این ایچ آر سی کو بھیجی گئی شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ شہریت ترمیم قانون کو لے کر ہوئے مظاہرے کے دوران یوپی پولیس کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔نوجوانوں کی اموات کی کئی خبریں آئیں،جو بنیادی طور سے پولیس کی کارروائی کے دوران لگی گولیوں کی وجہ سے ہوئیں اور پولیس خود پبلک پراپرٹی کو تباہ کر رہی ہے۔
نئی دہلی:نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی)نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران اتر پردیش میں پولیس کارروائی میں انسانی حقوق کی پامالی ہونے کی شکایتیں ملنے پر ریاست کے ڈی جی پی کو ایک نوٹس جاری کیا ہے۔ افسروں نے بدھ کو یہ جانکاری دی۔این ایچ آر سی کو حال ہی میں ایک شکایت ملی تھی، جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہونےکے(ریاستی پولیس کے ذریعے) واقعات میں اس سے مداخلت کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
کمیشن کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا، ‘اس معاملے سے متعلق دیگر شکایتیں بھی ملی ہیں، جس کو نوٹس میں لیا گیا ہے۔ شکایت 23 دسمبر کو درج کی گئی اور اس کے بعد این ایچ آر سی نے اتر پردیش کے ڈی جی پی کو ایک نوٹس جاری کر چار ہفتوں میں رپورٹ مانگی ہے۔’شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے پاس ہونے کے بعد اتر پردیش میں ریاستی اتھارٹی کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔
کمیشن کو سونپی گئی شکایت کے مطابق، نوجوان مارے جا رہے ہیں، انٹرنیٹ بند کر دیے گئے ہیں اور پولیس خودپبلک پراپرٹی کو تباہ کر رہی ہے۔ پر امن طریقے سے جمع ہونے کے حق کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔شکایت میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں پورے اتر پردیش سے کئی اموات، زیادہ تر نوجوانوں کی موت کی کئی خبریں آئیں، جو بنیادی طور سے پولیس کارروائی کے دوران لگی گولیوں کی وجہ سے ہوئیں۔
شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکار کہہ رہے ہیں کہ پولیس افسروں نے گولی نہیں چلائی، جبکہ خبروں سے ظاہر ہے کہ پولیس اہلکار لوگوں پر گولی چلا رہے ہیں، جو پولیس کے دعوے کے ٹھیک الٹ ہے۔اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس افسر کئی لوگوں کی جائیداد کو تباہ کر رہے ہیں اور انہوں نے مسلم لوگوں کی دکانیں سیل کرکے مسلم آبادی کو نشانہ بنایا۔
غور طلب ہے کہ شہریت ترمیم قانون کی مخالفت میں ہوئے مظاہرے کے دوران
اتر پردیش میں 18 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ اس کے بعد 19 دسمبر کی شام کو اتر پردیش کے
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے مظاہرے کے دوران تشدد کرنے والوں پر سخت کارروائی اور بدلہ لینے کی بات کہی تھی۔
بتا دیں کہ پردیش کے
ڈی جی پی او پی سنگھ سمیت تمام اعلیٰ افسروں نے دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرہ کر رہے کسی بھی شخص کی موت پولیس کی گولی سے نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ محمد سلیمان کے معاملے
میں بجنور کے سینئر پولیس افسروں نے قبول کیا ہے کہ ان کی موت پولیس کے ذریعے سیلف ڈیفنس میں چلائی گئی گولی سے ہوئی۔
واضح ہو کہ مظفرنگر سمیت ریاست کے 12 ضلعوں میں پچھلے جمعہ (20 دسمبر) کو شہریت ترمیم قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد ہوا تھا۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کئے گئے کئی ویڈیو میں پولیس کو تشدد کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ان ویڈیو میں پولیس مبینہ طور پر سی سی ٹی وی اور عوامی جائیداد کو نقصان پہنچاتی نظر آ رہی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)