یاد رفتگاں: گزشتہ دنوں دار فانی سے رخصت ہوئےمؤرخ سریندر گوپال اپنےتمام علمی کارناموں میں وولگا کو گنگا سے جوڑنے والے سماجی، ثقافتی اور اقتصادی روابط کی چھان بین کرتے رہے۔عصر آئندگاں میں جب بھی ہندوستان، روس اور وسطی ایشیا کے تاریخی تعلقات پر بات کی جائے گی، ان کے علمی کارنامے اہل علم کے لیے رہنمائی کا کام کریں گے۔
نیشنل آرکائیوز کے ایک پروگرام میں ڈاکٹر سریندر گوپال۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: وزارت ثقافت/پی آئی بی)
پٹنہ اور بہار کی تاریخ سے لے کریوریشیا تک سے ہندوستان کے تاریخی تعلقات کو تلاش کرنے والے مؤرخ سریندر گوپال 3 دسمبر 2022 کو انتقال کر گئے۔
پٹنہ یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد رہے پروفیسر سریندر گوپال (1936-2022) نے اپنی تحریروں میں جہاں ایک طرف قرون وسطیٰ اور جدید بہار اور انیسویں صدی کے پٹنہ کا تاریخی مطالعہ پیش کیا۔وہیں، انہوں نے پندرہویں سے اٹھارویں صدی تک یوریشیا کے ساتھ ہندوستان کے تجارتی تعلقات کا تاریخی مطالعہ بھی کیا۔
تجارت اور کامرس کی تاریخ سے انہیں گہری دلچسپی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے جین کمیونٹی اور اس کی سماجی و اقتصادی تاریخ کے بارے میں بھی لکھا۔
تعلیمی سفر
سریندر گوپال 21 جولائی 1936 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گیان پرکاش گوپال انڈین پوسٹل سروس میں افسر تھے، جنہیں اردو ادب سے گہری دلچسپی تھی۔ 1942 میں سریندر گوپال کے والد پنجاب سے پٹنہ آئے، جہاں سریندر گوپال نے اپنی تعلیم مکمل کی۔
سریندر گوپال نے پٹنہ یونیورسٹی سے تاریخ میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یہاں ان کونامور مؤرخ کالی کنکر دت، رام شرن شرما، سید حسن عسکری اور بمل پرساد جیسے اساتذہ سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ 1958 میں پوسٹ گریجویشن کے بعد سریندر گوپال پٹنہ یونیورسٹی میں ہی لیکچرار ہو گئے۔ اس کے چار سال بعد انہوں نے حکومت ہند کے ذریعے ماسکو میں قائم اکیڈمی آف سائنسز (اب انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز) سے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کی۔
اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں انہوں نے سولہویں-سترہویں صدی کے گجرات میں تجارت، کامرس اور دستکاری کی تاریخی حالت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر کے اے انتنووا کی نگرانی میں لکھا گیا یہ تحقیقی مقالہ بعد میں 1975 میں کتابی صورت میں ‘کامرس اینڈ کرافٹس ان گجرات سکسٹینتھ ایند سیونٹینتھ سنچریز’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مقالے میں انہوں نے انگریزی، ڈچ، پرتگالی اور فارسی میں دستیاب تاریخی دستاویزات کے ساتھ ساتھ روسی زبان کے دستاویزوں کا بھی بھرپوراستعمال کیا۔
سریندر گوپال دسمبر 1992 سے جولائی 1996 تک پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے صدر بھی رہے، جہاں سے وہ سال 1996 میں ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، پنجابی یونیورسٹی اور ناگپور یونیورسٹی میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔
فروری 1992 میں، انہوں نے نئی دہلی میں منعقد انڈین ہسٹری کانگریس کے 52ویں سالانہ اجلاس کے قرون وسطیٰ کی تاریخ کے حصے کی صدارت کی، جہاں صدارتی تقریر میں انہوں نے سولہویں سترہویں صدی میں وسطی ایشیا میں سرگرم ہندوستانیوں کی تاریخ پر تبادلہ خیال کیا۔
بہار اور پٹنہ کی تاریخ
