نتن نبین: ایک اور لو-پروفائل صدر، جن کا دور مودی-شاہ کے تسلط اور اقتدار کو اور مضبوط کرے گا

نتن نبین کو بی جے پی کے قائم مقام صدر کے طور پر مقرر کرنے کا فیصلہ نریندر مودی کی قیادت کی اسی کڑی کا حصہ ہے، جس کے تحت پارٹی صدر کے عہدے کو مسلسل کمزور کیا گیا ہے۔ نئے صدر کا اپنا سیاسی وزن بہت کم ہے۔ حالاں کہ یہ قدم بہار میں ایک بڑا انتخابی داؤ بھی ہے۔

نتن نبین کو بی جے پی کے قائم مقام صدر کے طور پر مقرر کرنے کا فیصلہ نریندر مودی کی قیادت کی اسی کڑی کا حصہ ہے، جس کے تحت پارٹی صدر کے عہدے کو مسلسل کمزور کیا گیا ہے۔ نئے صدر کا اپنا سیاسی وزن بہت کم ہے۔ حالاں کہ یہ قدم بہار میں ایک بڑا انتخابی داؤ بھی ہے۔

نتن نبین صدر منتخب ہونے کے بعد پٹنہ میں حامیوں کے ساتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 45 سالہ نتن نبین کو پارٹی کا ورکنگ صدر مقرر کرنے کے فیصلے نے بھلے ہی کئی  سیاسی مبصرین کو حیران کیا ہو، لیکن یہ قدم دراصل نریندر مودی کی قیادت کے اسی پیٹرن کا حصہ ہے، جس کے تحت پارٹی صدر کے عہدے  کو مسلسل کمزورکیا گیا ہے۔

اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی سے لے کر راج ناتھ سنگھ، نتن گڈکری، اور امت شاہ تک، بی جے پی کے صدر کا عہدہ ہمیشہ سرکردہ لیڈروں کے پاس رہا ہے، جنہیں پارٹی کے نظریے اور کیڈر کو سمت عطا کرنے والاسمجھا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی پارٹی نے اپنی آئینی روایات سے بالاتر ہوکر نریندر مودی کو غیر متنازعہ لیڈر کے طور پر پیش کرنا شروع کیا، پارٹی صدر اور ریاستی اکائیوں کا کردار عملی طور پر ختم ہو تا چلاگیا۔

بی جے پی کے آخری مضبوط صدر 2019 تک امت شاہ تھے۔ اس کے بعد، مودی-شاہ کی جوڑی نے پارٹی کی مشینری پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے صدر کے عہدے کو پارٹی کی درجہ بندی میں نمایاں طور پر نیچے دھکیل دیا۔ بی جے پی کا پارلیامانی بورڈ جو کبھی متحرک اور جمہوری سمجھا جاتا تھا، اب مودی اور شاہ کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔ ریاستی اکائیاں بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔

آپ کو کسی بھی ریاست میں مضبوط لیڈر اعلیٰ عہدے پرنہیں ملے گا۔ شیوراج سنگھ چوہان، وسندھرا راجے سندھیا، سوربھ پٹیل، یا بی ایس یدی یورپا جیسے لیڈروں کو یا تو ریٹائر ہونے پر مجبور کیا گیا،  یا بیک گراؤنڈمیں دھکیل دیا گیا، یا پھر کم اہمیت والے عہدوں پربھیج دیا گیا۔ سینئر لیڈروں کو کمزور کرنے کے اس عمل نے مودی اور شاہ کو مسلسل اوپر پہنچایا ہے۔

سابق صدر جے پی نڈا کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر دیکھا جائے گا جنہوں نے محض صدر کے عہدے کی خانہ پری،قائدانہ رول ادا نہیں کیا۔ ان کے دور میں بھلے بی جے پی کا گراف بلند ہوا، لیکن ان کا کردار انتہائی محدود تھا، کیونکہ الیکشن مینجمنٹ سے لے کر تنظیمی کارروائیوں تک تقریباً سب کچھ مودی اور شاہ کے ہاتھ میں تھا۔

نڈا کی میعاد 18 ماہ قبل ختم ہوچکی تھی، لیکن پارٹی نئے صدر کی تلاش میں سرگرداں تھی، پہلے اس لیے کہ ریاستوں میں اندرونی کھینچ تان کی وجہ سے یونٹ کے انتخابات میں تاخیر ہوتی رہی، اور بعد میں اس لیے کہ آر ایس ایس اور مودی قیادت کسی قومی عہدے دار پر اتفاق رائے تک نہیں پہنچ سکی۔

پچھلی دہائی میں اس طرح کے تنظیمی بحران بار بار سامنے آئے ہیں، کیونکہ مودی-شاہ کے سینٹرلائزڈ طرز عمل نے ملک بھر میں بی جے پی کے بہت سے لیڈروں کو کمزور کر دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ جوڑی ابھی بھی ناقابل تسخیر بنی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ پارٹی کا نظریاتی مرکز آر ایس ایس بھی خود کو بے بس محسوس کرتی ہے۔ آر ایس ایس کے لیڈروں نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد بیانات جاری کیے ہیں، لیکن ان کا پارٹی کے موجودہ کام کاج پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔

ایک ہی فاتح

مودی-شاہ کی جوڑی نے بی جے پی کو بے مثال کامیابی سے ہمکنار کیا ہے، لیکن ان کے طرز عمل نے پارٹی کے روایتی جمہوری کام کاج کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ مخمصہ فی الحال سنگھ پریوار کے ایک بڑے طبقے کو پریشان کر رہا ہے۔

