ابھی تک آس تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈہ کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو حال ہی میں کرناٹک کے صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا، جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا۔ مگر ابھی راجستھان میں جس طرح کی زبان انہوں نے خود استعمال کی اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو یہ طے ہوگیا کہ 2024 کے ترقی یافتہ ہندوستان کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جائے گا۔
سال 2014 میں ہندوستان میں ہو رہے عام انتخابات کو کور کرنے میں صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ میں وارد ہوگیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کے سامنے ہی ایک مقامی سینما ہال کے منیجر کے کمرے میں قصبہ کے سیاسی کارکن، ذی عزت اور دانشور قسم کے افراد شام کو جمع ہوتے ہیں اور ایک مقامی کلب جیسا ماحول ہوتا ہے۔ میں بھی سیاسی سن گن لینے کے لیے ایک بن بلائے مہمان کی طرح ان کے کلب میں جا پہنچا۔
نئی دہلی کے صحافی کی اپنے دفتر میں کوئی عزت و وقعت ہو نہ ہو، مگر دارالحکومت کے باہر قدم رکھتے ہی اس کا وقار خاصا بلند ہو جاتا ہے۔ صوبوں کے سیاسی کارکن تو دہلی کے پتر کار کا ذکر سنتے ہی بچھ جاتے ہیں کہ کیا معلوم اس کی رسائی ان کے اعلیٰ لیڈران تک ہو۔ یہ کسی حد تک سچ بھی ہے کہ پارلیامنٹ کے اجلاس کو کور کرنے کی وجہ سے دہلی کے صحافی کی صوبوں میں کام کرنے والے اپنے ہم منصبوں کی نسبت اقتدار تک رسائی زیادہ آسان ہوتی ہے۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہوتا تھا کہ اعلیٰ لیڈران تو علیٰ الصبح دہلی سے شائع ہونے والے اخبارات ہی پڑھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔
خیر سینما ہال کے اس کلب نما کمرے میں میرا بڑا پر تپاک استقبال ہوا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے، ایک مقامی سیاسی کارکن نے گفتگو کے درمیان کہا کہ اگر ان انتخابات میں نریندر مودی جیت جاتے ہیں تو ہندوستان کیا پوری دنیا میں آئندہ انتخابات کے لڑنے کا طریقہ کار بدل جائے گا۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ انتخاب روایتی طریقوں، انسانی احساسات اور ٹکنالوجی کے درمیان ایک جنگ ہے۔ ان انتخابات میں پہلی بار سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے مودی نے افواہوں، آدھے سچ کو پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کرکے اکثریت حاصل کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سمستی پور کے اس مقامی سیاسی کارکن نے یہ تو ثابت کردیا کہ جنوبی ایشیاء میں بہاریوں سے بڑھ کر کوئی سیاسی نبض شناس نہیں ہے۔
اس نئی انتخابی اسٹریٹجی کے خالق ویسے تو بی جے پی کے ہی لیڈر اور مودی کے گرو کیشو بائی پٹیل ہیں، جس نے 1995 میں گجرات کے صوبائی انتخابات میں چھوٹے چھوٹے کیم کارڈرز کا استعمال کیا۔ اس وقت ان پر خاصی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ اس کا طریقہ یہ نکالا گیا کہ برطانیہ میں پارٹی کے ہمدرد افراد بھاری تعداد میں اپنے ساتھ یہ کیمرے لے کر آگئے اور ان کو اپنے پاسپورٹ پر درج کروا دیا۔ انتخابی مہم کے دوران یہ غیر بھارتیہ گجراتی کیم کارڈر ہاتھ میں لیے ریکارڈنگ کرتے نظر آتے تھے۔ بعد میں انتخابات ختم ہونے کے بعد وہ ان کو اپنے ساتھ واپس لے کر گئے۔ مگر ان کیم کارڈر نے انتخابی مہم میں ایسا رنگ ڈالا کہ کانگریس کی کیمپین پھیکی پڑ گئی اور تب سے اس صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
مگر انتخابات میں ٹکنالوجی کے استعمال کو بہار کے ایک فرد پرشانت کشور نے ایک ا نتہا تک پہنچا دیا۔ اقوام متحدہ کے صحت عامہ کے شعبہ میں کام کرنے کے بعد وطن واپسی پر انہوں نے انتخابی اسٹریٹجی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے اور سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے، موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے مہم چلا کر عوامی ذہنوں کو براہ راست متاثر کرنے کا کام شروع کرنے کا بیڑا ٹھایا۔
