اشتعال انگیز تقریر پر الیکشن کمیشن کی خاموشی: جمہوریت کا خاتمہ؟

وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کی ہیٹ اسپیچ پر الیکشن کمیشن کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے بی جے پی لیڈروں کو فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کی ہیٹ اسپیچ پر الیکشن کمیشن کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے بی جے پی لیڈروں کو فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے۔

 (السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسٹار پرچارک نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے طے کر لیا ہے کہ وہ یہ لوک سبھا الیکشن ہندو مفادات کے محافظ کے طور پر لڑیں گے۔ انہوں نے صاف کر  دیاہے کہ ہندو مفادات کے تحفظ کا مطلب انہیں مسلمانوں سے بچانا ہے۔ ان کے مطابق ہندو مفاد خطرے میں ہے، اپوزیشن جماعت کانگریس سازش کر رہی ہے  اور وہ  ہندوؤں کی دولت لے کر مسلمانوں میں بانٹ دے گی۔

نریندر مودی نے منگل کو ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا جب وہ راجستھان میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی سازش کر رہی ہے اور  وہ  ہندوؤں کی جائیداد لے کر اسے اپنے ‘خاص لوگوں’ میں تقسیم کر دے گی۔ مودی اور بی جے پی کے حامیوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ خاص لوگ کون ہو سکتے ہیں۔ یہ مسلمان ہیں۔

بات مبہم نہ رہ جائے اس لیے مودی نے کہا کہ کانگریس پارٹی پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے ریزرویشن کا حصہ مسلمانوں کو دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ہندوؤں کے ان طبقوں کو ڈرا رہے ہیں کہ آئین میں ان کے لیے کیے گئے خصوصی اہتمام کو اب مسلمانوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

مودی کی اس تقریر کی خبر کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے لکھا ہے کہ یہ الیکشن 80فیصد اور 20فیصد کے درمیان لڑا جا رہا ہے۔ 80فیصد یعنی ہندو اور 20فیصد یعنی مسلمان۔ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی یہی کہا تھا کہ یہ انتخاب 80 فیصد اور 20 فیصد کے درمیان ہے۔

نریندر مودی نے یہ اس وقت کیا جب ملک بھر سے ہزاروں لوگ اور کئی ادارے الیکشن کمیشن سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ مودی پر اتوار کو راجستھان کے ہی بانس واڑہ میں کی گئی فرقہ وارانہ تقریر کے خلاف کارروائی کرے۔ پیپلز یونین آف سول لبرٹیز نے تو مودی کو اس تقریر کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ اتوار کو مودی نے ایک انتخابی ریلی میں کہا تھا ، ‘اس سے پہلے جب ان کی (یو پی اے) حکومت تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس جائیداد کو اکٹھا کریں گے اور انہیں جن کے زیادہ بچے ہیں، انہیں دراندازوں میں تقسیم کر دیں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی گھس پیٹھیوں کو دی جائے گی؟ کیا آپ اسے قبول کرتے ہیں؟’

انہوں نے مزید کہا، ‘کانگریس کا یہ منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماؤں—بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے، اس کی جانکاری  حاصل کریں گے اور پھر اس کوتقسیم کریں گے۔ منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، یہ اربن نکسل سوچ آپ کا منگل سوتر بھی بچنے نہیں دے گی، اتنی دور تک جائے گی۔’

مودی کو کوڈ لینگویج کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ یعنی مودی نے یہ مہارت حاصل کر لی ہے کہ مسلمان  لفظ کو زبان پر لائے  بغیر مسلمانوں کی توہین کیسے کی جائے یا ان پر حملہ کیا جائے۔

مثال کے طور پر، گجرات میں 2002 میں جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور وہ  ہزاروں کی تعداد میں  اپنے گھروں سے بے دخل ہوکر ریلیف کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہوئے تو ریاستی حکومت نے ان کیمپوں کو بھی مسمار کرنا شروع کر دیا۔ جب اس پر تنقید کی گئی تو مودی نے کہا کہ وہ بچے پیدا کرنے والے کارخانے چلنے نہیں دے سکتے۔ طنز کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا، ہم پانچ، ہمارے پچیس۔ یعنی مسلمان 4 شادیاں کرتے ہیں اور 25 بچے پیدا کرتے ہیں۔

