سال2018میں18ریاستوں کے170اضلاع میں سروے کرایا گیا تھا۔ اس دوران کل 86528 لوگوں نے خود کو غلاظت ڈھونے والا بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا،لیکن ریاستی حکومتوں نے صرف 41120 لوگوں کو ہی غلاظت ڈھونے والا مانا ہے۔ بہار، ہریانہ، جموں و کشمیر اور تلنگانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے یہاں غلاظت ڈھونے والا ایک بھی آدمی نہیں ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان کی 14 ریاستوں کے 84 اضلاع میں 40 ہزار سے زیادہ افراد کی شناخت غلاظت ڈھونے کا کام کرنے والوں کے طور پر کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے سال 2018 میں مینوئل اسکیوینجر کی شناخت کے لئے شروع کئے گئے سروے سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار سال 2013 میں کرائے گئے پچھلے سروے کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ اس وقت 13 ریاستوں میں سروے کرائے گئے تھے، جس میں 14505 مینوئل سیکوینجرس کی شناخت کی گئی تھی۔
دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق نئے سروے کی بنیاد پر 14 ریاستوں کے 84 اضلاع میں اب تک 41120 مینوئل سکیوینجرس کی شناخت کی گئی ہے۔ دونوں سروے کو ملاکر، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کل 55625 لوگ غلاظت ڈھونے کا کام کر رہے ہیں۔ اس میں سے تقریباً 70 فیصدی سے بھی زیادہ خواتین ہیں۔وزارت برائے سماجی انصاف و تفویض اختیارات کے تحت کام کرنے والا ادارہ فائننس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایس کے ایف ڈی سی) ذریعے 18 ریاستوں کے 170 اضلاع میں یہ سروے کرایا گیا تھا۔ ان اضلاع میں کل 86528 لوگوں نے خود کو غلاظت ڈھونے والا بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا تھا۔
حالانکہ صرف 41120 لوگوں کو ہی مینوئل اسکیوینجر کے طور پر قبول کیا گیا۔ اس طرح جتنے لوگوں نے رجسٹریشن کرایا تھا، اس میں سے 50 فیصدی سے بھی کم لوگوں کو مینوئل اسکیوینجر مانا گیا ہے۔بہار، ہریانہ، جموں و کشمیر اور تلنگانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی ریاست میں ایک بھی مینوئل اسکیوینجر نہیں ہے۔این ایس کے ایف ڈی سی سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق بہار کے 16 اضلاع میں 4757 لوگوں نے خود کو مینوئل اسکیوینجر بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا تھا، لیکن ریاستی حکومت نے ان میں سے ایک بھی آدمی کو مینوئل اسکیوینجر کے طور پر قبول نہیں کیا ہے۔
اسی طرح ہریانہ کے پانچ اضلاع میں 1221 لوگوں نے رجسٹریشن کرایا لیکن ریاستی حکومت نے کسی کی بھی شناخت بطور مینوئل اسکیوینجر نہیں کی۔ جموں و کشمیر کے سات اضلاع میں 254 لوگ اور تلنگانہ کے دو اضلاع میں 288 لوگوں نے رجسٹریشن کرایا لیکن ریاستی حکومتوں نے ان کو مینوئل اسکیوینجر ماننے سے انکار کر دیا۔حاصل اعداد و شمار کے مطابق جن 170 اضلاع میں سروے کرایا گیا اس میں سے 82 اضلاع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے یہاں ایک بھی مینوئل اسکیوینجر نہیں ہے۔ باقی کے چاراضلاع کی رپورٹ آنی ابھی باقی ہے۔
