آسام پولیس نے دی وائر کے خلاف دوسرے کیس میں سیڈیشن قانون لگایا؛ وردراجن اور کرن تھاپر نامزد

گوہاٹی کرائم برانچ نے ریاستی پولیس کی جانب سے درج کیے گئے ایک نئے 'سیڈیشن' کیس میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور سینئر صحافی کرن تھاپر کو سمن جاری کیا ہے۔ تاہم ،ایف آئی آر کی تاریخ، مبینہ جرم  کی جانکاری اور ایف آئی آر کی کوئی کاپی فراہم نہیں کی گئی ہے۔

گوہاٹی کرائم برانچ نے ریاستی پولیس کی جانب سے درج کیے گئے ایک نئے ‘سیڈیشن’ کیس میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور سینئر صحافی کرن تھاپر کو سمن جاری کیا ہے۔ تاہم ،ایف آئی آر کی تاریخ، مبینہ جرم  کی جانکاری اور ایف آئی آر کی کوئی کاپی فراہم نہیں کی گئی ہے۔

سدھارتھ وردراجن، کرن تھاپر اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما۔ (تصویریں: فائل/پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 12 اگست، 2025 کو – جس دن سپریم کورٹ نے دی وائر کی عرضی پر نوٹس جاری کیا، جس میں سیڈیشن کے نئے قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا اور جولائی میں موریگاؤں میں درج ایک معاملے میں بانی مدیر سدھارتھ وردراجن سمیت اس کے تمام صحافیوں کو آسام پولیس کی جانب سے کسی بھی ‘تعزیری کارروائی’ سے تحفظ فراہم کیا- ٹھیک اسی دن گوہاٹی پولیس کی کرائم برانچ نے ریاستی پولیس کی جانب سے درج ایک نئے ’سیڈیشن‘ کیس میں سدھارتھ وردراجن اور سینئر صحافی کرن تھاپر کوطلب کیا۔

آسام پولیس کےانسپکٹر سومر جیوتی رے کے ذریعے بی این ایس ایس کی دفعہ 35(3) کے تحت وردراجن کو جاری کردہ سمن میں کرائم برانچ، پان بازار، گوہاٹی میں دفعہ 152، 196، 197 (1) (ڈی)/3 (6)، 353، 45 اور 61 کے تحت درج ایک ایف آئی آر (03/2025) کا حوالہ دیا گیا ہے۔

تاہم، ایف آئی آر کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، نہ ہی مبینہ جرم کی کوئی تفصیلات دی گئی ہیں، اور نہ ہی ایف آئی آر کی کاپی فراہم کی گئی ہے –بی این ایس ایس کی اس دفعہ کے تحت سمن جاری کرتے وقت پولیس ان سب  کی جانکاری دینے کے لیے قانونی طور پر پابند ہے۔

یہ سمن دی وائر کے دفتر کو 14 اگست کو موصول ہوا تھا۔ سوموار (18 اگست) کو اسی ایف آئی آر کے لیے تھاپر کے نام بھی ایسا ہی سمن موصول ہوا ۔

وردراجن اور تھاپر دونوں کو جمعہ 22 اگست کو گوہاٹی کے پان بازار میں کرائم برانچ کے دفتر میں حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سمن میں کہا گیا ہے، ‘موجودہ تفتیش کے سلسلے میں حقائق اور حالات کا پتہ لگانے کے لیے آپ سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے معقول بنیادیں موجود ہیں۔اس نوٹس کی شرائط کی تعمیل/ پیش ہونے میں ناکامی آپ کو گرفتار کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔’

غور طلب ہے کہ وردراجن کے خلاف موریگاؤں میں 11 جولائی 2025 کو درج کی گئی ایف آئی آر 28 جون 2025 کو دی وائر میں شائع ہونے والی ایک خبر(‘آئی اے ایف لوسٹ فائٹر جیٹز ٹو پاک بی کاز آف پالیٹکل لیڈرشپز کونسٹرینٹس’: انڈین ڈیفنس  اتاشی‘ ) پر بی جے پی کے ایک کارکن کی طرف سے درج کی گئی شکایت سے متعلق ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کرائم برانچ کی ایف آئی آر کا تعلق کس مضمون یا ویڈیو سے ہے۔

یہاں تک کہ موریگاؤں کیس میں بھی جیسا کہ دی وائر کے وکیل نتیا رام کرشنن نے سپریم کورٹ کو بتایا، ایف آئی آر کو خفیہ رکھا گیا تھا اور قابل اعتماد ذرائع سے ہی شکایت، ایف آئی آر کی تاریخ اور لگائی گئی فوجداری  کی دفعات کا پتہ لگانا ممکن ہو پایا تھا۔

اس بنیاد پر دی وائر نے سیڈیشن ایکٹ کی دفعہ 152 کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں درخواست کی اور جسٹس سوریہ کانت اور جوائے مالیہ باگچی کی بنچ نے نوٹس جاری کیا۔

بی این ایس کی دفعہ 152 (‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیاں’) ہندوستان کی سابقہ سیڈیشن کی دفعات (انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124اے) کا ایک نیا ورژن ہے، جسے سپریم کورٹ نے 2022 میں ختم کر دیا تھا۔

سمن کے جواب میں وردراجن اور تھاپر نے سپریم کورٹ کی طرف سے ایف آئی آر کو عام کرنے اور ملزمین کو اس کی کاپیاں دینے کی ضرورت کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر کی کاپی کے بغیر پولیس کا سمن ناقابل قبول ہے۔

گوہاٹی میں دی وائر کے قانونی نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہیں مجسٹریٹ کورٹ میں درج ایف آئی آر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ آسام میں صحافیوں کو بھی گوہاٹی پولیس سے نئے کیس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

سمن کے جواب میں وردراجن اور تھاپر دونوں نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہندوستان کی آئینی عدالتوں کی طرف سے طے شدہ پیشگی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے۔

ان کے جواب میں کہا گیا، ‘اس بات پر دھیان دیں کہ اس ایف آئی آر، جس سے آپ کی جانچ متعلق ہےکی تفصیلات فراہم کیے بغیر کسی معاملے میں سوالوں کے جواب دینے اور ‘موجودہ تفتیش سے متعلقہ حقائق اور حالات کا پتہ لگانے’ کے لیے سمن جاری نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔’