بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں۔میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔

بانو مشتاق، فوٹو: پی ٹی آئی
ممتازادیبہ اور مترجم ارجمند آرا نے جہاں بخوبی یہ استدلال کیا ہے کہ بانو مشتاق کو کیوں پڑھا جانا چاہیے، وہیں انہوں نے بانو کی ایک کہانی ‘فائر رین’ میں تخلیقیت پر اصرار کرتے ہوئے بے حد خوبصورت ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔
امید ہے قارئین کو ہماری یہ پیش کش پسند آئے گی۔(ادارہ)
میں ان دنوں بانو مشتاق اور دیپک شرما کی کہانیاں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی کوئی کہانی انگریزی ترجمے کی مدد سے پڑھ لیتی ہوں، اور کبھی ہندی ادیبہ دیپک شرما کی کہانی ہندی میں۔ اس طرح ادل بدل کر، کوئی آٹھ آٹھ کہانیاں دونوں کی ابھی تک پڑھی ہیں۔ بانو مشتاق، بکر نام کی جادو کی چھڑی کے سبب، کنڑ علاقے سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں اچانک ظہور پذیر ہوئی ہیں جبکہ دیپک شرما کو ہندی کی دنیا سے باہر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ہو سکتا ہے وہ ہندی کی بھی کچھ زیادہ معروف ادیبہ نہ ہوں۔
کہانی کو ہم آج جن معیاروں پر پرکھنا چاہتے ہیں، خصوصاً انعام یافتہ کہانیوں کو، تو اس کسوٹی پر پرکھنے سے یہ تحریریں مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کر رہی ہیں، لیکن کیا کروں، یہ واپس شیلف میں جانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ کچھ تو بات ہے کہ دونوں کا ذکر ایک ساتھ کر رہی ہوں۔ کچھ تو دونوں میں مشترک ہے جو ٹھہر کر، سنجیدگی سے غور کرنے پر اکسا رہا ہے!
اس ’کچھ‘ کا تعلق یقیناً افسانہ نگاری کے لوازم سے، فصاحتِ زبان و بیان سے، اسلوب اور تکنیک کے تجربوں وغیرہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ان خوبیوں کو تلاش کرنے والا میرے اندر کا نام نہاد ’تربیت یافتہ قاری‘ مجھے بار بار کچوکے لگا رہا ہے کہ ان کہانیوں میں ایسا کچھ بھی تو نہیں ہے جس سے محظوظ ہوا جائے، رکھ دو بس۔
لیکن میرے اندر کی غیر تربیت یافتہ، غیر روایتی عورت مجھے سمجھا رہی ہےکہ ان عورتوں کی تحریریں کیا تم بھی نظرانداز کروگی؟ ان دانشور (مرد حضرات) کی طرح جو بنیادی سماجی رشتوں کو، ان کی پیچیدگیوں اور ان میں مضمر تشدد اور ناانصافیوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے؟ ان نام نہاد دانشور نقادوں کی نقل میں جو ان پر بات کرنا، ان پر لکھنا، ان پر لکھے کو پڑھنا تک تضیعِ اوقات سمجھتے ہیں؟
تو بس یہی بات ہے کہ یہ خواتین شیلف پر جانے کو تیار نہیں کیوں کہ یہ سماجی رشتوں کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھ رہی ہیں، خواہ ان کے موضوعات گھسے پٹے ہی کیوں نہ کہلائیں۔ نادر قسم کی، اَن چھوئی، نئی اپج کی حامل، انسائیکلوپیڈک علمیت کی پریڈ کراتی، جادوئی حقیقت نگاری اور پوسٹ ٹُروتھ تجربوں کی حامل کہانیوں سے بے شک انھیں کوئی مَس نہ ہو (جس کی تلاش میں بانو مشتاق کو تجسس سے پڑھنا شروع کرنے والا قاری بری طرح مایوس ہوا ہے، یہ سوشل میڈیا کی بعض پوسٹوں سے مجھے اندازہ ہو چکا ہے)، لیکن کہانی کیا ہم محض اسی نئے پن اور تجربوں کی تلاش میں پڑھتے ہیں؟
اس طرح تو ہم پریم چند کو، اور منٹو کو بھی، جلد ہی ماضی کی کباڑ کوٹھری میں ڈال کر بھول جائیں گے۔
لیکن لوگ جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ معاشرے کی ہر نئی پود میں تالستائی، دوستوئفسکی اور چیخوف سے لےکر شرت چند، ٹیگور، ویکوم محمد بشیر، پریم چند، عصمت، بیدی اور منٹو کو قاری ملتے رہتے ہیں، اس لیے کہ یہ ادیب انسانی سماج، اس سماج میں موجود رشتوں کی پیچیدگیوں اور انسانی نفسیات کے نباض ہیں؛ اور جب تک انسان کی وہ سرشت باقی ہے (جو باقی رہے گی بھی) جس کی کہانیاں یہ ادیب بیان کرتے رہے ہیں، ان کو قارئین بھی ملتے رہیں گے۔
چنانچہ بانو مشتاق اور دیپک شرما جیسی ادیبوں کو بھی کیوں نہ پڑھا جائے جو بھلے ہی مذکورہ بالا عظیم مصنفین کی صف میں شامل نہیں، لیکن انہی کی طرح ایسے موضوعات پر لکھتی ہیں جو فرسودہ اور گھسے پٹے سہی لیکن مطلق الوجود اور قدیمی ہیں— سورج اور ہوا کی مانند، جو محض اپنی ہمہ گیر موجودگی سے اور بے طلب حاصل ہونے کے سبب کسی کی نظروں میں نہیں سماتے۔
لیکن ایک بات اور بھی ہے، جو غور طلب ہے۔ یہ خواتین رشتوں کی ان پیچیدگیوں کو، جو اپنی ہرجا اور ہمہ گیر موجودگی کے سبب نظروں میں نہیں سماتیں، کس زاویے یا کن زاویوں سے نمایاں کر رہی ہیں؟
اردو میں خواتین کی تحریروں پر اگر پیچھے مڑ کر نظر ڈالیں تو فکشن کی خاتونِ اوّل رشید النساء (’اصلاح النسا‘ 1883) سے لے کر محمدی بیگم، رشید جہاں، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر تک کی تحریروں کے مرکز میں آخر عورتیں ہی کیوں ہیں؟
کیا ان کے سوال، عورتوں کی ماہواری کی طرح، خالص زنانے سوال ہیں جن پر مردوں کو سوچنے اور بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا وہ صرف اصلاحِ نسواں اور آگے چل کر تانیثی، یعنی حقوقِ نسواں کے سوال اٹھا رہی ہیں؟
اگر ہمارے ادیب، نقاد اور قاری ایسا سمجھتے ہیں تو پھر اصل مسئلہ عورتوں کی تحریروں کے موضوعات کے خالص زنانہ ہونے کا نہیں بلکہ مردانہ کوتاہ نظری اور احمق پن کا ہے کہ انھیں ماہواری کے مسائل میں اپنی نسلوں کے مستقبل کا مسئلہ نظر نہیں آتا، حالانکہ قوتِ مردانگی بڑھانے والے اشتہاروں کی دیواروں، اخباروں اور دیگر ترسیلی ذرائع پر ہمہ وقت اور ہمہ گیر موجودگی میں پورے مرد معاشرے کی پدرشاہی نفسیات بھی خود کو مشتہر کرتی رہتی ہے اور اپنی نسلوں کی بقا کی تشویش بھی۔ پھر وہ عورتوں کی صحت (جسمانی، سماجی، نفسیاتی، تہذیبی) کے سوالوں سے بدکتے کیوں ہیں؟
کبھی غور کیا ہے کہ رشتوں کی بنیادی پیچیدگیوں، ان میں پوشیدہ بے انصافیوں اور تشدد نے، اس نفسیاتی اور ذہنی کرب نے جو عورتوں کی مجموعی اور عمومی ماتحتی سے پیدا ہوا ہے، خود مردوں کی دنیا اور نفسیات میں کیا گل کھلائے ہیں؟ آخر ان سوالوں کو مخاطب کیے بغیر وہ ایک مثالی گھر اور بستی، مثالی سماج اور سماجی ادارے، سیاسی اور اقتصادی اداروں کو کیسے وجود میں لا سکتے ہیں جو اُن کے اجارے ہیں؟
عورتوں کی تحریروں یا ان کے موضوعات کو ناقابلِ اعتنا اور غیر معیاری گرداننے پر یاد آیا کہ جب دلت ادب منظرِ عام پر آنا شروع ہوا تھا، خاص طور سے آپ بیتیوں کی شکل میں، تو ہندی جگت میں طویل بحث چھڑی تھی (گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں)، اور ہندی کے کئی بڑے نقادوں نے ان تحریروں کو ادب کی صفوں سے خارج کیا تھا—اور ستم ظریفی یہ کہ اعلیٰ ذاتوں والے ادیبوں کے قائم کردہ ادبی معیاروں پر پرکھ کر خارج کیا تھا۔
