غیر قانونی طور پر وزارت زراعت نے زرعی قوانین کے دستاویز کو عوامی کر نے سے انکار کیا

خصوصی رپورٹ: نئے زرعی قوانین کی مخالفت کے بیچ مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ اس کو کافی غوروخوض کے بعد بنایا گیا ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت اس سے متعلق دستاویز مانگے جانے پر وزارت زراعت نے سپریم کورٹ میں معاملے کے زیرسماعت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو عوامی کرنےسے انکار کیا۔ حالاں کہ آر ٹی آئی ایکٹ میں کہیں بھی ایسا اہتمام نہیں ہے۔

خصوصی رپورٹ: نئے زرعی قوانین کی مخالفت کے بیچ مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ اس کو کافی غوروخوض کے بعد بنایا گیا ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت اس سے متعلق دستاویز مانگے جانے پر وزارت زراعت نے سپریم کورٹ میں معاملے کے زیرسماعت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو عوامی کرنےسے انکار کیا۔ حالاں کہ آر ٹی آئی ایکٹ میں کہیں بھی ایسا اہتمام نہیں ہے۔

وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: مودی حکومت کی جانب سے لائے گئے تین متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف چل رہے ملک گیر کسان تحریک کے بیچ وزارت زراعت نے ان قوانین سے متعلق  فائلوں کوعوامی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وزارت نے جو دلیل دی ہے، اس کاآر ٹی آئی قانون میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی،وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر سمیت بی جے پی کے تمام رہنما باربار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان قوانین کو مختلف  سطحوں پر غوروخوض کے بعد بنایا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے اسی دعوے کے ساتھ سپریم کورٹ میں حلف نامہ بھی دائر کیا ہے۔

اسی تناظر میں دی  وائر نے وزارت زراعت  میں آر ٹی آئی دائر کرکے تینوں قوانین کسان پیداوارٹریڈ اورکامرس(فروغ اورسہولت)ایکٹ،2020، کسان(امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن)پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل،2020 اور ضروری اشیا(ترمیمی)بل،2020- سے متعلق تمام فائلوں (خط وکتابت ، فائل نوٹنگس، مشورے ریکارڈز)کی کاپی دینے کی مانگ کی تھی۔

حالانکہ وزارت نے اس کو عوامی کرنے سے انکار کر دیا۔وزارت کے زرعی مارکیٹنگ ڈویژن میں انڈرسکریٹری اورسینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسرآشیش باگڑے نے ایسا کرنے کے لیے کورونا کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس وقت دستاویز نہیں بھیجے جا سکتے ہیں۔

درخواست دائرکرنے کے تقریباً پانچ مہینے بعد بھیجے اپنے جواب میں باگڑے نے کہا، ‘جہاں تک دستاویزوں کی کاپی مہیا کرانے اور اس کے معائنے کا سوال ہے، تو یہ بتایا جاتا ہے کہ کووڈ 19وبا کی وجہ سےپیدا ہوئے حالات کی وجہ سے ایسا کر پاناممکن نہیں ہے۔’

اتنا ہی نہیں، جب ایسےمن مانے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی، تو حکام نے ایک قدم اور آگے نکل کر غیر قانونی دلیل دےکر دستاویزوں کوعوامی کرنے سے انکار کیا۔ڈویژن کے متعلقہ افسراورڈائریکٹر ایس سریش کمار نے کہا کہ چونکہ ان قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور یہ وہاں پر زیرسماعت ہیں، اس لیے مانگی گئی جانکاری مہیا نہیں کرائی جا سکتی ہے۔

کمار نے اپنے آرڈر میں کہا، ‘یہ مطلع کیا جاتا ہے کہ ان قوانین کو کئی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ زیر سماعت معاملہ ہے، اس لیے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ8(1) (بی) کے تحت ان جانکاریوں کو مہیا کرا پاناممکن نہیں ہوگا۔’

زرعی قوانین پر آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت وزارت کا جواب۔

زرعی قوانین پر آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت وزارت کا جواب۔

خاص بات یہ ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ زیر سماعت معاملوں سے متعلق جانکاری مہیا نہیں کرائی جا سکتی ہے۔ہائی کورٹ اور سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)نے اپنے کئی فیصلوں میں تفصیل سے بتایا ہے کہ پبلک انفارمیشن افسرزیر سماعت  معاملے کی دلیل دےکر جانکاری دینے سے بچ نہیں سکتے ہیں۔

کمار نے جس دفعہ 8(1)(بی)کا ذکر کیا ہے، اس میں صرف اتنا لکھا ہے کہ اگر کوئی کورٹ کسی جانکاری کے انکشاف پرواضح طور پر روک لگاتی ہے، تو وہ جانکاری عوامی نہیں کی جا سکتی ہے۔اس میں کہا گیا ہے، ‘جانکاری، جس کی اشاعت کو کسی عدالت یا ٹریبونل کی طرف سے واضح طور پربین کیا گیا ہے یا جس کے انکشاف  سے عدالت کی توہین ہوتی ہے۔’