سریندر گوپال نے علاقائی اور مقامی تاریخ کی افہام وتفہیم پر زور دیا۔ اس مرحلے میں انہوں نے بہار اور پٹنہ کی تاریخ پر ‘میپنگ بہار’ اور ‘پٹنہ ان دی نائنٹینتھ سنچری’ جیسی کتابیں لکھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔
انہوں نے اپنی کتاب ‘میپنگ بہار’ میں بہار کے قرون وسطی سے جدید دور تک کے تاریخی سفر کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ اس کتاب میں انہوں نے دکھایا کہ کس طرح انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی کی توسیع اور استعمار نے بہار کو متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ بہار کی معیشت کی نوآبادیات، صنعتی سرمایہ داری کی ترقی، جدید مغربی تعلیم کا پھیلاؤ اور اس کے اثرات اور قومی تحریک میں بہار کی حصہ داری جیسے اہم موضوعات کا تجزیہ بھی پیش کیا۔
سریندر گوپال نے اٹھارویں صدی کی ابتدائی دہائیوں سے لے کر بیسویں صدی تک بہار کے کسانوں کی حالت، ان کی مزاحمت اور تحریکوں کی بھرپور تاریخ کوبھی قلمبند کیا۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں بہار کے چھوٹے شہروں کی حالت اور شہری ترقی کے بدلتے پیٹرن کا مطالعہ بھی انہوں نے پیش کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بہار میں برہمو سماج اور آریہ سماج کی موجودگی اور دلت برادری کی حالت کا بھی تجزیہ کیا۔
وہیں، ‘پٹنہ ان دی نائنٹینتھ سنچری’ میں انھوں نے دیسی/ملکی ذرائع بالخصوص اردو زبان میں تاریخی دستاویزوں کا استعمال کرتے ہوئے انیسویں صدی میں پٹنہ کی سماجی و اقتصادی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کیا۔انہوں نے پٹنہ کی سماجی زندگی پر استعمار اور جدیدیت کے اثرات کو بھی نشان زدکیا۔
اسی سلسلے میں، انہوں نے انیسویں صدی کے پٹنہ میں اردو میں تاریخ نویسی کے بارے میں بھی لکھا، جس میں انہوں نے اردو میں لکھی گئی تاریخی کتابیں مثلاً، اجودھیا پرساد کی گلزار بہار، منشی بنایک پرساد کی تواریخِ اجنیہ اور بہاری لال فطرت کی تواریخ فطرت کے بارے میں لکھا۔
اٹھارہویں-انیسویں صدی میں بہار آنے والے برطانوی سیاحوں اور مصوروں کے سفرناموں اور مصوری میں بہار کو کس طرح پیش کیا گیاہے؛اس کا ایک فکر انگیز مطالعہ، سریندر گوپال نے تیجکر جھا کے ساتھ ‘بہار ان دی آئیز آف برٹش ٹریولرز اینڈ پینٹرز’ میں پیش کیا۔
سید اعجاز حسین کے ساتھ مل کر سریندر گوپال نے مغل شہزادہ زبیرالدین گورگانوی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’موج سلطانی‘ کا ہندی میں ترجمہ کیا اوراس کو مرتب کیا۔ یہ کتاب ‘کامیشور سنگھ بہار ہیریٹیج سیریز’ کے تحت شائع ہوئی۔ سریندر گوپال نے مہارادھیراج کامیشور سنگھ کلیانی فاؤنڈیشن (دربھنگہ) کے ذریعے شائع کردہ ‘بہار ہیریٹیج سیریز’ کے تحت نایاب تاریخی کتابوں کی اشاعت میں بھی قابل ذکر کردار ادا کیا۔
سماجیات کے ماہرہیتوکر جھا (1931-2017)، جے بی پی سنہا اور کے ایم تیواری کے ساتھ مل کر انہوں نے دیہی بہار کے سماجی ڈھانچے کا بھی مطالعہ کیا، جو ‘سوشل اسٹرکچر اینڈ الائنمنٹس: اے اسٹڈی آف رورل بہار’ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ ہیتوکر جھا کے ساتھ ہی انہوں نے بہار اور جھارکھنڈ کی عوامی زندگی کا مطالعہ کیا، جسے ‘پیپل آف انڈیا’ سیریز کے تحت اینتھروپولوجیکل سروے آف انڈیا نے شائع کیا۔
باہمی رابطوں کی تاریخ: ہندوستان، یوریشیا اور وسطی ایشیا
