نئی دہلی اسٹیشن بھگدڑ – ’انتظامیہ کی لاپرواہی سے بکھر گیا ہمارا گھر‘

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن بھگدڑ میں سنجے نےاپنی بہن پنکی دیوی کو کھو دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،'یہ بھگدڑ نہیں، انتظامیہ کی ناکامی تھی۔' خاندان کمبھ جانے کے لیے پرجوش تھا، لیکن اسٹیشن پرہی بھیڑ میں پھنس گیا۔ پنکی کی موت کے بعد خاندان گہرے صدمے میں ہے، حکومت کے کسی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن بھگدڑ میں سنجے نےاپنی بہن پنکی دیوی کو کھو دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’یہ بھگدڑ نہیں، انتظامیہ کی ناکامی تھی۔’ خاندان کمبھ جانے کے لیے پرجوش تھا، لیکن اسٹیشن پرہی بھیڑ میں پھنس گیا۔ پنکی کی موت کے بعد خاندان گہرے صدمے میں ہے، حکومت کے کسی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔

اپنی نند پنکی دیوی کو کھونے کے بعدسیما ٹوٹ چکی ہیں۔ (تمام تصویریں: انکت راج/دی وائر )

اپنی نند پنکی دیوی کو کھونے کے بعدسیما ٹوٹ چکی ہیں۔ (تمام تصویریں: انکت راج/دی وائر )

نئی دہلی:‘میرے چھوٹے بھائی کی 12 سالہ بیٹی بے لباس ہوگئی تھی، بڑی مشکل سے اسے لوگوں کے نیچے سے کھینچ کر نکالا،’یہ بتاتے ہوئے سنجے کے چہرے پر شرم،ندامت  اور خوف کے ملے جلے جذبات نظر آتے ہیں۔ وہ آنکھیں بند کرلیتے ہیں، پھر اپنی شکستہ آواز کو سمیٹنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘بہت  بھیڑ تھی، بہت…’

گزشتہ 15 فروری کی رات نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ہوئی بھگدڑ میں اپنی 37 سالہ بہن پنکی دیوی کو کھونے والے سنجے کا ماننا ہے کہ ‘وہاں کوئی بھگدڑ نہیں ہوئی تھی۔ بس بھیڑ کو سنبھالا نہیں گیا۔’

وہ کہتے ہیں، ‘یہ سب حکومت اور انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوا۔ اگر پولیس بھیڑ پر قابو پانے کے لیے موجود ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ لوگ پولیس کو دیکھ کرآرام سے چلتے ہیں۔ وہاں کوئی پولیس نہیں تھی اور لوگ ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔’

سنجے پوچھتے ہیں،’کیا ریلوے والوں کو سی سی ٹی وی کیمرے میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی بھیڑنظر نہیں آئی ؟ انہیں تو سب پتہ ہوتا ہے۔ پھر بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا گیا؟’

ایک ہی خاندان کے 12 لوگ کمبھ کے لیے نکلے تھے، یہ سب ایک ہی محلے میں رہتے ہیں۔

ایک ہی خاندان کے 12 لوگ کمبھ کے لیے نکلے تھے، یہ سب ایک ہی محلے میں رہتے ہیں۔

گھر کے ہر کونے سے بلند ہوتی چیخ و پکار

بہار کے گیا سے تعلق رکھنےوالے سنجے اپنے خاندان کے ساتھ جنوبی دہلی کے ایک گنجان آباد علاقے سنگم وہار میں رہتے  ہیں۔ سنجے کے والدین، بھائی اور بہن کا خاندان بھی قریب ہی رہتے ہیں۔ اب نہ صرف سنجے کے گھر سے بلکہ آس پاس کے دوسرے گھروں سے بھی چیخ وپکار کی آوازیں آرہی ہیں۔ ایک خاموش ہوتا ہے تو دوسرا رونے لگتا ہے۔

سنجے کی بیٹی روتے ہوئے کہتی ہے، ‘دادی تو صبح سے دس بار بیہوش ہو چکی ہے۔’

 پنکی کے بزرگ والد بار بار خواتین کو خاموش رہنے کو کہتےہیں،لیکن وہ خود اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پا رہے۔ ‘ہم چار بھائی تھے،کسی سے کوئی مدد نہیں لی تھی، سب کچھ اکیلے کیا تھا۔’ پنکی کی شادی کے وقت کویاد کرتے ہوئے والد کہتے ہیں۔

پنکی دیوی کے والد

پنکی دیوی کے والد

گزشتہ 15 فروری کی شام 6.30 بجے اس خاندان کے 12 افراد نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ سبھی کو پریاگ راج مہاکمبھ میں پہنچنا تھا۔ 8 بجے کے قریب سب لوگ ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ٹرین کو 10:10 بجے پلیٹ فارم نمبر 14 پر آنا تھا۔ ‘ہم فٹ اوور برج کے ذریعے پلیٹ فارم پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں اتر ہی  رہے تھے کہ اچانک لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے،’سنجے یاد کرتے ہیں۔

‘چاروں طرف لاشیں پڑی تھیں’

سنجے نے بتایا کہ اسٹیشن پر بھیڑ دیکھ کر وہ واپس جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔ لیکن پیچھے سے آنے والے لوگوں کے دھکے کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا اور وہ بھیڑ کا حصہ بن گئے۔

