آدھی رات کو چھٹی پر بھیجے جانے کے بعد سرولانس فہرست میں ڈالا گیا تھا سی بی آئی ڈائریکٹر کا نمبر

پیگاسس پروجیکٹ: پیگاسس کے ذریعےسرولانس سےمتعلق لیک ہوئی فہرست میں اکتوبر 2018 میں سی بی آئی بنام سی بی آئی تنازعہ کا اہم حصہ رہے آلوک ورما اور راکیش استھانا کے بھی نمبر شامل ہیں۔ ممکنہ سرولانس کی فہرست میں ورما کے ساتھ ان کی بیوی، بیٹی و داماد سمیت اہل خانہ کے آٹھ لوگوں کے نمبر ملے ہیں۔

پیگاسس پروجیکٹ: پیگاسس کے ذریعےسرولانس سےمتعلق  لیک ہوئی فہرست میں اکتوبر 2018 میں سی بی آئی بنام سی بی آئی تنازعہ کا اہم حصہ رہے آلوک ورما اور راکیش استھانا کے بھی نمبر شامل ہیں۔ ممکنہ سرولانس کی فہرست میں ورما کے ساتھ ان کی بیوی، بیٹی و داماد سمیت اہل خانہ  کے آٹھ لوگوں کے نمبر ملے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی،سابق  سی بی آئی چیف آلوک ورما،سابق سی بی آئی اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا اوروزیر داخلہ امت شاہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی،سابق  سی بی آئی چیف آلوک ورما،سابق سی بی آئی اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا اوروزیر داخلہ امت شاہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سی بی آئی بنام سی بی آئی تنازعہ  کا حصہ رہے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما، راکیش استھانا اور اےکے شرما سمیت ان کے اہل خانہ  کے نمبر لیک ہوئی اس فہرست میں پائے گئے ہیں، جن کی اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

یہ سب اس وقت ہوا جب 23 اکتوبر 2018 کی آدھی رات کو مودی سرکار نے اس وقت کے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما اور اس وقت کے اسپیشل  ڈائریکٹر کو چھٹی پر بھیج دیا تھا۔دی وائر کو حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی رات کچھ گھنٹے بعد ہی پیگاسس اسپائی ویئر کےتوسط  سے ایک نامعلوم  ہندوستانی ایجنسی نے ورما کے نمبر کوممکنہ ٹارگیٹ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

صرف ورما ہی نہیں، بلکہ ان کی بیوی، بیٹی اور داماد سمیت ان کے اہل خانہ  کے آٹھ لوگوں کے نمبر اس نگرانی فہرست میں شامل کیے گئے تھے۔

فرانس کی غیرمنافع بخش فاربڈین اسٹوریز نے پیگاسس اسپائی ویئر کے ممکنہ نشانے پر رہے 50000 سے زیادہ  نمبروں کی لیک ہوئی فہرست حاصل کی ہے، جسے انہوں نے دنیا بھر کے 17 میڈیا اداروں  کے ساتھ ساجھا کیا ہے۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔

راکیش استھانا کو بھی اسی رات ہٹایا گیا تھا اور ان کے نمبر بھی اس وقت اس لسٹ میں شامل کیے گئے تھے۔ استھانا اس وقت سینٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف)کے چیف ہیں۔وہیں شرما، جو اس وقت پالیسی ڈویژن کے سربراہ  تھے، کو ان کے عہدےسے ہٹا دیا گیا تھا، لیکن ٹرانسفر کیے جانے سے پہلے جنوری 2019 تک وہ سی بی آئی میں ہی رہے۔

لیک ہوئے ڈیٹابیس میں استھانا، شرما، ورما اور ان کے اہل خانہ کے نمبر فروری 2019 تک ہی دکھائی دیتے ہیں۔ تب تک ورما سرکاری نوکری سے ریٹائر ہو چکے تھے۔

این ایس او کا دعویٰ ہے کہ لیک ہوئے ڈیٹابیس کا ان کی کمپنی یا پیگاسس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دی وائر نےفارنسک جانچ کے لیے ورما کا نمبر مانگا تھا، لیکن انہوں نے اس کے لیے انکار کر دیا۔ اس لیےیہ واضح طو رپر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے نمبر کو واقعی میں ہیک کیا گیا تھا یا نہیں۔ حالانکہ ہیکنگ کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان سے جڑے 22 لوگوں کے فون کی فارنسک جانچ کی گئی ہے، جس میں سے کم از کم 10 لوگوں کے فون میں پیگاسس کے نشان پائے گئے ہیں۔

حکومت ہند نے پیگاسس کے استعمال کو لےکر نہ تو قبول کیا ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے۔ وہ لگاتار گھما پھراکر جواب دیتے آ رہے ہیں۔ وہیں این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا پروڈکٹ پیگاسس صرف ‘سرکاروں’ کو ہی بیچتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 23 اکتوبر 2018 کو سی بی آئی میں آدھی رات کو اٹھاپٹک اس وقت ہوئی تھی جب اس کے دو دن پہلے ورما نے بدعنوانی  کا الزام  لگاتے ہوئے راکیش استھانا کے خلاف کیس درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

خاص بات یہ ہے کہ 21 اکتوبر 2018 کو درج کیا گیا یہ کیس فون ٹیپنگ سے ہی جڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اقتدارکے لیے بڑے پیمانے پر سبکی  کی صورتحال  پیدا ہو گئی تھی۔ استھانا کی مودی سے قربت پہلے سے ہی جگ ظاہر تھی۔ اس کے دو دن بعد استھانا نے مرکزی نگرانی کمیشن(سی وی سی) میں ورما کے خلاف کیس دائر کروا دیا۔

ورما کے خلاف کارروائی کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی مانی جاتی ہے کہ انہوں نے متنازعہ  رافیل معاملے میں جانچ کی مانگ کو خارج نہیں کیا تھا۔ چھٹی پر بھیجے جانے سے تقریباً تین ہفتے پہلے چار اکتوبر کو وکیل پرشانت بھوشن اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے ورما سے ان کے آفس میں ملاقات کر رافیل کی شکایت دی تھی۔