ایک بھی مینوئل اسکیوینجر نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی چار ریاستوں کو چھوڑکر اس فہرست میں آندھراپردیش کے دو اضلاع، گجرات کا ایک ضلع، جھارکھنڈ کا ایک ضلع، مدھیہ پردیش کے سات اضلاع، پنجاب کے دو اضلاع، راجستھان کے 12 اضلاع، تمل ناڈو کے تین اضلاع، اتر پردیش کے 21 اضلاع، اتراکھنڈ کا ایک ضلع اور مغربی بنگال کے دو اضلاع شامل ہیں۔ادارہ کے ڈپٹی مینجر اور اس سروے کی ذمہ داری سنبھالنے والے آر کے گپتا نے بتایا کہ ابھی یہ سروے چلتا رہےگا، آنے والے وقت میں مینوئل اسکیوینجرس کی تعداد اور بڑھنے کی امید ہے۔انہوں نے کہا،’ہم نے ایک ویب سائٹ ()بنائی ہے، اس پر کسی بھی ریاست کی ضلع انتظامیہ یا شہری کارپوریشن مینوئل اسکیوینجر سے متعلق جانکاری اپلوڈ کر سکتی ہے۔ ‘ گپتا نے کہا کہ جتنے لوگوں کی شناخت کی گئی ہے ان کو بازآبادی اسکیم کے تحت 40000 روپے دئے جائیںگے۔
واضح ہو کہ حکومت نے یہ سروے غلاظت ڈھونے والے کی شناخت ان کی بازآبادکاری کرنے کے لئے کرایا ہے۔ حالانکہ اس سمت میں کام کر رہے کارکنان کا الزام ہے کہ حکومت ان کی صحیح طریقے سے حساب نہیں کر رہی ہے اور انتظامیہ جان-بوجھ کر ان کو قبول کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ روایت کبھی بھی ختم نہیں ہو پائےگی۔
کہاں، کتنے مینوئل اسکیوینجرس
سال 2018 کے اس سروے کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ 18529 مینوئل اسکیوینجرس اتر پردیش میں ہیں۔ یہاں کے کل 47 اضلاع میں سروے کرایا گیا تھا، حالانکہ ریاستی حکومت نے اب تک 43 اضلاع کی ہی رپورٹ سونپی ہے اور ابھی چار اضلاع کی رپورٹ ملنی ابھی باقی ہے۔اس طرح ریاست میں مینوئل اسکیوینجرس کی تعداد ابھی بڑھنے والی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان اضلاع کے 39683 لوگوں نے خود کو مینوئل اسکیوینجر بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا تھا لیکن ریاستی حکومت نے ان میں سے تقریباً 47 فیصدی یعنی کہ صرف 18529 لوگوں کی ہی شناخت بطور غلاظت ڈھونے والے آدمی کے طور پر کیا۔
دوسرے نمبر پر مہاراشٹر ہے، جہاں کل 7378 لوگوں کو مینوئل اسکیوینجر مانا گیا ہے۔ یہاں کے کل 14 اضلاع میں سروے کرایا گیا تھا۔ مہاراشٹر واحد ایسی ریاست ہے جس نے رجسٹریشن کرانے والے تمام لوگوں کو مینوئل اسکیوینجر مانا ہے۔ وہیں اتراکھنڈ کے تین اضلاع میں 6033 لوگوں کی شناخت مینوئل اسکیوینجر کے طور پر ہوئی ہے۔
(ماخذ: این ایس کے ایف ڈی سی سے حاصل اعداد و شمار پر مبنی)
اس فہرست میں چوتھے نمبر پر راجستھان ہے۔ ریاست کے کل 20 اضلاع میں سروے کرایا گیا تھا، جہاں 7381 لوگوں نے رجسٹریشن کرایا لیکن صرف 35 فیصدی یعنی کہ 2590 لوگوں کو ہی مینوئل اسکیوینجر مانا گیا ہے۔ ریاست کے ان 20 اضلاع میں 12 اضلاع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے یہاں غلاظت ڈھونے والا ایک بھی آدمی نہیں ہیں۔
آندھراپردیش کے پانچ اضلاع میں سروے کے دوران 2024 لوگوں نے رجسٹریشن کرایا، لیکن صرف 1982 لوگوں کو ہی غلاظت ڈھونے والا مانا گیا۔ کرناٹک کے چھ اضلاع میں 1754 آدمیوں کو مینوئل اسکیوینجر مانا گیا ہے۔ ان اضلاع میں 1803 لوگوں نے رجسٹریشن کرایا تھا۔مدھیہ پردیش کا اعداد و شمار کافی چونکانے والا ہے۔ یہاں کے 14 اضلاع میں 8572 لوگوں نے خود کو مینوئل اسکیوینجر بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا لیکن صرف تقریباً ساڑھے چھ فیصدی یعنی کہ 562 لوگوں کو ہی غلاظت ڈھونے والا مانا گیا ہے۔