جہاں تک زرعی قوانین کا سوال ہے تو سپریم کورٹ نے ایسا کوئی آرڈر جاری نہیں کیا ہے۔ عدالت نے صرف ان قوانین کے عمل پر روک لگائی ہے اور تنازعہ کو سلجھانے کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل کی  ہے۔

کیا کہتے ہیں سی آئی سی کے فیصلے

آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اپیلوں اور شکایتوں کو سلجھانے والے سب سے اعلیٰ اپیلیٹ ادارے سی آئی سی نے اپنے کئی فیصلوں میں باربار کہا ہے کہ محض زیر سماعت معاملہ ہونے کی بنیاد پر جانکاری دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بتادیں کہ 28 نومبر 2016 کو کمیشن نے اپنے ایک فیصلے میں کہا، ‘شروعات میں ہی یہ صاف کیا جاتا ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت زیرسماعت معاملوں سے متعلق جانکاریوں کےانکشاف پر کوئی روک نہیں ہے۔ صرف انہی معاملوں میں جانکاری  دینے سے چھوٹ ملی ہوئی ہے جہاں کورٹ یا ٹربیونل نے کوئی روک لگا دی ہو یا جس کے انکشاف سے عدالت  کی توہین ہو۔’

اس فیصلے پر دہلی ہائی کورٹ نے بھی مہر لگائی ہے۔ ستمبر 2010 میں ہائی کورٹ نے دہلی میونسپل بنام آر کے جین معاملے میں دیے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا، ‘کورٹ کے سامنے کسی معاملے کا زیر سماعت ہونا، آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ  8(1) کے تحت جانکاری  کے انکشاف سے چھوٹ کے دائرے میں نہیں ہے۔’

اسی طرح جون 2006 میں نانک چندر اروڑہ بنام بھارتیہ سٹیٹ بینک کیس میں دیے اپنے فیصلے میں کمیشن نے کہا تھا کہ ایکٹ میں ایسا کوئی اہتمام  نہیں ہے جو کسی معاملے کے کورٹ میں زیر سماعت ہونے پر اس سےمتعلق جانکاریوں کوعوامی  کرنے سے روکتا ہے۔

سابق انفارمیشن کمشنر اور جانےمانے آر ٹی آئی کارکن شیلیش گاندھی نے کہا، ‘قانون میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ زیر سماعت معاملوں سے متعلق جانکاری کو عوامی کرنے سے چھوٹ ہے۔ اس طرح کی چھوٹ کے لیے کورٹ کا کوئی آرڈر ہونا چاہیے، جس میں خاص طور پر کہا گیا ہو کہ یہ جانکاری عوامی  نہ کی جائے۔ کورٹ یا ٹربیونل سے ایسا کوئی آرڈر جاری نہ ہونے پر جانکاری ضرور مہیا کرائی جانی چاہیے۔’

انہوں نے کہا کہ اس طرح کا جواب دینا قانون کی خلاف ورزی ہے۔

دیگرعرضیوں  کو بھی وزارت  کر رہی ہے خارج

زرعی  قانون سے جڑے دیگر آر ٹی آئی درخواستوں کو بھی وزارت زراعت خارج کر رہی ہے۔ آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج نے زرعی قوانین کو بنانے سے پہلے ہوئے مشورے بات چیت، بیٹھکوں وغیرہ کے منٹس کی کاپی مانگی تھی، لیکن وزارت نے اسے عوامی  کرنے سے انکار کر دیا۔

اسی طرح نوئیڈاکےماحولیاتی کارکن وکرانت تو گڑ نے بھی ایسی  ہی ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی تھی، لیکن وزارت نے ہوبہو یہی جواب دیتے ہوئے جانکاری کو عوامی  کرنے سے انکار کر دیا۔

پچھلے سال 14 ستمبر 2020 کو لوک سبھا میں تین زرعی قوانین پر بحث کے دوران وزیر مملکت راؤصاحب پاٹل دانوے نے کہا کہ زراعت پر اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے ضروری اجناس ایکٹ میں ترمیم پر چرچہ  کی گئی تھی اور انہوں نے اس بل کو منظوری دی تھی۔

چونکہ اس کمیٹی  کی رپورٹ عوامی  نہیں ہے، اس لیے انجلی بھاردواج نے ایک آر ٹی آئی دائر کرکےمتعلقہ  رپورٹ کی کاپی، بیٹھکوں کی تفصیلات، میٹنگ میں شامل ہوئے لوگوں کے نام جیسی کئی جانکاری مانگی تھی۔

حالانکہ حکومت نے یہ جانکاری  بھی عوامی کرنے سے منع کر دیا۔ نیتی آیوگ نے کہا کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنی رپورٹ سونپ دی ہے، لیکن پہلے اسے کمیشن کی 6ویں گورننگ کاؤنسل بیٹھک میں پیش کیا جائےگا، اس کے بعد اسے عوامی  کرنے پر غور کیا جائےگا۔

نیتی آیوگ کے اس جواب سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ زراعت پر بنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ کا گورننگ کاؤنسل کے تجریے کے بنا ہی حکومت زرعی قوانین لے آئی اور اسے پارلیامنٹ سے پاس کرا دیا۔

حکومت کے اس طرح کے ردعمل  سے ایک بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب خود مرکز اور اس کے مختلف محکمے دعویٰ کر رہے ہیں کہ زرعی قوانین پر بڑے پیمانے پر غوروخوض کیا گیا ہے، تو اس سے جڑے دستاویزوں کو عوامی  کرکے ثبوت  دینے میں کیاقباحت ہے؟

Next Article

تشدد کے دو سال: اب گھر لوٹنا چاہتے ہیں منی پور کے لوگ

منی پور میں نسلی تنازعہ کو دو سال ہونے کو ہے، لیکن آج بھی خطے میں امن  و امان کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ صدر راج کے بعد ریاست کی صورتحال  کیاہے، اس بارے میں منی پور سے لوٹےصحافی یاقوت علی اور دی وائر کی نیشنل افیئرز کی ایڈیٹر سنگیتا بروآ پیشاروتی سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

’سنتوش فلم پر پابندی افسوسناک، کچھ لوگوں کی سوچ کی وجہ سے یہ عوام تک نہیں پہنچ پا رہی‘

ہندوستان میں سینسر بورڈ نے عالمی شہرت یافتہ فلمساز سندھیا سوری کی فلم ‘سنتوش’ کی ریلیز کو روک دیا کیونکہ اسے لگا کہ یہ پولیس کی منفی امیج کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم میں مرکزی کردار اداکارہ شہانا گوسوامی نے ادا کیا ہے، جن کے کام کو خوب پذیرائی ملی ہے۔ ان سے انکت راج کی بات چیت۔

Next Article

نیشنل ہیرالڈ کو لے کر کانگریس کا بی جے پی پر نشانہ، کہا – پانچ جنیہ اور آرگنائزر مفت میں چلتے ہیں

بی جے پی نے کانگریس پرنیشنل ہیرالڈ اخبار کو دی گئی پبلک پراپرٹی  کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس پر کانگریس نے سوال کیا کہ کیا آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ اور آرگنائزرمفت میں کام کرتے ہیں۔

نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (16 اپریل) کو بی جے پی سے سوال کیا کہ کیا آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ اور آرگنائزر جیسے اس کے معاون ادارے مفت میں کام کرتے ہیں، کیونکہ بی جے پی نے کانگریس  پر نیشنل ہیرالڈ اخبار کو دی گئی پبلک پراپرٹی کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔

بی جے پی کا یہ الزام انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے منگل کو نیشنل ہیرالڈ کیس میں کانگریس کے ارکان پارلیامنٹ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی اور دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے چارج شیٹ داخل کرنے کے بعد آیا ہے۔

دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دی وائر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ پارٹی  کئی دہائیوں سے ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) کی حمایت کرتی  رہی ہے، جونیشنل ہیرالڈکی اشاعت  کرتی ہے۔

دریں اثنا، کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور پارٹی کے میڈیا اور مواصلات انچارج جئے رام رمیش نے کہا کہ کانگریس اور اے جے ایل کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

دی وائر کے ایک سوال کے جواب میں سنگھوی نے کہا،’کیا آپ جانتے ہیں کہ کانگریس کتنی دہائیوں سے اقتصادی طور پر محروم اے جی ایل کے تعاون  کے لیے پیسے دے رہی ہے؟ جب اے جی ایل نے کام کرنا شروع کیا  تھا، تو بی جے پی سیاسی منظر نامے میں بھی نہیں تھی۔ 1950، 1960، 1970 میں کسی نے 5 لاکھ روپے دیے، کسی نے 10 یا 20 لاکھ روپے دیے کیونکہ ہم اے جی ایل  کو گرنے نہیں دے سکتے تھے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘کیا بی جے پی نے کبھی کسی طرح سے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ تقریباً 50 سالوں میں جمع (قرض) 90 کروڑ روپے تھا؟اے جی ایل کس سے قرض لینے کی وجہ سےپریشان تھی؟ ایک تجارتی کمپنی سے؟ نہیں، اپنی  ہی کانگریس پارٹی سے۔’

انہوں نے کہا،’تو پھر مجرمانہ ارادہ کہاں ہے؟ اور کیا یہ کانگریس پارٹی کے لیے جرم ہے، جس نے اس (اے جی ایل) کو تحریک آزادی کے بعد سے ایک خاص آئیڈیل  ازم کے ساتھ شروع کیا تھا، اقتصادی  طور پر جدوجہد کرنے والی اے جی ایل  کی حمایت کرنا، جسے وہ کامیاب بنانا چاہتی ہے، جس کا قرض ینگ انڈین کو منتقل کر کے  وہ دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے؟’

انہوں نے پوچھا، ‘کیا بی جے پی اپنی تمام ملحقہ تنظیموں جیسے پانچ جنیہ اور آرگنائزر وغیرہ کے لیے ہر روز ایسا نہیں کرتی؟ کیا وہ مفت میں کام کرتے ہیں؟’

سنگھوی کا یہ ردعمل ایسے وقت میں آیا جب بی جے پی نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی نجی تنظیم کو پیسے نہیں دے سکتی۔

سابق وزیر قانون اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ روی شنکر پرساد نے کہا، ‘اس کی (نیشنل ہیرالڈ) کی اشاعت 2008 میں بند ہو گئی۔ اس کے بعد کانگریس نے اخبار شائع کرنے والی ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ کو 90 کروڑ روپے دیے۔ کوئی سیاسی جماعت کسی نجی ادارے کو پارٹی فنڈز نہیں دے سکتی، یہ ممنوع ہے۔’

‘انہوں نے ینگ انڈین کے نام سے ایک کمپنی بنائی- جس کے 38 فیصد شیئر سونیا گاندھی کے اور 38 فیصد راہل گاندھی کے پاس تھے۔ 9 کروڑ روپے کے ایکویٹی شیئر ینگ انڈین کو منتقل کیے گئے۔ اس کے بعد، دہلی، ممبئی، لکھنؤ، بھوپال اور پٹنہ میں ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ کے ہزاروں کروڑ روپے کے اثاثے ینگ انڈین کے پاس آگئے،’ انہوں نے دعویٰ کیا۔

انہوں نے مزید کہا، ‘کہا گیا  تھاکہ یہ ایک خیراتی ادارہ ہے، لیکن آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے کیا عطیہ کیا ہے۔ شکایت کے بعد ای ڈی نے معاملے کی جانچ کی۔’

دوسری طرف، کانگریس نے کہا کہ اے جے ایل پوری طرح سے  کانگریس پارٹی کا حصہ ہے۔

رمیش نے کہا، ‘یہ کانگریس پارٹی اور اس کے اراکین نے شروع کیا تھا، اس لیے آپ اے جے ایل کو کانگریس سے الگ نہیں کر سکتے۔’

‘ بغیر کسی منی لانڈرنگ کے پی ایم ایل اے کیس’

بی جے پی پر الزام لگاتے ہوئے کانگریس نے کہا کہ منی لانڈرنگ یا جائیداد کی منتقلی کے بغیر منی لانڈرنگ کا معاملہ بنایا جا رہا ہے۔

سنگھوی نے کہا، ‘میں نے اس معاملے کو یکطرفہ کہا تھا۔ بغیر کسی منی لانڈرنگ یا جائیداد کی منتقلی کے، منی لانڈرنگ کا کیس بنا دیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ اے جے ایل دہائیوں پرانی کمپنی ہے، جو مالی طور پر کامیاب نہیں تھی اور کانگریس نے اسے مختلف اوقات میں 90 کروڑ روپے تک کا قرض دیا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘اے جے ایل ایک معروف کمپنی ہے جو کئی دہائیوں پرانی ہے اور اس کا قیام کچھ خاص آئیڈیل ازم  کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ یہ کمپنی مالی طور پر کامیاب نہیں رہی۔ پچھلے 50 سالوں میں مختلف اوقات میں، کانگریس نے اسے کچھ مخصوص نظریات کی بنیاد پر قائم کرکے قرض دیا۔ کئی دہائیوں کے بعد یہ رقم 90 کروڑ روپے ہوگئی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوا کہ اے جے ایل کی تشکیل نو کیسے کی جائے، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے قرض سے آزاد کمپنی بنایا جائے۔’

سنگھوی نے کہا، ‘ایسے حالات میں اس کمپنی کا 90 کروڑ روپے کا قرض ینگ انڈین نام کی نئی کمپنی کو منتقل کر دیا گیا۔’

سنگھوی نے کہا کہ قرض کاغذ پر منتقل کیا گیا تھا اور اے جے ایل کے شیئرینگ انڈین کو جاری کیے گئے تھے، جو کمپنی ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت تشکیل دی گئی ایک غیر منافع بخش خیراتی کمپنی تھی۔

انہوں نے کہا، ‘یہ قرض کاغذ پر منتقل کیا گیا ہے، یعنی وہ قرض جو پہلے کانگریس پارٹی کا تھا، اب ینگ انڈین کا قرض بن گیا ہے۔ وہ قرض چکانا ضروری تھا، ورنہ اے جے ایل کیسے مضبوط ہوتی، نیشنل ہیرالڈ کیسے مضبوط ہوتی؟ قرض کو شیئر میں تبدیل کر کے اسے قرض سے آزاد کر دیا گیا۔’

انہوں نے کہا، ‘یعنی اے جے ایل کے شیئر ینگ انڈین کو جاری کر دیے گئے ، جس سے ینگ انڈین کو اے جے ایل کا 90-99 فیصد شیئر ہولڈر بن گیا۔ ینگ انڈین کے ڈائریکٹر موتی لال ووہرا، آسکر فرناننڈس، سیم پتروڈا، سونیا گاندھی، راہل گاندھی وغیرہ تھے۔’

سنگھوی نے کہا، ‘اے جے ایل کی شیئر ہولڈنگ ینگ انڈین کے پاس چلی گئی، لیکن نہ تو پیسہ اور نہ ہی اثاثے منتقل کیے گئے۔ اس معاملے میں بہت عجیب و غریب دلائل دیے جارہے ہیں کہ ہم نے منی لانڈرنگ کے لیے ینگ انڈین بنایا تھا۔ ینگ انڈین ایک غیر منافع بخش خیراتی کمپنی ہے جو سیکشن 8 کے تحت بنائی گئی ہے۔’

سنگھوی نے کہا کہ ینگ انڈین سے اگر منافع بھی کمایا جاتا رقم ڈیویڈنڈ کی شکل میں نہیں دی جا سکتی کیونکہ دفعہ 8 کے تحت ایسا کرنا منع ہے۔

انہوں نے کہا، ‘اس کے علاوہ اس کمپنی کی طرف سے کوئی تنخواہ یا الاؤنس نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس کمپنی نے کوئی جائیداد خریدی اور نہ بیچی۔ اس نے کوئی معاشی سرگرمی نہیں کی۔ یہ ایک غیر منافع بخش سیکشن 8 کمپنی تھی۔ کانپور، دہلی اور ممبئی میں تمام جائیدادیں اب بھی اے جے ایل کی ملکیت ہیں، اب صرف اے جے ایل کی شیئر ہولڈنگ ینگ انڈین کے پاس ہے۔’

اب جبکہ سونیا اور راہل گاندھی دونوں کو ای ڈی چارج شیٹ میں ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، سنگھوی نے سوال اٹھایا کہ پیسے کا ذریعہ کہاں ہے اور جرم کی آمدنی کہاں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ڈائریکٹر کون ہیں۔ آج، میں ایک بہت واضح سوال پوچھ رہا ہوں – عوام سے، ملک سے، میڈیا سے اور آپ کے ذریعے، ای ڈی سے بھی۔’

سنگھوی نے پوچھا، ‘اگر اے جے ایل کے تمام اثاثوں کو اے جے ایل کو 99 فیصد شیئر ہولڈنگ دے کر منی لانڈر کیا گیا ہے۔ ینگ انڈین کے ڈائریکٹرز نے یہ تمام جائیدادیں ہڑپ کر لی ہیں۔ پیسے کا پتہ کہاں ہے؟ جرم کی آمدنی کہاں ہے؟’

انہوں نے کہا، ‘جب اے جی ایل کی جائیداد اے جی ایل کی تھی،  تووہ جائیداد کبھی بھی ینگ انڈین کو منتقل نہیں کی گئی۔ قانونی طور پر، جب تک ینگ انڈین ان جائیدادوں کو نہیں خریدتا، جائیدادوں کی ملکیت اے جی ایل  کے پاس ہی رہے گی۔تو  پھر ینگ انڈین کے ڈائریکٹر منی لانڈرنگ کیسے کر رہے ہیں؟ ایسے میں ینگ انڈین کے ڈائریکٹر منی لانڈرنگ کہاں سے کر رہے ہیں، مہربانی کرکے کوئی  ہمیں اس بارے میں بتائے؟’

‘سیاسی انتقام’

کانگریس کے دونوں ممبران پارلیامنٹ نے کہا کہ اس معاملے کو اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

رمیش نے کہا، ‘گزشتہ دو دنوں سے انتقام، ہراساں کرنے اور دھمکی دینے کی سیاست چل رہی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘عوامی مسائل، خارجہ پالیسی اور معاشی بحران سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انتقام کی اس سیاست کے پیچھے دو لوگ ہیں جو ماسٹر مائنڈ ہیں۔ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کچھ بھی کر لیں ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے اور عوام کے ان مسائل کو اٹھاتے رہیں گے۔’