‘ہم سیڑھیوں پر پھنس گئے تھے۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ لوگ پیچھے سے دھکا دے رہے تھے۔ پھر کوئی آگے گرا اور اس کے بعد لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ انسان انسان کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا،’سنجے کہتے ہیں۔

درد سے کراہتے ہوئے سنجے کی بیوی سیما بھاری سانسوں کے درمیان دھیمی آواز میں کہتی ہیں، ‘میرے اوپر سے نہ جانے کتنے   لوگ گزرے۔’اپنے جسم پر لگے اندرونی چوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیما کہتی ہیں،’سب بہت  دکھ رہا ہے۔‘

سنجے نے بتایا کہ ان کے خاندان کے کئی افراد دبے ہوئے تھے۔ لیکن پنکی دیوی کے علاوہ سب جلد ہی مل گئے، ‘میری بہن آدھے گھنٹے بعد سیڑھیوں پر پائی گئی۔ ہم سب باری باری کئی منٹوں تک سی پی آر دیتے رہے۔ لیکن جان نہیں آئی۔’

بائیں سے - سنجے اور ان کی بیوی سیما

بائیں سے – سنجے اور ان کی بیوی سیما

اہل خانہ کے مطابق، کافی دیر  بعد تک  سیڑھیوں کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اس سے لوٹا جا سکے۔ ‘ادھر-ادھر  لاشیں پڑی تھیں۔ کوئی دیکھنے والانہیں تھا۔ ہم پلیٹ فارم پر اترے۔ وہاں سے میں نے پٹریوں کوپار کرنا شروع کیا۔ درمیان میں ٹرین بھی کھڑی تھی  تو اس کا دروازہ کھلواکر اس کے بیچ  سے نکلے۔ بڑی مشکل سے میں پلیٹ فارم نمبر 1 پر پہنچے اور وہاں سے باہر نکلے تو مجھے ایمبولینس ملی۔’ سنجے کے مطابق اس جدوجہد سے پنکی دیوی کو اسٹیشن سے باہر نکالا گیا۔

ایمبولینس پہلے لوک نائک جئے پرکاش نارائن اسپتال گئی، جہاں ڈاکٹروں نے پنکی دیوی کو مردہ قرار دیا۔ جس کے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے رام منوہر لوہیا اسپتال بھیج دیا گیا۔ خاندان کو ابھی تک پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں ملی ہے۔

پنکی نے اپنے پیچھے چودہ سالہ بیٹی اور گیارہ سال کا بیٹا چھوڑا ہے۔ دونوں گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے ہیں، بیٹی نویں کلاس میں اور بیٹا ساتویں کلاس میں۔ پنکی کے شوہر اوپیندر شرما دہاڑی  پر بڑھئی کا کام کرتے ہیں۔ ‘مجھ سے کچھ مت پوچھیے، میں کچھ نہیں بتاپاؤں گا۔’ یہ کہنے کے بعد اوپیندرخلا میں گھورنے لگے۔

پنکی دیوی کے شوہر اوپیندر شرما

پنکی دیوی کے شوہر اوپیندر شرما

‘ پہلی بار کمبھ جا رہے تھے’

سنجے نے بتایا کہ وہ زندگی میں پہلی بار کمبھ جا رہے تھے، ‘پہلے کبھی جانےکادل نہیں کیا تھا، لیکن اس بار بچے اور باقی سب اصرار کر رہے تھے کہ چلو، چلتے ہیں، اب بھیڑ کم ہو گئی ہے۔’

خاندان کے دیگر افراد نے بھی بتایا کہ کمبھ کے بارے میں اتنی چرچہ چل رہی تھی کہ بچے جانے کی ضد کرنے لگے تھے۔  سنجے کے والدین کچھ دن پہلے ہی کمبھ سے واپس آئے تھے۔

اب سنجے کے گھر والے اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں، ‘ہماراتو  گھر بکھر گیا۔’ سنجے کے مطابق ابھی تک کوئی حکومتی نمائندہ متاثرہ خاندان سے ملنے نہیں آیا ہے۔

دوسری طرف پولیس ہے جو متاثرہ خاندانوں کے پتے میڈیا سے چھپانے میں مصروف ہے۔ جب 16 فروری کی دوپہر کو ایسے خاندانوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سنگم وہار پولیس اسٹیشن کے افسر انوپ کمار نے دی وائر  کو بتایا کہ ان کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے کیونکہ لاش کو گھر نہیں بلکہ اسپتال سے سیدھے شمشان گھاٹ لے جایا گیا۔ وہیں سنجے نے بتایا کہ نہ صرف لاش کو گھر لایا گیا بلکہ سنگم وہار تھانے کی پولیس بھی ان کے دروازے پر پہنچی تھی۔

سریتا وہار پولیس اسٹیشن سے بھی متاثرہ خاندان کا پتہ نہیں مل سکا۔

سریتا وہار پولیس اسٹیشن سے بھی متاثرہ خاندان کا پتہ نہیں مل سکا۔

بھگدڑ میں سریتا وہار کی شیلا دیوی کی بھی موت ہوگئی ہے، لیکن سریتا وہار پولیس اسٹیشن کے افسر نے بھی دعویٰ کیا کہ ان کے پاس متاثرہ خاندان کا پتہ نہیں ہے۔