دی وائر نے جب اس رپورٹ کے لیے آلوک ورما سے رابطہ  کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ سی بی آئی میں اٹھاپٹک کی وجہ سے رافیل معاملے پر توجہ  نہیں دی جا سکی۔بھلے ہی آلوک ورما نے رافیل معاملے میں جانچ شروع نہ کی ہو، لیکن وزیر اعظم دفتر نے اسے اپنے خلاف حملے کے طور پر دیکھا اور انہیں چپ کرانے کے لیے آناً فاناً میں کارروائی کی گئی۔

ورما کو ہٹانے کے بعد داخلہ سکریٹری کی ہدایت  پر مرکزی نگرانی کمیشن(سی وی سی)نے سابق سی بی آئی چیف  کے خلاف جانچ شروع کی تھی۔ اس کے خلاف ورما نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی، جس پر اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی بنچ نے سی وی سی کو سچ کا پتہ لگانے کو کہا تھا۔

حالانکہ بعد میں اس میں ایک نیا موڑ تب آ گیا جب ورما نےاس وقت کے سی وی سی کے-وی چودھری پر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے اور پی ایم او کی ‘ہدایت ’ پر جانچ کرنے کا الزام لگایا۔

سی وی سی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ورما نے الزام لگایا تھا کہ جانچ کمیشن صرف راکیش استھانا کے ‘بے بنیاد’ الزامات پر دھیان دے رہا ہے اور ان کے خلاف زیر التوا بدعنوانی  کےالزامات کو درکنار کیا جا رہا ہے۔ کےوی چودھری اس سے پہلے بھی سہارا بڑلا ڈائری جیسے ہائی پروفائل معاملوں کو دبانے کو لےکرتنازعات میں رہ چکے تھے۔

بہرحال ورما جیسےاعلیٰ منصب  پر فائزافراد کے نمبر کو نگرانی کے لیے ممکنہ  ٹارگیٹ بنانا یہ دکھاتا ہے کہ اقتدارکے اعلیٰ عہدوں  پر بیٹھے لوگ کس طرح انہیں اپنے لیے خطرہ  مانتے تھے۔ بعد میں ورما اور استھانا دونوں کو سپریم کورٹ نےبے قصور قراردیا گیا تھا۔

Next Article

احوال 2019 کی ہندوپاک فضائی جنگ کا

دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

یہ کیسا اتفاق ہے کہ 22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام پہاڑوں میں سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہندوستان اورپاکستان کے درمیان پیدا ہوئی کشیدگی سے بس ایک ماہ قبل معروف دفاعی تجزیہ کار سوشانت سنگھ کا  2019  میں ہوئے پلوامہ حملوں اور بالاکوٹ فضائی آپریشن پر ایک تحقیقی مضمون مؤقر جرنل کارواں کے مارچ شمارے میں شائع ہوا تھا۔

 بالاکوٹ پر فضائی حملوں کے بعد ہندوستانی فضائیہ کی اپنی جائزہ رپورٹ اور متعدد انٹرویوز پر مشتمل اس مضمون میں بتایا گیا نہ صرف فضائیہ نے ہدف کو مس کیا، بلکہ خود اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔

 ایک اور واردات اسی دن راجستھان سیکٹر میں ہوتے ہوتے رہ گئی، جہاں روسی ساخت کے جدید ترین سخوئی فائٹر نے اپنے ہی ایک مگ طیارہ کو کو نشانہ بنادیا تھا، مگر میزائل بس چند سینٹی میٹر کے فاصلے سے چوک گیا۔ اس واردات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اس سب کے بعد اپنا ایک پائلٹ بھی پاکستان کی تحویل میں دےکر پورے ملک کو بیک فٹ کر کھڑا کر کے رکھ دیا۔

سوشانت سنگھ، جو خود بھی ایک ملٹری افسر رہ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، کے مطابق ان حملوں نے تو بس ایک کارنامہ انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک ایسا ماحول بنانے میں مدد دی، جس سے وہ دوسری بار عوام میں پولرائزیشن کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے نتیجہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت گئے۔

 سال 2002میں جب وہ پہلی بار اسمبلی انتخاب میں قسمت آزمائی کر رہے تھے، گجرات کے شہر احمد آباد میں اکشر دھام مندر پر حملہ ہوا تھا، جس میں 30ہندو مارے گئے تھے۔ مودی نے اس کے لیے اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ پاکستان ان کے لیے انتخابات جیتنے اور ہندوستانی عوام کی نفسیات کو ایڈریس کرنے کا ایک آزمودہ ہتھیار بن چکا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر جو بالا کوٹ کے بعد قائم جائزہ کمیٹی کے رکن تھے، کے مطابق پہلے روز یعنی 26فروری 2019کو ہندوستانی فضائیہ نے 100میں سے 80نمبرات حاصل کیے، کیونکہ حملہ اور اس کی نوعیت نے پاکستان کو حیرت زدہ کردیا۔

 اس دن پاکستانی فضائیہ کو 100میں سے بس 25نمبرات حاصل ہوئے۔مگر اگلے روز پاکستانی فضائیہ نے کسرپوری کردی۔اس دن ہندوستانی فضائیہ کی کارکردگی 25سے نیچے ہوگئی۔اس روز پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی ہم آہنگی کا ایک بہترین نمونہ تھی۔

پاکستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول اور پنجاب کی سرحد کی طرف آتے ہوئے دو ہندوستانی جہازوں کی ٹیموں کو دیکھ لیا تھا اور وہ ان کو روکنے کے لیے فضا میں پرواز کر گئے تھے۔ مگر ایک تیسری ٹیم اسی وقت وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے اوپر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وادی نیلم کی طرف رواں تھے اور تین منٹ کے وقفے میں انہوں نے ایک غیر آباد علاقے کو نشانہ بناکر کئی میزائل گرادیے۔