ظاہر ہے کہ یہ معیار دلتوں نے طے نہیں کیے تھے، انھوں نے تو ابھی لکھنا شروع ہی کیا تھا، اور ان کے ادب کی معیار بندی اور اصولِ نقد کی کوئی شکل ابھرنے میں ابھی وقت تھا۔ ایک مختلف معاشرت و تہذیب کے اصولوں پر انھیں پرکھنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی کرکٹ کے اصول ٹینس یا فٹ بال کے کھلاڑیوں پر تھوپے۔ ظاہر ہے یہ ایک گمراہ کن بحث تھی جس کا اصل مقصد دلتوں کو اسی احساسِ کمتری اور احساسِ محکومیت میں مبتلا رکھنا تھا جس میں انھیں ہزاروں سال سے گرفتار رکھا گیا ہے۔
میرے خیال میں بالادست اور پدرسری معاشرہ یہی سلوک عورتوں کی تحریروں کے ساتھ بھی کرتا رہا ہے۔ اور کر رہا ہے۔
بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں کہ ان کی کہانیاں ’معمولی‘ ہیں، یا ان معمولی موضوعات اور واقعات پر مرکوز ہیں جو ہمارے ارد گرد ہمہ وقت موجود ہیں، بلکہ اتنے زیادہ موجود ہیں کہ قابلِ اعتنا نہیں ٹھہرتے۔
میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔
کسی نقاد نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ محلے میں مسجد کے متولی کی مقتدر حیثیت، اس کے ذریعے شریعت کی عورت مخالف تعبیر، حقِ وراثت اور موروثی جائیداد میں عورت کے حصے کے مسائل کسی حاشیے کے نہیں بلکہ معاشرے کے مرکزی سوال ہیں جن پر بات کرنے کے بجائے بانو مشتاق کے معمولی افسانہ نگار ہونے پر بحث کی جا رہی ہے۔

Heart Lamp: Selected Stories
Penguin, 2025
اسی صورتِحال نے مجبور کیا کہ بانو مشتاق کی کچھ کہانیاں ضرور ترجمہ کروں، اس توقع کے ساتھ کہ انھیں پڑھ کر اردو کے قارئین بھی ان مسائل کی طرف متوجہ ہوں گے جن کو وہ نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔
بے شک وہ کنڑ زبان میں کنڑ علاقے کی کہانیاں بیان کرتی ہیں لیکن ان کا اطلاق سارے برصغیر پر، اور خصوصاً برِ صغیر کے مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ یہ کہانیاں ہمیں غورو فکر پر مجبور کریں گی، قدرے حساس اور عقلمند، اور نسبتاً بہتر انسان بننے پر مائل کریں گی۔
آخر میں واضح کرنا چاہوں گی کہ بانو مشتاق کو پڑھنے کی ضرورت میرے نزدیک ادبی نہیں بلکہ سماجی ہے۔ وہ جن مسائل کو اٹھاتی ہیں، جن پر بولنا اور لکھنا ضروری سمجھتی ہیں وہ مسائل اہم ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی نمائندگی کرنے والے اردو اخبارات و رسائل ان مسائل پر کبھی کوئی فکر انگیز یا معمولی مضمون بھی نہیں چھاپتے۔
یعنی ایک بلیک ہول ہے جس میں مسلمانوں کے طرز معاشرت سے وابستہ ہر مسئلہ سماتا جاتا ہے اور اس کا وجود عنقا تصور کر لیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں بانو مشتاق کا دم غنیمت ہے کہ وہ بعض مسائل کو اہمیت دے رہی ہیں۔
اور آخری بات یہ، بلکہ پہلی بات یہیں سے شروع ہونی چاہیے تھی، کہ ترجمہ کا بُکر عموماً ناول پر دیا جاتا ہے، کسی افسانوی مجموعے کو پہلی بار دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سپاٹ بیانیے پر مبنی، ان عام سی کہانیوں کو آخر کیوں منتخب کیا گیا؟ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہم سرسری نگاہ میں بھانپ لیتے ہیں کہ انگریزی ترجمہ زبان کے اعتبار سے خاصا معمولی اور ناقص ہے۔ پھر وہ کون سے پیمانے رہے ہوں گے کہ کہانیوں کو بھی بہترین سمجھا گیا اور ترجمے کو بھی ۔
اس کی ایک توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ جو کتابیں بکر انعام کے لیے فراہم ہوئیں سب غیر معیاری تھیں، جن میں سے بہترین کو چن لیا گیا۔ دوسری یہ ہو سکتی ہے کہ اچھی کہانیوں کے دن لد گئے اور عالمی ادب بحران کے دور میں ہے۔ دونوں ہی دلیلیں خود میرے لیے بھی بودی اور ناقابلِ قبول ہیں۔
تب سوال رہ جاتا ہے کہ بُکر کی کوئی ایسی پالیسی ہے جسے ہم جانتے تو نہیں لیکن اس پر قیاس آرائی ضرور کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات حتمی طور پر جانتے ہیں کہ بکر انعام صرف انگلینڈ یا آئرلینڈ سے شائع ہونے والی کتابوں پر ملتا ہے۔ چنانچہ ایک بات تو طے ہو گئی کہ مسابقت میں شریک ہونے والے ادیب منصوبہ بندی کرکے وہاں سے کتاب شائع کرائیں انھیں میں سے کسی کو انعام ملے گا، ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ مسابقت کا دائرہ عالمی نہیں رہ گیا، اور نام میں عالمی ہوتے ہوئے بھی یہ کسی طرح عالمی ایوارڈ نہیں ہے، البتہ عالمی سطح پر معتبر ضرور ہے۔
قیاس آرائی اس نکتے پر کی جا سکتی ہے کہ اس کا ایک مقصد شاید کم معروف زبانوں اور خطّوں کے ادب کی حوصلہ افزائی کرنا، یا مخصوص فرقوں اور گروہوں کے طرزِ زندگی اور مسائل پر مبنی ادب کو روشنی میں لانا وغیرہ ہو۔
ایک اور وجہ کتابوں کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے قارئین کے نئے گروہوں کی تلاش بھی ہو سکتی ہے۔ جس طرح ایک زمانے میں عالمی حسن کے مقابلوں میں ہندوستان کو لگاتار سبقت ملتی رہی (ظاہر ہے ان کا مقصد واضح طور پر فیشن پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے نئے نئےعلاقوں تک پہنچنا ہوتا ہے)، اسی طرح انگریزی کتابوں کی عالمی صنعت میں ہندوستان ایک بڑا بازار تصور کیا جاتا ہے۔
غالباً اسی لیے بہت کم عرصے میں دو دو بکر ہندوستان کے حصے میں آ گئے۔ یہ بات دوسری ہے کہ سوال گیتانجلی شری کے ناول ریت سمادھی کے معیار پر بھی اٹھے تھے اور بانو مشتاق کے تخلیقی جوہر پر بھی اٹھ رہے ہیں۔



بہرحال، معیار کے تنازعات سے قطع نظر بانو مشتاق کی ایک کہانی ’رین فائر‘ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے جس کا موضوع بھی دلچسپ ہے اور اس میں تخلیقیت بھی ہے۔
اس کہانی میں موروثی جائیداد میں بہنوں کے حصہ کے سوال کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔ حصہ نہ دینے والا ایک متولی ہے، جس کو مرکزی کردار بنانا، ہماری معاشرتی تنگ نظری کے باعث، کم حوصلے کی بات نہیں۔
یاد کیجیے بدنامِ زمانہ خواتین رشید جہاں ’انگارے والی‘ اور عصمت چغتائی ’لحاف والی‘ کو، سجاد ظہیر اور محمود الظفر کے ان افسانوں کو جن کے ناگفتنی موضوعات پر لکھے افسانوں کے سبب ’انگارے‘ پر پابندی لگی، نیز یاد کیجیے سلام بن رزاق کے افسانے (زندگی افسانہ نہیں) کو جس میں اپنے خاندان کی پرورش اور دیگر ذمہ داریوں سے پہلو بچاکر تبلیغی جماعت میں چلے جانے والا کردار تخلیق کرنے کی پاداش میں انھیں حقیقی دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پبلشر، ’نیا ورق‘ کے مدیر ساجد رشید کو بھی۔
سوشل بائیکاٹ بانو مشتاق کا بھی ہوا اور وہ بھی معتوبین کی لیگ میں شامل ہوئیں، جیسا کہ وہ خود اپنے کسی انٹرویو میں بتاتی ہیں۔ ایکٹوسٹ ہونا اور اپنی تحریروں سے بھی سماجی تبدیلی کا کام لینا، سمجھ میں نہ آنے والے تجریدی تجربوں کے طوطا مینا بنانے سے بہتر کام ہے۔ ان جیسے باحوصلہ اور باضمیر ادیب سماجی مسائل پر لکھتے رہیں، یہ بھی ایک کارِ خیر ہے تاکہ معاشرہ ان مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہو۔
