
دہلی ہائی کورٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی گریجویشن کی ڈگری دکھانے سے متعلق ایک معاملے میں دہلی یونیورسٹی نے کہا کہ اسے عدالت کو ڈگری دکھانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اسے پبلک نہیں جا سکتا۔

وزیر اعظم نریندر مودی، پس منظر میں دہلی یونیورسٹی۔ (تصویریں: ایکس اور فیس بک)
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے جمعرات (27 فروری) کو دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کی طرف سے دائر درخواست، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی گریجویشن ڈگری کے بارے میں معلومات کا انکشاف کرنے کے سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے، پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ڈی یو کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ ڈی یو کو پی ایم مودی کی ڈگری عدالت میں دکھانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اسے پبلک نہیں کیا جا سکتا۔
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، مہتہ نے زور دے کر کہا کہ جاننے کا حق مطلق نہیں ہے اور معلومات کے حق (آر ٹی آئی ایکٹ) کے تحت ذاتی معلومات نہیں مانگی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی سی کے حکم کو ردکیا جا سکتا ہے۔
مہتہ نے یہ بھی دلیل دی کہ اجنبی لوگوں کو ڈگری کی معلومات تک رسائی کی اجازت دینے سے مستقبل میں ایسی درخواستوں کا سیلاب آ سکتا ہے اور یونیورسٹی کوپریشانی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے پٹاسوامی کیس کا حوالہ دیا، جس نے ثابت کیا کہ رازداری کا حق جاننے کے حق سے اوپر ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سماعت کے دوران مہتہ نے کہا کہ انہیں معلومات حاصل کرنے والوں کے ‘مقصد اور ارادوں’ پر بھروسہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں عدالت کو ڈگری دکھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، لیکن وہ اسے اجنبی لوگوں کے سامنے نہیں دکھائیں گے۔’
اخبار نے مہتہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”… اصولی طور پر ایسی معلومات نہیں مانگی جا سکتی۔ یہ وہ مقصد نہیں ہے جس کے لیے آر ٹی آئی (ایکٹ) کا تصور کیا گیا ہے… اتھارٹی کو فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کا اس سے کیا سروکار ہے، آپ اسے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں… ہمارے پاس یہ ہے لیکن ہم اسے شیئر نہیں کریں گے… اس دنیا میں بہت سے آزاد لوگ ہیں جو ایک یا دوسری معلومات طلب کریں گے۔’
سالیسٹر جنرل نے یہ بھی کہا کہ 1978 کی ایک ڈگری بھی ہے جو وزیر اعظم مودی کی بیچلر آف آرٹس کی ڈگری کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے پہلے مہتہ نے دلیل دی تھی کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ذاتی معلومات کو ظاہر کرنے کے لیے ‘محض تجسس‘ کافی نہیں ہے۔
لائیو لاء کے مطابق، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جہاں ایک اجنبی ایک یونیورسٹی کے آر ٹی آئی آفس میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے 10 لاکھ طلباء میں سے کسی خاص شخص کی ڈگری دیجیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اندر آ کر دوسروں کی ڈگریاں مانگ سکتا ہے؟’
دوسری طرف آر ٹی آئی درخواست گزار نیرج کمار کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے دلیل دی تھی کہ جو معلومات مانگی گئی ہیں وہ عام طور پر یونیورسٹیوں کے ذریعے شائع کی جاتی ہیں اور اس لیے یہ پبلک ڈومین میں ہے۔
ہیگڑے نے مہتہ کے اس استدلال کی مخالفت کی کہ طلباء کی معلومات اس اختیار کے ساتھ رکھی جاتی ہے کہ اسے اجنبی لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس سچن دتہ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
یہ عرضی 2017 میں دائر کی گئی تھی اور سماعت کی پہلی تاریخ کو فیصلے پرروک لگا دی گئی تھی۔ کمار نے 2016 میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں وزیر اعظم مودی سمیت 1978 میں بی اے پروگرام میں شامل ہونے والے تمام طلباء کے نتائج مانگے تھے۔ اس کے بعد سی آئی سی نے ڈی یو کو یہ کہتے ہوئے معلومات کا انکشاف کرنے کا حکم دیا تھا کہ کسی طالب علم (موجودہ/سابق) کی تعلیم سے متعلق معاملات کو عام کیا جا سکتا ہے۔
مارچ 2023 میں گجرات ہائی کورٹ نے سی آئی سی کی 2016 کی ایک اور ہدایت کو رد کر دیا تھا ، جس میں اسے دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو مودی کی تعلیمی اہلیت کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا گیا تھا۔