منی پور ٹیپ کی پڑتال کے دوسرے حصے میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ یہ کہتے ہیں کہ انہیں نسلی تشدد کے دوران جنسی زیادتی کانشانہ بننے والی دو کُکی-زو خواتین کے وائرل ویڈیو کے حوالے سے دفاع میں نہیں آنا چاہیے تھا اور میتیئی لوگوں کو انہیں بچانےاور کپڑے دے کر گھر بھیجنے کا کریڈٹ لینا چاہیے تھا۔
کھلی آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کو مسترد کرنا اور متاثرین کے بیان کی سچائی پر شک کرنا کہ ان کے ساتھ ریپ ہوا ہے،کیا ایسے گھناؤنے جرم کوانجام دینے والے افراد کو کلین چٹ دینے بلکہ دراصل ان کی پیٹھ تھپتھپانے جیسا نہیں ہے؟ اس آڈیو سے ہم متکلم (جو مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ کی آواز ہے) کے اس نظریے سے دوچار ہوتے ہیں کہ میتیئی سول سوسائٹی گروپ کو برادری کے لوگوں کی مذمت کرنے کے بجائے عوامی طور پر رعب داب کے ساتھ یہ کہنا چاہیے تھا کہ ‘ہم نے (میتیئی کے لوگوں) ان کی حفاظت کی،’انہیں پہننے کے لیے کپڑے دیے’ اور ‘ انہیں گھر بھیجا۔’ یہاں آڈیو کلپ کے متعلقہ حصوں کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے؛
‘ہوئی! دیکھو، فوٹو، فوٹو ہوتے ہیں۔ہاتھوں کویہاں وہاں رکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ شرطیہ طور پر حقیقت نہیں ہے۔‘
’…پھر دو خواتین کو برہنہ پریڈ کروانے کا معاملہ لیں… ہمیں کتنی بری طرح شرمندہ کیا گیا! ایک بھی گروپ کیوں نہیں سامنے آیا اور اپنی بات مضبوطی سے کیوں نہیں رکھی؟اس وقت میرے لیے بولنا تھوڑا مشکل تھا… پھر بھی میں نے اب بولنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن کوئی بھی گروپ سامنے کیوں نہیں آیا اور ہمت سے اس نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم ہی تھے جنہوں نے ان کی جان بچائی؟ انہیں یہ بات فخر اور حوصلے سے کہنی چاہیے تھی کہ ہم نے ہی ان کی جان بچائی۔‘ ہوئی! ہم پوچھ سکتے تھے کہ ثبوت کہاں ہے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ ریپ کیا گیا؟ ان کے بھائی اور چچا کو ایک لاکھ کے ہجوم کے ذریعے مارا گیا… 10-20 ہزار لوگوں کے ذریعے… ہم کہہ سکتے تھےکہ ہم میتیئی لوگوں نےہی انہیں اس ہجوم سے بچایا۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے تھا۔… ہمیں انہیں بچانے، انہیں پہننے کے لیے کپڑے دینے اور انہیں گھر واپس بھیجنے کا کریڈٹ لینا چاہیے تھا ۔ جب دنیا بھر کے میتیئی کو اس واقعے کا نام لے کر شرمندہ کیا گیا تو میں نے ان سے کہا کہ پریس کے ذریعے اس بارے میں کچھ کیا جانا چاہیے، بچوں کے بارے میں…(یہ دو میتیئی نوجوانوں کے قتل کا حوالہ لگتا ہے، جو جولائی میں لاپتہ ہو ئے۔ ستمبر میں ان کی لاشوں کی ایک تصویر سامنے آئی تھی اور کافی وائرل ہوئی۔)‘ ‘ ہوئی! دیکھو، فوٹو، ٖفوٹو ہوتے ہیں۔ ہاتھوں کو یہاں وہاں رکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ شرطیہ طور پر حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں ہجوم سے بچایا۔ ہم نے انہیں بچایا اورانہیں گھر بھیجا۔ ہم نے اس کا کریڈٹ نہیں لیا، ہم نے اسے جانے دیا۔ اوہ! ہم کتنے بے وقوف ہیں، میں نے سوچا… ابھی بھی، میں نے ان لوگوں سے کہا، ان لوگوں کو جو انہیں این آئی اے کے حوالے کر رہے ہیں، کہ جنہیں گرفتار کیا گیا، انہیں واقعی انعام ملنا چاہیے تھا۔ انہیں ان دو خواتین کو بچانے کے لیے انعام دیا جانا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: منی پور آڈیو ٹیپ: کیا امت شاہ کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سی ایم نے ریاست میں بموں کے استعمال کا حکم دیا؟