انگار کا مینہ
(دیپا بھاستی کے انگریزی ترجمے فائر رین پر مبنی)
فجر کی نماز کے لیے جیسے ہی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی، متولی عثمان صاحب اپنے بستر پر اٹھ بیٹھے۔ یہ دیکھ کر کہ ان کی بیوی عارفہ ان کے پہلو میں نہیں ہے، وہ کمرے سے نکل کر ہال کمرے میں آئے اور دیکھا کہ وہ اور ان کا بیٹا انصار گہری نیند میں قالین پر پڑے ہیں۔ ایک سرسری نظر نے ان پر یہ واضح کر دیا کہ تین سال کے بچے کی سانسیں ناہموار ہیں۔ اس کی پیشانی پر رکھی گیلی پٹّی، بکھرے برتن—دودھ کی بوتل، کپ، چمچ، پانی کا جگ اور گرم پانی کا فلاسک — دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ کیا ہوا ہے۔
عارفہ یقیناً ساری رات جاگتی رہی تھی اور تھکن سے چور اپنے بستر پر نہیں، بلکہ اس ہال میں تھی اور اب بے خبر سوئی پڑی تھی۔ انھیں اپنے سینے میں احساسِ جرم کا خنجر اترتا محسوس ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے یاد آیا کہ ان کی چھوٹی بہن جمیلہ اور اس کا شوہر برابر والے کمرے میں سوئے ہوئے ہیں، اور وہ بے چین ہو اٹھے۔ پہلے خیال آیا کہ عارفہ کو کمبل اڑھا دیں لیکن پھر جمیلہ کے شوہر کا خیال کر کے ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور بدن میں اینٹھن ہونے لگی۔ انہوں نے جھنجھوڑ کر عارفہ کو جگایا۔ وہ اپنی تھکن کے باعث گہری نیند سے فوراً بیدار نہیں ہوئی، جس سے متولی صاحب کا پارہ چڑھنے لگا۔
چھوٹا سا ایک گیت جو ایک فقیر گایا کرتا تھا، ان کے ذہن میں گونجنے لگا۔
ہاندی اینڈیکے ہیگلی یووے
مناڈَلّی ہاندی، مَنے یَلّی ہاندی
مائی یَلّی ہاندی ہوتتا وانےـــ
سور کا گوشت حرام ہے۔ اسی کی مانند غصہ بھی۔ متّقی مسلمان یہ مانتے ہیں کہ اگر سور پر نظر بھی پڑ جائے تو آدمی ناپاک ہو جاتا ہے۔ اس گیت میں اس غصے کو، جو انسان کے قلب و قالب اور گھر میں سرایت کر جاتا ہے، سور کے مساوی بتایا گیا ہے۔ متولی نے بھی گیت کو بار ہا گنگنایا تھا۔ لیکن یہ وہ صبح تھی کہ ان کے نامعقول غصے کے آگے گیت بھی چمپت ہو گیا۔ اضطراب کے عالم میں انہوں نے ادھر ادھر ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور پھر اچانک گویا عرفان ہوا ہو، انہوں نے عارفہ کی ٹانگوں پر زور سے ٹھوکر ماری۔ وہ معاً اٹھ بیٹھی۔
’’تم اندر نہیں سو سکتیں‘‘، انہوں نے کرخت آواز میں کہا، اور جواب کا انتظار کیے بغیر باہر نکل گئے۔
مسجد ان کے گھر سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر تھی۔ وہ تیز قدموں سے چل رہے تھے، لمبے لمبے ڈگ بھر کر صبح کی دُھند کے پردے کو چاک کرتے ہوئے۔ ان کا جسم گو کہ مسجد کی جانب بڑھ رہا تھا، تاہم ذہن مستقل پیچھے کی طرف، گھر کی جانب بھاگتا رہا۔
ان کی سب سے پیاری، سب سے چھوٹی بہن—وہ بہن جس کو انہوں نے سیکنڈری اسکول تک کرامت و شفقت سے پڑھایا تھا، وہ بہن جس کی شادی پر اب سے پانچ سال پہلے انہوں نے اٹھارہ ریشمی ساڑیاں، سونے کا زیور، اور اس کے شوہر کے لیے موٹر بائیک دی تھی — وہی بہن اب موروثی جائیداد میں حصہ مانگنے آئی تھی۔ اس کے اعزاز میں بریانی اور سوئیوں کی خاص کھیر ’شاویگے پایَسا‘ تیار کرائی گئی تھی، جس میں اب تلخی آ گئی تھی۔ ’ہونہہ۔ یہ کس قسم کا رویّہ ہوا؟‘ ان کا بدن دوبارہ غصے سے سلگ اٹھا۔
اس پر مستزاد یہ کہ اس نے جرح بھی شروع کر دی تھیں۔ ’’اَناّ! میرا اتنا ہی حصہ ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول کی شریعت نے مجھے حق عطا کیا ہے۔ میں اُس جائیداد میں سے حصہ نہیں مانگ رہی ہوں جو آپ نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔ ‘‘
وہ کون سی جائیداد ہے جو انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے؟ کیا وہ محض اسی جائیداد کا انتظام نہیں سنبھالے ہوئے تھے جو ان کے والد نے جمع کی تھی؟
’’ہمارے والد کی جائداد کے چھٹے حصے پر میرا حق ہے۔‘‘
اوفوہ! اس نے پہلے ہی سارا حساب لگا رکھا ہے۔ وہ اس کے منہ پر تھپڑ جڑتے ہوئے کہنا چاہتے تھے، ’یہ لو اپنا چھٹا حصہ!‘ لیکن انہوں نے سؤر کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی جو ان کے بدن میں سرایت کر چکا تھا اور اب عالمِ اضطراب میں کود پھاند مچا رہا تھا۔ جمیلہ کا چھ فٹا شوہر بھی قریب ہی رکھی ایک کرسی پر گویا اس کا محافظ بنا بیٹھا تھا۔
’’آپ محلے بھر کے مسئلوں کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ مجھے بلاتے اور کہتے: لو جمیلہ، اپنا حصہ لے لو۔ چلیے میری بات چھوڑیے، سکینہ اَکّا معاملہ ہی لیجیے۔ نہ تو ان کے شوہر زندہ ہیں اور نہ بچے ہی اتنے بڑے ہیں کہ کوئی کام دھندا کرسکیں ۔ وہ اپنی دو دو جوان بیٹیوں کی شادی کا انتظام کس طرح کریں گی؟‘‘
متولی صاحب بیٹھے فرش کو گھورتے رہے۔ یہ کتنی تعجب خیز بات تھی کہ جمیلہ یوں فرفر بولے جا رہی تھی ۔ اس کی خاموشی کی عادت کیا ہوئی؟ آم اور ناریل کے باغیچے، کھیت کھلیان اور وہ ساری جگہیں جہاں ریشم کے کیڑے پالے جاتے تھے، اور شہر بھر میں بکھرے بے شمار مکانات— ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ان میں سے کچھ بھی کیا وہ اپنی بہنوں کو حصے کے طور پر دے سکتے تھے؟
جمیلہ مینڈک کی طرح سے ٹرّاتی رہی، ’’اَنّا، ایک اچھے خاندان میں آپ نے میری شادی کی ہے، میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ آپ نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن مہربانی کر کے ذرا سوچیے، ابّا کے انتقال کو دس سال گزر چکے ہیں۔ اگر آپ نے مجھے تبھی میرا حصہ مجھے دے دیا ہوتا تو اب تک میں نے اس سے دس گنا پیسہ کما لیا ہوتا جو آپ نے میری شادی پر خرچ کیا تھا۔ میں اب وہ سارا پیسہ تو آپ سے نہیں مانگ رہی ہوں نا۔ لیکن…‘‘
متولی صاحب کے صبر کا باندھ پھٹ پڑا۔ عارفہ دروازے کے سہارے کھڑی یہ ساری گفتگو بے چینی سے سن رہی تھی۔ اس کے خیال میں جمیلہ کے سارے الفاظ، اس کا لہجہ اور جرح کا انداز، سب کچھ بہت افسوسناک تھا، لیکن اس کا مطالبہ تو بالکل جائز تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ اس کی دلیلوں کو کوئی نہیں کاٹ سکتا تھا۔
وہ گھر جس سے متولی کو چار ہزار روپے ماہانہ کرایہ ملتا تھا اور ساتھ میں ایک کافی کا باغ، کیا عارفہ کو اس کے والدین کی جانب سے اس کے حصے کے طور پر نہیں ملے تھے؟ عارفہ کو اپنا حصہ بغیر مطالبے کے ملا تھا ۔ اس کے والدین نے اسے اور متولی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی، انہیں عمدہ کھانا کھلایا ، ایک نئی ساڑی اور بلاؤز تحفے میں دیا، اور جو جائیداد اس کے نام منتقل کی تھی اس کی رجسٹری کے کاغذات ان کے حوالے کیے اور بہت شفقت سے انہیں رخصت کیا۔ لیکن یہاں جمیلہ کو اپنے حق کے لیے لڑنا پڑ رہا تھا۔