صدارتی عہدہ پر آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان اختلافات کی قیاس آرائیوں کے درمیان، ایسا لگتا ہے کہ مودی-شاہ جوڑی نے اس بار اپنا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے ایک بڑی سیاسی چال کے طور پر بہار کے بانکی پور سے ایم ایل اے نتن نبین کو ترقی دی ہے، جن کا اثر فی الحال ان کے حلقے تک محدود ہے۔

نتن نبین کو صدر کے طور پر مقرر کرکے مودی اور شاہ نے نہ صرف سنگھ پریوار کے اندر موجود دیگر تمام آپشنز کو ایک طرف کر دیا ہے بلکہ اسے اگلی نسل کو قیادت سونپنے کی حکمت عملی کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قدم بہار میں ایک بڑا انتخابی داؤ بھی ہے، ہندی بیلٹ کی واحد ریاست جہاں بی جے پی ابھی تک اپنے آپ کو مضبوط نہیں کر پائی ہے۔

نتن نبین کی سماجی اور سیاسی شناخت کئی ایسے عناصر کو یکجا کرتی ہے جو نتیش کمار کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کے بعد بی جے پی کو راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ایک بڑے متبادل کے طور پر آگے بڑھا سکتے ہیں۔

بی جے پی طویل عرصے سے نتیش کمار کی مضبوط سوشلسٹ گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کی تمام کوششیں، براہ راست اور بالواسطہ، اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

ذات پات کی سیاست

نتن نبین کائستھ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو کہ ایک ‘اونچی’ ذات ہے لیکن با اثر نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ریاست کی آبادی کا صرف 0.6فیصدہے۔ انہیں آگے کرکے، بی جے پی نے بھومیہار، راجپوت، یا یادو جیسی بااثر ذاتوں کو نمائندگی دینے کے دعووں سے بچنے کی کوشش کی ہے۔

حالیہ اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار کو انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی)،جو تقریباً 36فیصدکے ساتھ ریاست کا سب سے بڑا ووٹ گروپ ہے، سے غیر معمولی حمایت حاصل ہوئی۔  اب جبکہ سیاسی طور پر نتیش کمار اپنے آخری مرحلے میں  ہیں اور ای بی سی نئی قیادت کی تلاش میں ہے،  ایسے میں بی جے پی نے ایک غیر-دبنگ، ‘اعلیٰ ذات’ کے لیڈر پرداؤ لگایا ہے، جو ای بی سی اور پارٹی کے روایتی  ووٹر’اعلی ذاتوں’ دونوں کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے۔

سینئر کالم نگار نلن ورما کہتے ہیں،’1989 سے پہلے، پٹنہ لوک سبھا کی سیٹ کانگریس اور سی پی آئی کے درمیان بدلتی رہتی تھی۔ بی جے پی نے سب سے پہلے شیلیندر ناتھ سریواستو، ایک کائستھ کو میدان میں اتار کر یہاں اپنی گرفت بنائی۔ چونکہ کائستھ جاگیردار نہیں ہیں، اس لیے غیر اعلیٰ ذاتوں کا بھی اس برادری سے کوئی تنازعہ نہیں تھا۔’

اس سماجی پس منظر میں نتن نبین بہار اور دیگر ہندی بیلٹ میں ‘قابل قبول’ چہرہ بن سکتے ہیں۔

بی جے پی نے ماضی میں رینو دیوی، تارکیشور پرساد یا سمرت چودھری جیسے ای بی سی/او بی سی لیڈروں کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی، لیکن ان برادریوں کی وفاداریاں ہمیشہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو جیسی منڈل پارٹیوں  کے ساتھ رہی ہیں۔

ایک تیر، دو نشانے

اس طرح، بی جے پی نے اپنے وفادار ‘اونچی ذات’ کے ووٹروں کی طرف پھر سے رجوع کیا ہے، لیکن ساتھ ہی ایک ایسے چہرے کا انتخاب کیا ہے جو منڈل سے متاثر سماجی انصاف کی سیاست کو براہ راست چیلنج نہیں کرتا ہے۔

نتن نبین پرجے پی تحریک کا نقش بھی ہے۔ ان کے والد، نبین کشور سنہا، اور ان کے سرپرست، شیلیندر ناتھ سریواستو، جن سنگھ کے رکن رہتے ہوئے 1970 کی دہائی کی بدعنوانی مخالف تحریک میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کے ساتھ سرگرم تھے۔

اب جبکہ بی جے پی سماجی اور سیاسی نمائندگی کے ایک نئے ہندوتوا ماڈل کی وکالت کر رہی ہے، تب ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ نے بی جے پی کو منڈل کی سیاست کے چنگل سے آزاد کرنے کی اپنی طویل مدتی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے نتن نبین کو پارٹی صدر کے طور پر منتخب کیا ہے۔

نتن نبین کی تقرری کے ساتھ ہی مہینوں سے چلی آ رہی قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ نئے صدر کا اپناسیاسی وزن بہت کم ہے۔ نڈا بھی ان سے زیادہ بااثر دکھائی دیتے ہیں۔ اصل طاقت مودی-شاہ کی جوڑی کے پاس ہی  رہے گی، جو پارٹی کے تمام اہم کاموں کو سنبھالتے رہیں گے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