 سنگھ کے مطابق، اس پورے واقعہ نے ہندوستان کی قومی سلامتی کے اسٹرکچر کی خامیوں کو اجاگر کردیا۔ گو کہ عوامی طور پر ان حملوں کو بہادری سے تعبیر کیا گیا،مگر اندرون خانہ اس نے تشویش کی لہر دوڑا دی اور عالمی سطح پر بھی فضائیہ کی کارکردگی کی پول کھل گئی۔

ان کہ کہنا ہے کہ 2016میں اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ کے بعد ہوئی سرجیکل اسٹرئکس کے بعد پاکستان نے جس طرح خاموشی اختیار کی، اس بار بھی اندازہ تھا کہ پاکستان یہ خون کے گھونٹ پی جائےگا اور کوئی جوابی کارروائی نہیں کرےگا۔

بالی ووڈ نے تو اوڑی سرجیکل اسٹرئک پر فلم بھی بنائی، جو پلوامہ حملوں سے قبل ریلیز کی گئی۔ بالاکوٹ پر حملہ کرکے مودی شاید فلم میں ان کے اپنے کردار کو اب حقیقی روپ دینا چاہتے تھے۔ ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کہ حملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہوسکتا ہے۔

سنگھ کے مطابق، پلوامہ حملوں کے ایک د ن بعد ہی فضائی کارروائی کا پلان بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے فضائیہ کو تیاری وغیرہ کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی ایما پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ صوبہ کے بالاکوٹ علاقہ میں جیش محمد کے ٹھکانے پر حملہ کیا جائےگا، جو ایک نان ملٹری ٹارگیٹ ہوگا اور عالمی برادری کو قابل قبول ہوگا اور پاکستان کو جوابی حملہ کرنے کا جواز نہیں ملے گا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ ٹارگیٹ ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے اور زیادہ سویلین ہلاکتیں ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ بالا کوٹ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ لائن آف کنٹرول سے قریب ہی واقع ہے۔ ڈوبھال کو آپریشن کی نگرانی اور سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان تال میل کی ذمہ داری اور آنجہانی ارون جیٹلی کو میڈیا کو سنبھالنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔

ایک دون قبل حکومت نے کئی سربراہان مملکت اور سفارت کاروں کو پلوامہ حملوں پر مشتمل ایک ڈوزیر تھما دیا، جس میں جیش محمد کو خود کش حملہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

چھبیس فروری رات کے آخری پہر مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر کے فوجی مستقر سے ہندوستانی فضائیہ کے 12میراج 2000جہازوں نے اڑان بھری، جو اسرائیلی ایس پی اے سی ای 2000میزائلوں سے لیس تھے۔ یہ میزائل جہاز سے ریلیز ہونے کے بعد کنٹرول روم سے گائیڈ کیے جاتے ہیں۔ ان کے ہمرا سخوئی 30فائٹر اور مواصلاتی طیارہ اور ہوا میں ایندھن بھرنے والا طیارہ بھی شامل تھا۔

پلان تھا کہ چھ میزائل  ٹارگٹ پر داغے جائیں گے۔ پانچ طیاروں سے تو میزائل ریلیز ہو گئے، مگر چھٹا میزائل طیار ہ سے باہر ہی نہیں آیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ 35برس پرانے میراج طیارہ کے نیوی گیشن سسٹم میں نقص آگیا تھا۔ گو کہ ہندوستانی میڈیا اور سیاستدانوں نے فصائیہ کی یہ کہہ کر ستائش کی کہ اس نے  گھر میں گھس کر مارا، یعنی پاکستان کے اندر جاکر بم گرائے، مگر حقیقت ہے کہ یہ میزائل چالیس کلومیٹر دور سے ہندوستانی کنٹرول والے علاقے سے ہی داغے گئے۔

تکنیکی طور پر اسرائیلی ساخت کے یہ میزائل عمودی طور پر سیدھے زمین پر نہیں آتے ہیں، بلکہ ان کو بیضوی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ان کو دور سے ہی داغا جانا تھا۔ نئی دہلی میں جشن منایا گیا اور بتایا گیا کہ جیش محمد کے کئی سو اراکین مارے گئے۔

سنگھ کے مطابق، سیٹلائٹ ڈیٹا سے یہ تو پتہ چلا کہ میزائل بالا کوٹ کے پہاڑوں کی طرف گئے، مگر وہ ہدف پر گرے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے طیارے اس کی تصویر نہیں لے سکے۔ اس دوران پاکستانی فضائیہ اس علاقے میں متحرک ہو چکی تھی۔ کسی دوست ملک کے سٹیلائٹ کو بھی ٹارگیٹ کی تصویر نہیں مل پائی۔

 لہذا دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔  ایک   فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ افسر، جو اس مشن میں شامل تھے نے سنگھ کوبتایا کہ انہوں نے اگلے دن دوبارہ حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر سیاسی قیادت نے سختی کے ساتھ منع کردیا۔

 آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) اور اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فارنزک لیب،  کے مطابق تینوں ایس پی آئی سی ای-2000 بم تقریباً ایک جیسے زاویے پر لیکن ہدف سے تیس سے چالیس میٹر دور جا گرے۔ اس کی وجہ ہندوستانی فضائیہ کا صرف جی پی ایس پر انحصار تھا، جبکہ ان بموں کے لیے درست ہدف تک پہنچنے کے لیے 3ڈی ماڈلز اور جدید گائیڈنس ٹکنالوجی درکار تھی، جو ہندوستان کے پاس نہیں تھی۔

رپورٹ کے مطابق، ہدف کی بلندی کا اندازہ بھی غلط تھا۔ اگر جی پی ایس میں غلط اونچائی درج کی جائے، تو بم بھی غلط جگہ گرتے ہیں، چاہے طیارہ ہدف کے بالکل اوپر ہو۔ یہ تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حملہ تکنیکی لحاظ سے ناکام رہا۔

