خصوصی رپورٹ: گزشتہ دنوں راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدل کر میجر دھیان چند کے نام پر رکھنے کااعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ملک کے کئی لوگوں نے ان سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اب پی ایم او نے یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ انہیں ایوارڈ کا نام بدلنے کے لیے کتنے درخواست ملے تھے۔
دہلی کے دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)
نئی دہلی:ملک کا سب سے اہم اور ہائی پروفائل محکمہ وزیر اعظم دفتر(پی ایم او)گزشتہ کچھ سالوں سے لگاتار آر ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ سوال کیسا بھی پوچھا جائے، لیکن یہاں کے عہدیدار من مانا رویہ اپناتے ہوئے ایک جیسا جواب دیتے ہیں۔ کئی بار پی ایم او کا جواب نہ صرف غیرقانونی، بلکہ بےحدمضحکہ خیز بھی ہوتا ہے۔
اس بار اس نے راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدل کر میجر دھیان چند کے نام پر رکھنے کے
فیصلے سےمتعلق دستاویزوں کو عوامی کرنے سے انکار کیا ہے۔ پی ایم او نے آر ٹی آئی ایکٹ کی سراسرخلاف ورزی کرتے ہوئے کہا کہ مانگی گئی جانکاری‘انفارمیشن’کی ہی تعریف کے دائرے سے باہر ہے۔
اتنا ہی نہیں دفتر نےعرضی گزار پر ہی الزام لگا دیا کہ وہ اس طرح کی جانکاری مانگ کر گھما پھراکر کچھ جانچ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
معلوم ہو کہ اس بار کےاولمپک کھیلوں میں جب ہندوستان کی ہاکی ٹیم شاندارمظاہرہ کر رہی تھی، اس دوران میجر دھیان چند کو
بھارت رتن دینے مانگ کی ایک بارپھر زوروشور سے اٹھی تھی۔
تین بار کےاولمپک میڈل فاتح دھیان چند کوہندوستان کا لیجنڈری ہاکی کھلاڑی مانا جاتا ہے۔ 29 اگست کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر نیشنل اسپورٹس ڈے منایا جاتا ہے اور اسی تاریخ کو ہر سال کھیل کے لیے قومی ایوارڈ دیےجاتے ہیں۔
مودی سرکار نے ان مطالبات کو تو تسلیم نہیں کیا،لیکن انہوں نےملک کےسب سے بڑے کھیل ایوارڈ‘راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ’ کا نام بدل دیا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے چھ اگست کو اعلان کیا تھا کہ کھیل رتن کا نام بدل کر میجر دھیان چند کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔
اپنے اس فیصلے کو جائز ٹھہرانے کے لیے مودی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا، ‘مجھے ملک بھر سے ایسے کئی درخواست موصول ہوئے، جس میں کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدل کر میجر دھیان چند کے نام پر رکھنے کی گزارش کی گئی تھی۔ میں ان کے خیالات کے لیےشکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے، اب سے کھیل رتن ایوارڈکو میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ کہا جائےگا۔’
وزیراعظم مودی کےاس فیصلے کی کافی نکتہ چینی بھی ہوئی تھی۔جہاں اپوزیشن نے سوال اٹھایا کہ جب سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے نام پر رکھے گئے ایوارڈ کے نام کو بدلا جا سکتا ہے، تو آخر کیوں گجرات کے احمدآباد میں واقع سردارپٹیل کرکٹ اسٹیڈیم کا نام بدل کر نریندر مودی اسٹیڈیم کیا گیا، جو عظیم مجاہد آزادی اورملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے نام پر تھا۔
بہرحال کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدلنے کو لےکرمودی سرکار کی جانب سے کیے جا رہے دعووں کی صداقت کا پتہ لگانے کے لیے دی وائر نے پی ایم اومیں آٹھ اگست 2021 کو ایک آر ٹی آئی دائر کیا تھا، جس میں یہ پوچھا گیا تھا کہ اس ایوارڈ کا نام بدلنے کو لےکر سرکار کو کل کتنے درخواست موصول ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان درخواستوں کی فوٹوکاپی بھی مانگی گئی تھی۔