متولی صاحب کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، وہ گھُرگھُراتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور جمیلہ کو گھورتے رہے۔ اپنے بڑے بھائی کو اس طرح گھورتے دیکھ کر وہ تھوڑی سی سہم گئی لیکن پھر اس نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا، تھوڑا سا حوصلہ بٹورا اور اس طرح جیسے جملہ رٹ کر آئی ہو، اس نے جلدی سے اپنی بات ختم کی؛ ’’اگر آپ مجھے میرا جائز حق نہیں دیں گے تو میں عدالت میں حاصل کروں گی۔‘‘
متولی صاحب سُنّ رہ گئے اور دَم سادھے تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھے۔ ان کے قدموں کی مغضوب دھمک سے سہم کر عارفہ تیزی سے دروازے سے ہٹ گئی اور انہیں نکلنے کا راستہ دیا۔
کمرے میں وہ مورت بنے بیٹھے رہے، یہاں تک کہ انہیں اپنی ٹوپی تک اتارنے کا خیال نہیں آیا۔ عارفہ نے آکر پنکھا چلا دیا۔
واقعے کی ساری تفصیلات ان کے ذہن میں ایک ایک کرکے گزرنے لگیں۔ سردی کا موسم تھا اور مسجد کے عقب میں غسل خانے میں پانی گرم ہو رہا تھا۔ عادت کی اٹکل کر انہوں نے غائب دماغی سے وضو کے مراحل طے کیے، اور نماز کے بھی۔ گو کہ انہوں نے اپنے اعضا کو دھو کر پاک صاف کر لیا تھا، لیکن کرب ذہن میں پنجے گاڑے بیٹھا رہا۔ ایک تو جمیلہ کی ڈھٹائی کچو کے لگا رہی تھی، اور دوسرے جائیداد میں حصہ دینے کا خیال کچوٹ رہا تھا۔ ان کی اصل تشویش یہ تھی کہ وہ اس ڈھٹائی پر اسے کس طرح سزا دیں اور ساتھ میں جائداد پر قبضہ بھی برقرار رکھیں۔
مسجد کشادہ تھی اور اس کا صحن وسیع و عریض۔ جو لوگ صبح کی نماز ادا کرنے آتے تھے وہ انھیں اپنی انگلیوں پر شمار کر سکتے تھے۔ اس وقت ان کے حلقہ احباب میں سے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ چنانچہ مجبور ہو کر انہوں نے گھر کا رخ کیا۔
لیکن وہ سیدھے گھر نہیں گئے۔ جب تک وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے قصبے کے گول چکر تک پہنچے، مدینہ ہوٹل کے دروازے کھل چکے تھے۔ وہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور ایک کپ چائے پی۔ لیکن قرار نہیں آیا۔ وہ ہوٹل سے باہر نکلے اور نہایت بے دلی سے چلتے ہوئے گول چکر کے بیچوں بیچ جا کھڑے ہوئے جہاں دراصل ٹریفک پولیس والے کو ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے سیٹی نہیں بجائی اور نہ ٹریفک کو راستہ دکھایا۔ وہ چاروں سمتوں میں کچھ یوں دیکھتے رہے جیسے فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں کہ کون سے راستے پر چل پڑیں۔ ان کا حال قابلِ رحم تھا۔ اور تبھی وہ ناممکن الوقوع حادثہ وقوع پذیر ہو گیا۔
دھپّ!!! ایک آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس سے قبل کہ وہ دیکھتے کہ کیا ہوا ہے، ایک کوّا بجلی کے تار سے لڑھکا اور درخت سے ٹوٹے خشک پتے کی مانند سڑک پر آن گرا۔ متولی صاحب نے اس کو چند گز کے فاصلے سے دیکھا اور چلنے کو ہوئے۔ تبھی ایک اور کوا جانے کہاں سے کائیں کائیں کرتا نمودار ہوا۔ اس کی آواز گونجی تو مزید کوے جمع ہونے لگے، جیسے جادو سے ظاہر ہو رہے ہوں۔
انھوں نے محسوس کیا کہ ان میں سے بعض کی کائیں کائیں درد آمیز تھی، بعض میں جارحیت تھی اور بعض میں غصہ۔ بعض میں تساہل تھا، گویا فرض سے مجبور ہوکر کانکنا پڑ رہا ہو۔ کچھ آوازیں ایسی تھیں گویا گہری سانس بھر کر لعنت بھیج رہی ہوں، کچھ جشنِ آزادی کی تُرہی بجا رہی تھیں اور مسرت آمیز چیخوں کی مانند تھیں۔ متولی گویا ہر طرح کی چیخیں محسوس کرنے لگے اور انھوں نے وہاں سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کوّے ان کے سر پر منڈلانے لگے، جیسے ان پر حملہ کرنے والے ہوں۔ کنفیوزڈ ہو کر انھوں نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ آنکھ کے گوشے سے انھوں نے بے حرکت کوّے پر نگاہ ڈالی۔ ارے! نفوذ ناپذیر سیاہ رنگ میں دھنک کے اتنے سارے رنگ؟
جب تک وہ گھر پہنچے—اب تک اسی غائب دماغی کے ساتھ، اور اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئے، متولی صاحب کو نیند کا غلبہ محسوس ہونے لگا۔ عارفہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھی، بیمار بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کے لیے ناشتے اور لنچ کا اہتمام، ان کے بستے اور جوتے موزے وغیرہ۔ نیز جمیلہ اور اس کے شوہر کے لیے خصوصی کھانوں کا انتظام۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس گھر کی بیٹی کوستی پیٹتی، ناراض ہوکر مائیکے سے جائے۔اسے اپنی ماں کے الفاظ یاد تھے : حقدار ترسے تو انگار کا نوہ برسے۔ یعنی اگر حقدار ناخوش ہوا تو انگاروں کا مینہ برسے گا۔
گزشتہ رات اس نے متولی صاحب سے دھیمی سرگوشیوں میں باتیں کی تھیں۔ ’’رائی (اجی)، گھر کی بیٹی کو کبھی تکلیف نہ دو۔ قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ لڑکی بھی اپنے حصے کی حقدار ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کیا؟ اپنی چاروں بہنوں کو بلالو اور ان کا جو حق بنتا ہے، دے کر اپنا دامن صاف کرلو۔ ہمارے پاس جو کچھ بچے گا اللہ اسی میں ہمیں برکت دے گا۔‘‘
عارفہ عموماً انھیں مشورے نہیں دیتی تھی۔ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی، پھر بھی اس موضوع پر اس نے اپنی بات کی۔ متولی صاحب نے سکیڑوں فیصلے کیے تھے۔ وہ انھیں ایسا کیا بتا رہی تھی جسے وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے؟ وہ ایسی عورت کے الفاظ کیوں برداشت کریں جو برقعہ اوڑھتی ہے اور معمولی حیثیت رکھتی ہے۔
’’چپ رہو، اور اپنے کام سے کام رکھو،‘‘ انھوں پھٹکارا تھا ، اور بستر پر دراز ہو کر جلد ہی خراٹے لینے لگے تھے۔
عارفہ چپاتیاں بیل رہی تھی، اور نہایت مضطرب تھی۔ ’’اے پروردگار، انھیں تھوڑی سی سمجھ عطا کر،‘‘ اس نے دل ہی دل میں رو کر کہا۔ وہ ابھی ابھی انصار کی پیشانی پر گیلا تولیہ رکھ کر آئی تھی۔ وہ حالانکہ مشینی انداز میں آٹا بیلتی اور توے پر روٹیاں سینکتی رہی تاہم اسے احساس تھا کہ انصار تکلیف میں ہے، اور بار بار ہال کی طرف دوڑتی تھی جہاں اس نے انصار کو لٹا رکھا تھا۔
اسی دوران میں اس کی نظر اس عورت پر پڑی۔ اس نے حالانکہ برقعہ اوڑھ رکھا تھا اور اس کے چہرے پر نقاب تھی، تاہم عارفہ نے اسے فوراً پہچان لیا۔ برقعے کے سوراخوں میں سے ایک گندی سی ساڑی جھانک رہی تھی جس کا رنگ کبھی سیاہ رہا ہوگا لیکن اب فرسودہ ہوکر بھوری ہو چکی تھی۔ ایڑیاں کٹی پھٹی، جلد کا رنگ اڑا ہوا، پیروں میں ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں جن کو سیفٹی پن لگا کر مرمت کی گئی تھی۔
عارفہ نے ایک ہی نظر میں اس کی حالتِ زار کو بھانپ لیا اور خود کو پریشان ہوتے محسوس کیا۔وہ عورت اندر نہیں آئی بلکہ برآمدے میں ہی رک گئی، ان لوگوں کے ساتھ جو متولی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس کو ایک گوشے میں یوں کھڑی دیکھ کر عارفہ نے اپنے حلق میں ایک گولا سا اٹکتا محسوس کیا۔ پردے کے پیچھے سے، جو ہال کمرے کو برآمدے سے الگ کرتا تھا، اس نے اتنی اونچی آواز میں کہ عورت تک پہنچ جائے، سرگوشی کے انداز میں کہا، ’’سکینہ اَکّا، تم سے بِنتی کرتی ہوں، اندر آ جاؤ۔ باہر کیوں کھڑی ہو؟‘‘