غلاظت ڈھونے والوں کے حساب کے لئے این ایس کے ایف ڈی سی کے ساتھ ملکر کام کرنے والے غیرسرکاری ادارہ راشٹریہ گریما ابھیان کے ممبر آصف شیخ نے کہا،’اس سروے میں جتنے مینوئل اسکیوینجرس کی شناخت کی گئی ہے، یہ کافی اعداد و شمار نہیں ہے۔ غلاظت ڈھونے والوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ ریاستی حکومتیں جان-بوجھ کر اس کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، کیونکہ وہ اس کو ختم کرنے کے بجائے یہ سوچتی ہیں کہ اگر یہ جانکاری باہر آ گئی کہ ان کے یہاں اب تک غلاظت ڈھونے والے ہیں تو ان کی بدنامی ہوگی۔ ‘
ہندوستان میں کن اضلاع میں کتنے غلاظت ڈھونے والے لوگ
اگر ان اعداد و شمار کو ضلع وار دیکھیں تو ہندوستان میں اتر پردیش کے شاہ جہاں پور میں سب سے زیادہ 3225 غلاظت ڈھونے والے لوگ ہیں۔ اس کے بعد یوپی کے ہی جے پی شہر (امروہہ) ضلع میں 2965 مینوئل اسکیوینجر ہیں۔ تیسرے نمبر پر اتراکھنڈ کا ہری دوار ضلع ہے۔ یہاں پر کل 2531 غلاظت ڈھونے والے ہیں۔ اسی ریاست کے دہرادون میں 2256 مینوئل اسکیوینجر ہیں۔یوپی کے مرادآباد ضلع میں 2135 لوگ، سنبھل ضلع میں 1489 لوگ، ہردوئی میں 1330 لوگ، کاس گنج ضلع میں 1195 لوگ، بدایوں ضلع میں 1165 لوگ غلاظت ڈھونے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔
مہاراشٹر کے ناسک میں 2799، اورنگ آباد ضلع میں 1107، کرناٹک کے میسور ضلع میں 1226، آندھراپردیش کے اننت پور میں 1454، اتراکھنڈ کے اودھم سنگھ نگر ضلع میں 1246 مینوئل اسکیوینجرس ہیں۔ملک میں پہلی بار 1993 میں غلاظت ڈھونے کی روایت پر پابندی لگائی گئی۔ اس کے بعد 2013 میں قانون بناکر اس پر پوری طرح سے پابندی لگائی گئی۔ حالانکہ آج بھی سماج میں غلاظت ڈھونے کی روایت موجود ہے۔
قانون میں اہتمام ہے کہ اگر کوئی غلاظت ڈھونے کا کام کراتا ہے تو اس کو سزا دی جائےگی، لیکن مرکزی حکومت خود یہ قبول کرتی ہے کہ ان کو اس تعلق سے کسی کو بھی سزا دئے جانے کی جانکاری نہیں ہے۔غلاظت ڈھونے والوں کی بازآبادکاری ایس آر ایم ایس کے تحت کی جاتی ہے۔اس اسکیم کے تحت بنیادی طور پر تین طریقے سے میلا ڈھونے والوں کی بازآبادکاری کی جاتی ہے۔ اس میں’ایک بار نقدی مدد’کے تحت غلاظت ڈھونے والی فیملی کے کسی ایک آدمی کو ایک مشت 40000 روپے دئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت مانتی ہے کہ ان کی بازآبادکاری کر دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ غلاظت ڈھونے والوں کو تربیت دےکر بھی ان کی بازآبادی کی جاتی ہے۔ اس کے تحت فی مہینہ 3000 روپے کے ساتھ دو سال تک مہارت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک طےشدہ رقم تک کے لون پر غلاظت ڈھونے والوں کے لئے سبسیڈی دینے کا اہتمام ہے۔این ایس کے ایف ڈی سی کے مطابق اس سروے میں جتنے غلاظت ڈھونے والوں کی شناخت ہوئی ہے اس میں سے 25 اکتوبر 2018 تک 8330 مینوئل اسکیوینجر کو 40000 روپے دئے گئے ہیں۔ ادارہ نے اب تک اس سروے سے متعلق پوری جانکاری اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ نہیں کی ہے۔