حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: سنسد ڈاٹ ان
پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت اور پھر اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی فوجی معرکہ آرائی، جو تقریباً باضابطہ جنگ کے قریب آن پہنچی تھی کے بعد پانچ گروپوں میں ہندوستانی پارلیامنٹ کے 59 اراکین دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی بیانیہ کا توڑ کرنے کی مہم پر نکل پڑے ہیں۔
ملک میں گو کہ آج کل مسلمانو ں کا قافیہ تنگ ہے، مگر بھلا ہو پاکستان کے ساتھ تصادم کا، اس قافلہ میں 11 مسلمانوں کو شامل کردیا گیا ہے، یعنی 18.64فیصد۔ کاش دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ان کا یہی تناسب ہوتا۔
خیر ہندوستان میں نرسمہا راؤ سے لےکر منموہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے ادوار، جو میں نے بطور صحافی کور کیے ہیں، بتایا جاتا تھا کہ علیٰ الصبح خفیہ ایجنسیوں داخلی ایجنسی انٹلی جنس بیورو اور بیرون ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسیز ونگ یعنی راء کے سربراہان یا ان کے نمائندے وزیر اعظم کو باالترتیب آدھے گھنٹے کی بریفنگ دیتے ہیں۔
وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ناشتہ کرنے سے قبل وزیر اعظم ہاؤس کے سر سبز لان میں چہل قدمی کرتے تھے اور اسی دوران ہی بریفنگ لیتے تھے۔ وزیر اعظم کو اس دن ہونے والے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں جانکاری دی جاتی تھی۔
اس کے علاوہ وزیر اعظم کو اس روز جن افراد سے ملنا ہوتا تھا، وہ کو ن سے ایشو اٹھانے والے ہیں وہ بھی ان کو قبل از وقت بتایا جاتا تھا۔ تاکہ وہ پوری طرح تیار رہیں۔ اس پوری انفارمیشن کے بعد ہی وزیر اعظم اپنا دن شروع کرکے پھر اپنے عملہ کی میٹنگ لےکر احکامات دیتے تھے۔ اگر وہ بیرون ملک دورہ پر ہوں، تب بھی ان ایجنسیوں کے نمائند ے جو ان کے ہمراہ ہوتے ہیں، ان کو اسی طرح صبح بریف کرتے ہیں۔
مگر2014کے بعد سے جب وزیر اعظم نریندر مودی برسراقتدار آئے، تو یہ سارا انتظام ہی گڑ بڑ ہوگیا ہے۔ سیکورٹی کے معاملوں پر اب وہ صرف قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر خارجہ جئے شنکر سے ہی براہ راست بریفنگ لیتے ہیں۔ یہ تکڑی ہی اس وقت ہندوستان کی قومی سلامتی کی ضامن ہے۔
اب یہ افراد قومی سلامتی کو کس نظریہ سے دیکھتی ہے، اس کا تجزیہ اور خلاصہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک وقت ہم نیوز رومز میں تفریح کے طور پر امت شاہ(،جو ان دنوں جیل میں اور بعد میں تڑی پار کردیے گئے تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرکے ہنسی اڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ 2019میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا روپ اختیار کرےگا۔
اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے جہاں کیریئر ڈپلومیٹ سبرامنیم جئے شنکر کو وزیر خارجہ مقرر کیا، وہیں وزارت داخلہ کا اہم قلمدان اپنے دست راست امت شاہ کے سپرد کرکے پیغام دیا کہ وہی حکومت میں نمبر دو ہیں۔
گو کہ سرکاری طور پر ابھی بھی راج ناتھ سنگھ ہی کابینہ کے اجلاسوں میں وزیر اعظم کے دائیں طرف بیٹھتے ہیں، جو نمبر دو پوزیشن کے لیے وقف ہوتی ہے، مگر اہم معاملوں ہی ان سے خال خال ہی مشورہ کیا جاتا ہے۔
جب وہ مودی کی پہلی حکومت میں وزیر داخلہ تھے، تو جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی کی حکومت سے بی جے پی کے ہاتھ کھینچنے کی جانکاری ان کو ٹی وی سے ہی معلوم ہوئی، جب بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں رام مادھو نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس سے بس چند گھنٹہ قبل ہی اپنی رہائش گاہ پر دہلی میں کشمیر بیٹ کور کرنے والے صحافیوں پر زور دے رہے تھے کہ کشمیر میں محبوبہ مفتی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
