وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے شرومنی اکالی دل نے کہا کہ ہندوستان کو ایک خودمختار، سیکولر، جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو کبھی بھی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جو ہندوستان کے لوگوں میں فرقہ وارانہ منافرت، باہمی شکوک و شبہات اور زہر پھیلاتے ہوں۔
چنڈی گڑھ: سکھ کمیونٹی کے مفادات کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والے شرومنی اکالی دل نے راجستھان میں ایک انتخابی ریلی کے دوران مسلمانوں پر کیے گئے تبصرے کے ایک دن بعد وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف شدید حملہ کیا۔ اپوزیشن ‘انڈیا’ نے بھی پی ایم مودی کے تبصرے پر بڑے پیمانے پر اپنے غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
حال ہی میں اتوار (21 اپریل) کو راجستھان میں پی ایم مودی نے ملک کے مسلمانوں پر براہ راست حملہ کیا اور کہا کہ اگر اپوزیشن اقتدار میں آتی ہے تو عوام کی محنت کی کمائی ‘گھس پیٹھیوں’ اور ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والوں’ کو دے دیا جائے گا۔
مودی کی اتوار کی تقریر کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے اکالی دل کے قومی ترجمان پرم بنس سنگھ رومانہ نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کیا، ‘زہر اور نفرت ایک اور سطح پر ہے۔ تاہم، ہندوستان کو ‘خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوری ملک’ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
رومانہ نے کہا، ‘ہم سب کی غلطی یہ ہے کہ ہم ناانصافی کے بارے میں اسی وقت سوچتے ہیں جب وہ ہمارے خلاف ہوتا ہے۔ اگر آج وہ ہیں تو کل ہم ہوں گے۔ شرمناک اور بہت پریشان کن۔’
دریں اثنا، اکالی دل کے صدر سکھبیر بادل نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو کبھی بھی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جو ہندوستان کے لوگوں میں فرقہ وارانہ منافرت، باہمی شکوک وشبہات اور زہر پھیلاتے ہوں۔
بادل نے کہا، ‘ہندوستان یکساں طور پرہندوؤں، سکھوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر لوگوں کا ہے۔ وزیر اعظم اور بی جے پی کو سردار پرکاش سنگھ بادل سے سیکھنا چاہیے کہ امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ بادل صاحب ذاتی طور پر ہر برادری کے مذہبی تقریبات اور مواقع کا احترام کرتے اوراس کا جشن مناتے تھے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔’
مودی کے خلاف اکالی دل کا یہ اب تک کا سب سے سخت حملہ ہے۔ اکالی دل نے 2020 میں کسانوں کی تحریک کی وجہ سے باضابطہ اتحاد توڑنے سے پہلے کئی سالوں تک مرکزی حکومت میں اقتدار کا اشتراک کیا تھا۔
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) عام انتخابات سے قبل اکالی دل کے ساتھ دوبارہ اتحاد کرنا چاہتی تھی، لیکن اتحاد کی بات چیت ناکام ہوگئی کیونکہ اکالی دل بی جے پی کو سکھ قیدیوں کی رہائی اور کسانوں کی تمام فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت جیسے قبل از انتخابات کے مطالبات پر راضی نہیں کر سکا، جس کی وجہ سے اس سال فروری میں کسانوں کے احتجاج کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔
رومانہ کے علاوہ ایک اور سینئر اکالی لیڈر بکرم سنگھ مجیٹھیا، جو پارٹی صدر بادل کے بہنوئی بھی ہیں، نے مودی پر طنز کیا۔
مجیٹھیا نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ، ‘شری گرو نانک دیو جی نے ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے اور ‘سربت دا بھلا’ کہہ کر سب کے لیے بھلائی کی خواہش کرنے کی تعلیم دی ہے۔ پی ایم مودی نے کل جو کچھ کیا اس نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے بنائے ہوئے ہمارے آئین کو کمزور کیا ہے جو تمام شہریوں کو برابر سمجھتا ہے۔ اکالی دل ہمیشہ اقلیتوں، پنجاب اور پنجابیت کے لیے کھڑا رہا ہے۔ پی ایم نریندر مودی جی، کیا یہی ہے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس؟’
انہوں نے کہا، ‘آپ کے بیان سے بہت شرمندہ ہوں کیونکہ آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ میں پی ایم مودی کے اس طرز عمل کی سخت مذمت کرتا ہوں جس کا مقصد ووٹوں کو پولرائز کرنا ہے، جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ الیکشن ہار رہے ہیں۔’
مودی پر اکالی دل کا بدلا ہوا موقف کیا بتاتا ہے؟
ایک عرصے سے اکالی دل اور بی جے پی دونوں کے لیڈر یہ کہتے رہے ہیں کہ دونوں پارٹیاں فطری سیاسی حلیف ہیں۔ لیکن چیزیں اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ہرجیشور سنگھ نے دی وائر کو بتایا کہ مودی کے خلاف اکالی دل کے شدید حملے کے گہرے سیاسی معنی اور مطلب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے خلاف کسانوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے پچھلے کچھ سالوں میں دیہی پنجاب میں بی جے پی غیر مقبول ہو رہی ہے۔ ان کے تقریباً سبھی لوک سبھا امیدواروں کو ان کی حالیہ مہم کے دوران دیہی علاقوں میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘مودی اور بی جے پی پر حملہ کرکے اکالی دل – جو ریاست میں دوبارہ زمین حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے – بی جے پی کے ساتھ اپنے ماضی کے تعلقات کو کم کرنے اور اپنے اصل ووٹروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش میں ہے کہ وہ پنجاب اور پنجابیوں کے وسیع تر مفادات کے ساتھ کھڑے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘دوسری بات، اکالی دل بھی اس بات سے محتاط ہے کہ بی جے پی پنجاب میں توسیع کی کوشش کر رہی ہے۔ مسلم مخالف ریمارکس پر مودی پر حملہ کرنا اپنے اصل سکھ ووٹروں کو گھر واپس لانے کے لیے سیاسی طور پر سمجھداری ہے۔’
پچھلے ہفتے مجیٹھیا نے کھلے عام ووٹروں سے کہا کہ وہ بی جے پی کے امیدواروں کو پنجاب کے دیہاتوں میں داخل نہ ہونے دیں۔
انہوں نے کہا، ‘بی جے پی نے کسانوں کو ان کے احتجاج کے لیے دہلی جانے سے روک دیا۔ جس طرح انہوں نے کسانوں کو دہلی جانے سے روکا ہے، اسی طرح بی جے پی کے امیدواروں کو بھی پنجاب کے دیہاتوں میں جانے سے روکا جانا چاہیے۔ انہیں سوالوں کا سامنا کرنا چاہیے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)