عارفہ پردے کے پیچھے سے عورت کے تاثرات نہیں دیکھ سکی کہ اس نے سن لیا ہے یا نہیں۔ تاہم، اس کے پاس کھڑے لڑکے نے تقریباً بے رحم لہجے میں جواب دیا تھا، ’’ہم ٹھیک ہیں مامی، آپ اپنا کام کیجے۔ ماما آئیں گے تو ہم ان سے بات کر کے چلے جائیں گے۔
سکینہ، اس کی سب سے بڑی نند، نہایت خوددار عورت تھی۔ جب وہ بیوہ ہوگئی تو اپنے تین بچوں کی پرورش اور گھریلو اخراجات اٹھانے کے لیے اس نے سلائی کا کام شروع کر دیا تھا۔ اپنے مائیکے سے وہ پانی کی ایک بوند کی بھی روادار نہ تھی۔ وہ تیج تہوار کے موقعے پر کبھی کبھار آتی اور اپنے بڑے بھائی کی دعا لیتی۔
لیکن اس دن وہ ایک اجنبی کی طرح دوسروں کے ساتھ قطار میں کھڑی تھی۔ عارفہ حیرت زدہ تھی کہ کیا وہ بھی جمیلہ کی طرح جائیداد میں حصہ مانگنے آئی ہے۔ لیکن اس نے جلد ہی اپنے خیال کو جھٹک دیا اور سکینہ کو دوبارہ اندر آنے کو کہا۔ اپنے شوہر کے باہر آنے سے پہلے سکینہ کو بلا کر کمرے میں بٹھانے کی اس کی یہ کوشش بے سود رہی۔
متولی صاحب اپنے بدن میں بھاری پن محسوس کر رہے تھے لیکن نیند ان کو اچھی آئی تھی۔ وہ عارفہ کو برآمدے میں کھڑے لوگوں کو جھانکتے دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے، کیونکہ وہ پہلے کبھی یوں تاک جھانک اور اشارے کرتے نہیں دیکھی گئی تھی۔ نادانستہ ان کی آواز اونچی ہوگئی، ’’عارفا اااا؟‘‘
گھبرا کر عارفہ نے پردہ گرا دیا اور بڑبڑائی، جیسے اپنے آپ سے مخاطب ہو، ’’سکینہ اکّا باہر والوں کی طرح ، مردوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ میں ان سے اندر آنے کو کہہ رہی تھی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ متولی صاحب باہر نکلے توسکینہ اور اس کے بیٹے کو دیکھ کر ان کا چہرا سرخ ہو گیا۔
سکینہ نے اپنی ہتھیلیاں آپس میں جوڑیں اور اجنبی لہجے میں اپنی درخواست گزاری؛’’بھائی صاب، مجھ جیسی بے سہارا بیوہ کی مدد کیجیے۔ اللہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو خوشیاں اور خوشحالی عطا فرمائے۔ میرا بیٹا بی اے کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہے۔ ایک انجینئرنگ کالج میں اٹینڈر کی نوکری کے لیے اس کا انٹرویو ہے۔ سنا ہے آپ وہاں کی کمیٹی کے رکن ہیں۔ میرے بیٹے کا نام سید ابرار ہے۔ مہربانی کرکے اسے یہ نوکری دلوا دیجیے۔ یہ اس کی درخواست ہے، دیکھیے۔ اگر میرے بیٹے کو یہ نوکری مل گئی تو وہ ہمارے خاندان کا بڑا سہارا بن جائے گا، حالانکہ وہ مجھ جیسی بدنصیب عورت کے ہاں پیدا ہوا ہے۔سب کہتے ہیں کہ اگر آپ کہیں گے تو اسے کام پر ضرور رکھ لیا جائے گا۔ آپ غریبوں کی خوشی غمی کے شریک ہیں۔ مجھ پر بھی مہربانی کیجیے۔‘‘ اس سے پہلے کہ متولی صاحب کچھ کہتے، اس نے نوکری کی درخواست ان کے ہاتھ میں تھما دی، ان کے پیر چھوئے اور جلدی سے باہر نکل گئی۔
متولی صاحب کے دماغ میں کوّوں نے چیخنا شروع کر دیا ۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔ سردی کے باوجود ان کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلک اٹھیں۔ وہ ایک گدی دار کرسی پر ڈھہہ گئے۔ پردے کے پیچھے عارفہ کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔
دروازے کے پاس ایک نوجوان عورت اپنے بچے کو سینے سے چپکائے ہوئے کھڑی تھی۔ ساڑی کے پلّو کو اپنے سر پر درست کرتے ہوئے وہ ان سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہو گئی اور بولی، ’’انّا، اس بچے کے باپ کے پاس بیل گاڑی تھی۔ پندرہ دن پہلے اس کا آپریشن ہوا۔ آپریشنے کے لیے میں نے اس کی گاڑی اور دونوں بیل بیچ دیے تھے۔ اب پتا چلا اسے ایک اور آپریشن کی ضرورت ہے! ڈاکٹر نے یہی بتایا۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا۔ آپ… آپ…‘‘ اس کا گلا رندھ گیا اور آنکھیں دھندلا گئیں۔ وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔
متولی صاحب نے اس سے ہسپتال اور ڈاکٹر کا نام، اور دیگر تفصیلات پوچھیں۔ پھر کہا کہ وہ اس کے شوہر کے آپریشن کا انتظام کریں گے اور اسے رخصت کر دیا۔ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، عورت اپنے دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی۔
اب ایک اسکولی بچے نے اپنی نوٹ بک ان کی جانب بڑھا ئی۔ ہائر پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس نے اپنے مدوّر خط میں متولی صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ اس دن سہ پہر تین بجے اسکول ڈویلپمنٹ کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہوکر شکریے کا موقع عطا فرمائیں۔ انھوں نے نوٹ پر دستخط کرکے لڑکے کو رخصت کیا۔ اب وہ مسائل سننے کے لیے مردوں کی طرف مڑنے ہی والے تھے کہ طوفان کی طرح داؤد داخل ہوا۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی
داؤد ان کا دایاں بازو تھا۔ وہ ان کے لیے اتنا ہی ضروری ہو چکا تھا جتنا غیر ارادی سانس لینا ہوتا۔ یہ بات کہ ان کے خیالات ایک ہی سمت میں چلتے تھے، ان کی دوستی کا ثبوت کہی جا سکتی ہے۔ متولی صاحب کے چہرے کے اتار چڑھاؤ، ان کی بھنووں کی حرکات کے طول و ارض، ان کی مونچھوں کی تھرتھراہٹ، ناک کی نہج اور دہانے کے گوشوں کی لکیروں سے وہ ان کے مزاج کا اندازہ لگانے میں مہارت حاصل کر چکا تھا۔ وہ اپنے الفاظ، اپنے سلوک، اور اپنی کمر کے جھکاؤ میں ان کے مزاج کے مطابق تبدیلی کر لیتا۔ اس میں ایک چالاکی بھری بے شرمی تھی اور ساتھ ہی عزتِ نفس کا فقدان بھی۔ بہرحال…
وہ صبح کی نماز میں شامل نہیں ہوا تھا۔’یہ حرامزادہ اب آیا ہے؟ حیران ہوں کہ اپنا وقت کہاں ضائع کر رہا تھا…‘ متولی نے سوچتے ہوئے دانت پیسے، لیکن پرسکون رہنے کا ڈراما کیا اور پوچھا، ’’داؤد صاحب، کہاں چلے گئے تھے؟ آپ کا تو کچھ اتا پتا ہی نہیں۔‘‘
داؤد ان کے سوال اور ان کے لہجے، دونوں کو سمجھ گیا۔ دھیرے سے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’’السلام علیکم، متولی صاحب!‘‘ اور ظاہری شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گیا۔
بہت سے لوگ اب بھی ان سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کے منتظر تھے۔ لیکن انھیں داؤد سے ایک ضروری کام تھا۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر بینچ پر بیٹھے بےچین لوگوں کی طرف دیکھا اور اٹھنے کو ہوئے۔ بوڑھا صابجان جیسے ٹھوکر کھاتا ہوا آگے بڑھا اور موتیابند کے سبب دھندلی آنکھوں اور سفید بھنووں کے درمیان سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا، ’’صاب، صاب… میری سب سے چھوٹی بیٹی کی اگلے ہفتے شادی ہونے والی ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مہربانی کیجے صاب۔ اگر اس کی شادی ہو جائے تو میں سکون سے آنکھیں موند سکوں گا۔ مائی باپ! آپ میرے باپ سمان ہیں… آپ کو مجھ بوڑھے پر رحم کھانا ہوگا۔‘‘ کہتے ہوئے وہ متولی صاحب کے قدموں میں گرنے کو ہوا۔
