مرکزی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ایک تقریب میں کہا کہ میڈیا کو آزاد ہونا چاہیے، لیکن اگر میڈیا آزاد ہے تو اس کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر این جی اوآزاد ہیں تو ان کو اس طرح استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کا سارا نظام ٹھپ ہو جائے۔ اگر عدلیہ آزاد ہے تو قانونی نظام کا استعمال کرتے ہوئے ترقیاتی کاموں کو روکنے یا سست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
نئی دہلی: وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے سوموار کو کہا کہ’ اظہار رائے کی آزادی’ کے نام پر آزاد میڈیا، سوشل میڈیا، این جی او اور عدلیہ کا غلط استعمال خطرناک اور تفرقہ انگیز خیالات کو پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، گجرات کی راجدھانی گاندھی نگر میں راشٹریہ رکشا یونیورسٹی (آر آر یو) میں دوسرے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ یہ مشاہد ہ کرنابھی ایک چیلنج کی طرح ہے کہ ملک میں اچھے نظام کو تباہ کرنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزاد سوشل میڈیا کا استعمال منصوبہ بند پروپیگنڈے کے لیےکیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی آزادی خراب نہیں ہے، میڈیا کو آزاد ہونا چاہیے، لیکن اگر میڈیا آزاد ہے تو اس کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
سنگھ نے کہا کہ اگر غیر سرکاری تنظیمیں (این جی او) آزاد ہیں تو انہیں اس طرح استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کا پورا نظام ٹھپ ہو جائے۔ اگر عدلیہ آزاد ہے تو قانونی نظام کو استعمال کرتے ہوئے ترقیاتی کاموں کو روکنے یا سست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملک میں متحرک جمہوریت ہے تو اس کے اتحاد اور سلامتی کو نشانہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ یہ سب محض خیال نہیں ہیں بلکہ پالیسی سازوں کے بیان ہیں اور بعض ممالک کی سیکورٹی دستاویزات میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
سنگھ نے اپنے خطاب میں کہا، کہیں سوشل میڈیا آزاد ہے تو اس پر منظم پروپیگنڈہ کیسےکیا جائے؟ سوشل میڈیا کا آزاد ہونا کوئی بری بات نہیں – یہ آزاد ہونا چاہیے، میڈیا کو بھی آزاد ہونا چاہیے – لیکن میڈیا آزاد ہے، اس کا غلط استعمال کیسے ہوتا ہے؟ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر میڈیا کے اندر کیسے خطرناک اور تفرقہ انگیز باتوں کوپیش کرنے اور اس کو مشتہر کرنے کی کوشش کی جا تی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ،اگر این جی او کو آزادی ہے تو کیسے ان این جی اوکو اس طرح استعمال کیا جائے کہ ملک کا پورا سسٹم ہی مفلوج کر دیں ۔ اگر عدلیہ آزاد ہے تویہ کوشش ہوتی ہے کہ قانونی طریقے اور قانونی پیچوں کے ذریعے کیسے ترقیاتی کاموں کو روکا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بڑی ڈائنامک ڈیموکریسی ہے ہمارے ملک کی، تو کیسے سیاسی جماعتوں کے اندر گھس کر اس کے اتحاد اور سلامتی پر بغیرنظر آئے حملہ کیا جا ئے۔’
انہوں نے کچھ خبروں کی مثال دی، جن میں کہا گیا تھاکہ بھیما-کورےگاؤں (2018 میں مہاراشٹر کے پونے ضلع میں) تشدد معاملے میں 50 فیصد ٹوئٹ پاکستان سے کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا، ہائبرڈ جنگ اندرونی اور بیرونی سلامتی کے درمیان کی لائن کو تقریباً مٹا دیتی ہے۔ یہ جنگ کے واضح اعلان کا دور نہیں بلکہ مسلسل جنگ کا دور ہے۔چاہے وہ بینکنگ، ٹرانسپورٹ یا سکیورٹی سسٹم پر سائبر حملے ہوں یا سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے میں نفرت اور انتہا پسندانہ خیالات پیدا کرنے کی کوششیں ہوں۔ بھیما کورےگاؤں تحریک جو پورے ملک میں پھیل گئی۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ 50 فیصد ٹوئٹ پاکستان سے کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا، ہم عام طور پر سیکورٹی کو دو پہلوؤں سے دیکھتے ہیں – اندرونی اور بیرونی۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں دیکھا گیا ہے کہ اندرونی اور بیرونی سلامتی کے درمیان کی خلیج کم ہوتی جا رہی ہے۔ مخلوط (ہائبرڈ) جنگ میں اندرونی اور بیرونی سلامتی کے درمیان کی لکیر تقریباً معدوم ہو جاتی ہے۔
سنگھ نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کب دہشت گردی اور انتہا پسندی/شدت پسندی کی تعریفیں ایک دوسرے سے جڑنے لگیں اور ان کے مقاصد ایک ہو جائیں۔
وزیر دفاع نے کہا، سسٹم کے ہر مرحلے میں دہشت گردی بڑے چیلنجز کے ساتھ سامنے آئی ہے اور یہ صرف بموں اور ہتھیاروں کی سطح پر نہیں ہے۔ میں یہاں ہائبرڈ جنگ پر بات کرنا چاہوں گا۔ کسی ہائبرڈ جنگ میں، اندرونی اور بیرونی سلامتی کے درمیان کی لکیر تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘انفارمیشن وار’ فیس بک اور وہاٹس ایپ کے ذریعے معاشرے میں فرضی خبریں اور نفرت انگیز مواد پھیلانے کے خدشات سے متعلق ہیں۔
انہوں نے ریاستی اداروں کو مربوط انداز میں کام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا، کیونکہ دہشت گردی، سائبر جنگ، انسانی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، منشیات کی اسمگلنگ وغیرہ جیسے سیکورٹی چیلنجز ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں حالانکہ یہ الگ الگ نظر آتے ہیں۔
سنگھ نے کہا کہ بدلتے وقت کے ساتھ سیکورٹی سے متعلق پہلوؤں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئی ہے۔
سنگھ نے کہا، ‘ہمیں نئے سیکورٹی چیلنجز کے بارے میں چوکنا رہنا ہوگا۔ جیسے جیسے نئی ٹکنالوجی تیار ہوتی ہیں، ویسے ویسے ان کے خطرات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹاکو روس کے ذریعے دہشت گرد تنظیم بتاتے ہوئے پابندی لگانے کی مثال یہ بتاتی ہے کہ جنگ کا مفہوم کس طرح بدل گیا ہے۔
وزیر دفاع نے ‘ بقائے باہمی’ کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ ہندوستان نے نہ تو کسی کو ضم کیا ہے اور نہ ہی کسی کو محکوم بنایا ہے، بلکہ دوسرے ممالک کو ترقی کی ترغیب دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان چاہے ایک ترقی یافتہ اور اعلیٰ علم رکھنے والا ملک بن جائے لیکن جب تک ہم غلامانہ ذہنیت سے نہیں نکلیں گے اس وقت تک اسے محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں غلامانہ ذہنیت سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی سکیورٹی ہسٹری کے حقائق کو جاننا ہوگا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)