مودی اور امت شاہ کی جوڑی کا رشتہ 35سال پرانا ہے۔ 2001میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے شاہ نے پارٹی میں ان کے مخالفین ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم رول ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔گجرات میں شاہ کو وزارت داخلہ کا قلمدان دیا گیا تھا۔
ان کا دور وزارت کئی پولیس انکاونٹروں کے لیے یاد کیا جا تا ہے۔ قومی تفتیسی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر بی کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھہرایا تھا ۔اس کے علاوہ 19سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔
سال 2013میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔
سال 2014کے عام انتخابات میں مودی نے شاہ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں اس نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔
اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔شیو سینا کے رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے راوت نے حال ہی میں مراٹھی زبان میں شائع اپنی کتاب ‘نرکتلہ سوارگ’ میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق مرکزی وزیر اورنیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار اور شیوسینا کے سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے نے مودی اور امیت شاہ کو قانونی چنگل سے بچایا تھا۔
راوت لکھتے ہیں، جب 2004 میں نئی دہلی میں کانگریس کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم ہو گئی تھی، تو طے کیا گیا تھا کہ گجرات کے 2002کے مسلم کش فسادات کے سلسلے میں مودی پر قانونی شکنجہ کسا جائے۔ مگر شرد پوار جو اہم مرکزی وزیر تھے، نے وزیراعظم منموہن سنگھ کو بتایا کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو جیل میں ڈالنا درست نہیں ہوگا۔
ویسے میری اطلاع کے مطابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کے مشیر احمد پٹیل، جو خود بھی گجرات سے تعلق رکھتے تھے، نے بھی مودی کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان سے سیاسی طور پر ہی نپٹنا چاہیے۔
راوت کے مطابق مرکزی تفتیشی ایجنسیاں شاہ کے خلاف تحقیقات کر رہی تھیں۔ ان کو استعفیٰ دینا پڑا تھا اوروہ ضمانت پر تھے۔ عدالت نے گجرات میں ان کے رہنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ یعنی ان کا تڑی پار کر دیا گیا تھا۔
تفتیشی ایجنسیاں ان کی ضمانت کی مخالفت کر رہی تھی اور ان میں ایک افسر مہاراشٹر کا تھا۔ امت شاہ اپنے بیٹے جئے شاہ، جو اس وقت کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں کی انگلی پکڑ کر ٹھاکرے کی رہائش گاہ ماتو شری پہنچے، مگر ان کو ملاقات نہیں دی گئی۔
انہوں نے ماتو شری کے باہر شیو سینا کے کارکنان کو بتایا کہ وہ گجرات اسمبلی کے رکن ہیں اور ان کا ٹھاکرے سے ملنا ضروری ہے۔ خیر کئی روز کی تگ و دو کے بعدجب وہ ٹھاکرے کے روبرو اپنا دکھڑا سنا کر اپنےہندو ہونے اور ہندوؤں کا ساتھ دینے کی دہائی دے رہے تھے، تو شیو سینا کے سربراہ نے سابق وزیرا علیٰ منوہر جوشی کے فون سے کسی سے بات کرکے ان کی مشکل آسان کردی۔
بقول راوت ٹھاکرے نے اس شخص کو بتایا؛”کہ آپ کسی بھی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں لیکن یہ مت بھولنا کہ آپ ہندو ہیں۔“اس ایک کال سے ان کے کیسز کی رفتار سست ہوتی گئی۔ مگر راوت کا کہنا ہے کہ شاہ نے اس کا بدلہ اس طرح چکایا کہ بال ٹھاکرے کی شیو سینا کے ان کی وفات کے بعد دو ٹکڑے کروادیے۔
اسی طرح قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے اپنے کیریرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے اپنا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا بنایا ہے۔
ان کے ایک فرزند اسلام آباد میں ہی پیدا ہوگئے اور کئی برس تک ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔
ہندوستان کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب اے فیسٹ آف ولچرمیں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت ڈوبھال بھی براجمان تھے۔
یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ ڈوبھال ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے جس کو کراچی میں انجام دینا تھا۔
اس تکون کے تیسرے اہم فرد وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر ہیں۔ وہ ہندوستان کے اسٹریٹجک امور کے معروف ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے 1977میں خارجہ آفس جوائن کیا۔
معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق ان کی کابینہ میں شمولیت سے ہندوستان کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جئے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1980میں واشنگٹن میں ہندوستانی سفارت خانہ میں پوسٹنگ کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش شروع کر کے ان کی ایک دوست کے روپ میں شناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں بلاواسطہ طور پر خاصی مدد کی۔
منموہن سنگھ نے جب ان کو امریکہ ڈیسک کا انچارج مقرر کیا تو جوہری معاہدہ کو انجام تک پہنچانے میں امریکہ نے خاصی رعایت سے کام لیا۔ اس کے عوض سنگھ نے ان کو 2013 میں سکریٹری خارجہ بنانے کا من بنا لیا تھا۔ آف ریکارڈ بتایا گیا تھا کہ اگلے سکریٹری خارجہ جئے شنکر ہوں گے، شاید ان کی تقرری آخری مراحل میں تھی، کہ کانگریسی حکومت کے کئی وزراء جن میں کپل سبل اورآنند شرما شامل تھے، نے شور مچایا کہ ایک امریکہ نواز افسر کو اس اہم ذمہ داری دینے کا ہندوستان کیسے متحمل ہوسکتا ہے۔
سونیا گاندھی کی مداخلت کی وجہ سے ان کی تقرری رک گئی اور ان کی جگہ سجاتا سنگھ کو خارجہ سکریٹری بنایا گیاا ور ان کو امریکہ میں بطور سفیر تعینات کیا گیا۔ اس کے لیے انہوں نے ابھی تک گاندھی خاندان کو معاف نہیں کیا ہے۔
امریکہ میں سفیر کے ہوتے ہوئے انہوں نے مقامی ہندوستانی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرواکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی افواج کو خطے میں لاجسٹکس فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کورڈز کا تبادلہ شامل ہیں۔
کرناڈ کے مطابق ان معاہدوں کے ڈرافٹ ہندوستانی خارجہ آفس کے بجائے واشنگٹن سے ہی تیار ہو کر آئے تھے۔ شاید جئے شنکر کے امریکی دوست ان کا بوجھ کم کرنا چاہتے تھے۔2015 میں امریکی صدر اوبامہ کے دورے کے فوراً بعد ہی مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جئے شنکر کو خارجہ سکریٹری بنایا، جب ا ن کی ریٹائرمنٹ کا شاید ایک ہی دن بچا تھا۔
وکی پیڈیا کے مطابق دوران ملازمت وہ انتہائی حساس معلومات امریکہ کے ساتھ شئیر کرتے تھے۔ ایک بار امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہندوستانی موقف کی جانکاری خارجہ سکریٹری شیام سرن کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی۔
وکی پیڈیا کے مطابق یہ جانکاری جئے شنکر کے فراہم کی تھی۔ مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں ہندوستان کے سفیر جئے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویہ کو لگام دینے کے لیے امریکہ کی معاونت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یعنی ایک طرح سے وہ بیجنگ میں ہندوستانی حکومت کے بجائے امریکہ کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔
ایک اور کیبل میں اپریل 2005میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانٹنامو بے کے معاملے پر ہندوستان، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دےگا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ جئے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی جانکاری تھی، جو ہندوستانی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔
دراصل ہندوستان میں اس وقت زمام کار ایڈونچر پسند افراد کے پاس ہے جو مقصد اور نتائج کی پروا کئے بغیر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔
سیاسی قیادت ایسے افراد سے صلاح و مشورہ کرسکتی ہے، ان سے اطلاعات لے سکتی ہے، مگر حتمی فیصلہ اپنی معاملہ فہمی، سوجھ بوجھ اور اس کے وسیع تر مضمرات کو نظر میں رکھ کر ہی کرنے کی ضرورت ہے۔