سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ سکریٹری نیلم ساہنی نے قبول کیا کہ سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے دوران صفائی اہلکاروں کی موت کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود ان تمام معاملوں میں 10 لاکھ روپے کے معاوضے کی بھی ادائیگی نہیں کی گئی۔
نئی دہلی: بنا حفاظتی تدابیر کے سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے دوران صفائی اہلکاروں کی موت کے معاملے میں کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ سکریٹری نیلم ساہنی نے اس کی جانکاری دی۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے بتایا کہ صفائی کے دوران مارے گئے صفائی اہلکاروں کے اہل خانہ کو معاوضہ تک نہیں ملتا۔ساہنی نے ‘سسٹین ایبل سینیٹیشن’نام کی ورکشاپ میں میونسپل کارپوریشن اور ریاستی حکومتوں کے افسروں کو خطاب کرتے ہوئے قبول کیا کہ سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے دوران صفائی اہلکاروں کی موت کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور مقامی انتظامیہ اور کانٹریکٹر حفاظتی تدابیرنہیں کر رہے ہیں۔اس سے پہلےگزشتہ جولائی میں سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ نے لوک سبھا میں قبول کیا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ 1993 میں اور پھر 2013 میں ہاتھ سے غلاظت اٹھانے کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد بھی ابھی یہ روایت ہمارے سماج میں موجود ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ وزارت نے بتایا کہ ریاستوں یا یونین ٹیریٹری ریاستوں سے میلا ڈھونے والوں کو روزگار دینے یا اس طرح کا کام کرانے کے لئے کسی بھی آدمی کو قصوروار ٹھہرانے یا سزا دینے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔جھارکھنڈ کے پلامو سے بی جے پی رکن پارلیامان وشنو دیال رام کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر رام داس اٹھاولے نے کہا کہ ملک بھر میں کل 53398 میلا ڈھونے والوں کی پہچان ہوئی ہے، لیکن کہیں سے یہ جانکاری حاصل نہیں ہوئی ہے کہ میلا ڈھونے کا کام کرانے والے کسی بھی آدمی کو سزا ہوئی ہے یا نہیں۔اٹھاولے نے ایک دیگر سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ پچھلے تین سالوں میں 88 لوگوں کی سیور یا سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران موت ہوئی، جس میں سب سے زیادہ 18 اموات دہلی میں ہوئیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ 88 مرنے والوں میں سے 36 لوگوں کے رشتہ داروں کو 10 لاکھ کا معاوضہ حکومت کے ذریعے دے دی گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1993 سے لےکر اب تک میں 620 لوگوں کی سیور صفائی کے دوران موت ہو چکی ہے۔اٹھاولے نے کہا کہ ان 620 میں سے 445 فیملی کو 10 لاکھ روپے کا پورا معاوضہ دیا جا چکا ہے۔ سب سے زیادہ 141 موتیں تمل ناڈو میں ہوئیں ہیں۔ وہیں دوسرے نمبر پر گجرات ہے، جہاں 131 صفائی ملازمین کی موت ہوئی ہے۔حالانکہ نیلم ساہنی نےکہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود ان تمام معاملوں میں 10 لاکھ روپے کے معاوضے کی بھی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سماجی انصاف اور شہری معاملوں کی وزارت نے مشترکہ طور پر سیور اور سیپٹک ٹینکوں کو ہاتھ سے صاف کرنے کی روایت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شہری معاملوں کے وزیر ہردیپ پوری اور سماجی انصاف کے وزیر تھاور چند گہلوت نے 2022 تک تمام اہم شہروں اور قصبوں میں ای آر ایس یو کے قیام اور کام کے لئے مینول لانچ کیا ہے۔ ای آر ایس یو کے تحت کسی بھی صفائی ملازم کو سیور اور سیپٹک ٹینک کے اندر نہیں جانا ہوگا۔شہری معاملوں کے سکریٹری درگا شنکر مشرا نے کہا، ‘ ای آر ایس یو اس روایت کو ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کرےگا۔ اس سے گھریلو سطح پر بھی فکربھی کم ہوںگی، جو عام طور پر سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے لئے صفائی ملازمین کو بلاتے ہیں۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ 70 لاکھ سے زیادہ بیت الخلا سیور لائنوں سے نہیں جڑے ہوئے ہیں۔نیلم ساہنی نے نیشنل صفائی کرمچاری کمیشن کے اعداد و شمار کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ سیور یا سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کرتے ہوئے 776 صفائی ملازمین کی موت ہوئی ہے، لیکن ابھی تک ایک بھی معاملے میں کسی آدمی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔یہ حال تب ہے جب صفائی ملازمین کو ہاتھ سے غلاظت صاف کرنے سے بچانے والا قانون نافذ ہے۔ مینول اسکیوینجرس اور ان کی بازآبادکاری قانون، 2013 کے تحت سیور کی صفائی کا ٹھیکہ لینے والے آدمی کو صفائی ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوتاہے، لیکن اس قانونی اہتمام پر عمل نہیں کیا جاتا۔