سنگھوی نے کہا کہ یہ معاملہ قانونی آڑ میں سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا،’سلیکٹو  جسٹس کچھ اور نہیں بلکہ سیاسی ٹھگی ہے۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ڈی یو میں سینسرشپ کا معاملہ: اپوروانند کو نہیں دی گئی سیمینار میں شرکت کی اجازت

پروفیسر اپوروانند کو امریکہ میں ایک سیمینار میں حصہ لینا تھا۔ جب انہوں نے دہلی یونیورسٹی کو چھٹی کے لیے خط لکھا تو یونیورسٹی نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اور پھر ان سے تقریر کی کاپی بھی مانگی۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع  کر دیا کہ یہ اکیڈمک آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اپوروانند کو نیویارک کے دی نیو اسکول میں ہونے والے ایک اکیڈمک پروگرام میں یونیورسٹی نے شرکت کی اجازت نہیں دی ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں پہلے اپنی تقریر کی کاپی جمع کرانے کو کہا۔ جب پروفیسر نے ایسا کرنے سے منع  کر دیا تو انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

پروفیسر اپوروانند نے دی نیو اسکول میں انڈیا چائنا انسٹی ٹیوٹ کی 20ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے چھٹی کی درخواست دی تھی۔ پروفیسر کے مطابق، انہوں نے 35 روز قبل چھٹی کی درخواست دی تھی، لیکن 2 اپریل کو انہیں یونیورسٹی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں سفر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

انڈیا چائنا انسٹی ٹیوٹ کی 20 ویں سالگرہ 23 اپریل اور 1 مئی کے درمیان منعقد ہونے والی ہے۔ اپوروانند کو جس سیمینار میں بولنا تھا، اس کا موضوع تھا- آمریت پسندی  کے دور میں یونیورسٹی کی حالت۔

دی وائر سے بات چیت میں پروفیسر اپوروانند نے یونیورسٹی انتظامیہ کی کارروائی کو اکیڈمک آزادی اور سینسر شپ کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا۔

یونیورسٹی اور پروفیسر کے درمیان وزارت داخلہ کیوں؟

اساتذہ کی چھٹی پر فیصلہ یونیورسٹی کو ہی لینا ہوتاہے۔ اس میں کسی وزارت کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ پروفیسر نے اپنی چھٹی کی درخواست یونیورسٹی کے مجاز اتھارٹی کو بھیجی تھی، لیکن یونیورسٹی نے اسے مرکزی وزارت داخلہ کے پاس  بھیج دیا ۔

‘یونیورسٹی حکام نے مجھے بتایا کہ میری چھٹی کی درخواست وزارت کو بھیج دی گئی ہے۔ پھر انہوں نے مجھے اپنی تقریر کا متن منظوری کے لیے پیش کرنے کو کہا۔ یہ دونوں چیزیں (اظہار رائے کی آزادی کی) خلاف ورزی ہیں۔’

‘ چھٹی کی منظوری  میں وزارت سےمداخلت کے لیےکہنا ادارہ جاتی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے، جبکہ میری تقریر کی کاپی مانگنا اکیڈمک آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی اپنی ادارہ جاتی خود مختاری کے تحفظ کے لیے تیار نہیں ہے۔ میرے پاس  رجسٹرار کا بھی فون آیا، جس میں مجھ سے تقریر کی ایک کاپی جلد از جلد بھیجنے کو کہا گیا، لیکن میں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے،’ پروفیسر اپوروانند نے کہا ۔

دہلی یونیورسٹی کے اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ وزارت سے مشورہ لینے کا فیصلہ ‘بین الاقوامی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے’ لیا گیا تھا،’ہم عام طور پر وزارت سے رجوع نہیں کرتے، لیکن اس معاملے میں ہم نے محسوس کیا کہ ان کا مشورہ لینا بہتر ہوگا۔ہم نے ان سے (اپوروانند) ان کی تقریر کی کاپی مانگی تھی، لیکن انہوں نے نہیں دی۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا، ‘ایسا کوئی اصول نہیں ہے۔ پہلے بھی لوگ جاتے رہے ہیں۔ یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ اور اگر یہ وجہ بھی ہے تو آپ کیاچاہتے ہیں کہ لیکچر کا فارمیٹ آپ کو پہلے سے دے دیا جائے۔ پھرآپ اس سے مطمئن ہوں گے تو اجازت دیں گے، مطمئن  نہیں ہوں گے تو اجازت نہیں دیں گے۔ یہ توسینسر شپ ہو گئی  اور آج تک ایسا نہیں ہوا ہے۔’

وہ مزید کہتے ہیں،’یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبوں کے لوگ اکثر تر بیرون ملک جاتے  رہتےہیں،  تو ان سے  توکبھی مانگا نہیں  جاتا۔ ہماری یونیورسٹی کی جو رول بک ہے، پوری رول بک میں یہ بات کہیں نہیں لکھی ہے۔’

