مدھیہ پردیش کے دموہ میں واقع گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول غیر مسلم طالبات کو ‘حجاب’ پہنانے کے الزام میں جانچ کا سامنا کر رہا ہے۔ اب یہ اسکول مبینہ طور پر غیر مسلم طالبعلوں کو علامہ اقبال کی نظمیں گانے کے لیے مجبور کرنے کے حوالے سے بھی تنازعہ میں ہے۔
(علامتی تصویربہ شکریہ: ویڈیو اسکرین گریب)
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے دموہ کاایک اسکول مبینہ طور پر غیر مسلم طالبعلموں کو علامہ اقبال کی نظمیں گانے کے لیے مجبور کرنے کی وجہ سےتنازعہ میں ہے۔
بتادیں کہ گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول پہلے ہی غیر مسلم طالبات کو ‘حجاب’ پہنانے کے الزام کی تحقیقات کا سامنا کر رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، مدھیہ پردیش کی حکومت نے طالبات کو حجاب پہننے کے لیے مجبور کرنے کے الزامات کے بعد اس اسکول کی منظوری رد کر دی ہے۔
اسکول میں علامہ اقبال کی نظم ‘
لب پہ آتی ہے دعا‘ گائی جاتی تھی۔ یہ معاملہ منگل (30 مئی) کو سامنے آیا تھا۔ یہ نظم 1902 میں محمد اقبال نے لکھی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ سال 1877 میں غیر منقسم ہندوستان کے سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اقبال نے مشہور گیت ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا’ لکھا تھا۔ وہ ‘آئیڈیا آف پاکستان’ کے موجدکے طور پر بھی معروف ہیں۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق،وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے جمعہ کو چھتر پور ضلع میں لاڈلی بہنا یوجنا سے متعلق ایک پروگرام میں اس معاملے کو اٹھایا اور کہا کہ اس طرح کی چیزوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
چوہان نے کہا، ‘مجھے کل ہی معلوم ہوا کہ ایک اسکول میں بیٹیوں کو اپناسر ڈھانپنےکے لیے مجبور کیا جاتا ہے، وہ ملک کی تقسیم کی بات کرنے والے ایک شخص کی نظم بھی پڑھا رہے تھے۔’
انہوں نے کہا، ‘میں سب کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ مدھیہ پردیش میں اس طرح کی حرکتوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ریاست میں صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ تعلیمی پالیسی کو ہی نافذ کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ‘کوئی بھی اسکول جو نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق نہیں ہے یا لڑکیوں کو دوپٹہ یا سر ڈھانپنے پر مجبور کرتا ہے اسے ریاست میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔’
دموہ کے ضلع کلکٹر مینک اگروال، جنہوں نے الزامات کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، نے جمعہ کو کہا کہ وہ اسکول کے رجسٹریشن سمیت دیگر معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔
اگروال نے کہا، جب کمیٹی تحقیقات کر رہی تھی، اسکول نے ہمیں اپنی انتظامیہ کمیٹی کے فیصلے کے بارے میں بتایا، جس کے تحت طالبات کے لیے ڈریس کوڈ سے ہیڈ اسکارف ہٹانے اور صبح کے ترانے کے دوران صرف قومی ترانہ گانے کی بات کہی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اس سے قبل اس اسکول نے اپنے بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کرنے والوں کا ایک پوسٹر جاری کیا تھا، جس میں کچھ لڑکیاں، جو مسلمان نہیں ہیں، سر پر اسکارف پہنے نظر آرہی ہیں۔ اس پوسٹر کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اسکول کی جانب سے لڑکیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کیا گیا تھا۔
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے چیئرمین پریانک قانون گو نے بعد میں اس معاملے کو دموہ ضلع کلکٹر کے سامنے رکھا۔
وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور اے بی وی پی سمیت دائیں بازو کے گروپوں نے گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول پر غیر مسلم طالبات کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کا الزام لگاتے ہوئے دموہ میں احتجاج کیا۔
ضلع کلکٹر نے کہا کہ انہیں 30 مئی کو این سی پی سی آر کی شکایت موصول ہوئی اور دموہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے طالبعلموں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ افسر نے کہا کہ کسی والدین نے شکایت نہیں کی ہے۔
طالبات میں سے ایک نے کہا،لڑکیوں کے لیے اسکول کے ڈریس کوڈ میں اسکارف، شلوار اور کُرتا شامل ہے، لیکن اگر ہم کسی دن اسکارف پہننا بھول جائیں، تو ہمیں اس کی سزا نہیں دی جاتی۔ ہمارے پاس شکایت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
دریں اثنا،
انڈین ایکسپریس کے مطابق، مدھیہ پردیش کی حکومت نے طالبات کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے الزامات کے بعد دموہ کے اسکول کی منظوری ردکر دی ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (دموہ) نے جمعہ کو گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول کو معائنہ کرنے کے بعد ایک خط بھیجا، جس میں کہا گیا کہ اسکول میں ریکگنیشن رولز 2017 اور ریکگنیشن ترمیمی رولز 2020میں بیان کردہ پیرامیٹرز پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اسکول میں مناسب لائبریری، فزکس/کیمسٹری کا مناسب پریکٹیکل میٹریل، رجسٹرڈ 1208 طلبہ و طالبات کے لیے الگ الگ بیت الخلاء اور پینے کے صاف پانی کے انتظام کا فقدان ہے، اور فزکس اور کیمسٹری کی لیب میں الگ الگ کمروں میں پرانے فرنیچرکابھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے، وقتاً فوقتاً جاری کردہ شرائط اور ذمہ داریوں اور ہدایات کی عدم تعمیل کے نتیجے میں اسکول کا لائسنس فوری طور پر معطل کیا جاتا ہے۔