مودی حکومت نے برطانوی راج سے بھی زیادہ غیر مساوی ’ارب پتی راج‘ کو بڑھاوا دیا: کانگریس

دی ورلڈ ان ایکویلیٹی لیب کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے امیر ترین 1 فیصد لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا 22.6 فیصد حصہ ہے، جو ایک صدی کے عرصے میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ نچلی 50 فیصد آبادی کی حصے داری 15 فیصد ہے۔ کانگریس نے 'ارب پتی راج' کو بڑھاوا دینے کے لیے نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کی ہے۔

دی ورلڈ ان ایکویلیٹی لیب کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے امیر ترین 1 فیصد لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا 22.6 فیصد حصہ ہے، جو ایک صدی کے عرصے میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ نچلی 50 فیصد آبادی کی حصے داری 15 فیصد ہے۔ کانگریس نے ‘ارب پتی راج’ کو بڑھاوا دینے کے لیے نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کی ہے۔

کانگریس لیڈر جئے رام رمیش۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@INCIndia)

کانگریس لیڈر جئے رام رمیش۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@INCIndia)

نئی دہلی: ایک عالمی رپورٹ، جو ہندوستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو ظاہر کرتی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس نے 20 مارچ کو برطانوی راج سے بھی زیادہ غیر مساوی ‘ارب پتی راج’ کو بڑھاوا دینے کے لیے نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2023 میں قومی آمدنی میں سرفہرست 1 فیصد آبادی کی حصے داری تاریخی طور پر بلند ترین سطح پر ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، سوموار کو دی ورلڈ ان ایکویلیٹی لیب کی طرف سے شائع ہونے والے ‘ ہندوستان میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات: ارب پتی راج کا عروج’ کے عنوان سے ایک مطالعہ کے مطابق، ہندوستان کے سب سے امیر ترین 1 فیصد لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا 22.6 فیصد حصہ ہے، جو ایک صدی میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ نچلی 50 فیصد آبادی کی حصے داری 15 فیصد ہے۔

تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ معاشی عدم مساوات تاریخی بلندیوں کے قریب ہے۔

آج ہندوستانی معیشت کی صورتحال

یہ الزام لگاتے ہوئے کہ مودی نے ‘اپنے دوستوں کو فائدہ پہنچانے اور اپنی پارٹی کی مہم کو فنڈ دینے’ کے لیے اس ‘ارب پتی راج’ کو بڑھاوا دیا ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ اعلیٰ سطحی عدم مساوات میں اضافہ خصوصی طور پر 2014 اور 2023 کے درمیان دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا،’مودی حکومت کی پالیسیوں نے براہ راست اس مسخ شدہ ترقی کو تین طریقوں سے آگے بڑھایا ہے: امیروں کو مالا مال کرنا، غریبوں کو غریب بنانا اور ڈیٹا کو چھپانا۔’

عوامی اثاثوں کی فروخت

جئے رام رمیش نے کہا کہ اکثر سرکاری ٹھیکے چند منتخب کارپوریٹس کے حوالے کیے جاتے ہیں، جبکہ عوامی اثاثے انہی کارپوریٹس کو ریکارڈ رعایت پر فروخت کیے جا رہے ہیں۔

الیکٹورل بانڈ سکیم کا حوالہ دیتے ہوئے جسے اب سپریم کورٹ نے ختم کر دیا ہے، انہوں نے کہا، ‘اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ ان میں سے کئی  کمپنیاں چندہ دو، دھندہ لو’ اسکیم کے تحت حکمراں جماعت کو خطیر رقم چندے میں دے رہی ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘نوٹ بندی، غیر منصوبہ بند جی ایس ٹی کا نفاذ اور ماحولیات، زمین کا حصول، زراعت اور لیبر قوانین میں میں کی گئی کوشش اور نفاذ سب ارب پتی راج کی حمایت کے لیے کیے گئے ہیں۔’

رمیش نے الزام لگایا کہ اڈانی گروپ سمیت پانچ بڑے اداروں کا عروج، جو 40 شعبوں میں اجارہ داری قائم کر رہے ہیں، ہندوستان کی موجودہ افراط زر کا باعث بنی ہے۔

کانگریس لیڈر نے کہا، ‘2015 میں جب ایک عام آدمی نے سامان پر 100 روپے خرچ کرتا تھا تو 18 روپے منافع کے طور پر کاروبار کے مالک کے پاس جاتا تھا – 2021 میں مالک کو منافع میں 36 روپے ملتا ہے۔ ان بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بے روزگاری کے بحران نے عام آدمی کی حقیقی مزدوری کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔’

‘ڈیٹا دبایا گیا’

یہ دیکھتے ہوئے کہ عدم مساوات کے ماہر اور فرانسیسی اسکالر تھامس پی کےٹی کی مشترکہ طور پر تحریر کردہ رپورٹ ہندوستان میں معاشی ڈیٹا کے معیار کو ‘کافی خراب’ قرار دیتی ہے۔ رمیش نے کہا کہ کانگریس نے مسلسل اس پر روشنی ڈالی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘حکومت 2021 کی آبادی کی مردم شماری کرانے میں ناکام رہی، 2011 کی سماجی-اقتصادی ذات کی مردم شماری کو شائع کرنے سے انکار کر دیا، جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کی اور نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس) 2017-18 جیسے تکلیف دہ ڈیٹا کو دبا دیا،جس میں دیہی کھپت کے اخراجات میں غیر معمولی گراوٹ دیکھی گئی۔’

رمیش نے کہا، ‘خاطر خواہ ڈیٹا کی کمی، منفی خبروں کو خاموش کرنے کی مودی حکومت کی حکمت عملی نے بڑی پالیسی کی ناکامی میں حصہ ڈالا ہے۔ کوئی بھی حکومت 140 کروڑ ہندوستانیوں کے حالات زندگی کے اعداد و شمار جمع کیے بغیر ہندوستان کے معاشی بحران کو حل نہیں کر سکتی۔’