وزیر اعظم نریندر مودی 26 مارچ سے شروع ہونےوالے دو روزہ بنگلہ دیش دورے کے دوران ڈھاکہ سے تقریباً 190 کیلومیٹر دوراوراکانڈی میں متوآکمیونٹی کے مندر جائیں گے۔جانکاروں کے مطابق یہ مغربی بنگال میں متوآکمیونٹی کو لبھانے کی قواعد ہے۔
نئی دہلی: آئندہ 26 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی دو دنوں کےبنگلہ دیش دورے پر جانے والے ہیں، جہاں وہ پڑوسی ملک کی 50ویں سالگرہ میں حصہ لیں گے اور بنگلہ دیش کے بانی بنگا بندھو شیخ مجیب الرحمن کو خراج تحسین پیش کریں گے۔
سیاسی گلیاروں میں یہ بات موضوع بحث ہےکہ مغربی بنگال کے انتخاب کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے اس دورے کامنصوبہ بنایا گیا ہے اور مانا جا رہا ہے کہ شاید یہ پہلا موقع ہوگا جب کوئی سیاسی پارٹی غیرملکی سرزمین سےہندوستان میں ہونے والے انتخاب کی تشہیر کرےگی۔
خاص بات یہ ہے کہ اس دوران وزیر اعظم ڈھاکہ سے تقریباً 190 کیلو میٹر دوراوراکانڈی میں رکیں گےجہاں وہ11 مارچ 1812 میں پیدا ہوئے ہری چند ٹھاکر کوخراج تحسین پیش کریں گے۔ٹھاکر ایک ہندو فرقہ کےبانی ہیں، جس کومتوآ کہا جاتا ہے۔ متوآ (ادلت، ایس سی)کمیونٹی سے جڑے ہوئے ہیں، جو تقسیم کے دوران اور اس کے بعد بنگلہ دیش سے ہجرت کر گئے تھے۔
مغربی بنگال کے چارپارلیامانی سیٹوں میں اس کمیونٹی کی کافی آبادی ہے جو کہ ریاست کا سب سے بڑا ووٹ بینک ہے۔ ویسے تو اس کا کوئی سرکاری اعدادوشمار نہیں ہے، لیکن مانا جاتا ہے کہ ریاست میں تقریباً ایک کروڑ متوآ ووٹر ہیں۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کے منصوبے کا بی جے پی کو کافی فائدہ ہوا اور اسے وہاں 42 میں سے 18 سیٹیں ملیں اور ووٹ شیئر 41 فیصدی سے زیادہ رہا۔متوآشہریت قانون(سی اےاے ) پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔ اس کمیونٹی نے پچھلے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کا ساتھ دیا تھا، جس کے نتیجے میں بونگاؤں اور راناگھاٹ کی سیٹوں پر اس کی جیت ہوئی تھی۔
یہ بات اور ہے کہ متنازعہ سی اے اےقانون پاس کرنے کے 15 مہینے بعد بھی ابھی تک مرکزی حکومت ضابطہ نہیں بنا پائی ہے۔ اب اسمبلی انتخابات کے مد نظر بی جے پی جان بوجھ کر اس میں تاخیرکر رہی ہے۔پچھلے مہینے 11 فروری کومغربی بنگال میں ایک ریلی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ اس قانون کے نفاذپر ابھی روک لگائی گئی ہے کیونکہ کووڈ 19کی وجہ سے ملک پر کافی برا اثر پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی کورونا ٹیکہ کاری مکمل ہو جائےگی، سی اے اےکے تحت شہریت دینے کا عمل شروع کر دیا جائےگا۔امت شاہ نے متوآکمیونٹی کے گڑھ ٹھاکر نگر میں کہا، ‘آپ سب اس ملک کے معزز شہری بن جائیں گے۔’ حالانکہ سی اے اےکونافذ کرنے میں تاخیرکرنے کو لےکر متوآکمیونٹی میں اب غصہ ہے اور وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے بونگاؤں سے بی جے پی ایم پی اور متوآکمیونٹی سے آنے والے شانتنو ٹھاکر نے سی اےاے کونافذ کرنے میں تاخیر کو لےکر کھلے طور پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔انہوں نے کہا تھا، ‘کسی بھی پارٹی کو متوآ کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرنا چاہیے۔ میں صرف ممتا بنرجی کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں۔ متوآ بھیک نہیں مانگ رہے ہیں۔ سی اےاے کو جلد سے جلد نافذکیا جانا چاہیے۔’
نام نہ لکھنے کی شرط پر بنگال بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے دی وائر کو بتایا، ‘سی اےاے نافذکر نے کی موجودہ صورتحال کو لےکر متوآکمیونٹی کا ایک طبقہ کافی ناراض ہے۔ بنگلہ دیش میں ان کے (متوآ)مقدس مقام پر وزیر اعظم کا دورہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ اس سے ہمیں ضرورانتخاب میں فائدہ ملےگا۔’
کئی سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اوراکانڈی میں مودی کا دورہ واضح طور پر متوا ووٹروں کو لبھانے کی کوشش ہے۔ڈھاکہ کے صحافی نجم الاحسان نے کہا، ‘بنگلہ دیش میں بہت کم لوگوں کو ابھی تک اوراکانڈی یا اس کی اہمیت کے بارے میں پتہ تھا۔ اس لیے یہاں پر مودی کے دورے کو لےکر کوئی بڑا ردعمل نہیں ہے، حالانکہ اس طرح کے دورے سے بنگلہ دیش کا ہندوستانی انتخابی مہم کےطور پر استعمال ہونے کا خطرہ ہے۔
ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ ہندوستانی وزیر اعظم اوراکانڈی واقع مندر میں پوجا کریں گے اور اجلاس کو خطاب بھی کریں گے۔
اس صحافی نے کچھ دن پہلے یہاں کا دورہ کیا تھا اور دیکھا کہ مندر انتظامیہ مودی کی آمد کے لیے تیاری کر رہی تھی۔ حالانکہ انہیں اس بات کی جانکاری نہیں تھی کہ اس کا استعمال سیاسی وجوہات کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔
وہیں بایاں محاذکی طرف جھکاؤ رکھنے والے طلبا گروپ اور اسلامی پارٹیوں نے مودی کے دورے کے خلاف پچھلے کچھ دنوں میں بنگلہ دیش کی راجدھانی میں الگ الگ ریلیاں نکالیں۔
بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کےمطابق، مظاہرین نے مودی کو مدعو کرنے کے لیے وزیر اعظم شیخ حسینہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مودی پر 2002 کے گجرات فسادات اورہندوستان میں مسلمانوں پرمسلسل ظلم و زیادتی کا الزام لگایا۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)