منی پور ٹیپ: کیا جنسی زیادتی کانشانہ بننے والی کُکی خواتین کے معاملے میں سی ایم نے ریپ کے ثبوت مانگے تھے؟

08:48 AM Aug 27, 2024 | سنگیتا بروآ پیشاروتی

منی پور ٹیپ کی پڑتال کے دوسرے حصے میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ یہ کہتے ہیں کہ انہیں نسلی تشدد کے دوران جنسی زیادتی کانشانہ بننے والی دو کُکی-زو خواتین کے وائرل ویڈیو کے حوالے سے دفاع میں نہیں آنا چاہیے تھا اور میتیئی لوگوں کو انہیں بچانےاور کپڑے دے کر گھر بھیجنے کا کریڈٹ لینا چاہیے تھا۔

منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ اور پس منظر میں وائرل ویڈیو کا ایک دھندلا اسکرین شاٹ جس میں کُکی خواتین کو برہنہ پریڈکرایا جا رہا ہے۔ (بیرین کی تصویر: آفیشل ایکس اکاؤنٹ)

نئی دہلی: ایک بیٹھک، جس کے بارے میں باوثوق  ذرائع کا کہنا ہے کہ  اسے گزشتہ سال امپھال میں این بیرین سنگھ کی  رہائش گاہ پر ان کے ذریعے ایڈریس کیا گیا تھا، کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ میں سنائی دے رہی  آواز منی پور کے وزیر اعلیٰ کی ہے۔

یہ آواز مئی 2023  میں کانگ پوکپی گاؤں میں ایک ہجوم کے ذریعے برہنہ کرکے گھمائی گئیں کُکی-زو کمیونٹی کی دو خواتین کی طرف سے دائر کی گئی جنسی ہراسانی اور ان کے ساتھ ریپ  کی شکایت پر شکوک  و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سنی جا سکتی ہے۔

پچھلے سال جولائی میں اس حوالے سے دو خواتین کا ویڈیوسامنے آنے کے بعداس مذموم فعل نے پورے ملک میں غم و غصہ پیدا کر دیا تھا۔میتیئی کے کئی سول سوسائٹی گروپ نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی ، جن  میں خواتین کی طاقتورتنظیم میرا پائیبیز بھی شامل ہے۔ اس تنظیم کے ارکان نے اس مذموم فعل کے کلیدی ملزم اور اس ویڈیو میں نظر آنے والے لوگوں  کے گھروں پر بھی حملہ کیا ۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔

لیکن، آڈیو ریکارڈنگ میں، وزیر اعلیٰ کی مبینہ  آواز کو دو خواتین کے خلاف کیے گئے اس جرم کو ہلکے پھلکے انداز میں لیتے  ہوئے اور میتیئی سول سوسائٹی  گروپوں کی لعنت ملامت کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ ان کے لیے سامنے نہیں آئے  اور انہوں نے رعب داب اورفخر کہ ساتھ یہ نہیں کہا کہ یہ ہم میتیئی ہی تھے جنہوں نے ان دو خواتین کو مشتعل ہجوم سے بچایا۔‘ اس ریکارڈنگ میں متکلم کہتا ہے، ‘ہمیں کتنی بری طرح سے شرمندہ کیا گیا!… ہمیں انہیں بچانے، انہیں کپڑے پہنانے اور انہیں ان کے گھر بھیجنے کا کریڈٹ لینا چاہیے تھا۔’

دی وائر اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ 48 منٹ کی ریکارڈنگ اس وقت منی پور کے نسلی  تشدد کی تحقیقات کر رہے کمیشن کے پاس جمع کرائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، وزیر اعلی کی سرکاری رہائش گاہ پر اس کو ریکارڈ کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی جانب سے اس کی صداقت کی تصدیق کرنے والا ایک حلف نامہ بھی دیا گیا ہے۔

اگرچہ، دی وائر آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کرسکا کہ اس ریکارڈنگ میں موجود آواز واقعی بیرین سنگھ کی ہے، لیکن ہم نے اس میٹنگ میں موجود کچھ لوگوں سے آزادانہ طور پراس میٹنگ کی تاریخ، موضوع اور مواد کی تصدیق کی ہے۔ اپنی جان کو خطرے کاحوالہ دیتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہے۔