اس سینسر شپ کو اکیڈمک دنیا میں ہر جگہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی میں تقریر اور تحریر کی آزادی کی حد پر اپوروانند نے کہا، ‘اس آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ خود مختار نہیں ہیں اور یہاں تک کہ طلباء بھی خود مختار نہیں ہیں۔ دونوں اپنی اپنی بات کہنے میں آزاد نہیں ہیں۔ایک طرح کے  طلبہ اور اساتذہ ضرور آزاد ہیں، جو حکمران جماعت یا اس کے نظریے سے وابستہ ہیں۔ باقی کوئی اور آزاد نہیں ہے۔’

کیا یہ انتقامی کارروائی ہے؟  

پروفیسر اپوروانند اکثر مختلف پلیٹ فارم سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریہ اور بی جے پی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ یہ تعلیم کے بھگواکرن اور یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی حکومتی مداخلت کے خلاف بھی آواز اٹھاتے  رہتےہیں۔ کیا ان کے سفر کو منظوری نہ دینے پس پردہ یہ  وجہ ہو سکتی ہے؟

پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ وہ خود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی  ہی تحریری طور پر وضاحت پیش  کرے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔

’بطور استاد میری زندگی کوئی دس سال کی تو ہےنہیں، تیس سال کی ہے۔ اس پورے معاملے میں حکومت کہیں نہیں ہے۔ معاملے میں صرف یونیورسٹی انتظامیہ ہے۔ جو بھی فیصلہ لیا جا رہا ہے وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے  لیا جا رہا ہے کیونکہ ذمہ داری اس کی ہے حکومت کی نہیں۔ میں نے حکومت کو چھٹی کے لیے نہیں لکھا۔ میں نے یونیورسٹی کی مجاز اتھارٹی کو خط لکھا تھا۔ اگر وہ خود فیصلہ نہیں لے رہے ہیں اور حکومت سے پوچھنے جارہے ہیں کہ اجازت دی جائے یا نہ دی جائے تو یونیورسٹی اپنا اختیار حکومت کو دے رہی ہے۔ اس سوال کا جواب یونیورسٹی انتظامیہ کو دینا ہوگا۔ …میں نے اخبار میں پڑھا کہ کسی  نامعلوم اہلکار نے کہا کہ ایسا بین الاقوامی تناظر کی حساسیت کی وجہ سے کیا گیا ہے لیکن یہ بھی زیادہ واضح نہیں ہے۔’

پروفیسر نے واضح کیا کہ ان کی زیادہ تشویش یونیورسٹی کی خود مختاری کے بارے میں ہے، ‘میں نے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو لکھا کہ میری تشویش میری اپنی یونیورسٹی کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہے۔ وہ اپنی خود مختاری خود حکومت کے حوالے کیوں کر رہی ہے؟ آگے بڑھ کر حکومت کووہاں  کیوں لا رہی ہے، جہاں حکومت کوآنے کی ضرورت  نہیں ہے۔ یونیورسٹی اپنے اساتذہ پر ایسی شرائط کیوں عائد کر رہی ہے جن کی نہ تو کوئی روایت ہے اور نہ ہی کوئی اصول؟’

اپنے خط میں پروفیسر نے لکھا ہے کہ یہ ایک ‘خطرناک مثال’ بن سکتی ہے۔

ہم نے جاننا چاہا کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ مستقبل میں دیگر اساتذہ کو بھی ایسے ہی تجربات ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ‘ میں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت ہی اس لیے کی ہے۔ میں  یہ نہیں چاہتا کہ یہ ایک شروعات بن جائے۔’

تقریر کے کچھ نکات تحریری طور پر  دیےدیے جاتے تو روایت بن جاتی۔ ‘میں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یہ ایک خطرناک شروعات ہو سکتی ہے۔ تمام اساتذہ اور طلبہ کو اس بات کو سمجھنا چاہیے۔’

اب یہ واضح ہے کہ پروفیسر اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ ایسے میں جب ہم نے منتظمین کے ردعمل کے بارے میں پوچھا تو پروفیسر نے کہا، ‘وہ (منتظمین) مجھ سے میرا لیکچر مانگ رہے ہیں۔ میں اب اس پر فیصلہ کروں گا۔ جب ہم ایسے پروگراموں میں جاتے ہیں تو صرف لیکچر ہی نہیں دیتے بلکہ بحث ومباحثہ بھی کرتے ہیں۔ اس میں لوگ آپ سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔ پھر یہ آپ کو یہ سوچنے میں مدد کرتا ہے کہ جو کچھ آپ نے اب تک سوچا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں۔ آخر انٹلیکچول انٹریکشن کا مطلب کیا ہوتا ہے، یہی نا۔ ہم خود پر نظر ثانی کرتے ہیں اور خود پر غور کرتے ہیں۔وہ موقع  تو مجھے اب نہیں ملے گا۔ یہ ایک استاد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’

