ہمارے گھرمیں مہاراجہ رنجیت سنگھ، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، حفیظ جالندھری، راجندر سنگھ بیدی،امرتا پریتم یا وارث شاہ کے ساتھ اقبال کا بھی ذکر ہوتا رہتا تھا۔مسلمانوں کے لیے اقبال اسلامی شاعر ہوسکتے ہیں، کشمیری ان کے آباو اجداد کے کشمیر ی ہونے پر فخر کر سکتے ہیں، مگر میرے نانا کہتے تھے کہ اقبال پنجاب کا ایک قیمتی نگینہ ہے اور اس کے بغیر پنجابیت ادھوری ہے ۔ اس سے بڑا شاعر اور فلسفی شاید ہی پنجاب نے پیدا کیا ہو۔
میرے والدین اپنے خاندان کے ہمراہ تقسیم کے وقت پاکستان سے ہندوستان آئے تھے۔ میرے نانا لاہور سے کسمپرسی کی حالت میں نکلے تھے،بڑی مشکل سے جان بچا کر وہ امرتسر پہنچے تھے۔ہندوستان پہنچ کر جب میرے ماموں پیدا ہوئے، تو انہوں نے ان کا نام اقبال سنگھ رکھا۔
شاعر مشرق علامہ اقبا ل میرے نانا کی رگوں میں رچے بسے تھے۔ ایک کٹر سکھ ہوتے ہوئے بھی اقبال کی تقریباً سبھی نظمیں ان کو ازبر تھیں۔ وہ ہم بچو ں کو اقبال کی گورو نانک پر لکھی نظم اور بچوں کی دعا’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری’ پڑھواتے اور یاد کرواتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے اچھی دعا اور تمنا بچوں کے لیے ہو ہی نہیں سکتی ہے۔
سکھ ہونے کے ساتھ ساتھ میرے نانا اور خاندان کے دیگر افراد کٹر قوم پرست پنجابی بھی تھے۔ ان کے لیے اقبال پنجاب کا ایک فخر تھے۔اسی لیے شاید ہندوستان کے دو پنجابی وزرائے اعظم اندر کمار گجرال اور منموہن سنگھ اکثر اپنی تقاریر میں اقبال کے اشعار کا حوالہ دیتے تھے۔
ہمارے گھرمیں مہاراجہ رنجیت سنگھ، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، حفیظ جالندھری، راجندر سنگھ بیدی،امرتا پریتم یا وارث شاہ کے ساتھ اقبال کا بھی ذکر ہوتا رہتا تھا۔مسلمانوں کے لیے اقبال اسلامی شاعر ہوسکتے ہیں، کشمیری ان کے آباو اجداد کے کشمیر ی ہونے پر فخر کر سکتے ہیں، مگر میرے نانا کہتے تھے کہ اقبال پنجاب کا ایک قیمتی نگینہ ہے اور اس کے بغیر پنجابیت ادھوری ہے۔ اس سے بڑا شاعر اور فلسفی شاید ہی پنجاب نے پیدا کیا ہو۔
پنجابیوں کو ان کی ثقافت اور زبان کی نفاست سے محرومی کا طعنہ دیا جاتا تھا۔آج بھی دہلی اور لکھنؤ کے اہل زبان یہ طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ زبان کی شان رکھنے والے شاہکار جیسے مرزا غالب، میر تقی میر، اسرارالحق مجاز، داغ دہلوی وغیر سبھی پنجاب سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ مگر پنجاب کے شہر سیالکوٹ نے ایسے تمام لوگوں کو غلط ثابت کر دیا، جو پنجابیوں پر فقرے کستے تھے۔
شاعری کی دنیا میں اس شہر نے ایک ایسا شخص پیدا کیا جو غالب کے پایہ کا شاعر تھا۔ فلسفہ میں والٹیئر یا رابندر ناتھ ٹیگور کی برابر ی کرتا تھا۔ ایک ایسا نبض شناش تھا کہ اس کی لمبی نظم شکوہ جواب شکوہ پوری اسلامی تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کی نظم’ سارے جہا ں سے اچھا ہندوستان ہمارا’میں پورے خطے کی تہذب و تاریخ بیان کی گئی ہے۔
حال ہی میں دہلی یونیورسٹی کی طرف سے علامہ اقبال کے باب کو تاریخ کے نصاب سے خارج کرنے کا جب فیصلہ لیا گیا تو میرے جیسے بہت سے افراد کے لیے یہ ایک ہوش اڑا دینے والا قدم تھا۔ پنجاب کا یہ فخر اور سپوت ا یک ایسی حکومت کا نشانہ بنا ہے، جو تنگ نظری میں یقین رکھتی ہے۔
دہلی یونیورسٹی، جسے حکومت ہند کی طرف سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس نے نصاب سے اقبال سے متعلق باب کو ہٹا دیا ہے۔ اقبال کو نظریہ پاکستان کا علمبردار قرار دیتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے نصاب سے اقبال سے متعلق حصے کونکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اقبال کو ایک اردو شاعر، مفکر اور مصنف کی حیثیت سے ’انڈین پولیٹیکل تھاٹ ٹو‘ کے کورس کے تحت پڑھایا جاتا تھا۔ فی الحال دائیں بازو کی اکیڈمی کے زیر تسلط، اکیڈمک کونسل اقبال کو نصاب سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے دو قومی نظریہ اور اکھنڈ بھارت کی تقسیم کی تشہیر کی ہو، اس کے بارے میں ہندوستانی طلباء کو نہیں پڑھایا جانا چاہیے۔