جوابی کارروائی کے طور پر  چند گھنٹوں بعدپاکستان نے ایل او سی پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ 27 فروری کی علی الصبح، پاکستان نے اوڑی سیکٹر میں ہندوستانی چیک پوسٹوں پر توپ خانے سے گولہ باری کی۔ یہ صرف ایک چال تھی۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ پاک فضائیہ نے جموں و کشمیر میں ہندوستانی اہداف کے قریب چھ فضائی حملے کیے۔  24 پاکستانی طیاروں نے ایل او سی کے اس پار چار کلومیٹر تک پرواز کی۔  راجوری کے نادن، لام، جھنگار، کیری اور ہمیرپور علاقوں، اور بھمبر گھاٹی میں بم گراکر طیارہ واپس چلے گئے۔

چونکہ یہ کارروائی بہت کم وقت میں کی گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اہداف پہلے سے طے اور نشاندہی شدہ تھے۔ پاکستانی حکام نے کہا کہ ان کے لڑاکا طیاروں کو خالی علاقوں میں بم گرانے کا حکم دیا گیا تاکہ جانی نقصان یا سویلین تباہی نہ ہو۔پاکستانی ایر فورس کے حکام نے ایک ویڈیو بھی ریلیز کی جس میں دکھایا گیا کہ طیاروں نے عسکری تنصیبات پر نشانہ لگایا اور پھر شعوری طور پر قریبی بنجر علاقوں میں بم گرائے تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔

پاکستانی فضائیہ  نے راجستھان کے انوگڑھ علاقے میں بھی ایک حملے کی کوشش کی، جو شاید ایک چال تھی، کیونکہ وہاں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ہندوستانی فضائیہ کو شمالی ہندوستان میں اپنے مختلف فضائی اڈوں پر حملے کا خدشہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیشتر جنگی طیارے پہلے ہی  مستعد گشت پر تھے تاکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری ردعمل دے سکیں۔ اسے ‘آپریشنل ریڈی نیس پیٹرول’ کہا جاتا ہے۔

چار ہندوستانی جنگی طیارے—دو میراج 2000 شمالی کشمیر میں بانڈی پورہ کے قریب، اور دو ایس یو -30 ایم کے آئی راجوری کے نوشہرہ علاقے میں —ایل او سی پر دفاعی جنگی گشت پر تھے۔ مزید دو ایس یو -30 ایم کے آئی طیارے ایک ائیر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ساتھ، جو کہ ایک فضائی کمانڈ پوسٹ ہے تمام فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے پاس صرف پانچاے ڈبلیو اے سی ایس طیارے ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس نو ہیں۔رپورٹس کے مطابق، ہندوستانی اے ڈبلیو اے سی ایس کو پاکستانی طیاروں کا مسلسل سراغ رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ کشمیر کی پہاڑی زمین اور زمینی رکاوٹوں سے ریڈار کی رینج متاثر ہوتی ہے۔

پاکستانی فضائیہ کے اسٹرائیک اسکواڈ میں چار میراج-III اور چار جے ایف-17 لڑاکا طیارے شامل تھے، جن کے ساتھ چار ایف-16 طیارے بطور حفاظتی اسکواڈ تھے۔

جموں و کشمیر میں زمینی طور پر ایم آئی جی- 21 بی آئی ایس او این ایس کو فوری پرواز کا حکم دیا گیا، جن میں ایک ابھینندن ورتمان چلا رہے تھے۔ جب وہ ایل او سی عبور کر گئے تو ان کا طیارہ میزائل سے نشانہ بنا، اور وہ ایجیکٹ ہو کر پاکستانی قبضے میں آ گئے۔

 پاکستانی فضا ئیہ نے علاقے میں تمام ریڈیو رابطے جام کر دیے تھے، جس سے ابھینندن کو کنٹرولر سے واپسی کے احکامات موصول نہ ہو سکے۔ ہندوستانی فضا ئیہ کے پائلٹ اور ایئر ڈیفنس کنٹرولرز مکمل الجھن میں آ گئے تھے۔ ایم آئی جی- 21  طیارہ ایک محفوظ ڈیٹا لنک سے محروم تھا، جو جدید فضائی جنگ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

 فضا ئیہ کے اعلیٰ افسران اس خامی پر شدید برہم تھے، جس کا الزام دفاعی تحقیقاتی ادارے اور تاخیر سے ہونے والی خریداریوں پر عائد کیا گیا۔ ایر فورس کے چیف، آر کے ایس بھدوریا، جو بعد میں بی جے پی میں شامل ہوگئے  نے اعتراف کیا کہ 27 فروری کو آپریشنل ڈیٹا لنک کی کمی نے ہندوستانی فضا ئیہ کی کارروائی کو متاثر کیا۔

پاکستان نے ابتدائی طور پر دو ہندوستانی پائلٹوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، لیکن بعد میں اسے ایک تک محدود کر دیا۔ہندوستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی ایف16کو مار گرایا، لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت حاصل نہ ہو سکا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی طیارہ پاکستانی حدود میں زمینی افواج کے ذریعے گرایا گیا۔مگر فارن پالیسی نے امریکی دفاعی حکام کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے سبھی ایف 16طیارے ثابت و سلامت ہیں۔

ہندوستان نے بعد میں تسلیم کیا کہ ایم آئی جی-21  کا ایک پائلٹ لاپتہ ہے، جسے پاکستان نے اپنی تحویل میں بتایا۔ یہ سب کچھ چند منٹوں میں ہوا۔ایک اور ناکامی ہندوستان کے سری نگر ایئربیس پر ہوئی، جب فضا ئیہ نے اپنے ہی ایم آئی -17 وی-5 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ تمام چھ افراد، بشمول ایک سویلین، ہلاک ہو گئے۔

 تحقیق سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ‘فرینڈ یا فو’ سسٹم کا تھا، جو سول فریکوئنسیوں کے ساتھ الجھ گیا۔ جنگ کے دباؤ میں، افسر نے اسے دشمن طیارہ سمجھ کر مار گرایا، بعد میں سزا دی گئی۔ اس نقصان کا علم ہو گیا تھا لیکن اس کو2019 کے انتخابی نتائج آنے تک خفیہ رکھا گیا۔