ماسکو میں تحقیق کے دوران سریندر گوپال نے روسی زبان پر عبور حاصل کیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنا مقالہ بھی روسی زبان میں تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنی مختلف کتابوں میں ہندوستان اور روس، ہندوستان اور وسطی ایشیا کے تاریخی تعلقات پر گہری تحقیق کی۔ ان کتابوں کے ذریعے انہوں نے روسی آرکائیوز میں موجود ہندوستان سے متعلق تاریخی دستاویزات کو سامنے لانے کا اہم کام بھی کیا۔
ہندوستان، روس اور وسطی ایشیا کے باہمی تعلقات کے تاریخی پس منظر کی چھان بین کرتے ہوئے انھوں نے فکر انگیز کتابیں لکھیں، جن میں انھوں نے سترہویں-اٹھارہویں صدی میں روس میں مقیم ہندوستانیوں اور ان کی اقتصادی-ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں لکھا۔ انہوں نے بیسویں صدی کی دوسری تیسری دہائی میں تاشقند میں سرگرم ہندوستانی مجاہدین آزادی کے بارے میں بھی لکھا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ہندوستان اور وسطی ایشیا کے درمیان ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی رابطوں پر بھی غوروفکرکیا۔
سال 2017 میں شائع ہونے والی اپنی ایک اہم کتاب’ بارن ٹو ٹریڈ میں’ سریندر گوپال نے قرون وسطی اور ابتدائی جدید ادوار میں یوریشیا میں سرگرم ہندوستانی تاجر برادریوں کی تاریخ لکھی۔ اس کتاب میں انھوں نے مغربی ایشیا، وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تجارتی تعلقات کی تاریخ کو قلمبند کیا۔
سریندر گوپال نے پندرہویں سے اٹھارویں صدی کے درمیان ایران، یمن، روس، پامیر کے مختلف خطوں میں ہندوستانی تاجروں کی موجودگی، مقامی تاجروں کے ساتھ ان کے تعاون اور مسابقت، ان کی تجارتی تنظیم اور مارواڑی بارائیف جیسے ہندوستانی تاجروں کی دلچسپ تاریخ کا تفصیلی ذکر کیا۔
تجارت اور کامرس کی تاریخ میں ان کی گہری دلچسپی نے انہیں جین برادری کی تاریخ کی طرف راغب کیا۔ انہوں نے جین برادری کی سماجی و اقتصادی زندگی اور اس کے تاریخی ذرائع، جینوں کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں فکر انگیز مضامین لکھے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مغلیہ دور میں آگرہ، مشرقی ہندوستان اور بہار میں جینوں کی موجودگی، ویرجی وورا اور جگت سیٹھوں کے تاریخی کردار کے بارے میں بھی لکھا۔
انہوں نے جین برادری کی تاریخ کو جاننے کے ایک ماخذ کے طور پر ‘وگیہ پتی پترا’ کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ان کی یہ تحریریں ‘جینس ان انڈیا: ہسٹوریکل ایسیز’کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئی۔
اعزاز
سید اعجاز حسین اور سنجے گرگ نے مؤرخ سریندر گوپال کے اعزاز میں’آلٹرنیٹو آرگیومنٹس’ نامی کتاب کی تدوین کی۔اس کتاب میں عرفان حبیب، شیرین موسوی، امتیاز احمد، دیپک کمار، یوجینیا وینینا، اوما داس گپتا، عشرت عالم، سید علی ندیم رضوی، بنئے بھوشن چودھری، ہمادری بنرجی، ایم اے ڈیوڈ وغیرہ جیسے دانشوروں کے مضامین شامل ہیں۔
ان مضامین میں بہار کی تاریخ، تجارت اور کامرس، قوم پرستی اور تحریک آزادی اور ہندوستان کی معاشی تاریخ جیسے مضامین لکھے گئے، جو خود سریندر گوپال کی دلچسپی کے موضوعات تھے اور جن پر وہ عمر بھر لکھتے رہے۔
مؤرخ سریندر گوپال نے اپنے پورے کام کے دوران وولگا کو گنگا سے جوڑنے والے سماجی-ثقافتی-اقتصادی روابط کی چھان بین جاری رکھی۔آنے والے سالوں میں جب بھی ہندوستان، روس اور وسطی ایشیا کے درمیان تاریخی تعلقات پر بات کی جائے گی،سریندر گوپال کی فکر انگیز کتابیں تاریخ دانوں اور اسکالرز کے لیے رہنما ئی کا کام کریں گی۔
(شبھ نیت کوشک ستیش چندر کالج، بلیا میں تاریخ کے استاد ہیں۔)