اس میٹنگ میں موجود ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں کا یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ ریکارڈنگ میں سنائی دے رہی آواز حقیقت میں بیرین سنگھ کی ہے اور انہوں نے واقعی ان کی موجودگی میں یہ باتیں کہی تھیں۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے دی وائر سےاس بات کی تصدیق کی کہ پورا آڈیو کلپ ریٹائرڈ جسٹس اجئے لامبا کی سربراہی والی انکوائری کمیٹی کے سامنے جمع کر دیا گیا ہے۔ لامبا گوہاٹی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں۔

غورطلب ہے کہ اس کمیشن کی تشکیل وزارت داخلہ نے 4 جون 2023 کو کی تھی۔

منی پور حکومت کا کہنا ہے کہ مبینہ آڈیو ‘جعلی ہے اور ریکارڈنگ کو غلط طریقے سے وزیر اعلیٰ سے منسوب کیا جا رہا ہے’۔

چونکہ اس ریکارڈنگ کا مواد—منی پور اور بقیہ ہندوستان کے لوگوں کے لیے– اہم عوامی مفاد میں ہے اس لیے دی وائر اس کے اہم اقتباسات کو عام کر رہا ہے۔

ریکارڈنگ میں بیرین سنگھ کی  بتائی جا رہی آواز کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اس جرم میں ملوث کچھ ملزمین کی شناخت کرنے والے میتیئی گروپوں کو این آئی اے (قومی تحقیقاتی ایجنسی) سے اس ہجوم میں شامل ان لوگوں کو انعام دینے کے لیے کہنا چاہیے تھا،جنہوں نے ان خواتین کو ‘بچانے’ اور ‘انہیں کپڑے پہنانے’ اور انہیں ان کے گھربھیجنے کا کام کیا، جبکہ اسی ہجوم نے ان خواتین کے بھائیوں اور چچا کو بھی نہیں بخشا تھا۔

وہ وائرل ویڈیو جس نے سب کو ہلا  دیا

قابل ذکر ہے کہ 19 جولائی 2023 کو یعنی منی پور میں میتیئی اور کُکی زو برادریوں کےنسلی تنازعہ کے آغاز کے تقریباً ڈھائی ماہ بعدہی  ایک 30 سیکنڈ کا ویڈیو سامنےآیا،  جس میں کُکی-زو برادری کی دو خواتین کو برہنہ پریڈکرایا جا رہا تھا اور میتیئی کمیونٹی کے لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ ان کے جسم کوچھو رہی ہے۔ کانگ پوکپی ضلع کا یہ ویڈیو 4 مئی کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔

میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں دونوں متاثرین نے بتایا تھا کہ ہجوم نے  ان کے ساتھ جنسی ہراسانی کی  اوران کے ساتھ ریپ کیاگیا۔

اس ویڈیو کے سامنے آنے کے ساتھ ہی انگلیاں وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کی جانب  اٹھیں، کیونکہ وہ ریاست کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ اپوزیشن نے ریاست میں امن و امان برقرار رکھنے اور خواتین کے تحفظ میں ناکامی پر ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ۔ دی انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم، جو اس نسلی تنازعہ کے دوران کُکی لوگوں کی آواز اٹھانے والی اہم تنظیم رہی ہے، نے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ۔

ریکارڈنگ میں کیا کہا گیا ہے؟

میتیئی زبان کا یہ آڈیو کلپ، جس کے بارے میں ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ہولناک واقعے  کا ویڈیو وائرل ہونے کے چند ماہ بعد ہی وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر ریکارڈ کیا گیا تھا، اور جس میں آ رہی آواز وزیر اعلیٰ کی بتائی جا رہی ہے، میں  ان خواتین کو برہنہ پریڈکرائے جانے کے دوران بھیڑکے ان خواتین کے جسم کو چھونے کے معاملے کو کوئی خاص توجہ نہ دینے کی ایک کوشش نظر آتی ہے۔


‘ہوئی! دیکھو، فوٹو، فوٹو ہوتے ہیں۔ہاتھوں کویہاں وہاں رکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ شرطیہ طور پر حقیقت نہیں ہے۔‘


کھلی آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کو مسترد کرنا اور متاثرین کے بیان کی سچائی پر شک کرنا کہ ان کے ساتھ ریپ ہوا ہے،کیا ایسے گھناؤنے جرم کوانجام دینے والے افراد کو کلین چٹ دینے بلکہ دراصل  ان کی پیٹھ تھپتھپانے جیسا نہیں ہے؟

اس  آڈیو سے ہم متکلم  (جو مبینہ  طور پر وزیر اعلیٰ کی آواز ہے) کے اس نظریے سے دوچار ہوتے ہیں کہ میتیئی سول سوسائٹی گروپ کو برادری کے لوگوں کی مذمت کرنے کے بجائے عوامی طور پر رعب داب کے ساتھ یہ کہنا چاہیے تھا کہ ‘ہم نے (میتیئی کے لوگوں) ان کی حفاظت کی،’انہیں پہننے کے لیے کپڑے دیے’ اور ‘ انہیں گھر بھیجا۔’

یہاں آڈیو کلپ کے متعلقہ حصوں کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے؛


’…پھر دو خواتین کو برہنہ پریڈ کروانے کا معاملہ لیں… ہمیں کتنی بری طرح شرمندہ کیا گیا! ایک بھی گروپ کیوں نہیں سامنے آیا اور اپنی بات مضبوطی سے کیوں نہیں رکھی؟اس وقت  میرے لیے بولنا تھوڑا مشکل تھا… پھر بھی میں نے اب بولنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن کوئی بھی گروپ سامنے کیوں نہیں آیا اور ہمت سے اس نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم ہی  تھے  جنہوں نے ان کی جان بچائی؟ انہیں یہ بات  فخر اور حوصلے سے کہنی چاہیے تھی کہ ہم نے ہی ان  کی جان بچائی۔‘

ہوئی! ہم پوچھ سکتے تھے کہ ثبوت کہاں ہے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ ریپ کیا گیا؟ ان کے بھائی اور چچا کو ایک لاکھ کے ہجوم  کے ذریعے مارا گیا… 10-20 ہزار لوگوں کے ذریعے… ہم کہہ سکتے تھےکہ ہم میتیئی لوگوں نےہی  انہیں اس ہجوم سے بچایا۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے تھا۔… ہمیں انہیں  بچانے، انہیں پہننے کے لیے کپڑے دینے اور انہیں گھر واپس بھیجنے کا کریڈٹ لینا چاہیے تھا ۔

جب دنیا بھر کے میتیئی کو اس واقعے کا نام لے کر شرمندہ کیا گیا تو میں نے ان سے کہا کہ پریس کے ذریعے اس بارے میں کچھ کیا جانا چاہیے، بچوں کے بارے میں…(یہ دو میتیئی نوجوانوں کے قتل کا حوالہ لگتا ہے، جو جولائی میں لاپتہ ہو ئے۔ ستمبر میں ان کی لاشوں کی ایک تصویر سامنے آئی تھی اور کافی وائرل ہوئی۔)‘

‘ ہوئی! دیکھو، فوٹو، ٖفوٹو ہوتے ہیں۔ ہاتھوں کو یہاں وہاں رکھا ہوا  دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ شرطیہ طور پر حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں ہجوم سے بچایا۔ ہم نے انہیں بچایا اورانہیں  گھر بھیجا۔ ہم نے اس کا کریڈٹ نہیں لیا، ہم نے اسے جانے دیا۔

اوہ! ہم کتنے بے وقوف ہیں، میں نے سوچا… ابھی بھی، میں نے ان لوگوں سے کہا، ان  لوگوں کو جو انہیں این آئی اے کے حوالے کر رہے ہیں، کہ جنہیں گرفتار کیا گیا، انہیں واقعی انعام ملنا چاہیے تھا۔ انہیں ان دو خواتین کو بچانے کے لیے انعام دیا جانا چاہیے تھا۔


