ملک کو 9 وزیراعظم دینے والا صوبہ اترپردیش کیوں ہے بد حال

وزرائے اعظم کے انتخابی حلقوں کے رائے دہندگان وی آئی پی سیٹ کے گمان میں بھلے جیتے رہیں، لیکن اس سے ان کے سماجی و سیاسی شعور پر کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی وزیر اعظم کی موجودگی ایسے علاقوں کے مسائل کو حل کر پاتی ہے۔

وزرائے اعظم کے انتخابی حلقوں کے رائے دہندگان وی آئی پی سیٹ کے گمان میں بھلے جیتے رہیں، لیکن اس سے ان کے سماجی و سیاسی شعور پر کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی وزیر اعظم کی موجودگی ایسے علاقوں کے مسائل کو حل کر پاتی ہے۔

السٹریشن، دی وائر/ پری پلب چکرورتی

السٹریشن، دی وائر/ پری پلب چکرورتی

اتر پردیش کو یوں ہی ‘وزیر اعظم کا صوبہ’ نہیں کہا جاتا۔ اب تک اس کے ریکارڈ 9 ارکان پارلیامنٹ وزیر اعظم بن کر ملک کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔ ان میں سے چار- پنڈت جواہر لعل نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کانگریسی رہے ہیں، جبکہ باقی پانچ – چودھری چرن سنگھ، وشوناتھ پرتاپ سنگھ، چندر شیکھر، اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی – غیر کانگریسی۔

لیکن چونکہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی نے اپنے سیاسی کیریئر میں ایک سے زیادہ لوک سبھا سیٹوں کی نمائندگی کی، اس لیے ‘وزرائے اعظم کے’ یا ان سے وابستہ علاقوں کی مجموعی تعداد 9 کے بجائے 11 ہے؛ پھول پور (پنڈت جواہر لال نہرو اور وشوناتھ پرتاپ سنگھ)، الہ آباد (لال بہادر شاستری اور وشوناتھ پرتاپ سنگھ)، رائے بریلی (اندرا گاندھی)، باغپت (چودھری چرن سنگھ)، امیٹھی (راجیو گاندھی)، فتح پور (وشوناتھ پرتاپ سنگھ)، بلیا (چندر شیکھر)، لکھنؤ اور بلرام پور (دونوں) اٹل بہاری واجپائی) اور وارانسی (نریندر مودی)۔

سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کی وجہ سے ملنے والی نئی شناخت ایسے علاقوں کو ترقی وغیرہ میں ترجیح کہیں یا وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ ہی فراہم کر کے رہ جاتی ہے یا ان کے سماجی و سیاسی شعور کو بیدار کرنے اور غربت اور تنزلی وغیرہ کے طویل مدتی یا مستقل حل میں کوئی کردار ادا کرتی ہے؟

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پنڈت نہرو کے لوک سبھا حلقہ پھول پور کی حالت سب سے خراب ہے۔ ان کی موت کو ابھی چار دہائیاں بھی نہیں گزری تھیں کہ اس کا شعور اس قدر آلودہ ہو گیا کہ اس نے عتیق احمد اور کپل منی کروریا جیسے باہو بلی کو چننا شروع کر دیا۔ 2004 میں اس نے ایس پی کے عتیق احمد کا انتخاب کیا اور 2009 میں بی ایس پی کے کپل منی کروریا کو چنا۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہرو کی کانگریس اس سیٹ پر ان کی وراثت کو ان کی موت کے بعد پانچ سال بھی برقرار نہیں رکھ سکی۔ اگرچہ ان کی بہن وجئے لکشمی پنڈت نے 1964 (ضمنی انتخاب) اور 1967 (عام انتخابات) میں ان کی جگہ کامیابی حاصل کی، لیکن انہوں نے دو سال بعد ہی اقوام متحدہ میں نمائندہ بننے کے لیے استعفیٰ دے دیا۔ اس طرح جب نہرو خاندان سے اس سیٹ کا رابطہ ٹوٹا تو طلبہ تحریک سے نکلنے والے یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی کے نوجوان لیڈر جنیشور مشرا نے نہرو کے حلیف کیشودیو مالویہ کو شکست دے کر ضمنی انتخاب میں ہی کانگریس کے اس قلعہ کو فتح کر لیا۔

اس کے بعد 1999 تک ہونے والے 9 عام انتخابات میں کانگریس کے امیدوار صرف 1971 (وشوناتھ پرتاپ سنگھ) اور 1984 (رام پوجن پٹیل) میں ہی کامیاب ہو پائے۔ 1989 میں رام پوجن پٹیل نے پارٹی بدل لی اور کانگریس یہ سیٹ جیتنے کو ترسنے لگی۔ بعد میں وہ مرکزی مقابلے سے بھی باہر رہنے لگی اور جیت اور ہار کا فیصلہ ایس پی، بی ایس پی اور بی جے پی کے درمیان ہونے لگا۔ 2014 میں کرکٹر محمد کیف بھی کانگریس کے امیدوار بنے اور محض 58127 ووٹ کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل کر سکے۔ حتیٰ کہ ان کی ضمانت بھی نہیں بچ پائی۔ 2019 میں کانگریس کے پنکج پٹیل کو صرف 32761 ووٹ مل سکے۔