اس کے بعد کی تقریروں میں، ‘پنک ریوولیوشن’ (گوشت خور) اور ‘وہائٹ ریوولیوشن’ (سبزی خور) یا قبرستانوں اور شمشان کے استعاروں کے سہارے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کی چالاکی کو کوئی بھی پہچان سکتا تھا۔ لیکن اتوار کی تقریر میں مودی نے تمام حدیں پار کر دیں اور براہ راست کہا کہ کانگریس پارٹی ہندوؤں کی دولت لے کر مسلمانوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے، جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں، جو درانداز ہیں۔

مسلمان ، زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور گھس پیٹھیے جیسے لفظوں کو ایک ساتھ بولنے کا مطلب سمجھانے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہندوؤں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ کانگریس پارٹی ان کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے خلاف مودی خود کو ہندوؤں کا محافظ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

مودی خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس الیکشن کو ہندوؤں اور مسلمانوں کی جنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی کھلے عام اپنے آپ کو ہندوؤں کی پارٹی کہہ رہی ہے۔ ان کی تقریر سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہے کہ انہوں نے تسلیم  کر لیا ہے کہ ان کے ووٹر صرف ہندو ہی ہیں۔

ان کی طرح ان کی پارٹی کے دیگر رہنما بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ انتخابات کے اعلان سے قبل آسام کے وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ انہیں میاں مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہیے۔

نریندر مودی اور بی جے پی ہندوؤں کے پسماندہ اور دلت طبقوں کو یہ کہہ کر ڈرا رہے ہیں کہ ان کے حصے کا ریزرویشن کانگریس پارٹی مسلمانوں کو دے دے گی۔ مودی نے 2015 میں بہار اسمبلی انتخابات میں بھی ایسا ہی کیا تھا۔ کانگریس اور اس کے حلیفوں پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ پسماندہ طبقات اور دلتوں کے لیے ریزرویشن کا 5فیصد ایک خاص برادری کو دینے کی سازش کر رہے ہیں۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں متوقع حمایت نہ ملنے کی وجہ سے وہ بدحواس ہوگئی ہے اور ہندو بنام مسلمان کا اپنا پرانا نسخہ آزما رہی ہے۔ لیکن اگر ہم اس انتخابی مہم کے آغاز سے ہی نریندر مودی کی تقریروں کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کو ہندو مخالف ثابت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے کہ اپوزیشن لیڈر مغل سوچ والے ہیں اور وہ ساون کے مہینے میں ہندوؤں کی مقدس پوجا میں مچھلی اور گوشت کھا کر ہندوؤں کی توہین کرتے ہیں۔ اس طرح اپوزیشن لیڈروں کو ہندو مخالف کہہ کر ان پر حملہ آور بیانات و ہی نہیں ، بی جے پی کے دیگر لیڈر بھی دے رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن بی جے پی لیڈروں اور نریندر مودی کے ذریعے ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر خاموش ہے۔ ضابطہ کے مطابق کسی کو بھی مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹ مانگنے یا مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایسی تشہیر کی بھی اجازت نہیں ہے جس سے سماج کے دو طبقوں کے درمیان تناؤ یا دشمنی بڑھے۔

یہ نہ صرف انتخابی ضابطہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں اس طرح کے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے 1999 میں سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کے شیوسینا کے طاقتور لیڈر بال ٹھاکرے پر الیکشن لڑنے پر چھ سال کی پابندی لگا دی تھی۔

مودی اور دیگر بی جے پی لیڈروں کی تقاریر نے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنے دیا کہ وہ اس الیکشن کو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی جنگ کے طور پر اور خود کو ہندوؤں کی سینا کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اس بارے میں بات نہ کریں کیونکہ یہ ہندوؤں کو بی جے پی کی طرف پولرائز کرے گا۔ وہ بھلے ہی بات نہ کریں، لیکن الیکشن کمیشن کی خاموشی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو اس کی طرف سے ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی پوری آزادی ہے۔ الیکشن کمیشن کی خاموشی کے بعد ہمیں اس جمہوریت کی موت پر دو منٹ کی خاموشی کا اعلان کرنا پڑے گا۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)