آڈیو کلپ میں کہی گئی باتیں وزیراعلیٰ کے بیانات اور اقدامات سے میل کھاتی ہیں

جہاں تک ریکارڈ کا تعلق ہے، آڈیو ٹیپ میں ہمارے ذرائع کے مطابق بیرین سنگھ  کی جانب سےکہے گئے الفاظ اس معاملے سے متعلق وزیر اعلیٰ کے عوامی بیانات اور ان کے اقدامات سے میل کھاتے  ہیں۔ مثال کے طور پر، وزیر اعلیٰ نے عوامی طور پر یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ میتیئی برادری کو کُکی خواتین کو ہجوم سے بچانے کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ کم از کم ایک ویب سائٹ نے ان کے اس موقف کو اٹھاتے ہوئے دعوی کیا کہ کُکی (عیسائی) خواتین کو میتیئی (ہندو) مردوں نے بچایا۔’


یہ بھی پڑھیں: منی پور آڈیو ٹیپ: کیا امت شاہ کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سی ایم نے ریاست میں بموں کے استعمال کا حکم دیا؟


کچھ میراپائیبیزرہنما ؤں  نےبھی بعد میں مقامی نیوز چینلوں  میں انہی خطوط پر بولنا شروع کیا۔

ریکارڈنگ میں آ رہی  آواز – جس کے بارے میں  میٹنگ میں موجود لوگوں نےبیرین سنگھ کی آواز ہونے کا دعویٰ کیا ہے – کویہ کہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ‘کسی چیز’ کے لیے ایک حکمت عملی بنائی ہے، جسے پریس کے توسط سے بچوں کو لے کر کیا جانا ہے، تاکہ ‘دنیا بھر میں میتیئی’ کو شرمندہ کیے جانے  کا جواب دیا جا سکے۔

یہاں اشارہ  غالباً؛  6 جولائی 2023 کو بشنو پور ضلع سے دو میتیئی نوجوانوں کے غائب  ہونے کی طرف لگتا ہے۔ ستمبر کے تیسرے ہفتے میں لاپتہ نوجوانوں کی دو تصویریں سامنے آئیں  اور میڈیا نے اس بات کونشان زد کیا کہ یہ موبائل انٹرنیٹ سروس کی عارضی بحالی کے بعد ہوا ہے۔ ایک تصویر میں انہیں جنگل کے علاقے میں مسلح افراد کی تحویل میں بیٹھے دکھایا گیا تھا اور دوسری تصویر میں ان کی لاشیں دکھائی گئی تھیں، جنہیں مبینہ طور پر کُکی دہشت گردوں نے گولی مار دی تھی۔

سوشل میڈیا پر تصویرسامنے آنے کے بعد لاپتہ نوجوانوں میں سے ایک کے والد نے ریاستی حکومت سے ان کی لاشوں کا سراغ لگانے کا مطالبہ کیا۔ ستمبر 2023 میں چیف منسٹر کے دفتر نے کہا کہ یہ کیس سی بی آئی کو سونپ دیا گیا ہے۔ بتادیں کہ آج تک ان دونوں نوجوانوں کی لاشیں برآمد نہیں کی جاسکی ہیں۔

وائرل ویڈیونے  ڈبل انجن حکومت کو دفاعی موڈمیں آنے  پر مجبور کر دیا

جنسی زیادتی  کا ویڈیو کلپ وائرل ہونے تک حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پارلیامنٹ میں منی پور میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر بحث کرنے کے نے اپوزیشن کے مطالبے سے گریز کرتی  رہی۔ حتیٰ کہ ویڈیو سامنے  آنے کے بعد بھی،بیرین سنگھ کے استعفیٰ کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ وزیر اعلی مرکز کے ساتھ ‘تعاون‘ کر رہے ہیں۔ شاہ نے کانگریس پر منی پور کے حوالے سے ’سیاست کرنے‘ کا الزام لگایا تھا۔