فی الحال، اس پر بی جے پی کا قبضہ ہے اور ایس پی اور بی ایس پی اس کے حریف ہیں۔ بے بس کانگریس نے ایس پی کے ساتھ اس کی شرائط پر اتحاد کیا ہے اور یہ سیٹ اس کے لیے چھوڑ دی ہے، جس کی وجہ سے ای وی ایم میں اس کا انتخابی نشان تک نہیں ہوگا۔

کیا پتہ، ملک کے پہلے (کانگریسی) وزیر اعظم کے انتخابی حلقے کی اپنی یہ حالت کبھی کانگریس کو پریشان کرتی ہے یا نہیں۔ کرتی ہو تو دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی الہ آباد لوک سبھا سیٹ کی حالت زار بھی پریشان کرنی چاہیے۔ کیونکہ 1984 میں منتخب ہونے والے اس کے اسٹار ایم پی امیتابھ بچن کے استعفیٰ کے بعد یہ سیٹ بھی اس کے لیے پرائی ہوکر رہ گئی ہے۔

وہ شاستری کی وراثت بھی ان کے جانے کے بعد صرف دو انتخابات تک بچانے میں کامیاب رہی۔ 1967 میں اس کے امیدوار ہری کرشن شاستری (شاستری کے بیٹے) منتخب ہوئے اور 1971 میں ہیم وتی نندن بہوگنا۔ 1977 میں جنتا پارٹی کے جنیشور مشرا نے ان کی جیت کا سلسلہ توڑا تو 1980 میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے دوبارہ رشتہ بحال کرنے کے باوجود امیتابھ کے استعفیٰ دیتے ہی یہ سلسلہ پھر سے ٹوٹ گیا۔

تاہم، یہاں پھول پور کے مقابلے ان کے لیے صورتحال اس لحاظ سے بہتر ہے کہ ایس پی کے ساتھ اتحاد میں یہ سیٹ اس کے پاس ہے اور انتخابات میں اسے بی جے پی سے چھیننے کا موقع بھی ہے۔ لیکن مجبوری ایسی ہے کہ اسے معمر ایس پی لیڈر کے بیٹے پر ہی داؤ لگانا پڑ رہا ہے۔

پھول پور اور الہ آباد کے برعکس تیسری وزیر اعظم اندرا گاندھی کی رائے بریلی میں کانگریس کا جلوہ قائم ہے اور وہ ان کی بہو سونیا گاندھی کی کامیاب انتخابی اننگز کے بعد ان کے خاندان کے کسی اور فرد کی راہ  دیکھتی نظر آتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ 1977 میں اس نے خود اندرا گاندھی کو شکست دے کر کسی موجودہ وزیر اعظم کو اس کی سیٹ ہرانے کا جو ریکارڈ بنایا تھا، وہ تب سے اب تک ہونے والے گیارہ لوک سبھا انتخابات میں قائم ہے۔

رائے بریلی کے رہنے والے ماہر سیاسیات ڈاکٹر رام بہادر ورما اس کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ‘وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ’ سے محروم ہونے کا خطرہ مول لے کر کانگریس کے وزیر اعظم کو شکست دینے کے باوجود یہ سیٹ کانگریس کا گڑھ کیوں ہے؟ ان کے مطابق، بہت سے لوگ اسے کانگریس کا گڑھ اس لیے بھی قرار دیتے ہیں کہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ اسے میرٹ کی بنیاد پر انتخابات کرنا نہیں آتا۔ لیکن اس نے نہ صرف جنتا پارٹی کو 1977 میں بلکہ 1996 اور 1998 میں بھی بی جے پی کو جیت کا تحفہ دیا تھا۔

تاہم، اس کے انتخابی اعداد و شمار اب بھی کانگریس کے حق میں ہیں۔ اب تک سب سے زیادہ 17 بار (ضمنی انتخابات سمیت) اس نے ہی کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ بی جے پی نے دو بار اور جنتا پارٹی کو صرف ایک بار 1977 میں کامیابی ملی ہے۔

اگر ہم راجیو گاندھی کے امیٹھی کی بات کریں تو اسے نہ تو ناراض ہونے میں دیر لگتی ہے اور نہ ہی خوش ہونے میں۔ اس نے 1977 میں جس سنجے گاندھی (راجیو کے چھوٹے بھائی) کو بے دردی سے مسترد کر دیا تھا، 1980 میں انہی کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا تھا۔ ہوائی حادثے میں ان کی موت کے بعد انہوں نے ان کی جگہ آنے والے راجیو کا بھی استقبال کیا تھا۔ 1984 میں ان کے مقابلے سنجے کی اہلیہ مینکا کی ضمانت تک ضبط کرا دی تھی، جبکہ 2014 میں راہل کا مقابلہ کرنے والے عام آدمی پارٹی کے شاعر امیدوار کمار وشواس کو 25 ہزار سے کچھ ہی زیادہ ووٹ میسر ہونے دیے۔ پھر 2019 میں اسی راہل کو بی جے پی کی اسمرتی ایرانی نے شکست دی۔

