہ تین ہفتے بند رہی، ہزاروں ٹرک پھنس گئے۔ سیب سڑ گئے اور معیشت کو ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ عبداللہ نے کہا کہ اگر اختیار ان کے پاس ہوتا تو وہ ایک دن میں سڑک کھول دیتے۔ مگر یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔
پھر بھی کچھ مثبت اقدامات ہوئے۔ حکومت نے نجی اسکولوں سے مشاورت کے بعد 2019 سے پہلے کا تعلیمی کیلنڈر بحال کیا۔ سرکاری بسوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔ غریب لڑکیوں کی شادی امداد بڑھا کر 70 ہزار روپے کر دی گئی۔ خاندان کے اندر زمین کی منتقلی پر اسٹامپ ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔ اس سے رجسٹریشن کی آمدنی بڑھی۔
اسی طرح مقامی چھوٹے کاروباروں کے لیے 30 فیصد سرکاری خریداری مختص کرنے کی پالیسی زیر غور ہے، جس میں خواتین اور پسماندہ طبقے کے اداروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سب اقدامات اسی احساس کے سائے میں ہیں کہ وزیراعلیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
ریاستی درجہ کی بحالی پر عمر عبداللہ کا موقف واضح ہے، مگر عملی پیش رفت نہیں۔ وہ بارہا کہتے رہے کہ یہ ان کا مین انتخابی وعدہ تھا، مگر دہلی نے اب تک کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا۔
سابق مالیاتی افسران کے مطابق، حکومت نے ری آرگنائزیشن ایکٹ کی شق 83(1) استعمال کرنے کا موقع گنوا دیا جس کے تحت مرکز سے ٹیکسوں میں حصہ مانگا جا سکتا تھا۔ یہ سیاسی طور پر ایک مضبوط اشارہ ہوتا مگر حکومت نے خاموشی اختیار کی۔
جی ایس ٹی کے نظام نے ریاستی مالی آزادی مزید محدود کر دی ہے۔ اب زیادہ تر ترقیاتی اسکیمیں مرکزی فنڈز سے چلتی ہیں۔ بجٹ دراصل دہلی کی توسیع بن گیا ہے۔ عبدﷲ حکومت کا مالی دائرہ اختیار اتنا محدود ہے کہ وہ اپنے منصوبے آزادانہ طور پر طے نہیں کر سکتی۔
یہ سب حالات مل کر اس احساس کو جنم دیتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت محض ایک چہرہ ہے، جس کے پیچھے مکمل انتظامی کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہے۔ اس نئے نظام میں وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ مشورہ دے سکتی ہے، مگر فیصلہ نہیں۔ راج بھون حکم دیتا ہے، مگر جوابدہی سے آزاد ہے۔
عمر عبداللہ کا سیاسی طرز ہمیشہ شائستگی اور دلیل پر مبنی رہا ہے۔ مگر یہ طرزِ سیاست ایک ایسے سخت بیوروکریٹک نظام کے سامنے ناکام دکھائی دیتا ہے جہاں نرم لہجہ کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ انہیں زیادہ جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا، ورنہ دہلی انہیں محض نمائشی چہرے کے طور پر استعمال کرتی رہے گی۔
پچھلے ایک سال میں عوامی سطح پر مایوسی بڑھ گئی ہے۔ جو لوگ ووٹ ڈالنے نکلے تھے وہ اب کہہ رہے ہیں کہ شاید مرکز نے انتخابات کروا کر دنیا کو صرف یہ دکھانا چاہا کہ کشمیر میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے، حالانکہ عملی طور پر کچھ نہیں بدلا۔
نیشنل کانفرنس کے کارکن خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے لیڈر کے پاس فیصلے کرنے کی طاقت نہیں۔ ‘ہم نے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود لیں گے، مگر اب فیصلے وہی لوگ کر رہے ہیں جنہیں ووٹ نہیں ملا۔’
جموں و کشمیر کی سیاست ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ نیشنل کانفرنس، جو دہلی اور سرینگر کے درمیان پل سمجھی جاتی تھی، اب دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ دہلی کے لیے وہ قابلِ قبول ہے مگر مفید نہیں، اور وادی کے عوام کے لیے افادیت کھو رہی ہے۔
عمر عبداللہ حکومت کا پہلا سال ایک ایسی مثال بن چکا ہے جو 2019 کے بعد کے انتظامی نظام کی تمام خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ حکومت کے پاس آئینی جواز تو ہے، مگر اثر و رسوخ نہیں۔ گورنر کا دفتر کمانڈ رکھتا ہے مگر جوابدہی نہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
عبداللہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ‘کئی ایسے شعبے ہیں جہاں منتخب نمائندوں کو فیصلہ کرنا چاہیے، لیکن ہم ابھی تک اس اختیار کے منتظر ہیں۔’ ان کا یہ جملہ دراصل پورے سال کی داستان ہے۔
کشمیر کے عوام، جنہوں نے گھٹن بھرے پانچ سالوں کے بعد ووٹ ڈالا، آج ایک بار پھر اسی سوال کے ساتھ کھڑے ہیں کہ جمہوریت آخر کہاں ہے؟ اگر منتخب وزیراعلیٰ بھی محض دستخط کرنے والا رہ گیا ہے تو اس نظام کو جمہوری کہنے کا مطلب کیا ہے؟
عمر عبداللہ کی حکومت ایک امید کے طور پر شروع ہوئی تھی مگر اب وہ ایک علامت بن گئی ہے—ایسی علامت جو بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ مرکز کی بیوروکریسی کے شکنجے میں ہے۔ جمہوریت کا چہرہ زندہ ہے مگر روح خالی ہے۔ اور یہی اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
یہ وہ کشمیر ہے جہاں عوام کو وعدے تو بار بار ملتے ہیں، مگر اختیار کبھی نہیں۔ جہاں ووٹ ڈالنے کے بعد بھی فیصلہ وہی کرتا ہے جو سرینگر میں نہیں، دہلی میں بیٹھا ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر وہیں لوٹ آئی ہے—جہاں اقتدار تھا مگر اختیار نہیں۔