تاہم، جنسی ہراسانی کے اس ویڈیو کلپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو منی پور پر اپنی خاموشی توڑنے کو مجبور کردیا ۔ مانسون اجلاس کے پہلے دن پارلیامنٹ ہاؤس کے سامنے ایک مختصر بیان میں مودی نے دو کُکی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی مذمت کی، لیکن دو اور ریاستوں، اس وقت کی کانگریس کی حکومت والی راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی خواتین کے تحفظ کی ضرورت کا ذکر کیے بغیروہ  نہیں رہے۔

ایک ریاست میں ان کی پارٹی نے جو کچھ کیا ہے اس کی ہولناکی کو کم کرنے کی کوشش میں مودی نے کہا ،’میں تمام وزرائے اعلیٰ سے اپیل کرتا ہوں – خواہ وہ راجستھان، چھتیس گڑھ یا منی پور کے ہوں – اپنی ریاستوں میں خواتین کے لیےقانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کریں۔ اس ملک کے کسی بھی کونے میں، کسی بھی پارٹی کی حکومت میں امن و امان اور خواتین کا احترام اور ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔‘

غور طلب ہے کہ 21 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ نے ویڈیو کلپ کو ‘انتہائی پریشان کن‘ قرار دیا اور اس کا از خود نوٹس لیا۔ تب سے سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت جاری ہے۔

اس کے بعد 29 جولائی 2023 کو مرکزی وزارت داخلہ نے یہ کیس سی بی آئی کو سونپ دیا ۔

پارلیامنٹ میں امت شاہ کے اس دعوے کے برعکس کہ سنگھ مرکزی حکومت کے ساتھ ‘تعاون’ کر رہے ہیں، سی بی آئی کی طرف سے 30 اپریل 2024 کو گوہاٹی کی ایک خصوصی عدالت میں اس معاملے میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرین سنگھ حکومت نے اس وقت تک ملزمین کے خلاف دفعہ 153اے (نسل کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ چارج شیٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ جولائی 2023 میں منی پور پولیس نے چھ لوگوں کو حراست میں لیا جو ہجوم کا حصہ تھے۔ – اس خبر کے دنیا بھر میں سرخیاں بننے کے فوراً بعد حراست میں لیے  گئے، اور تب حراست میں لیے  گئے جب وزیر اعلیٰ پر اس معاملے میں کارروائی کرنے کا بھاری دباؤ تھا – سی بی آئی نے کوئی اور گرفتاری نہیں کی۔

انتخابی موڑ

اہم بات یہ ہے کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے دوران، وزیر اعلیٰ کو جنسی ہراسانی کے اس معاملے کو ایک نیا موڑ دیتے ہوئے دیکھا گیا، جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ویڈیو کلپ کو وائرل کرنے میں اپوزیشن کانگریس کا ہاتھ ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ وزیر اعظم مودی کی توہین کے لیے کیا گیا تھا۔

بیرین سنگھ نے یہ دعویٰ 7 اپریل کو امپھال میں یوتھ کانفرنس میں کیا تھا ۔ کانگریس پر کُکی لوگوں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگاتے ہوئے سنگھ نے امید ظاہر کی کہ بی جے پی انتخابات میں کم از کم میتیئی کی اکثریت والی اندرونی منی پور سیٹ پر اپنا قبضہ  برقرار رکھے گی۔

انہوں نے کہا، ‘اس معاملے کو قابو میں لانے کے لیے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے خود منی پور کا دورہ کیا اور یہاں قیام کیا۔ لیکن پارلیامنٹ کا اجلاس شروع ہونے سے عین قبل اس ویڈیو کو وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے نامکمل تشریح کے ساتھ نشر کیا گیا۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تشدد بھڑکانے کی غرض سے کسی بھی چھوٹے موٹے مسئلے کو طول دیا گیا۔

تاہم، کانگریس نے اندرون منی پور سیٹ جیت لی۔

سی بی آئی کی چارج شیٹ میں پولیس کی بے عملی کا ذکر

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنگھ اور شاہ دونوں اب تک دو متاثرہ خواتین کو بھیڑ کی بھینٹ چڑھائے جانے میں، جس کے نتیجے میں ان کا جنسی استحصال ہوا تھا، ریاست کے کچھ پولیس اہلکاروں کے کردار پر خاموش رہے ہیں۔