’’آہا! تو تمھارے بہت سے بچے ہیں! آخری بیٹی، بتایا نا تم نے؟ یعنی جب تم ساٹھ سال کے تھے تو کیا وہ تب پیدا ہوئی ؟ آخر کار، تمھیں ہوش آ رہا ہے۔‘‘ متولی کے دماغ کے ایک گوشے میں بیٹھا شیطان ہنس پڑا۔ ایک بڑی کشادہ جگہ کی تصویر ان کے تصور میں ابھری جس کے بیچوں بیچ ایک ڈھیتا ہوا مکان کھڑا تھا۔ وہ جب بھی اس قطعۂ زمین سے گزرتے تھے، اس پر ایک شاپنگ کمپلیکس بنانے کا تصور کرتے تھے۔
’’آپ کو مجھ سے کیا چاہیے، صابجان چِکپّا؟‘‘ کسی بھی قسم رحمدلی نہ دکھاتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔
’’زیادہ کچھ نہیں…‘‘ پریشان حال صابجان نے ایک ثانیے کے لیے توقف کیا اور بات جاری رکھی۔ ’’اللہ کی رحمت ہو آپ پر… میں… میں… مجھے اس کی شادی کے لیے کوئی چالیس ہزار روپے درکار ہیں۔‘‘
متولی صاحب نے چونکنے کا مظاہرہ کیا ۔
’’چالیس ہزار روپے… کس واسطے…اتنا پیسا کہاں سے لاؤگے؟‘‘
وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوے نظر آئے۔ داؤد آہستہ سے کھانسا۔
’’انّاوری۔ ایک معاملہ ہے … سوچا آپ کے علم میں لے آؤں … اگر آپ کو کچھ فرصت ہو تو … نہیں، جب خیال آتا ہے تو … دنیا کو کیا ہو گیا ہے۔ قانون، اخلاقیات، دھرم! کیا ان میں سے کچھ بچا بھی ہے؟‘‘
’’ہوں۔ کیا ہوا ہے، داؤد؟‘‘
’’کیا آپ اس مسئلے سے واقف نہیں ہیں؟ کیا واقعی؟‘‘
یہ دیکھ کر کہ کسی جانب سے کوئی جواب نہیں آ رہا، داؤد نے بات جاری رکھی، ’’اسلام کو ختم کیا جا رہا ہے، انّاوَرے… مسلمانوں کی کوئی توقیر باقی نہیں رہی…‘‘
اس کی تمہید طویل ہو رہی تھی۔
’’کیا سیدھے سیدھے بیان نہیں کرسکتے کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘ متولی صاحب نے چِڑ کر پوچھا۔
’’اناوری، آپ عمر کو جانتے ہیں نا… وہی جو گھوڑوں کی نعلیں بناتا ہے؟ اس کی دوسری بیٹی کی شادی نیلامنگلا میں کسی سے ہوئی ہے۔ ہے نا، لیکن لڑکے نے دوسری لڑکی سے شادی کر رکھی تھی۔ آپ کو یاد ہے؟ بہرحال پہلی لڑکی کا بڑا بھائی-‘‘
’’وہ کون لعنتی ہے؟‘‘ متولی صاحب سے بڑھتے ہوئے غصے کے ساتھ پوچھا۔ ان میں رشتوں کے جال کو سلجھنانے کا صبر نہیں تھا۔
’’اس کا نام نثار ہے۔ پینٹر ہے۔ وہی جس نے کہا تھا کہ مسجد کا رنگ روغن کرے گا اور دو سو روپے لے کر بھاگ گیا تھا۔ یاد ہے، پچھلے رمضان میں؟‘‘
’’اوہ، ہاں، ہاں۔ سمجھ گیا۔‘‘
اب متولی صاحب کو سب کچھ یاد آگیا۔ انھیں یاد آگیا کہ مسجد کے پیسے ڈکار جانے کے جرم میں پینٹر کو ایک درخت سے باندھ کر پیٹا بھی گیا تھا۔
’’وہ تالاب میں گر کر مر گیا تھا۔ کوئی ڈیڑھ مہینے پہلے اس کی لاش ملی۔ پولیس والوں نے اسے باہر نکالا۔‘‘
’’ہمم۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ ہونا کیا تھا۔ سب کچھ برباد ہوگیا۔ پولیس نے نثار کی لاش قبضے میں لے کر ہندو قبرستان میں دفنا دی۔‘‘
داؤد نے خبر کو آہستہ آہستہ، بتدریج ظاہر کیا تھا، پھر بھی ایسا لگا گویا کسی نے گولی داغ دی ہو۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی ایسا سنا گیا؟ ایک لمحے کو متولی صاحب کو لگا جیسے ان کے دل کی دھڑکن رک گئی ہو۔ ان کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں اور وہ پسینے سے عرق آلود ہو گئی۔ ہر شخص بھول گیا کہ وہ کس مقصد سے یہاں آیا تھا، یہاں تک کہ صابجان بھی۔ اگر چہ بیٹی کی شادی کا معاملہ اس کے دل میں چبھے جا رہا تھا لیکن اس نے ذکر نہیں کیا۔ اس خبر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
یہ بات تصور سے بعید تھی کہ کسی مسلمان کی لاش بلاکفن ، بلا غسل ، حتیٰ کہ نمازِ جنازہ کے بغیر، قبرستان کے بجاے شمسان میں بلا رسوم دفن کر دی جائے! متولی صاحب کے ذہن میں ایک سوال کوندا، ’’لیکن، داؤد، کیا نثار کا ختنہ نہیں ہوا تھا؟‘‘
داؤد کے پاس اس تکنیکی سوال کا جواب نہیں تھا۔
’’چھی، چھی… کیا آخری رسوم نہیں ہونی چاہییں تھیں؟ لیکن پولیس یہ سب کیوں سوچتی؟ وہ تو بس اتنا چاہتے ہوں گے کہ جلدی سے دفنائیں اور چھٹی پائیں۔ معاملہ ختم۔‘‘
لیکن سوالات اور بھی تھے—تجسس کو ہوا دینے والے۔ ’’انہیں کیسے پتہ چلا کہ لاش نثار کی ہی ہے؟‘‘
’’لاپتہ ہونے کے کئی دن بعد اس کی بیوی شکایت درج کرانے پولیس کے پاس گئی تھی۔ پولیس نے اسے وہ کپڑے دکھائے جو نامعلوم لاش کے بدن پر ملے تھے، اور اس کی بیوی نے پہچان لیے۔ پھر انہوں نے لاش کی تصویر دکھائی۔ بدن پھولا ہوا تھا مگر نثار کا تھا۔ یا…‘‘
’’یا پھر پولیس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہوگا، جیسے کچھ جانتے ہی نہ ہوں! چاہیے تھا کہ وہ مسجد میں آتے اور ہمیں بتاتے کہ ہمارے کسی آدمی کی لاش ملی ہے۔ ہم اسے فوراً یہاں لا کر مناسب طریقے سے دفنا دیتے۔‘‘
داؤد نےمشکوک انداز میں کہنا شروع کیا، ’’جہاں تک میں جانتا ہوں، مصیبت کی جڑ شنکر ہے۔ اسی نے پولیس کو اطلاع دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ لاش ہندو قبرستان میں دفن کی جائے۔‘‘
وہاں موجود ہر شخص شدید صدمے میں تھا۔ ’’چھی! کیسا خوفناک زمانہ ہے۔ جب کوئی مرتا ہے تو ہزاروں لوگ قبرستان تک میت کو کندھا دینے کو تیار رہتے ہیں۔ لیکن اس غریب کو دیکھو ! بیچارے کے لیے مناسب کفن دفن تک کا اہتمام نہیں ہو سکا۔‘‘
سال میں دو بار، رمضان عید اور بقرعید کی نماز کے علاوہ نثار نے کبھی نماز نہیں پڑھی، مسجد میں کبھی قدم نہیں رکھا۔ وہ سینکڑوں لوگوں سے ان کے گھروں کے رنگ روغن کے لیے ایڈوانس لے کر غائب ہو جاتا تھا اور انھیں دھوکا دیتا تھا۔ وہ پیسا ڈکار کر بھی دندناتا پھرتا تھا۔ ایک بار تو وہ مسجد کے رنگ روغن کے لیے جماعت سے بھی پیسہ لے گیا اور ہضم کر گیا۔ اب اس کی مناسب تدفین کرنا انھی لوگوں کو مقدس ترین فریضہ لگ رہا تھا جنھیں وہ دھوکا دیا کرتا تھا۔ اس کی لاش کو شہید کا درجہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر تو یہ لگ رہا تھا کہ نثار کے جسدِ خاکی کی تدفین کے لیے مناسب رسومات کو یقینی بنانے سے ہی متولی کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ وہ اذیت میں مبتلا ہونے کا انداز اختیار کرتے ہوئے نوحہ خواں ہوا، ’’کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہر ایک کو اپنے اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘
وہاں جمع سارے لوگ ، جن میں داؤد بھی شامل تھا، جوں جوں اس سانحے پر غور کرتے، مزید پریشان ہوتے جاتے تھے۔
’’توبہ، توبہ۔‘‘ صابجان نے اپنے گال پیٹے، ’’موت ہر ایک کی طے ہے، لیکن ایسی بھیانک موت کسی کو نہ ملے۔ نہ کلمہ، نہ درود ، نہ سلام۔ کل کو ہماری میتیں بھی کوئی جہاں چاہے دفنا دے گا۔ جہاں چاہیں گے، ہماری لاشیں پھینک دیں گے۔‘‘