کچھ میراپائیبیزرہنما ؤں نےبھی بعد میں مقامی نیوز چینلوں میں انہی خطوط پر بولنا شروع کیا۔ ریکارڈنگ میں آ رہی آواز – جس کے بارے میں میٹنگ میں موجود لوگوں نےبیرین سنگھ کی آواز ہونے کا دعویٰ کیا ہے – کویہ کہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ‘کسی چیز’ کے لیے ایک حکمت عملی بنائی ہے، جسے پریس کے توسط سے بچوں کو لے کر کیا جانا ہے، تاکہ ‘دنیا بھر میں میتیئی’ کو شرمندہ کیے جانے کا جواب دیا جا سکے۔ یہاں اشارہ غالباً؛ 6 جولائی 2023 کو بشنو پور ضلع سے دو میتیئی نوجوانوں کے غائب ہونے کی طرف لگتا ہے۔ ستمبر کے تیسرے ہفتے میں لاپتہ نوجوانوں کی دو تصویریں سامنے آئیں اور میڈیا نے اس بات کونشان زد کیا کہ یہ موبائل انٹرنیٹ سروس کی عارضی بحالی کے بعد ہوا ہے۔ ایک تصویر میں انہیں جنگل کے علاقے میں مسلح افراد کی تحویل میں بیٹھے دکھایا گیا تھا اور دوسری تصویر میں ان کی لاشیں دکھائی گئی تھیں، جنہیں مبینہ طور پر کُکی دہشت گردوں نے گولی مار دی تھی۔ سوشل میڈیا پر تصویرسامنے آنے کے بعد لاپتہ نوجوانوں میں سے ایک کے والد نے ریاستی حکومت سے ان کی لاشوں کا سراغ لگانے کا مطالبہ کیا۔ ستمبر 2023 میں چیف منسٹر کے دفتر نے کہا کہ یہ کیس سی بی آئی کو سونپ دیا گیا ہے۔ بتادیں کہ آج تک ان دونوں نوجوانوں کی لاشیں برآمد نہیں کی جاسکی ہیں۔ وائرل ویڈیونے ڈبل انجن حکومت کو دفاعی موڈمیں آنے پر مجبور کر دیا جنسی زیادتی کا ویڈیو کلپ وائرل ہونے تک حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پارلیامنٹ میں منی پور میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر بحث کرنے کے نے اپوزیشن کے مطالبے سے گریز کرتی رہی۔ حتیٰ کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد بھی،بیرین سنگھ کے استعفیٰ کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ وزیر اعلی مرکز کے ساتھ ‘تعاون‘ کر رہے ہیں۔ شاہ نے کانگریس پر منی پور کے حوالے سے ’سیاست کرنے‘ کا الزام لگایا تھا۔ تاہم، جنسی ہراسانی کے اس ویڈیو کلپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو منی پور پر اپنی خاموشی توڑنے کو مجبور کردیا ۔ مانسون اجلاس کے پہلے دن پارلیامنٹ ہاؤس کے سامنے ایک مختصر بیان میں مودی نے دو کُکی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی مذمت کی، لیکن دو اور ریاستوں، اس وقت کی کانگریس کی حکومت والی راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی خواتین کے تحفظ کی ضرورت کا ذکر کیے بغیروہ نہیں رہے۔ ایک ریاست میں ان کی پارٹی نے جو کچھ کیا ہے اس کی ہولناکی کو کم کرنے کی کوشش میں مودی نے کہا ،’میں تمام وزرائے اعلیٰ سے اپیل کرتا ہوں – خواہ وہ راجستھان، چھتیس گڑھ یا منی پور کے ہوں – اپنی ریاستوں میں خواتین کے لیےقانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کریں۔ اس ملک کے کسی بھی کونے میں، کسی بھی پارٹی کی حکومت میں امن و امان اور خواتین کا احترام اور ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔‘ غور طلب ہے کہ 21 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ نے ویڈیو کلپ کو ‘انتہائی پریشان کن‘ قرار دیا اور اس کا از خود نوٹس لیا۔ تب سے سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت جاری ہے۔ اس کے بعد 29 جولائی 2023 کو مرکزی وزارت داخلہ نے یہ کیس سی بی آئی کو سونپ دیا ۔ پارلیامنٹ میں امت شاہ کے اس دعوے کے برعکس کہ سنگھ مرکزی حکومت کے ساتھ ‘تعاون’ کر رہے ہیں، سی بی آئی کی طرف سے 30 اپریل 2024 کو گوہاٹی کی ایک خصوصی عدالت میں اس معاملے میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرین سنگھ حکومت نے اس وقت تک ملزمین کے خلاف دفعہ 153اے (نسل کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ چارج شیٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ جولائی 2023 میں منی پور پولیس نے چھ لوگوں کو حراست میں لیا جو ہجوم کا حصہ تھے۔ – اس خبر کے دنیا بھر میں سرخیاں بننے کے فوراً بعد حراست میں لیے گئے، اور تب حراست میں لیے گئے جب وزیر اعلیٰ پر اس معاملے میں کارروائی کرنے کا بھاری دباؤ تھا – سی بی آئی نے کوئی اور گرفتاری نہیں کی۔ انتخابی موڑ اہم بات یہ ہے کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے دوران، وزیر اعلیٰ کو جنسی ہراسانی کے اس معاملے کو ایک نیا موڑ دیتے ہوئے دیکھا گیا، جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ویڈیو کلپ کو وائرل کرنے میں اپوزیشن کانگریس کا ہاتھ ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ وزیر اعظم مودی کی توہین کے لیے کیا گیا تھا۔ بیرین سنگھ نے یہ دعویٰ 7 اپریل کو امپھال میں یوتھ کانفرنس میں کیا تھا ۔ کانگریس پر کُکی لوگوں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگاتے ہوئے سنگھ نے امید ظاہر کی کہ بی جے پی انتخابات میں کم از کم میتیئی کی اکثریت والی اندرونی منی پور سیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھے گی۔ انہوں نے کہا، ‘اس معاملے کو قابو میں لانے کے لیے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے خود منی پور کا دورہ کیا اور یہاں قیام کیا۔ لیکن پارلیامنٹ کا اجلاس شروع ہونے سے عین قبل اس ویڈیو کو وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے نامکمل تشریح کے ساتھ نشر کیا گیا۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تشدد بھڑکانے کی غرض سے کسی بھی چھوٹے موٹے مسئلے کو طول دیا گیا۔ تاہم، کانگریس نے اندرون منی پور سیٹ جیت لی۔ سی بی آئی کی چارج شیٹ میں پولیس کی بے عملی کا ذکر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنگھ اور شاہ دونوں اب تک دو متاثرہ خواتین کو بھیڑ کی بھینٹ چڑھائے جانے میں، جس کے نتیجے میں ان کا جنسی استحصال ہوا تھا، ریاست کے کچھ پولیس اہلکاروں کے کردار پر خاموش رہے ہیں۔ چیف منسٹر کی جانب سےویڈیو کلپ کو پھیلانے میں ‘کانگریس کی ملی بھگت’ کا دعویٰ کرنے کے چند دن بعد، سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں درج کیا کہ منی پور کے پولیس اہلکاروں نے کُکی خواتین – جن میں سے ایک کارگل جنگ میں شامل رہے سابق فوجی کی بیوی تھی—کی حفاظت کرنے کے بجائے انہیں ‘900-1000 لوگوں’ کے درمیان لے جانے کا کام کیا اور انہیں وہیں چھوڑ دیا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ایسا اس وقت کیا جب پولیس وین کے ڈرائیور نے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس کے پاس کار کی چابیاں نہیں ہیں، شروع میں ان کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ میں کیس کی صورتحال یہ معاملہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ منی پور میں نسلی تشدد کے متاثرین سے متعلق کئی دیگر معاملوں کی پیروی کر رہے کولن گونسالویس دی وائر کو بتایا، ’ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نے سپریم کورٹ میں چار رپورٹ جمع کرائی تھیں، لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی متاثرین کے وکلاء کو ان کی کاپی مہیا نہیں کرائی گئی ہے۔ مزید برآں، عدالت نے ریاستی حکومت کو جلائے گئے 4500 مکانات اور 3500 گرجا گھروں کی تعمیر کرنے اوران کا قبضہ متاثرین کو دینے کے لیے کہا تھا۔ لیکن آج تک کام شروع نہیں ہوا ہے۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا، ‘جب سپریم کورٹ نے منی پور تشدد کا از خود نوٹس لیا تھا تو ہمیں بہت امیدیں تھیں، لیکن اب کوئی امید باقی نہیں رہی’۔ گونسالویس نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ چھ ماہ سے منی پور کیس پر کوئی سماعت نہیں کی ہے۔ وزیر اعلیٰ سے سوال نئے انکشافات کے بعد دی وائر نے وزیر اعلیٰ کو درج ذیل سوالات بھیجے ہیں؛ کیا آپ کو ہجوم کے ذریعے برہنہ کرکے گھمائی گئی دو کُکی خواتین کی طرف سے لگائے گئے ریپ کے الزامات پر شک ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مردوں کے ایک گروہ کے ذریعے کسی عورت کو سرعام برہنہ کرکے گھمایا جانا اور سے اس کے جسم کو چھوا جاناریپ/ گینگ ریپ یا جنسی ہراسانی کے مترادف نہیں ہے؟ کیا آپ کے خیال میں ہجوم کے ذریعے خواتین کو برہنہ کر کے عوامی طور پرپریڈ کرانے میں کوئسی جنسی ارادے کا دخل نہیں ہو سکتا؟ کیا آپ نے کسی میتیئی سول سوسائٹی کے گروپ سے ‘قومی تحقیقاتی ایجنسی’ سے کہنے کے لیے کہا ہے کہ جن لوگوں کو جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے انہیں اصل میں انعام دیا جانا چاہیے؟ کیا آپ نےمیتیئی کے کسی سول سوسائٹی گروپ سے ‘فخر کے ساتھ’ یہ کہنے کو کہا کہ یہ ‘میتیئی’ لوگ (ہجوم میں شامل) تھے جنہوں نے ان خواتین کو بچایا، انہیں کپڑے پہنائے اور انہیں گھر بھیجا، جبکہ ان کے چچا اور بھائی کو بھی اسی ہجوم نے نہیں بخشا؟ کیا آپ نے کسی پریس کے توسط سے نسلی تنازعہ کے دوران مبینہ طور پر کُکی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے دو میتیئی بچوں کے ہولناک معاملے کی تشہیر کرنے کے لیےکہا، تاکہ دو کُکی خاتون کے وائرل ویڈیو کلپ دنیا بھر میں میتیئی کمیونٹی کی ہو رہی شرمندگی کا جواب دیا جا سکے؟ جواب موصول ہونے پر رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