اس کےعلاوہ ایوارڈ کا نام بدلنے کے فیصلے سےمتعلق سبھی دستاویزوں یعنی کہ خط وکتابت، فائل نوٹنگس اور ریکارڈس کی کاپی مانگی گئی تھی۔
حالانکہ پی ایم او کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر اور اور سکریٹری ونود بہاری سنگھ نے یہ جانکاریاں دینے سے سرے سے انکار کر دیا۔ عالم یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ جانکاریاں آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ‘انفارمیشن ’ کی تعریف کے دائرے سے ہی باہر ہیں۔
سنگھ نے 19 اگست 2021 کو بھیجے اپنے جواب نے کہا،‘عرضی گزر کے ذریعےمانگی گئی جانکاری گھما پھراکر پوچھی گئی ہے اور یہ آر ٹی آئی ایکٹ،2005 کی دفعہ2(ایف)کے تحت انفارمیشن کی تعریف کے دائرے میں نہیں ہے۔’
پی ایم او کے سی پی آئی او کا یہ جواب بےحدمضحکہ خیز ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ونود بہاری سنگھ کو آر ٹی آئی ایکٹ کی بنیادی سمجھ بھی نہیں ہے۔
آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ2(ایف)میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی جانکاری جو کسی ریکارڈ، دستاویز، میمو، ای میل، صلاح، پریس ریلیز،سرکولر، آرڈرس، لاگ بک، کانٹریکٹ، رپورٹس، پیپرس، سیمپلس، ماڈلس، الکٹرانک روپ میں رکھے گئے ڈیٹا اور کسی بھی پرائیویٹ ادارے کے ذریعے سرکاری محکمہ کو دی گئی جانکاری کی صورت میں دستیاب ہے، تو وہ ‘انفارمیشن’کے دائرے میں آتا ہے۔
پی ایم او کی جانب سے بھیجا گیا جواب۔
یہاں دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ پی ایم او نے اس بات سے انکار نہیں کیا ہے ان کے پاس اس طرح کے دستاویز نہیں ہیں، بلکہ انہوں نے غیر قانونی دلیل دی ہے کہ یہ جانکاری‘انفارمیشن’کےدائرے میں نہیں ہے۔
واضح طور پرکھیل رتن ایوارڈ کا نام بدلنے کے لیےدفتر میں کوئی فائل ضرور بنائی گئی ہوگی، جس میں متعلقہ وزارتوں یامحکموں سے منظوری اور اس فیصلہ کی بنیاد بتانے دستاویز منسلک ہوں گے۔ لیکن سنگھ نے ان میں سے کوئی بھی دستاویز دینے سے انکار کر دیا۔
ایسے میں بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ونود بہاری سنگھ پر اوپر سے کوئی دباؤ تھا یا وہ واقعی میں سی پی آئی او کے عہدے پرفائز ہونے کے لیے‘نااہل ’شخص ہیں۔
سنگھ اس سے پہلے وزارت ماحولیات میں انڈرسکریٹری تھے۔ انہیں
اگست 2019 میں پی ایم او بھیجا گیا تھا۔ ان سے پہلے طویل عرصے تک پی ایم او کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر پروین کمار تھے۔ انہوں نے بھی اسی طرح کے کئی غیرمدلل جواب دیے ہیں۔
ستمبر2018 میں دی وائر نے ایک آر ٹی آئی دائر کرکےآر بی آئی کے سابق گورنر رگھورام راجن کے ذریعےپی ایم او کو بھیجی گئی بڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست کے سلسلے میں جانکاری مانگی تھی، جس پر کمار نے سنگھ جیسا
من وعن جواب دیا تھا۔ اس وقت بھی پی ایم او نے کہا تھا کہ مانگی گئی جانکاری‘انفارمیشن’کی تعریف کے دائرے میں نہیں ہے۔
دفتر نے نہ تو یہ بتایا کہ انہیں کس تاریخ کو رگھورام راجن کا خط ملا تھا اور نہ ہی اس سے متعلق کسی کارروائی کے بارے میں جانکاری دی۔
جبکہ آر بی آئی نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اسی معاملے پر جانکاری مہیا کرا دی تھی، جس کے بعد یہ
انکشاف ہوا تھا کہ راجن نے پی ایم نریندر مودی کو ہی بڑے گھوٹالے بازوں کی فہرست بھیجی تھی اور اس پر جانچ کرانے کی مانگ بھی کی تھی۔
کیا سی آئی سی کاناقص رویہ ہے وجہ؟
آر ٹی آئی کارکنوں اور سابق انفارمیشن کمشنروں کا کہنا ہے کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)، جو آر ٹی آئی معاملوں کی سب سے بڑی اکائی ہے،صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہی ہے، اس لیے پبلک انفارمیشن افسروں میں کوئی ڈر نہیں ہے اور قانون کی خلاف ورزی کو لےکر ان کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر شیلیش گاندھی کہتے ہیں کہ اگر آج کوئی شخص اپنی اپیل لےکرانفارمیشن کمیشن پہنچتا ہےتو اس کی شنوائی ہونے میں قریب دو سال لگیں گے۔ ایسے میں آر ٹی آئی ایکٹ کا کیا مطلب رہ جاتا ہے، جب شہریوں کو وقت پر جانکاری نہ ملے۔