داؤد نے لقمہ دینے کا موقع نہیں گنوایا۔’’متولی صاحب، وہ تو بھلا ہوا کہ آپ ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں، اسی لیے ہم ابھی تک انسان ہیں- وہ کبھی بھی کورٹ چلے جاتے ہیں، قرآن سے متعلق کوئی معاملہ لے کر۔ اب اس عورت، شاہ بانو کے مقدمے کو ہی لے لیجیے۔ اسے اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا اور بار بار ہماری توہین کی۔ اور اب مسلم لاشیں اٹھا کر ہندو قبرستانوں میں دفن کر رہے ہیں؟ ہمارے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوگی؟‘‘
داؤد اب اسے ایک سنگین مسئلے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ سب اضطراب میں تھے، حتیٰ کہ متولی بھی۔ وہ کبھی اپنی داڑھی نوچتے، کبھی ناک میں انگلی گھساتے، اور کبھی گہری سوچ میں غرق نظر آتے۔ پھر اچانک جیسے ہوش میں آئے اور لوگوں کی طرف دیکھا۔ چہرے پر شکنیں ڈالتے ہوئے، جیسے نہایت اداس ہوں، انھوں نے اپنی آنکھیں ذرا سی کھولیں اور کھنکھارکر گلا صاف کیا۔
معاملہ اتنا پیچیدہ تھا کہ عارفہ بھی بچوں کو سکول کی تیاری کرانے کے بجائے پردے کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ جمیلہ جو ذرا دیر سے بیدار ہوئی تھی، پردے کے پیچھے اپنی بھابھی سے آن ملی اور سرگوشی میں باتیں کرتے ہوئے سارا معاملہ سنا۔ خواتین کے دل دھڑ دھڑ دھڑک رہے تھے۔
’’یا اللہ! چاہے جو بھی ہو، اس غریب بیچارے کی روح کو سکون ملے ۔ اسے وہ سب رسومات نصیب ہوں جن کی ایک مسلمان لاش حقدار ہوتی ہے۔ اور قبرستان میں اسے تین گز زمین مل جائے۔‘‘
جمیلہ کے شوہر کو خبر ملی تو وہ بھی باہر آکر دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ہر شخص جوش میں تھا، پریشان تھا۔ اسلام کو بچانے کی خاطر مقدس جنگ کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر متولی نے بولنا شروع کیا: ’’اب ہمیں اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کرنی ہوں گی کہ نثار کے جسدِ خاکی کو وہاں سے نکال کر یہاں دفن کیا جائے۔ ہمیں ہر طرح کی رکاوٹ کا، کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سمجھ گئے؟‘‘
پھر وہ داؤد سے مخاطب ہوئے، ’’اور داؤد، تم ہماری یوتھ کمیٹی کو بھی اس کی خبر کردو۔جب وہ آ جائیں تو ہم ساتھ چل کر ضلع کمشنر اور پولیس سپرنٹنڈنٹ سے ملیں گے۔ اس کام کو آج ہی شروع کر دیں تو اچھا ہو۔‘‘ پھر انھوں نے جلدی سے اضافہ کیا: ’’ان سے یہ بھی کہنا کہ کسی چیز کی فکر نہ کریں۔ فی الحال جماعت کے پاس پیسے نہیں ہیں، لیکن انھیں بتانا کہ جو بھی اخراجات ہوں گے، میں خود ادا کروں گا۔‘‘
وہ جانتے تھے کہ خرچ ہونے والی رقم اس مہم کی وجہ سے ملنے والی مقبولیت اور حمایت کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی تھا کہ متوّلی کی حیثیت کے مدنظر ایسی باتیں کہنا عین مناسب تھا۔ پیسہ آخر جائے گا کہاں ؟ اپنے تجربے سے انھیں معلوم تھا کہ اس طرح کے کاموں کے لیے رقم عطیہ کرنے کے لیے لوگ سر کے بل آتے ہیں۔ یوتھ کمیٹی کا اعتبار دوبارہ حاصل کرنے کا یہ انھیں ایک بہترین موقع بھی لگا، کیونکہ کمیٹی پہلے ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر ان سے فاصلہ بنا چکی تھی۔
سب کچھ متولی کی توقعات کے عین مطابق ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر سے قدم باہر نکالیں، جمیلہ کے شوہر نے جیب سے ڈھائی سو روپے نکالے اور متولی کے سامنے میز پر رکھ دیے۔ ’’بھیا، اگر آپ انھیں اپنے کام کے لیے استعمال کریں گے، تو اس نیکی کا اجر مجھے بھی ملے گا۔ اللہ آپ کو اور آپ جیسے لوگوں کو مزید قوت، صحت اور مال و دولت سے نوازے۔‘‘ اس نے صدق دلی سے کہا۔ وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ جب ایک عظیم ذمہ داری سامنے ہے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کی بیوی جائیداد میں حصہ مانگے ۔
پردے کے پیچھے کھڑی جمیلہ نے اپنے شوہر کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور سکون کا گہرا سانس لیا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی سے جائیداد میں حصہ صرف اس لیے مانگا تھا کہ اس کے شوہر نے اسے مجبور کیا تھا، اس لیے نہیں کہ وہ خود ایسا چاہتی تھی۔ جیسا کہ کہاوت ہے، ’لاٹھی کا وار اگر خالی جائے، تو جیون ہزار برس بڑھے۔‘ وہ خوش تھی کہ وہ اس معاملے کو یہیں چھوڑا جا سکتا ہے، کم از کم فی الحال۔
عارفہ اپنے شوہر پر بہت فخر محسوس کر رہی تھی۔ اس فکر میں غلطاں کہ شاید ناشتہ کیے بغیر ہی انھیں یہ ہمالہ جیسا بڑا کام کرنے نہ نکلنا پڑے، وہ ان کے لیے پھولوں جیسے ہلکے پھلکے پراٹھے بنانے چل دی۔ متولی نے اپنی بہن اور اس کے شوہر کے بدلے ہوئے رویے کو دیکھا اور خود ہی مسکرائے، لیکن اپنی خوشی ظاہر نہیں ہونے دی بلکہ چہرے پر سنجیدگی طاری کیے گھر میں چلے گئے، جیسے گہری سوچ میں غرق ہوں۔
کئی نوجوانوں کو ساتھ لے کر وہ سب سے پہلے ضلع کمشنر سے ملے۔ ایسا کرنا ان کے لیے فخر کی بات تھی۔ ضلع کمشنر ایک نوجوان بنگالی برہمن تھا جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ وہ ضلع کے مختلف فرقوں کے باہمی رشتوں کے الجھیڑوں اور جذباتی آویزشوں سے واقف تھا جو کبھی کبھار سر ابھارتی رہتی ہیں۔ اس نے متولی کی دی ہوئی درخواست پڑھی اور صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا لیکن چہرے پر سنجیدگی اور وقار طاری کیے بیٹھا رہا۔ اس نے متولی کی پرجوش جذباتی تقریر سنی اور مسئلے کو سلجھانے کے لیے ان سے اردو میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’اور کیا کچھ نیا ہو رہا ہے متولی صاحب؟ آپ اپنے علاقے میں نیا بورویل لگوانے یا اسکول کی عمارت کی مرمت یا اس طرح کے کسی اور کام کے لیے مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئے!‘‘
متولی نے بیچ میں ہی قطع کلام کیا۔ ’’میں کاموں کی فہرست بناؤں گا اور اگلی بار ملنےآؤں گا، سوامی؛ فی الحال تو، اگر آپ صرف ایک حکم نامہ جاری کر سکیں، تو مہربانی ہوگی۔
’’مگر پھر بھی متولی صاحب، مٹی تو ہر جگہ ایک سی ہے نا؟ مٹی مٹی میں کیا فرق کرنا؟‘‘ اس نے لاپروائی سے پوچھا۔
متولی کے پاس کئی غیر متعلق جوابات تھے۔ بات کو مزید طول نہ دے کر ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر کو ذمہ داری کا حکم نامہ جاری کردیا۔
پندرہ دن گزر گئے۔ متولی صاحب بالکل نہیں تھکتے تھے، اس وقت بھی نہیں جب انہیں ایک افسر سے دوسرے افسر کے پاس، ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں چکر لگانے پڑتے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ساتھ جانے والے لوگوں کے لیے کوفی اور سنیکس خریدنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔
وہ اس سے قدرے مایوس تھے کہ اس بدمعاش شنکر کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت نہیں لگتی تھی، تاہم پولیس اور اہلکاروں نے جو تاخیر کر رکھی تھی وہی کم نہ تھی۔