ان کی پہلی محدود مہم 2012 میں مودی کے لیے اس وقت تھی، جب وہ گحرات صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے بطور تیسری مرتبہ منتخب ہوگئے۔ویسے ایک بار ایک نجی ملاقات میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے مجھے بتایا تھا کہ کشور ان کی دریافت تھی۔ ان کے مطابق انہوں نے ہی کشور کو ہندوستان واپس آکر ان کے دفتر میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔
کشور نے ایک غیر سرکاری تنظیم سٹیزن فار اکاؤنٹیبل گورننس (سی اے جی) اور پھر انڈین پولیٹیکل ایکشن کمیٹی بنا کر مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیے کام کیا۔ 2014 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر انہوں نے مودی کے لیے کام کر کے ان کو قطعی اکثریت حاصل کروانے میں مدد دی اور پھر ایک سال بعد مودی سے الگ ہوکر انہوں نے بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کے لیے کام کرکے بی جے پی کو ہروایا۔
پھر 2017 کے پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے کانگریسی لیڈر امریندر سنگھ سمیت مختلف اوقات میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیے کام کیا۔ گو کہ پرشانت کشور اب بطور الیکشن حکمت علمی کار کے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، مگر اب اس طرح کے کئی ادارے ہندوستان میں سرگرم ہیں۔ اب تو انتخابات لڑنے والے امیدوار انفرادی طور پر بھی ان کی خدمات مستعار لیتے ہیں۔ 2014 کے بعد یہ ایک نئی پود وجود میں آئی ہے، جن پر سیاسی جماعتوں اور انفرادی طور پر امیدواروں کو بھاری بھرکم رقوم خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
پرشانت کشور کے ایک ساتھی شوم شنکر سنگھ نے اپنی ایک کتاب ہاؤ ٹو ون این انڈین الیکشن میں ایسے طور طریقوں کا احاطہ کیا ہے، جن سے موجودہ دور میں انتخابات کی جیت کو یقنی بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بعد میں کشور کی انڈین پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (آئی پی اے سی) سے استعفیٰ دے کر براہ راست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اہم لیڈروں رام مادھو وغیرہ کے ساتھ کام کرکے پارٹی کی انتخابی اسٹریٹجی کو ترتیب دینے کا کام کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ شاید سیاسی پارٹیوں کو اب نجی فرموں کی خدمات کی مزید ضرورت نہ رہے، کیونکہ پارٹیاں اب اندر ہی اس طرح کے شعبے بناکر کنسلٹنٹ بھرتی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنا ڈیٹا بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اس میں کنسلٹنٹس کے لیے بھی فوائد ہیں۔ انہیں نہ صرف مسابقتی تنخواہ ملتی ہے، بلکہ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ براہ راست کام کرتے ہوئے مہم میں مزید شامل ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ مودی کے لیے جو چائے بیچنے والا یا نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والا برانڈ بنایا گیا وہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ اس میں یہ بتانا مقصود تھا کہ مودی ایک انتہائی مؤثر وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے گجرات کو بدل کر رکھ دیا۔ ایک چائے بیچنے والی شبیہ کو اجاگر کرکے یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کانگریس کی اقربا پروری اور اشرافیہ سے لڑتے ہوئے وہ ایک اہم عہدے تک پہنچ گئے۔
سنگھ کا کہنا ہے ان کو یہ واضح ہو گیا کہ مودی نے جو برانڈ اپنے لیے تیار کیا تھا وہ کوئی حادثہ نہیں تھا، بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ آن گراؤنڈ اور آن لائن مہم کے مؤثر امتزاج سے کانگریس اور گاندھی خاندان کے خلاف منفیت کی ایک فضا پیدا ہوگئی۔ کتاب کے مطابق کہ ایسی فضا شاذ و نادر ہی خود بخود بنتی ہے۔ عوامی ذہنوں کو اپنی گرفت میں لینے والے ایک آئیڈیا کے لیے بہت محنت اور مسلسل تکرار درکار ہوتی ہے اوراب جدید ٹکنالوجی کا سمیں بڑا ہاتھ ہے۔