ا ن کا کہنا ہے کہ اقبال کے بجائے گاندھی، امبیڈکر اورساورکر کے نظریات کو پڑھانے کی ضرورت ہے۔گزشتہ سال دہلی یونیورسٹی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر پروگرام میں ڈسکورس آف ہندو نیشنلزم پر ایک کورس شروع کیا تھا ۔ اب اقبال کو انڈر گریجویشن کورس کے دوسرے سال سے ہٹا دیا گیا ہے، اور ممکنہ طور پر ان کی جگہ ہندو قوم پرستی کے علمبردار اور اس نظریہ کے بانی وی ڈی ساورکر کو شامل کیا گیا ہے۔
یہ دیکھ کر بےحد افسوس ہوتا ہے کہ چند عشرے پہلے تک وہ دانشور جو یہ سمجھتے تھے کہ ہر فرد کی شخصیت وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتی ہے، وہ جیسے کہیں کھو گئے ہوں یا ان کی آوازں کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ اگر کہیں ہیں بھی ، تو بولنے سے ڈرتے ہیں۔
اقبال کو نصاب سےنکالنے کی کوشش اس سے قبل 90 کی دہائی میں بھی کی گئی تھی لیکن پھر دانشورں کی اکثریت نے اس خیال کو مسترد کر دیا۔
فی الحال دہلی یونیورسٹی میں اقبال کے افکار و نظریات نہیں پڑھائے جائیں گے۔ لیکن کچھ اساتذہ جنہوں نے اس اقدام کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے فیصلے طلباء کو پڑھنے کے انتخاب سے محروم کر رہے ہیں اور شا عروں اور فلسفیوں کو مذہب اور قومی حدود میں بند نہیں کیا جا سکتا۔
جس طرح طلباء کو کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز پڑھنے کی اجازت ہے، اسی طرح انہیں اقبال یا کسی دوسرے مسلمان فلسفی سے بھی روشناس کرانا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے سال جب نصاب میں ساورکر پر ایک باب شامل کیا گیا، تو اکثر دانشورو ں نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ طلبہ کو متنوع خیالات پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔یہی دلیل آج بھی دی جاسکتی تھی۔
مہاتما گاندھی اور اقبال دونوں نے صوبوں کی سیاسی خودمختاری کی بات کی تھی۔ دونوں ہندوستان کی آزادی چاہتے تھے۔ گاندھی نے دلتوں اور ہریجنوں کے حقوق کی بات کی تو اقبال مسلمانوں کے بارے میں فکر مند تھے۔ ویسے قرار داد پاکستان ان کی وفات کے سال دو سال بعد لاہور میں منظور کی گئی تھی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں اقبال کے تعاون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں کیمپس مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ مہاتما گاندھی سمیت بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ اقبال جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالیں۔ اس پیشکش کو اقبال نے شائستگی سے مسترد کر دیا۔
جبکہ دہلی یونیورسٹی نے اقبال پر اپنا دروازہ بند کر دیا ہے، وہ کئی دیگر اداروں میں ابھی بھی زندہ ہیں اور قائم و دائم ہیں۔اقبال شاید واحد شاعر ہیں، جن پر کئی یونیورسٹیز میں باقاعدہ الگ سے شعبے قائم ہیں، جن کو شعبہ اقبالیات یا اقبال اسٹڈیز کا نام دیا گیا ہے۔
کسی اور شاعر یا فلسفی کے لیے کسی بھی یونیورسٹی میں الگ سے باقاعدہ شعبے نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے اقبال کی وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر جس طرح کے حالات ہندوستان میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں، وقت ہی بتائے گا کہ کب تک اقبال ان یونیورسٹیوں میں زندہ رہ پائیں گے۔
مگر بقول اقبال؛
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر، چمن میں آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم، مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا، کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں، یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)