متولی سارا دن مختلف دفتروں کے چکر لگاتے رہتے۔ اس کے بعد رات گئے تک یا تو مسجد کے صحن میں، یا مدینہ ہوٹل کے بڑے ہال میں، یا ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھ کر غوروفکر کیا جاتا۔ وہ بیان کرتے کہ وہ کتنی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ منصوبے بناتے کہ کس طرح اور کب، کن افسروں کے پر کترے جائیں۔ وہ بتاتے کہ کن کن حلقوں سے اسلام کو کتنا خطرہ لاحق ہے، اور نوجوانوں کو سمجھاتے کہ ان مسائل کو کس طرح مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انھیں قطعی پتا نہ چلا کہ یہ سب کرتے کرتے پندرہ دن کتنی عجلت میں گزر گئے۔ ساری جماعت نثار کی لاش اور متولی صاحب کی کوششوں کے سوا کسی موضوع پر گفتگو نہیں کر رہی تھی۔ عورتیں چادریں اوڑھ کر نماز ادا کرتیں، اور نثار کی لاش کے لیے تہہِ دل سے دعائیں مانگتیں کہ اسے مسلم قبرستان میں دفن ہونا نصیب ہو، اور اس کی روح کو ابدی سکون ملے۔
اس کارِ خیر کے لیے کافی رقم بھی جمع ہو گئی تھی۔
بالآخرکار نثار کی لاش قبر کھود کر نکال لی گئی۔ متولی اور ان کے حواریوں نے بوسیدہ، مسخ شدہ لاش کو بالکل نئے، کلف دار لٹھے کے کفن میں لپیٹ دیا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ لاش اتنی مسخ تھی کہ غسل نہیں دیا جا سکتا تھا، چنانچہ اس پر مقدس آبِ زم زم چھڑکا گیا۔ لوگوں لگ رہا تھا کہ سڑاندھ کے مارے قے ہو جائے گی، لیکن کسی نے اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پولیس والوں نے اپنی ناکوں پر رومال رکھ لیے۔ آخر کار نثار کا جنازہ متولی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور جلوس مسلم قبرستان کی سمت روانہ ہوا۔ میّت پر ڈھیروں عطر چھڑکا گیا اور کفن کے اوپر چمیلی کی کلیوں سے بنی چادر ڈال دی گئی تھی تاکہ سڑتے ہوئے گوشت کی بو چھپ سکے۔ لیکن چمیلی کی کوئی کلی کھلی نہیں۔ ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروس/ چند پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے۔
جنازے کے جلوس کو کافی طویل فاصلہ طے کرنا تھا لیکن لوگ بھی خاصی تعداد میں جمع تھے۔ تابوت کسی کے کندھے پر ایک دو منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہرا اور ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا رہا۔ جلوس شہر میں سے گزرا اور قبرستان کی طرف بڑھا۔ قبرستان اب سامنے ہی تھا، شہر کے سرے پر۔ شاید مزید دس قدم باقی تھے۔ تبھی ایک آدمی لڑکھڑاتا ہوا نمودار ہوا جو چیخ چیخ اونچی آواز میں، بیہودگی سے گالیاں بک رہا تھا، گویا صورتِ حال کی ساری سنگینی اور اداسی کو چکناچور کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ متولی نے جس لمحے اس شخص کو دیکھا، کہ اس وقت انھوں نے ہی جنازے کو کندھا دے رکھا تھا، تو دنگ رہ گئے۔ ان کا رنگ کسی مردے کی مانند زرد ہو گیا۔ جلوس میں شامل کئی دوسرے لوگوں کا بھی یہی حال ہوا۔ ان کے قدم وہیں تھم گئے۔ سب کے حلق خشک ہو گئے۔ اس آدمی نے زور سے کچھ اور مغلظات برسائیں، اور لڑکھڑاتا ہوا ایک چھوٹی سی گلی میں داخل ہو گیا۔
سب سے پہلے ہوش میں آنے والے متولی ہی تھے۔ انھوں نے پولیس کے اہلکاروں کی طرف دیکھا، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جلوس کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوئی ناخوشگوار بات واقع نہ ہو، اور فی الفور محتاط ہوگئے۔ جلوس کو رکتے دیکھ کر ایک پولیس والا شرابی کو دھمکانے کے لیے لاٹھی اٹھائے آگے بڑھا۔ متولی نے آہستہ سے قدم آگے بڑھایا۔ جماعت نے پیروی کی۔ متولی صاحب کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ کوئی آگے بڑھا اور سرہانے کی جانب سے تابوت کو اپنے کندھے پر لے لیا۔ متولی صاحب نے اپنا رومال نکالا اور چہرے سے ٹپکتا پسینہ صاف کیا۔ انھوں نے داؤد کو گھور کر دیکھا جس نے سر جھکا کر نظریں نیچی کر لیں۔ بہت سے لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کر رہے تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولا، بلکہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے قبرستان میں داخل ہو گئے۔
پولیس کے اہلکار باہر کھڑے رہے اور لاش کو مسلم قبرستان میں دفنایا جانے لگا۔ متولی کے سر کے نسیں پھٹنے کو آمادہ تھیں۔ آخر وہ کس کی لاش تھی جسے وہ دفنا رہے تھے؟
انھیں قطعی شک نہیں تھا کہ وہ شرابی نثار پینٹر ہی تھا۔ انھیں داؤد اور پینٹر کی بیوی پر اتنا شدید غصہ آ رہا تھا کہ بس چلتا تو ان کا قیمہ کر دیتے۔ لیکن راحت کی بات یہ تھی کہ جماعت کے بہت سے لوگ اگرچہ نثار کو پہچان گئے تھے لیکن کسی نے بھی پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ سب نے ان کی عزت بچالی تھی۔ لیکن یہ سکون لمحہ بھر میں ہوا ہو گیا۔ کائیں کائیں کا نوحہ کرتے ہزاروں کوّے ان کا دماغ نوچنے لگے۔ کیا یہ ہندو کی لاش تھی؟ یا مسلمان کی؟ لاش اتنی بوسیدہ تھی کہ پہچانی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسے یہاں مٹی میں ملنا چاہیے، یا وہاں؟
لوگ جلدی جلدی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے۔ تدفین کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کی طرف بھاگے۔ وہ بالکل تنہا تھے، لیکن کوے ساتھ تھے، جو چیخ چیخ کر ٹھونگیں مارتے انھیں مار ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
تھکن سے چور وہ گھر میں داخل ہوئے اور ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک جب عارفہ نظر نہ آئی تو انھوں نے بے چینی سے آواز دی، ’’عارفہ! ایک گلاس پانی تو لا دو۔‘‘
عارفہ کے بجاے انھوں نے اپنی بیٹی کو باہر آتے دیکھا اور پوچھا، ’’آج اسکول نہیں گئیں؟‘‘
’’اماں گھر پر نہیں ہیں، نا۔ اسی لیے میں گھر پر رک گئی تھی۔‘‘
’’گھر پر نہیں ہے؟ کہاں چلی گئی؟‘‘
لڑکی نے آنکھوں پر سے، جو روتے روتے سرخ ہو چکی تھیں، اپنی جھکی ہوئی پلکیں اٹھاتے ہوئے جواب دیا، ’’انصار بہت بیمار ہے نا، اپّا! اماں ہسپتال میں اسی کے ساتھ ہیں۔‘‘
’’ہیں؟ کیا کہہ رہی ہو؟ کون بیمار ہے؟ کب سے؟ کیا بیماری ہے؟‘‘
سوالوں کی بوچھار پر جواب میں لڑکی کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے ٹپکنے لگے۔
’’انصار کو پندرہ بیس دن سے تیز بخار تھا نا؟ ڈاکٹر کہہ رہا تھا دماغ کی کوئی بیماری ہے۔ بیماری کا نام شاید میننجائٹس ہے۔ گردن توڑ بخار۔‘‘ وہ بے قابو ہو کر رونے لگی۔
پانی کا گلاس پھسل کر متولی صاحب کے ہاتھ سے گر پڑا۔
آوازیں پھر سے ان کے کانوں میں دھیرے دھیرے سر ابھارنے لگیں۔ انّا، میرے حصے کی جائیداد… انّا، مہربانی کر کے اس غریب بیوہ کی مدد کیجے… مائی باپ، میری بیٹی کی شادی کے لیے قرضہ دیجیے… حقدار ترسے تو انگار کا مینہہ برسے… آگ کی بارش، کوے… سیاہ، سرمئی … اور ان سے جھانکتے دھنک کے رنگ…
(ارجمند آرا دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں اور شوقیہ مترجم ہیں۔)