 ایک اور واقعہ جس کی کوریج نہیں ہوئی، وہ بارمیر، راجستھان میں پیش آیا۔ ایک سخوئی طیارے نے اپنے ہی ایم آئی جی- 21  پر میزائل داغ دیا، لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گیا۔

ایک سابق رکن اسمبلی نے واقعے پر لکھا، بعد میں ایک افسر نے تصدیق کی کہ اگر یہ میزائل نشانہ لگا لیتا، تو ایر فورس کا سربراہ برخاست ہوتا۔اس لیے  میڈیا کی توجہ جان بوجھ کر ابھینندن کی گرفتاری پر رکھی گئی۔

ستائیس  فروری کو شام پاکستانی سکریٹری خارجہ  تہمیہ جنجوعہ، نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کو بتایا کہ ‘ہندوستان کے نو میزائلوں کو پاکستان پر نشانہ بنانے کے لیے تیار رکھا گیا ہے۔ پاکستان نے انتباہ دیا کہ وہ اپنی میزائل طاقت سے ‘تین گنا زیادہ’ جوابی کارروائی کرے گا، اور اپنی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا۔

مودی نے ایک انتخابی ریلی میں کہا؛’پاکستان ہمیں دھمکی دیتا ہے، کہ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ بٹن دبائے گا۔’ 17 اپریل کو انہوں نے کہا، ‘اب ہندوستان رونے والا نہیں، پاکستان کو رونا ہو گا۔ ہمارے پاس سب ایٹم بموں کی ماں ہے۔ میں نے کہا، پاکستان کو کہہ دو، جو کرنا ہے کرو، ہندوستان بدلہ لے گا۔’

ابھینندن کی گرفتاری اور رہائی ہندوستان-پاکستان تعلقات میں ایک نازک لمحہ تھی۔ حیران کن طور پر، دونوں ممالک کے حکومت حامی میڈیا نے کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا، اور پائلٹ کی واپسی کو بحران کے خاتمے کے طور پر پیش کیا۔

 پاکستانی میڈیا نے ابھینندن کی گرفتاری کو اپنی فوج کی کامیابی کے طور پر دکھایا، جبکہ ہندوستانی میڈیا نے انہیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔کارگل جنگ کی طرح، اس بار بھی ہندوستانی حکومت اور فوج کو قومی جذبات کی حمایت حاصل تھی، اور میڈیا نے حب الوطنی کو آزادرپورٹنگ پر ترجیح دی۔ ارنب گوسوامی اوروہاٹس ایپ چیٹس کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ میڈیا کو حکومت کے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔

 اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ کس طرح ہندوستانی میڈیا نے قوم پرستی کے نام پر تحقیقاتی صحافت کو ترک کر دیا ہے۔ہندوستانی میڈیا نے ممکن ہے اپنے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی ہو، مگر بین الاقوامی ساکھ اور فوجی نتائج نے واضح کر دیا کہ ہندوستان کو عملی طور پر نقصان ہوا۔

پاکستانی فضائیہ نے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جبکہ ہندوستان کی قیادت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اگر اس بحران میں ہندوستان کے پائلٹ ابھینندن مارے جاتے، تو ردعمل شدید ہوتا، اور مودی اس بحران کو ختم نہیں کر پاتے۔ ایک معمولی غلطی بڑے پیمانے پر جنگ کو جنم دے سکتی تھی۔

سوشانت سنگھ کے مطابق، ہندوستان کی فوجی ناکامی واضح تھی، چاہے اسے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ ایک کمزور حریف کے خلاف بھی فضا ئیہ فیصلہ کن برتری نہیں دکھا سکی۔ہندوستانی فوجی قیادت غیر ذمہ دار اور غیر پیشہ ور نظر آئی، جو سیاسی قیادت کی خواہشات کے سامنے کوئی مؤثر مزاحمت نہ کر سکی۔

اس تحقیقی مضمون کے آخر میں سنگھ تحریر کرتے ہیں کہ،’ایک سیاسی طور پر کمزور مودی،جو کمزور معیشت سے نبرد آزما ہے، کسی بہانے سے ایک بار پھر ملک کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کراسکتا ہے۔’ ان کی  یہ پیشن گوئی ایک ماہ بعد ہی حقیقت کی شکل میں سامنے آگئی ہے۔

Next Article

ڈی جی پب نے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے پر تنقید کی، سی پی آئی لیڈر نے اشونی ویشنو کو لکھا

سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ نے وزیر اطلاعات و نشریات کو لکھے خط میں کہا ہے کہ دی وائر جیسی ذمہ دار ویب سائٹ کو بلاک کرنا غلط ہے۔ ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز  کی تنظیم ڈی جی پب نے بھی اس قدم کی مذمت کی ہے۔

نئی دہلی: حکومت کی جانب سے دی وائر کی ویب سائٹ کو  بلاک کیے جانے کے بعد  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے وزیر اطلاعات و نشریات کو خط لکھا ہے۔ وہیں، ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز کی تنظیم ڈی جی پب  نےدی وائر کو بلاک کرنے کی مذمت کی ہے ۔

دی وائر کو معلوم ہوا ہے کہ اس کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کا آرڈر وزارت اطلاعات و نشریات  کی جانب سے آیا ہے۔ مختلف انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اس بارے میں مختلف باتیں کہہ رہے ہیں۔

ڈی راجہ کا خط

وزیر اشونی ویشنو کو اپنے خط میں ڈی راجہ نے بتایا ہے کہ کس طرح’آپریشن سیندور’ کے دوران میڈیا میں گمراہ کن اور اشتعال انگیز معلومات کھلے عام پھیلائی گئیں۔

‘کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی جانب سے، میں ‘آپریشن سیندور’ کے بعد کئی ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے نشر کیے گئے اشتعال انگیز اور گمراہ کن مواد پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہوں۔ جب پورا ملک  دہشت گردی کے خلاف متحد ہے، ہم ایک خطرناک رجحان کا مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں کچھ چینل اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے  رہے ہیں، بغیر کسی سرکاری تصدیق کے جھوٹے بیانیے پھیلا رہے ہیں، اور جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں – حالانکہ حکومت یا فوج کی طرف سے ایسی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔’

