مہاراشٹر کے بدلاپور میں دو بچیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے معاملے میں ملزم سوئپر کو سوموار کو تھانے میں مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اہل خانہ نے پولیس کے دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس نے اس پر اقبالیہ بیان کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
نئی دہلی: مہاراشٹر کے بدلا پور میں دو لڑکیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے معاملے میں سوئپر ملزم کو سوموار (23 ستمبر) کو تھانے میں مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تھانے پولیس کے سینئر پولیس افسران نے الزام لگایا کہ ملزم اکشے شندے نے ایک پولیس اہلکار کی پستول چھین لی اور اسے لے جا رہی پولیس ٹیم پر گولی چلا دی۔ افسران نے بتایا کہ اسے پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گولی ماری گئی۔
پولیس کے مطابق، شندے نے تین راؤنڈ فائر نگ کی، جس میں پولیس اہلکار زخمی ہوگیا۔ یہ واقعہ تھانے ضلع کے ممبرا بائی پاس پر اس وقت پیش آیا جب پولیس اسے نوی ممبئی کی تلوجا جیل سے تھانے لے جا رہی تھی، جہاں اس کی دوسری بیوی نے 2022 میں اس کے خلاف غیر فطری جنسی تعلقات قائم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ایک الگ معاملہ درج کرایا تھا۔
نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اکشے شندے کے اہل خانہ نے پولیس کے اس دعوے کو چیلنج کیا ہے کہ اس نے پہلے ایک پولیس اہلکار پر گولی چلائی، جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔ شندے کے اہل خانہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس نے اس پر جنسی ہراسانی کے کیس میں اعتراف جرم کے لیے دباؤ ڈالا۔
وہیں، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی دیویندر فڈنویس نے سوموار کی رات کو کہا کہ شندے کی موت کی وجوہات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔
شندے کی ماں اور چچا نے سوموار کی رات کلوا اسپتال کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا، ‘یہ کہنا غلط ہے کہ اس نے پہلے ایک پولیس اہلکار کی بندوق چھین کر اس پر گولی چلائی اور بعد میں پولیس نے اپنے دفاع میں اس پر گولی چلائی۔’
انہوں نے دعویٰ کیا، ‘ پولیس نےدباؤ ڈال کر اس سے اقبالیہ بیان لکھوایا کہ اس نے جرم کیا ہے۔ انہوں نے اس سے کیا لکھوایا، یہ صرف وہی جانتا ہے۔‘
اکشے شندے کے والد انا شندے نے کہا کہ ان کے بیٹے کے قتل کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس کی ماں اور چچا نے الزام لگایا کہ یہ پولیس اور بدلاپور اسکول انتظامیہ کی سازش تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اکشے نے اپنے گھر والوں کو بتایا تھا کہ پولیس اسے حراست میں زدوکوب کر رہی ہے اور اس نے پیسے مانگتے ہوئے ایک چٹ بھی بھیجی ہے۔ اس کی ماں اور چچا نے پولیس کے بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ پولیس اہلکار کی بندوق نہیں چھین سکتا۔
اہل خانہ نے مزید الزام لگایا کہ ‘پولیس نے ہمارے بچے کومار ڈالا۔ اسکول انتظامیہ کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔‘
اکشے کی ماں نے پوچھا، ‘میرا بیٹا پٹاخے پھوڑنے اور سڑک پار کرنے سے ڈرتا تھا۔ وہ پولیس والوں پر کیسے گولی چلا سکتا ہے؟‘
اس کے اہل خانہ نے یہ بھی کہا کہ اسے اپنے خلاف کیس کی سماعت کے لیے عدالت لے جانا چاہیے تھا اور وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ پولیس نے اسے کیوں گولی ماری۔ انہوں نے کہا، ‘الزامات (اکشے کے خلاف مقدمات میں) ثابت نہیں ہوئے ہیں۔’
اکشے کی ماں نے بتایا کہ وہ ان سے پوچھتے رہے کہ اسے کب رہا کیا جائے گا۔
دریں اثنا، اپوزیشن پارٹی این سی پی (شرد پوار) کے کلوا ممبرا کے ایم ایل اے جتیندر اوہاد نے بھی پولیس کے بیان کو چیلنج کیا اور اسے بے بنیاد قرار دیا۔
اوہاد نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا، ‘جب پانچ اور پولیس اہلکار قریب ہی موجود ہوں تو ہتھکڑی والاملزم پولیس اہلکار کا ریوالور کیسے چھین کر اس پر گولی چلا سکتا ہے۔’
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکمراں جماعت آئندہ اسمبلی انتخابات میں اس واقعے کا پورا کریڈٹ لے گی۔ اوہاد نے مزید دعویٰ کیا، ‘یقینی طور پر انہوں نے منصوبہ بنا کر اسے مار ڈالا۔’
انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ کس کا اسکول ہے، جہاں جنسی استحصال کا واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے پوچھا، ‘وہ آپٹے کون ہے؟’
بتادیں کہ 12-13 اگست کو 23 سالہ سوئپر اکشے شندے نے بدلا پور کے ایک نامور اسکول میں پری پرائمری کلاسز میں پڑھنے والی دو چار سالہ بچیوں کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی تھی ۔ یہ واقعہ لڑکیوں کے ٹوائلٹ میں پیش آیا، جہاں مبینہ طور پر خواتین عملہ کی نگرانی نہیں تھی۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب لڑکیوں میں سے ایک نے درد کی شکایت کی اور اپنے والدین کو آپ بیتی سنائی۔ حیران والدین کو تب پتہ چلا کہ ایک اور لڑکی کے ساتھ بھی مبینہ طور پر دست درازی کی گئی ہے۔ 16 اگست کی رات شکایت درج کرائی گئی جس کے بعد مبینہ مجرم کو گرفتار کر لیا گیا۔
کیس کی تحقیقات میں مبینہ طور پر غفلت برتنے پر ایک سینئر پولیس انسپکٹر سمیت تین پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا۔
واقعہ کے عام ہونے کے بعد اگست میں بدلاپور میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مہاراشٹرا پولیس نے 21 اگست کو 400 سے زیادہ مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی اور ان میں سے کم از کم 66 کو گرفتار کیا تھا۔ ایک دن بعد، بامبے ہائی کورٹ نے اس کیس کا از خود نوٹس لیا تھا۔