چیف منسٹر کی جانب سےویڈیو کلپ کو پھیلانے میں ‘کانگریس کی ملی بھگت’ کا دعویٰ کرنے کے چند دن بعد، سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں درج کیا کہ منی پور کے پولیس اہلکاروں نے کُکی خواتین – جن میں سے ایک کارگل جنگ میں شامل رہے سابق فوجی کی بیوی تھی—کی حفاظت کرنے کے بجائے انہیں ‘900-1000 لوگوں’ کے درمیان لے جانے کا کام کیا اور انہیں وہیں چھوڑ دیا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ایسا اس وقت کیا جب پولیس وین کے ڈرائیور نے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس کے پاس کار کی چابیاں نہیں ہیں، شروع میں ان کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔

سپریم کورٹ میں کیس کی صورتحال

یہ معاملہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

منی پور میں نسلی تشدد کے متاثرین سے متعلق کئی دیگر معاملوں کی پیروی کر رہے کولن گونسالویس دی وائر کو بتایا، ’ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نے سپریم کورٹ میں چار رپورٹ جمع کرائی تھیں، لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی متاثرین کے وکلاء کو ان کی کاپی مہیا نہیں کرائی گئی  ہے۔ مزید برآں، عدالت نے ریاستی حکومت کو جلائے گئے 4500 مکانات اور 3500 گرجا گھروں کی تعمیر کرنے اوران کا قبضہ متاثرین کو دینے کے لیے کہا تھا۔ لیکن آج تک کام شروع نہیں ہوا ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا، ‘جب سپریم کورٹ نے منی پور تشدد کا از خود نوٹس لیا تھا تو ہمیں بہت امیدیں تھیں، لیکن اب کوئی امید باقی نہیں رہی’۔

گونسالویس نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ چھ ماہ سے منی پور کیس پر کوئی سماعت نہیں کی ہے۔

وزیر اعلیٰ سے سوال

نئے انکشافات کے بعد دی وائر نے وزیر اعلیٰ کو درج ذیل سوالات بھیجے ہیں؛

کیا آپ کو ہجوم کے ذریعے برہنہ کرکے گھمائی گئی دو کُکی خواتین کی طرف سے لگائے گئے ریپ  کے الزامات پر شک ہے؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مردوں کے ایک گروہ کے ذریعے کسی عورت کو سرعام برہنہ کرکے گھمایا جانا اور سے اس کے جسم کو چھوا جاناریپ/ گینگ ریپ یا جنسی ہراسانی کے مترادف نہیں ہے؟

کیا آپ کے خیال میں ہجوم کے ذریعے خواتین کو برہنہ کر کے عوامی طور پرپریڈ کرانے میں کوئسی جنسی ارادے کا دخل  نہیں ہو سکتا؟

کیا آپ نے کسی میتیئی سول سوسائٹی کے گروپ سے ‘قومی تحقیقاتی ایجنسی’ سے کہنے کے لیے کہا ہے کہ جن لوگوں کو جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے انہیں اصل میں انعام دیا جانا چاہیے؟

کیا آپ نےمیتیئی کے کسی سول سوسائٹی گروپ سے ‘فخر کے ساتھ’ یہ کہنے کو کہا کہ یہ ‘میتیئی’ لوگ (ہجوم میں شامل) تھے جنہوں نے ان خواتین کو بچایا، انہیں کپڑے پہنائے اور انہیں گھر بھیجا، جبکہ ان کے چچا اور بھائی کو بھی اسی ہجوم نے نہیں بخشا؟

کیا آپ نے کسی پریس کے توسط سے نسلی تنازعہ کے دوران مبینہ طور پر کُکی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے دو میتیئی بچوں کے ہولناک معاملے کی تشہیر کرنے کے لیےکہا، تاکہ دو کُکی خاتون کے وائرل  ویڈیو کلپ دنیا بھر میں میتیئی کمیونٹی کی ہو رہی شرمندگی کا جواب دیا جا سکے؟

جواب موصول ہونے پر رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