راجہ نے لکھا کہ اس طرح کی رپورٹنگ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس کے برعکس دی وائر جیسی ذمہ دار نیوز ویب سائٹ کو بلاک کر دیا گیا ہے۔

‘اس طرح کی کوریج نہ صرف ذمہ دارانہ صحافت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ قومی یکجہتی کو بھی براہ راست نقصان پہنچاتی ہے۔ جنگی موقف اور برادریوں کو نشانہ بنانا شہریوں کے درمیان اعتماد کو ختم کرتا ہے، خوف پیدا کرتا ہے، اور ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔’

‘عوامی خدشات کو دور کرنے کے بجائے انہیں مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری نشریاتی ادارے بھی اس غیر ذمہ دارانہ لہجے کی نقل کر رہے ہیں اور لوگوں کو درست معلومات فراہم کرنے میں اپنے بنیادی فرض میں ناکام رہے ہیں۔’

کئی مواقع پر خود فوج کو آگے آنا پڑا اور ان چینلوں کی جھوٹی خبروں کی تردید کرنی پڑی۔ وہیں دوسری جانب دی وائر ڈاٹ اِن جیسی ذمہ دار ویب سائٹس کو بلاک کر دیا گیا ہے۔’

راجہ نے کہا کہ سی پی آئی اس بات کو یکسر مسترد کرتی ہے کہ پہلگام  کے واقعہ کو نفرت اور تفرقہ پیدا کرنےکے تماشے میں تبدیل کیا جائے۔

‘ہم وزارت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسے چینلوں اور پلیٹ فارمز کے خلاف سخت کارروائی کرے جو فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتے ہیں اور غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔’

‘ساتھ ہی، ان پلیٹ فارمز تک رسائی بحال کی جائے جو ذمہ داری سے کام کرتے ہیں اور قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

‘ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزارت اطلاعات کے ساتھ ساتھ دفاع، داخلہ اور خارجہ امور کی وزارتیں باقاعدہ اور حقائق پر مبنی بریفنگ دیں تاکہ عوام کو قابل اعتماد معلومات مل سکیں اور غلط معلومات کو روکا جا سکے۔’

راجہ نے آخر میں لکھا؛


‘کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے سچائی  کی موت ہوتی ہے، لیکن آج سچ کی قربانی اس وقت دی جا رہی ہے جب جنگ جیسی کوئی صورتحال بھی نہیں ہے۔ سچ کو شور، تعصب اور سنسنی خیزی کے نیچے دفن کیا جا رہا ہے۔’


ڈی جی پب کا بیان

ڈی جی پب  نے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔

ڈی جی پب نے کہاہے؛


‘ ڈی جی پب کے بانی رکن دی وائر نے جمعہ، 9 مئی کو ایک بیان جاری کیا ہےکہ ان کی ویب سائٹ تک رسائی کو کچھ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے سرکاری حکم  کے بعد بلاک کر دیا ہے۔ ایک انٹرنیٹ سروس فراہم کنندہ نے کہا کہ یہ بلاک وزارت اطلاعات و نشریات نے آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت کیا ہے۔’

‘اگر ہندوستانی حکومت نے واقعی دی وائر تک رسائی روک دی ہے تو یہ پریس کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ آزاد میڈیا کو خاموش کرنا جمہوریت کی حفاظت نہیں بلکہ اسے کمزور کرتا ہے۔’


بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ملک کے لیے انتہائی حساس وقت ہے اور ایسے اقدامات تعقل پسند سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔


‘ جنگ کےاندیشے یا اس کی ہولناکیوں کو بہانہ بنا کر آزاد صحافت کوخاموش نہیں کیا جا سکتا۔’


بیان میں مزید کہا گیا ہے؛

‘فیک نیوز اور گمراہ کن معلومات کے خلاف سب سے مؤثر تدبیر آزاد میڈیا ہے۔’

‘ہم ایسی سینسر شپ کو فوراً ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کے احکامات  کو ابھی تک عام نہیں کیا گیا  ہے۔ ہندوستانی حکومت کو آزادی اظہار اور آئینی اقدار کا تحفظ کرنا چاہیے اور آزاد میڈیا تک بلا روک ٹوک رسائی بحال کرنی چاہیے کیونکہ جمہوریت خاموشی سے پروان نہیں چڑھتی۔’

Next Article

حکومت کی جانب سے ویب سائٹ بلاک کیے جانے پر دی وائر کا بیان

نومئی 2025 کو دی وائر کے متعدد قارئین نے اطلاع دی کہ وہ دی وائر کی انگریزی ویب سائٹ دی وائر ڈاٹ اِن کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ اس بارے میں  دی وائر کا بیان۔

نو مئی 2025 کو دی وائر کے متعدد قارئین نے اطلاع دی کہ وہ دی وائر کی انگریزی ویب سائٹ دی وائر ڈاٹ اِن کو نہیں دیکھ پا رہے  ہیں ۔ اس بارے میں دی وائر کا بیان ۔

§

معزز قارئین،

پریس کی آزادی کے آئینی طور پر دیے گئے حق کی براہ راست خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت ہند نے دی وائر ڈاٹ اِن کو  پورے ملک میں بلاک کر دیا ہے ۔ دی وائر کی ویب سائٹ  کے ویب ایڈریس پر جانے پر انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے کی طرف سے ایک پیغام (نیچے تصویر) میں کہا جا رہا ہے کہ اسے ‘ الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت کےآرڈڑ کے مطابق آئی ٹی ایکٹ، 2000 کے تحت بلاک کیا گیا ہے۔’

ایسے وقت میں جب سچی، منصفانہ اور تعقل پسند آوازیں ، خبریں اور معلومات کے ذرائع ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، ہم اس طرح کی  سینسرشپ کی مخالفت کرتے ہیں۔

ہم اس من مانی کارروائی سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔

آپ نے پچھلے دس سالوں میں دی وائر کے کام کو سپورٹ کیا ہے، اور ہمیں امید ہے کہ آپ اس بار بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

ہم اپنے قارئین کو سچی اور درست خبریں فراہم کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ستیہ میو جیتے۔

تاریخ: 09.05.2025

Next Article

سیاسی جماعتوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملوں کی حمایت کی، کہا – مسلح افواج پر فخر ہے

‘آپریشن سیندور’ کے تحت ہندوستانی فوج کی جانب سے پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے نو کیمپوں پر حملے کیے جانے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اس کی حمایت کی اور سکیورٹی فورسز کی تعریف کی۔ ان جماعتوں نے کہا کہ قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے ایک کیمپ کا منظر دکھایا گیا، جس پر 'آپریشن سیندور' کے تحت حملہ کیا گیا۔ (تصویر: @MEAIndia/Youtube via PTI)

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے ایک کیمپ کا منظر دکھایا گیا، جس پر ‘آپریشن سیندور’ کے تحت حملہ کیا گیا۔ (تصویر: @MEAIndia/Youtube via PTI)

نئی دہلی: مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے بدھ کی صبح پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں نو دہشت گرد کیمپوں پر حملوں کی حمایت کی ہے ۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا، ‘حکومت ہند، ہندوستانی دفاعی فورسز نے یہ یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ کوئی بھی فوجی اور شہری ہدف  نشانہ نہ بنے۔ انہوں نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور لانچنگ پیڈز کو نشانہ بنایا ہے۔’

انہوں نے کہا،’بدقسمتی سے ردعمل متناسب نہیں ہے۔ ان کی وجہ سے ہم اس حال میں ہیں۔ اگر وہ ہمارے معصوم شہریوں کو نشانہ نہ بناتے تو ہم یہاں نہ ہوتے۔ ہم نے اسے اکسایا نہیں۔ ہم نے اشتعال انگیزی کا جواب دیا ہے۔ اب پاکستان کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ ہمارا ردعمل پہلگام کے واقعے تک ہی محدود تھا۔ انہیں محتاط رہنا چاہیے کہ معاملات قابو سے باہر نہ جائیں۔’

عبداللہ نے کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں پاکستان کی طرف سے جوابی گولہ باری میں شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات کی بھی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صورتحال سے نمٹ رہے ہیں اور متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں۔

‘پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد کانگریس پوری طرح مسلح افواج اور حکومت کے ساتھ ‘

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے مسلح افواج کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ‘پاکستان اور پی او کے سے نکلنے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی مضبوط قومی پالیسی ہے۔ ہمیں اپنی ہندوستانی مسلح افواج پر بے حد فخر ہے، جنہوں نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے کیمپوں کو تباہ کیا ہے۔ ہم ان کے عزم اور ہمت کو سراہتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘پہلگام دہشت گردانہ حملے کے دن سےہی انڈین نیشنل کانگریس سرحد پار دہشت گردی کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن کارروائی میں مسلح افواج اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ قومی اتحاد اور یکجہتی وقت کی ضرورت ہے اور انڈین نیشنل کانگریس ہماری مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہمارے قائدین نے ماضی میں راستہ دکھایا اور ہمارے لیے قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔’

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘ہمیں اپنی مسلح افواج پر فخر ہے۔ جئے ہند!’

کانگریس کے چیف ترجمان اور سینئر لیڈر جئے رام رمیش نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد منعقدہ آل پارٹی میٹنگ میں حکومت کو کانگریس کی حمایت کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا، ‘پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے تمام ذرائع کو ختم کرنے کے لیے ہندوستان کا عزم ہمیشہ اٹل اور ہمیشہ اعلیٰ ترین قومی مفاد میں ہونا چاہیے۔ یہ اتحاد اور یکجہتی کا وقت ہے۔ 22 اپریل کی رات سے ہی کانگریس واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے پر ملک کے ردعمل میں حکومت کو ہماری مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ کانگریس ہماری مسلح افواج کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔’

بی جے پی کے ایکس ہینڈل نے مرکزی حکومت کی پریس ریلیز کو شیئر کیا اور اسے ‘جئے ہند’ کے نعرے کے ساتھ ٹیگ کیا۔ بی جے پی نے اس موقع پر اپنی طاقت دکھانے کے لیے اسٹرائیک کے مناظر اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تقاریر کا ایک ویڈیو شیئر کیا، جس کے ساتھ کیپشن لکھا تھا،’ کہا تھا نہ، چن چن کر ماریں گے!’

بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا، ‘یہ پہلگام کے لیے ہندوستان کا پیغام ہے۔ اگر آپ ہمیں چھیڑیں گے تو ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان کی روح پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہندوستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار اور پرعزم ہے۔ ہم دہشت گردی کے بہتے گھاؤ کو مٹا دیں گے۔’

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شردچندرا پوار) کے ترجمان انیش گوانڈے نے اپنے ابتدائی ریمارکس میں کہا کہ ‘…ایک ذمہ دار حزب اختلاف کو دکھاوے یا جنگی اشتعال سے بچنا چاہیے۔’

انہوں نے کہا،’ہم امن کی دعا کرتے ہیں، ہم سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ میں خاص طور پر سرحدوں پر رہنے والے لوگوں کے لیے دعا کرتا ہوں – جو بغیر کسی خواہش  کے جنگ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔’

شیوسینا (یو بی ٹی) اور آر جے ڈی نے ہندوستانی فوج کو مبارکباد دی

شیو سینا (یو بی ٹی) کے رہنما آدتیہ ٹھاکرے نے کہا، ‘دہشت گردی کی تمام شکلوں کو ختم کیا جانا چاہیے… ان پر  اتنی مارپڑنی چاہیے کہ دہشت گردی کو دوبارہ موقع نہ ملے۔ جئے ہند!’

شیو سینا (یو بی ٹی) کی ترجمان پرینکا چترویدی نےحملوں کا جشن منایا۔ انہوں نے کہا، انہوں نے دھرم کے بارے میں پوچھا۔ اب اپنے حرکتوں کا خمیازہ بھگتو۔ ہندوستانی فوج۔’

انہوں نے کہا، ‘پاکستانی شہریوں کو ان کے پاکستانی فوجی جرنلوں کی طرف سے بنائے گئے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے ہندوستانی فوج کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے آپ کے گھر میں گھس کر اسے صاف کر دیا۔’

راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو نے ہندوستانی فوج کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا، ‘جئے بھارت! نہ تو دہشت گردی  ہونی چاہیےاور نہ ہی  علیحدگی پسندی! ہمیں اپنے بہادر فوجیوں اور ہندوستانی فوج پر فخر ہے۔’

اسد الدین اویسی نے حملوں کا خیرمقدم کیا

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا، ‘میں پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر دفاعی افواج کی جانب سے کی گئی سرجیکل اسٹرائیکس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ پاکستان کے ڈیپ اسٹیٹ کو کڑا سبق سکھایا جانا چاہیے تاکہ پہلگام جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ پاکستان کے دہشت گردی کے  ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کیا جانا چاہیے۔ جئے ہند۔’

دریں اثناکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولت بیورو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے پہلے ہی ‘دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کے خلاف’ اٹھائے گئے اقدامات میں حکومت کی حمایت کی ہے۔ اس نے حکومت پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کی اپیل کی۔’

سی پی آئی (ایم) نے کہا، ‘ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پہلگام میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے ذمہ دار لوگوں کو حوالے کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ اس کی سرزمین سے کوئی بھی دہشت گرد کیمپ کام نہ کرے۔ حکومت ہند کو عوام کے اتحاد اور ملک کی سالمیت کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔’

سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن واحد پارٹی ہے جس نے ‘کشیدگی کو ختم کرنے اور سفارت کاری’ کا مطالبہ کیا

تاہم، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) لبریشن (سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن) واحد پارٹی ہے جس نے ‘ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ سے بچنے کے لیے کشیدگی میں کمی اور سفارت کاری’ پر زور دیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستانی حکام نے اس آپریشن کو قابل اعتماد انٹلی جنس کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اسے ایک درست اور تحمل کے ساتھ دیا ہوا جواب قرار دیا ہے، جو ایک اچھی طرح سے منصوبہ بند اور کشیدگی نہ بڑھنےکے ساتھ کیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں سمیت عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ آپریشن سیندور کے بعد جموں و کشمیر میں سرحد پار سے فائرنگ اور کئی عام شہریوں کے مارے جانے کی خبریں پہلے سے  ہی آ رہی  ہیں۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کے خطرے کے واضح آثار ہیں۔ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے تمام کوششیں کی جانی چاہیے اور دہشت گردی کو روکنے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے تمام غیر فوجی سفارتی آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے 200 مراکز میں وسیع پیمانے پر ماک ڈرل کا اعلان ‘عوامی بیداری پھیلا کر سیکورٹی کو مضبوط کرنے کی ایک تکنیک’ہے لیکن اسے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس طرح کی ڈرل ہندوستان کے اندرونی ماحول کو خراب نہ کریں اور جنگ کے لیے شاونسٹک شور پیدا نہ کریں۔

نیز، اس نے حکومت پاکستان سے دہشت گردی کے کیمپوں کو بند کرنے کی اپیل کی ۔ پارٹی نے کہا، ‘ہم پاکستانی حکومت سے پاکستان میں دہشت گردی کے کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پاکستانی عوام سے دہشت گردی اور جنگ کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔ آئیے ہم ایک اور بھارت- پاک جنگ کے لیے زوردار نہ کہیں اور دو طرفہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دباؤ بنائیں۔’

Next Article

وزارت دفاع کی میڈیا کو ہدایت – دفاعی کارروائیوں، سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی لائیو کوریج نہ کریں

وزارت دفاع نے تمام میڈیا چینلوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور لوگوں کوسخت ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دفاعی آپریشنز اور سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی لائیو کوریج یا ریئل ٹائم رپورٹنگ سے گریز کریں۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزارت دفاع نے تمام میڈیا چینلوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور لوگوں کو ایک سخت ایڈوائزری جاری کی ہے، جس میں ان سے دفاعی کارروائیوں اور سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی لائیو کوریج یا ریئل ٹائم رپورٹنگ سے گریز کرنے کو کہا گیا ہے۔

ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ایسی حساس یا ذرائع پر مبنی معلومات کے انکشاف سے آپریشن پر اثر پڑتا ہے اور جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

وزارت نے کارگل جنگ، 26/11 ممبئی حملے اور قندھار ہائی جیکنگ جیسے ماضی کے واقعات  کوقبل از وقت یا بے قابو رپورٹنگ سے لاحق خطرات کی مثالوں کے طور پر حوالہ دیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ‘کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک (ترمیمی) رولز 2021 کے سیکشن 6(1)(پی) کے مطابق، انسداد دہشت گردی آپریشنز کے دوران صرف نامزد افسران کی وقتاً فوقتاً بریفنگ کی اجازت ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرسے اپیل  ہے کہ وہ ملک کی خدمت میں اعلیٰ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے کوریج میں احتیاط، حساسیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔’

وزارت نے میڈیا تنظیموں اور لوگوں سے مکمل تعاون کی اپیل کی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کو کہا ہے کہ آپریشن کی تفصیلات کو سرکاری طور پر جاری ہونے تک خفیہ رکھا جائے۔

معلوم ہو کہ ‘آپریشن سیندور’ کے تحت ہندوستانی فوج نےپاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں 9 دہشت گرد کیمپوں پر کیے گئے حملوں کے بعد بدھ (8 مئی) کو جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی فائرنگ میں13 شہری کی جان چلی گئی اور 59 لوگ  زخمی ہوگئے تھے۔

جمعرات (9 مئی) کو، پاکستان نے ادھم پور، جموں اور پٹھان کوٹ میں ہندوستانی  فوجی ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا ۔ ہندوستان کی وزارت دفاع نے کہا کہ ان حملوں کو ناکام بنا دیا گیا اور کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