کتاب کے مطابق، اب تقریباً تمام پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم کے مارکیٹنگ کے شعبے کو سنبھالنے کے لیے پیشہ ور افراد کو نوکریوں پر رکھا ہے۔ ان کو ٹی وی اشتہارات، انتخابی گانوں، ہورڈنگز کے گرافکس اور اخباری اشتہارات کی باگ ڈور سونپی گئی ہے۔
پرشانت کشور کے ساتھ شو وکر م سنگھ نے 2017 میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے کانگریس کے لیڈر امریندر سنگھ کی مہم کی کمان سنبھالی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ مہم کے آغاز میں ان کو ادراک ہوا کہ پٹیالہ کے راج گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے امریندر سنگھ کو مہاراجہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔
وہ بھی اسکے عادی ہیں اور خوش ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریندر سنگھ کی ایک امیج ایسی تھی کہ دیر سے جاگتا ہے اور ایک مہاراجہ کی طرح عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ چونکہ ان انتخابات میں ان کے مقابل عام آدمی پارٹی تھی، جو اپنے آپ کو عوام کے قریب ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، اس لیے ان کی ٹیم نے امریندر سنگھ کو ہدایت دی کہ وہ اپنے آپ کو مہاراجہ کے بجائے کیپٹن کہلوائیں، کیونکہ وہ فوج میں کیپٹن کے عہدے پر رہ چکے تھے۔
بس پھر کیا تھا ‘پنجاب دا کپتان’ کی ٹیگ لائن کو مہم کے مرکزی موضوع کے طور پر منتخب کیا گیا۔ لوگوں سے ‘پنجاب دا کیپٹن’ کی حمایت کرنے کے لیے مسلسل پیغام رسانی اور پرکشش مہم کے نعرے ‘چوندا ہے پنجاب، کپتان دی سرکار کی تشہیر سے ماحول ہی تبدیل ہوگیا۔
پارٹی کے کارکن ووٹروں نے ان کو کپتان کہہ کر مخاطب کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ انتخابی اسٹریجسٹس کے کہنے پر سنگھ نے ریاست کے ہر اسمبلی حلقے کا دورہ کیا اور ووٹروں سے ان کو درپیش مسائل کے بارے میں تحریری درخواستیں لیں۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی حکومت کے اقتدار میں آنے کے پہلے 100 دنوں میں ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کریں گے۔ منصوبہ یہ تھا کہ سنگھ پنجاب کے تمام 117 اسمبلی حلقوں کا دورہ کریں گے، لیکن ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ حقیقی طور پر صرف ساٹھ سے ستر حلقوں کا احاطہ کر سکیں گے۔
ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ الیکشن کا رخ موڑنے کے لیے کافی ہوگا۔ چونکہ وہ وہی وعدے کر رہے تھے، جو ان کو عوام سے مراسلوں کی صورت میں ملے تھے، لہذا ان لوگوں نے ووٹ بھی ڈالے۔ ان انتخابات میں امریندر سنگھ کی قیادت میں کانگریس کو 77 سیٹیں حاصل ہوئیں۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ کانگریس نے ابتدائی طور پر راہل گاندھی کے لیے ایک مضبوط برانڈ بنانے پر توجہ نہیں دی۔ وہ راہل گاندھی کو پبلک کے سامنے زیادہ ایکسپوز کرنے سے کتراتے تھے۔ یہ کانگریس کی ہمیشہ سے ہی حکمت عملی رہی ہے کہ گاندھی خاندان کو پبلک کے سامنے زیادہ نہ آنے دیا جائے، تاکہ ان کے ارد گرد ایک ہالہ سا بنا رہے، جو پرانے زمانے میں راجے مہاراجوں کا خاصہ ہوتا تھا۔
مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ اب سیاست اور ووٹروں کا مزاج بدل چکا تھا۔ جب تک ان کو ادراک ہوا، تب تک بی جے پی نے راہل گاندھی کو ‘پپو’ میں تبدیل کر دیا تھا۔ یعنی لوگوں کو یہ باور کرادیا کہ وہ لیڈر بننے کے لائق نہیں ہیں۔
مودی نے پہلے ہی اپنے لیے ایک مضبوط برانڈ بنا لیا تھا، اس لیے ان کی غلطیاں معاف کر دی گئیں۔ ورنہ سنگھ کے مطابق، حقیقت یہ ہے کہ مودی لاکھوں مالیت کے ڈیزائنر لباس پہنتے ہیں اور اپنے اشتہارات یا بیرون ملک دوروں پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں اس سے بھی ان کی ایک عاجزانہ پس منظر رکھنے والے ‘فقیر’ ہونے کی شبیہ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
سنگھ نے بعد میں بی جے پی کے لیے شمال مشرق کے کئی صوبوں میں کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ میڈیا کے لیے سرخیوں کا انتظام کرتے تھے اور سوشل میڈیا جیسے ٹولز کے ذریعے عوامی گفتگو کو ایک خاص سمت میں منتقل کرنا ان کے کام کا حصہ تھا۔
کتاب کے مطابق انہوں نے جو الگورتھم بنایا تھا اس نے ہر بوتھ کو الگ الگ زمروں میں بانٹا تھا، یعنی ان کی سازگار، کمزور اور مشکل کی درجہ بندی کی گئی تھی۔
اس سے پتہ چلتا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران پارٹی کی کوششوں اور وسائل کو کہاں اور کس حد تک استعمال کرنا ہے۔ سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا سب سے بڑا کارنامہ 2018 میں شمال مشرقی صوبہ تریپورہ کو کمیونسٹوں سے چھیننا تھا۔ وہ اس صوبہ پر 25 سالوں سے بر سر اقتدار تھے۔2013 کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو کل ووٹوں کا محض 1.54 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سی ایم مانک سرکار ایک سادہ آدمی لگ رہے تھے اور انہوں نے ایماندار اور مخلص ہونے کی مضبوط ساکھ بنائی تھی۔
انہیں شورش کے ایک مشکل مرحلے کے دوران ریاست کی قیادت کرنے اور امن قائم کرنے کا سہرا بھی دیا گیا تھا۔ یہ نظریاتی سپیکٹرم کے دو مخالف سروں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ تھی۔ ڈیٹا پر کام کرتے ہوئے سنگھ اور اس کی پارٹی نے ویژولائزیشن ٹولز بنانے پر توجہ مرکوز کی، جس کی مدد سے انہوں نے نقشوں پر ڈیٹا پلاٹ کرنے اور بار گرافس اور چارٹس جیسے دیگر گرافیکل فارمیٹس تشکیل دی۔
ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک موبائل ایپ تیار کرنے کے لیے بھی کام کیا جو ڈیٹا کو پارٹی رہنماؤں کے لیے آسان بناتا تھا۔ یہ بھی معلو م ہوا کہ صوبہ کے قبائلی کمیونسٹ حکومت سے نالاں ہیں۔ بس اس ناراضگی اور پھر ڈیٹا کی بھر مار کا ایک ایسا مجموعہ ہاتھ آگیا، جس نے کمیونسٹوں کو زچ کر دیا اوربی جے پی کا ووٹ بینک ایک فی صد سے 36 فیصد پہنچ گیا۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس پہلے ہی راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے کیڈر کی طاقت حاصل ہے۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں پنا پرمکھوں یعنی ووٹر لسٹ کے ایک صفحہ کے انچارج تعنیات کیے ہیں۔ ایک پنا پرمکھ ووٹر لسٹ کے ایک صفحے پر درج تمام ووٹروں کے درمیان رسائی اور مہم کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور جو اوسطاً ساٹھ ناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایک بار جب کسی پارٹی نے ووٹروں کی ذاتوں اور مذاہب کو انتخابی فہرست میں ان کے ناموں کے ساتھ کمپیوٹر کے سافٹ ویئر میں درج کرا دیا، تو اگلا مرحلہ ان کے فون نمبر حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا بروکرز کے پاس دستیاب رہتے ہیں، جنہوں نے ممکنہ طور پر اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے نچلے درجے کے ملازمین یا سم کارڈ ڈیلرز سے حاصل کئے ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں اس وقت 535 ملین وہاٹس ایپ صارفین ہیں۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کے برعکس ہندوستان میں دیہاتوں کا سفر کرتے ہوئے ان کو احساس ہوا کہ ووٹروں کا خیال ہے کہ سیاسی وہاٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے سے انہیں جیسے کسی قسم کی اندرونی معلومات یا پاور کے محور تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔
چونکہ اس گروپ میں چند معتبر افراد بھی ہوتے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ وہ ان کے قریب ہوگئے ہیں اور جیسے وہ کسی معتبر ذریعے سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔
اگر انہیں نہرو-گاندھی خاندان کے تعلیمی پس منظر یا شہریت قانون کے بارے میں کس طرح کی غلط بیانی موبائل پر ملتی ہے، تو وہ اس کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ 2 ستمبر 2018 کو، ایک ٹوئٹر صارف نے ایک غریب بھکاری کی ویڈیو ٹویٹ کی، جس میں لکھا کہ اس کو مسلمانوں نے پیٹا ہے۔
اداکارہ کویتا مترا نے 1.98 لاکھ فالوورز کے ساتھ اس کو فارورڈ کرکے اعلان کیا کہ جس شخص کی پٹائی کی جارہی ہے وہ ناگا سادھو سنیاسی ہے، جو ہندوؤں کے ایک طبقہ کے لیے نہایت ہی متبرک ہوتے ہیں۔اس کے بعد تو سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔
ایک دن کے بعد تھانے کے ایس ایچ او اور دہرادون کے ایس ایس پی نے واضح کیا کہ یہ شخص ناگا سادھو نہیں تھا بلکہ ایک عادی نشہ باز تھا، جس نے ایک ہندو عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور اس عورت کے بھائی اور اس کے دوست نے اس کی پٹائی کی۔ اس پورے واقعے میں کوئی بھی مسلمان ملوث نہیں تھا۔ مگر اس ویڈیو نے تب تک اپنا کام کر دیا تھا۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ علاقائی پارٹیوں جن کا ذات پات پر مبنی ووٹ بینک ہوتا ہے کو شکست دینے کے لیے، بی جے پی نے ایک ہندو ووٹ بینک کو تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے لیے بابری مسجد، رام مندر کو بار بار یاد دلانا اور یہ پیغام دینا کہ رام مند ر کو ایک مغل جنرل میر باقی نے 1528 میں توڑ کر مسجد بنائی تھی۔
کتاب کے مطابق، بی جے پی نے اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی میں ڈھالا ہے جو ہندو مقاصد کی آبیاری کرتی ہے اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہے اور اپوزیشن ان کی خوشامد اور پذیرائی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
یہ کوئی حادثاتی نعرہ نہیں ہے، بلکہ بی جے پی کا برانڈ ہے۔ 2017 کے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے نتائج، جہاں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا کیے بغیر 400 میں سے 325 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔
موجودہ انتخابات میں بھی پارٹی نے ایک ہی مسلم امیدوار کو کیرالا سے کھڑا کیا ہے اور وہ بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنا ہندو ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے، کیونکہ پولرائزیشن میں اضافے کی وجہ سے ہی پارٹی کو انتخابی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔
مسلمانوں کے علاوہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو بھی دشمنوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور وزیر اعظم مودی نے خود ان کے لیے اربن نکسل اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ غریبوں کے لیے یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ سابق حکومتوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے غریب ہیں، اور بی جے پی نے نوٹ بندی کے ذریعے کالے دھن کے ذخیرہ اندوزوں کو فیصلہ کن دھچکا پہنچایا۔
قصہ مختصر کہ بی جے پی کو معلوم ہے کہ مثبت ایجنڈہ پر وہ انتخابات جیت نہیں سکتی ہے۔ مگر اس کے سامنے مشکل ہے کہ دو اہم ایشوز یعنی گائے اور پاکستان کو وہ 2014 اور 2019 میں بھنا چکی ہے۔ اب لے دے کے 2024 کے لیے مسلمان بچا ہے۔ ابھی تک آس تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈہ کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو حال ہی میں کرناٹک کے صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا، جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا۔
جب مودی نے کئی انتہا پسند لیڈروں کو اس بار ٹکٹ نہیں دیے، تو لگتا تھا خلیجی مسلم ممالک کے ساتھ اپنے رشتوں کی وجہ سے وہ اپنی اور اپنی پارٹی کی شبہہ کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ مگر ابھی راجستھان میں جس طرح کی زبان انہوں نے خود استعمال کی اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی، تو یہ طے ہوگیا کہ 2024 کے ترقی یافتہ ہندوستان کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جائے گا۔ اس سے یہ بھی صاف ہو جاتا ہے کہ ابھی تک جن علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے، وہ ان کے توقعات کے برعکس ہوئی ہے۔ اس لیے اب ان کو لگتا ہے کہ ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ہی ان سے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔ ورنہ بی جے پی کے انتخابی منشور کے نعرہ مودی کی گارنٹی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