Next Article

بہار اسمبلی انتخابات: ’انڈیا‘ بلاک کی رابطہ کمیٹی کی قیادت کریں گے تیجسوی یادو

‘انڈیا’ بلاک نے اعلان کیا ہے کہ بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے مہاگٹھ بندھن کی رابطہ کمیٹی کی قیادت کریں گے۔ تاہم، اتحاد کی طرف سے انہیں ابھی وزیر اعلیٰ کا چہرہ نہیں بنایا گیا ہے۔

نئی دہلی: اپوزیشن پارٹی انڈیا بلاک نے جمعرات (17 اپریل) کو اعلان کیا ہے کہ بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو ریاست میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے مہاگٹھ بندھن کی رابطہ کمیٹی کی قیادت کریں گے۔

اگرچہ اتحاد نے یادو کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ ابھی نہیں بنایا ہے، لیکن کہا ہے کہ قائد حزب اختلاف رابطہ کمیٹی کی سربراہی کریں گے، جو اتحاد کی تمام جماعتوں پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی دیگر چیزوں کے علاوہ ایک مشترکہ پروگرام، منشور اور نشستوں کی تقسیم کا فیصلہ کرے گی۔

چھ اتحادی جماعتوں – کانگریس، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) اور وکاسیل انسان پارٹی (وی آئی پی) – کے رہنماؤں نے جمعرات کو پٹنہ میں ملاقات کی۔

سال 2020 میں مکیش ساہنی کی قیادت والی وی آئی پی سیٹوں کی تقسیم پر اختلاف کی وجہ سے انتخابات سے پہلے اتحاد سے الگ ہو گئی تھی۔

میٹنگ کے بعد بہار کانگریس کے انچارج کرشنا الوارو نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ انتخابی مہم سے متعلق تمام فیصلے رابطہ کمیٹی لے گی، جس کی سربراہی یادو کریں گے۔

انہوں نے کہا، ‘بہار انتخابات سے متعلق تمام فیصلے – سیٹ شیئرنگ کے انتظامات سے لے کر مشترکہ پروگرام  اور منشور تک، انتخابی مہم کا خاکہ تیار کرنے، پارٹیوں کے درمیان تال میل، میڈیا کوآرڈینیشن، ووٹر لسٹ اور دیگر تمام انتخابی کاموں کی نگرانی رابطہ کمیٹی کرے گی۔ یہ کمیٹی ‘انڈیا’ الائنس  کی سپریم باڈی ہوگی اور اس کمیٹی کے چیئرمین تیجسوی یادو ہوں گے۔’

ان کا کہنا ہے کہ ‘رابطہ کمیٹی میں تمام اتحادی جماعتوں کے ارکان شامل ہوں گے۔’

یہ میٹنگ بدھ (16 اپریل) کو دہلی میں کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی سے تیجسوی یادو کی ملاقات کے دو دن بعد ہوئی ہے ۔

میٹنگ کے بعد تیجسوی یادو نے کہا، ‘بہار کی صورتحال پر آج مہاگٹھ بندھن کی پہلی میٹنگ ہوئی۔ ہم نے خاص طور پر غریبی، بے روزگاری اور نقل مکانی سے متعلق مسائل پر بات کی۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘پچھلے 20 سالوں سے برسراقتدار حکومت کے خلاف بہار کے لوگوں میں کافی غصہ ہے۔ 20 سالوں میں ان کی اپنی مرکزی حکومت کی نیتی آیوگ کی رپورٹ کہتی ہے کہ بہار سب سے غریب ہے۔ بہار بے روزگاری، غربت، نقل مکانی اور بڑھتے ہوئے جرائم میں پہلے نمبر پر ہے۔ بہار میں لاء اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

سابق نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ‘ہم وزیر اعلیٰ کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بہار آتے رہتے ہیں۔ بہار میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا جواب انہیں دینا چاہیے۔ اس کے لیے نہ صرف نتیش کمار بلکہ پوری این ڈی اے ذمہ دار ہے۔ بہار میں اصلی ڈبل انجن جرائم اور بدعنوانی ہے۔’

سال 2020 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 70 سیٹوں پر مقابلہ کیا اور 19 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ آر جے ڈی 75 سیٹیں جیت کر ریاست کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ پارٹی نے 144 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔

سی پی آئی (ایم ایل) نے اپنی 19 میں سے 12 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ۔ جبکہ وی آئی پی نے اتحاد چھوڑدیا تھا، اس نے چار نشستیں حاصل کی تھیں۔