انہوں نے کہا،‘اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پی ایم او کےافسر نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ جواب دیا ہے۔ وہ انفارمیشن کو دبانا چاہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر کوئی اپیل کرےگا تو محکمہ کا جو افسر ہے، وہ تو عرضی خارج کر ہی دےگا، سی آئی سی میں بھی شنوائی ہوتے ہوتے دو تین سال لگ جائیں گے۔ تب تک اس انفارمیشن کا کوئی مطلب نہیں رہ جائےگا۔ اس طرح ‘رائٹ ٹو انفارمیشن’ ‘رائٹ ٹو ہسٹری’ میں تبدیل ہو جائےگا۔’
گاندھی نے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ کی قابل رحم حالت کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس سرکار کو آر ٹی آئی پسند نہیں ہے۔ عدالت بھی آر ٹی آئی کے خلاف عجیب و غریب فیصلے دے رہے ہیں۔
سابق انفارمیشن کمشنرنے کہا، ‘اپنا قانون دنیا کے سب سے اچھے آر ٹی آئی قوانین میں سے ایک ہے۔ شروع کے پانچ چھ سال تک یہ سہی سے نافذ ہوا تھا۔لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ہمیں اگر قانون کو بچانا ہے تو انفارمیشن کمیشن،انفارمیشن کمشنروں، سی پی آئی او کو ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا۔اگر کمیشن وقت پر فیصلے دیں گے، تبھی اس قانون کا کوئی مطلب ہوگا۔’
قابل ذکر ہے کہ 20 اگست 2021 تک سی آئی سی میں کل 35143 معاملےزیر التوا تھے، جس میں سے 30295 اپیلیں اور 4848 شکایتوں کو حل کیا جانا ابھی باقی ہے۔
سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں اتنی زیادہ تعداد میں زیر التوامعاملوں کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مودی سرکار وقت پرانفارمیشن کمشنروں کی تقرری نہیں کر رہی ہے۔سینٹرل انفارمیشن کمشنر کو ملاکر سی آئی سی میں کل 11عہدے ہیں، لیکن اس میں سے اس وقت ابھی تین خالی پڑے ہیں۔
سپریم کورٹ اس معاملے کی طویل عرصے سے شنوائی کر رہا ہے اور کئی اہم احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود سرکار وقت پر تقرری نہیں کر رہی ہے۔ صوبوں کے انفارمیشن کمیشن کی حالت اور بھی بدتر ہے۔
پہلے سے تھانام بدلنے کامنصوبہ
کھیل رتن ایوارڈ کا نام تبدیل کرنے پر بحث کم از کم پچھلے دو سال سے جاری تھی۔ نام تبدیل کرنے کا مشورہ اسپورٹس ایوارڈز اور اسپیشل(کیش)ایوارڈز اسکیم برائے وزارت یوتھ افیئرز اینڈ سپورٹس کی جانب سے فروری2019 میں دیا گیا تھا۔
جسٹس(سبکدوش)اندرمیت کورکوچر کی سربراہی والی کمیٹی میں شو کیشون، اشونی نچپا، موہن داس پئی، راجیش کالرا اور ایس پی ایس تومر (وزارت کھیل میں ڈپٹی سیکرٹری اور اسپورٹس ایوارڈ کے انچارج)شامل تھے۔
دی ہندو کے مطابق،کمیٹی نے کہا تھا کہ ‘راجیو گاندھی سیدھے طور پر کھیلوں سے نہیں جڑے ہیں، لیکن ان کے نام پر گزشتہ 26 سالوں سے یہ ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ اس کا نام بھارتیہ کھیل رتن رکھنا زیادہ صحیح رہےگا۔’
حالانکہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اتفاق رائے سے یہ بھی فیصلہ لیا کہ ‘اس وقت کھیل ایوارڈز کے منصوبوں کے نام بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔’
کانگریس نے میجر دھیان چند کے نام پر کھیل رتن ایوارڈ کا نام رکھنے کے فیصلے کا استقبال کیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی نریندر مودی کے نام پر کرکٹ اسٹیڈیم کا نام رکھنے پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب سے مختلف اسٹیڈیموں کے نام پی ٹی اوشا، ملکھا سنگھ، میری کام، ابھینو بندرا، سچن تیندولکر، پلیلا گوپی چند، سنیل گاوسکر، کپل دیو، ثانیہ مرزااور لی اینڈر پیس جیسے لوگوں کے نام پر رکھے جائیں۔