یہ واضح ہے کہ امیٹھی بھی گاندھی فیملی کا ویسا گڑھ نہیں ہے جیسا کہ مشتہر کیا جاتا ہے۔ وہ شرد یادو، کانشی رام، راج موہن گاندھی اور کمار وشواس کی طرح ہی راہل، ان کے چچا سنجے گاندھی اور چاچی مینکا گاندھی کو بھی عبرتناک شکست دے چکی ہے۔

غیر کانگریسی وزرائے اعظم میں چودھری چرن سنگھ نے باغپت کی نمائندگی کی تو وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے فتح پور کی (وزیراعظم بننے سے پہلے پھول پور اور الہ آباد) اور چندر شیکھر بلیا لوک سبھا سیٹ کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے تو وہ لکھنؤ سے ایم پی تھے، جبکہ اس سے پہلے وہ دو بار بلرام پور سے ایم پی رہ چکے ہیں۔ ان میں چودھری چرن سنگھ کی باغپت سیٹ ان سے زیادہ ان کے بیٹے اجیت سنگھ کی لگتی ہے۔

جنتا پارٹی اور لوک دل کے رہنما کے طور پر چرن سنگھ نے 1977 سے 1984 تک صرف تین بار اس کی نمائندگی کی، جبکہ اجیت نے 1998 کو چھوڑ دیں تو 1989 سے 2009 تک جنتا دل، کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کے بینر پر ایک ضمنی انتخاب سمیت سات بار کامیابی حاصل کی۔ تاہم، 2014 میں وہ بی جے پی کے مقابلے میں تیسرے نمبر پر آئے، جبکہ 2019 میں ان کے بیٹے جینت کو بھی دوسرا مقام ہی مل پایا تھا۔ اب بدلے ہوئے حالات میں جینت بی جے پی کی حمایت سے ایس پی کے خلاف اپنی پارٹی کے امیدوار کو جیت دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چودھری کے برعکس وشوناتھ پرتاپ سنگھ صرف ڈیڑھ میعاد تک فتح پور کے ایم پی رہے۔ بعد میں انہوں نے خود کو سیاست سے بھی دور کر لیا تھا۔ اس لیے وہاں ان کے گڑھ جیسی کوئی چیز نہ تھی اور نہ اب ہے۔ ہاں، چندر شیکھر 1977 سے 2004 تک – درمیان میں 1984 کو چھوڑ کر- آٹھ بار بلیا کے ایم پی رہے اور نہیں رہے تو ان کے بیٹے نیرج شیکھر نے ایس پی کی حمایت سے پہلے ضمنی انتخاب اور پھر ایک الیکشن بھی جیتا۔ پھر نیرج خود بی جے پی میں شامل ہو گئے اور ان کی سیٹ بھی۔

اٹل بہاری واجپائی 1991 سے 2004 تک پانچ بار لکھنؤ سے منتخب ہوئے اور تب سے یہ سیٹ ان کی پارٹی کے پاس ہے۔ وہ 1957 اور 1967 میں بلرام پور کے ایم پی بھی رہے، لیکن ان کے وزیر اعظم کے عہدے کا کوئی رتبہ اس کے حصے میں نہیں آیا۔ نریندر مودی وارانسی میں تیسری بار ووٹروں کے سامنے ہیں اور ان کی اننگز کے بارے میں ابھی کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے۔

تاہم، ان تفصیلات کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کی سیٹوں کے ووٹروں کی جمہوری تربیت دیگر سیٹوں کے ووٹروں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہوتی ہے۔ کیونکہ حسد یا خواہش جس وجہ سے بھی ہو، تمام دعویدار اور جماعتیں عموماً اس پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے ان ووٹروں کے سماجی و سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ وہ کبھی اتنے باشعور نہیں ہوتے کہ ان کو الگ سے اجاگر کر کے کوئی خوش ہو سکے۔ اقربا پروری، ذات پات، علاقائیت اور فرقہ پرستی اور پیسے کی طاقت اور باہوبل کا غلط استعمال جیسے سیاست کی بیماریاں ان سیٹوں پر موقع ملتے ہی متعدی ہو جاتی ہیں۔

جو حالات نظر آتے ہیں، ان میں ان کے ووٹروں کی غربت اور انحطاط کا کوئی سنجیدہ مطالعہ کیا جائے تو شاید یہی نتیجہ نکلے کہ متعلقہ وزرائے اعظم کے دور میں ان انتخابی حلقوں پر جنت اتارے جانے کی وسیع تشہیر کے باوجود وہاں کوئی نخلستان تک نہیں بن پایا ہے – اگرچہ دوسرے حلقوں کے لوگ اس کی وجہ سے ان کے تئیں حسد سے بھرے رہتے ہوں۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)