نریندر مودی کی سیاست میں وقف بل ایک نیا باب، لیکن یہ حکمت عملی کب تک چلے گی؟

نریندر مودی نے اپوزیشن کو ایک خطرناک جال میں الجھائے رکھنے اور انہیں بی جے پی کے خلاف متحدہ محاذ کے راستے سے دور رہنے کومجبور کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کب تک لوگوں کو حقیقی مسائل سے دور رکھنے میں کامیاب رہیں گے؟

نریندر مودی نے اپوزیشن کو ایک خطرناک جال میں الجھائے رکھنے اور انہیں بی جے پی کے خلاف متحدہ محاذ کے راستے سے دور رہنے کومجبور کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کب تک لوگوں کو حقیقی مسائل سے دور رکھنے میں کامیاب رہیں گے؟

پارلیامنٹ میں متنازعہ وقف ایکٹ کی منظوری کے سنگین سیاسی نتائج ہو سکتے ہیں۔ وقف ایکٹ یقینی طور پر ان کوششوں کے سلسلے میں تازہ ترین مثال ہے، جس کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر اپنا اثر و رسوخ ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت میں مودی کی طاقت کا مظاہرہ ہے جب وہ اپنے  سب سے کمزور دور اقتدار کے نظر آ سکتے تھے۔

جب سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران گراوٹ کا مشاہدہ کیا گیااور وہ اپنے اتحادیوں پر منحصر ہو گئے ، تب سے انہوں نے خود کو ناقابل تسخیر کے طور پر پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا ہے۔

بی جے پی اور نریندر مودی کو انڈیا الائنس سے دھچکا لگا، جب اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہو کر پارٹی کو مسلسل تیسرے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا۔ سب نے محسوس کیا کہ مودی کو عاجزی کا ذائقہ مل گیاہے، اس لیے ان کے لیے یہ ظاہر کرنا اور بھی اہم ہو گیا کہ نتیش کمار اور این چندر بابو نائیڈو جیسے اتحادیوں پر بڑھتے ہوئے انحصار کے باوجود وہ پوری طرح سے کنٹرول میں ہیں۔

وقف ترمیمی ایکٹ شاید مودی کے 11 سالہ دور حکومت میں پہلا بل تھا جس پر پارلیامنٹ میں بڑے پیمانے پر بحث ہوئی۔یہ پچھلے بلوں کی طرح  لوک سبھا میں بی جے پی کی عددی  طاقت  یعنی سفاکیت کی وجہ سے  بغیر کسی بحث کے منظور نہیں کیا گیا، جیسا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی، یا تین طلاق کو جرم قرار دینا، یا اس طرح کے بہت سے دوسرے قوانین کے  منظور ہونے کے دوران دیکھا گیا تھا۔

وقف بل بی جے پی کے طویل مدتی ہندوتوا پروجیکٹ کو فروغ دینے کے طور پر ابھرا۔ یہ بل مسلمانوں کے خلاف تھا، لیکن بی جے پی نے اسے مسلم کمیونٹی کے لیے ایک ترقی پسند قانون کے طور پر پیش کیا۔ ستم ظریفی دیکھیں، بی جے پی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اصلاحی قانون ہے، لیکن ایک بھی مسلم ایم پی اس کے حق میں نہیں تھا۔ بی جے پی کے واحد مسلم ایم پی غلام علی نے اس معاملے پر بات کی، لیکن بل کے دفاع میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس کے بجائے انہوں نے کانگریس پر حملہ کرنے کے لیے اس موقع کا انتخاب کیا۔

یہ قانون مودی کے لیے یہ ظاہر کرنے کا ایک موقع بھی تھا کہ پارلیامنٹ میں ان کی تعداد کم ہونے کے باوجود ان کے پاس بڑے فیصلے لینے کی سیاسی طاقت ہے۔ وہ اپنے سیکولر اتحادیوں جیسے جنتا دل (متحدہ)، تیلگو دیشم پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی اور یہاں تک کہ کسی حد تک بیجو جنتا دل جیسی غیر جانبدار پارٹیوں کو بھی اپنی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے آمادہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

وقف بل دراصل اپوزیشن کو یہ بتانے کا مودی کا طریقہ تھا کہ وہ پارلیامنٹ کے اندر اور باہر، دونوں ہی جگہ  سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ مودی کی طاقت کا مظاہرہ ایسے وقت میں ہوا جب ان کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔ ہندوستانی معیشت کمزور ہو رہی ہے اور ٹرمپ کے تباہ کن ٹیرف سے عالمی اقتصادی نظام پٹری سے اتر رہا ہے۔

غور کریں کہ مودی مردم شماری کرانے یا خواتین کے ریزرویشن بل کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دراوڑ پارٹیوں نے بی جے پی کے زعفرانی منصوبے کے خلاف اپنی مخالفت تیز کر دی ہے اور عدالتوں نے مرکزی حکومت کے آمرانہ اقدامات پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں تمل ناڈو کے گورنر پر تمل ناڈو حکومت کے بلوں کو ‘غیر قانونی طور پر’ روکنے پر اپنا فیصلہ سنایا ہے۔

دوسری طرف بی جے پی اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ کیا کسی کو مہاراشٹر میں بی جے پی کے لڑکی بہن یوجنا کے بھتے یاد ہیں؟ وزیراعظم نہیں چاہتے کہ لوگ ان مسائل پر بات کریں۔ اس لیے انہوں نے ہندوتوا کی جارحیت اور باہو بلی راشٹر واد کے پرانے مرکب کا سہارا لیا ہے۔

یہ نہ صرف گمراہ کرنے کی حکمت علی  ہے بلکہ ہندوستان کے ادارہ جاتی ڈھانچے پر ان کے کنٹرول کا اشارہ دینے کی مشق بھی ہے۔ اس کے بنیادی حصے میں ایک پیغام ہے جسے دنیا بھر کے تقریباً ہر آمرانہ رہنما نے استعمال کیا ہے؛ ٹی آئی این اے ، ٹینا یعنی  دیئر از نو الٹرنیٹ فیکٹر، کہ  کوئی متبادل نہیں ہے۔’

یقیناً انہیں منتشر مخالف قوتوں سے مدد ملی ہے۔ مودی کی مخالفت کے لیے بنایا گیا ‘انڈیا’ بلاک بکھر گیاہے اور اس کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں۔ جولائی 2024 کے بعد ‘انڈیا’ بلاک کے سرکردہ رہنماؤں کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ اپوزیشن خیمےمیں واحد استثنیٰ ڈی ایم کے ہو سکتا ہے، جس نے اپنی ریاست میں بی جے پی کو کنارے کر رکھا ہے۔ وقف بل پر بحث کے دوران مشترکہ احتجاج کرنے کے لیے ‘انڈیا’ بلاک طویل عرصے کے بعد اکٹھا ہوا، لیکن ان کے پاس کوئی طویل مدتی منصوبہ نہیں ہے۔ اس لیے نریندر مودی اپوزیشن کو ایک خطرناک جال میں الجھائے  رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کب تک لوگوں کو اصل مسائل سے دور رکھنے میں کامیاب ہوں گے؟ بدلتا ہوا عالمی نظام یقینی طور پر ان کے حق میں جاتانظرنہیں آ رہا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )