ہجوم اکٹھا کرنے کا سہرا حکومت کے سر جاتا ہے تو حادثات کا کیوں نہیں؟

مونی اماوسیہ کے موقع پر مہا کمبھ میں جو حادثہ پیش آیا، اس کے لیے انسانی بھول اور بھیڑ پر قابو پانے میں ناکامی کو یقیناً ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب چوں کہ حکومت اتنی بڑی بھیڑ جمع کرنے کا کریڈٹ لے رہی تھی، تو اسے اس سانحے کے بدنما داغ کو بھی اپنے سر ماتھے پر قبول کرنا ہی چاہیے۔

مونی اماوسیہ کے موقع پر مہا کمبھ میں جو حادثہ پیش آیا، اس کے لیے انسانی بھول اور بھیڑ پر قابو پانے میں ناکامی کو یقیناً ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب چوں کہ حکومت اتنی بڑی بھیڑ جمع کرنے کا کریڈٹ لے رہی تھی، تو اسے اس سانحے کے بدنما داغ کو بھی اپنے سر ماتھے پر قبول کرنا ہی چاہیے۔

(تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

(تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

مونی اماوسیہ کے موقع پر مہا کمبھ میں جس بات کا  ڈر تھاآخر وہی ہوا۔اتنے عقیدت مندوں کی موت اور اس سے کہیں زیادہ  لوگوں کا زخمی ہوجانا ہی انتہائی افسوسناک ہے، لیکن اس  بے تحاشہ اوربے قابو ہجوم  میں اور بھی زیادہ خوفناک صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔ اس حادثے کے لیے انسانی بھول اور ہجوم پر قابو پانے میں ناکامی کو یقیناً ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔

حکومت چونکہ اتنی بڑی بھیڑ جمع کرنے کا کریڈٹ لے رہی تھی، اس لیے اسے اس سانحے کے  بدنما داغ کو بھی اپنے سر ماتھے پرقبول کرنا ہی  چاہیے۔سرکار اور اس  کی مشینری کو براہ راست اس حادثے کے لیےذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن اس حادثے کے پیچھے ایک اور اہم وجہ ہے جس پر کبھی سوال نہیں کیا جاتا۔

دراصل، اس کے پس پردہ مذہبی تقریبات میں زیادہ سے زیادہ بھیڑ جمع کرکے کریڈٹ لینے کی مقابلہ آرائی بھی ہے۔ جتنا بڑا ہجوم ہوتا ہے، اس تقریب کی اہمیت اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے مذہبی تقریبات میں بار بار حادثات رونما ہوتے  ہیں، لیکن بھیڑ کی کشش کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے۔

ابھی کچھ وقت  پہلے تروپتی میں بھی توبھگدڑ مچ گئی تھی۔ پچھلے ہی سال اتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک مذہبی اجتماع میں بھگدڑ مچنے سے 121 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے بھی پہلےویشنو دیوی کاحادثہ  ہو چکا تھا۔

مہا کمبھ میں تو بھگدڑ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس سے پہلے 1840، 1906، 1954، 1986، 2003، 2010 اور 2013 کے کمبھ میں بھگدڑ کی تاریخ کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

سن 1954میں الہ آباد مہا کمبھ کی بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد سامنے نہیں آئی۔ کچھ لوگوں نے ہلاکتوں کی تعداد 350 بتائی تو کچھ نے 800ہلاکتوں کا اندازہ لگایا تھا۔ پھر بھی  کمبھ کی معلوم تاریخ میں بھگدڑ کا اسے  سب سے بڑا حادثہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہری دوار میں 2010 کے کمبھ حادثے کو ریاستی حکومت نےبھگدڑ ماننے سے انکار کر دیا تھا اور صرف 7 لوگوں کے مارے جانے کی بات کہی تھی۔ لیکن کمبھ کے بعد گنگا ندی کے بیراج پر تین درجن سے زیادہ لاشیں پھنسی ہوئی ملی تھیں۔ تاہم، یہ ضروری نہیں کہ تمام لاشیں بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی ہی رہی ہوں۔

مہا کمبھ میں بھگدڑ کے حادثے کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور چند دنوں کے بعد سرکاری طور پر وجوہات سامنے آئیں گی۔ لیکن خود اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ حادثے کی اصل وجہ زیادہ بھیڑ تھی۔ اس سے قبل حکومت کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ زمین پر ہونے والے اس میگا ایونٹ میں 45 کروڑ سے زیادہ عقیدت مندوں کے پہنچنے کی امید ہے۔ ہر روز نہانے والوں کی تعداد کے اعدادوشمار کو بھی سرکاری طور پر مشتہرکیا جاتا رہا اور ریاستی حکومت لامحدود بھیڑ کی آمد سے خوش  ہوتی رہی۔ جبکہ دو مہینوں کے اندر ایک چھوٹی سی جگہ پر 45 کروڑ لوگوں کا جمع ہونا بڑے خطرے کی بات تھی اور اس کے لیے بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلے سے ہی پختہ انتظامات کیے جانے چاہیے تھے۔

(تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

(تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مہا کمبھ میں بڑی تعداد میں عقیدت مندوں کے جمع ہونے کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے اتر پردیش حکومت نے بڑے پیمانے پر تیاریاں کی تھیں۔ میلے کا رقبہ تقریباً 40 مربع کلومیٹر تک پھیلا دیا گیا ہے اور اسے 25 سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سیکٹر میں رہائش، سڑکیں، بجلی، پانی کی فراہمی اور کمیونی کیشن ٹاور جیسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ توسیع 2019 کے کمبھ سے 800 ہیکٹر زیادہ ہے، جو اس تقریب کے پیمانے کی نشاندہی کرتی ہے۔دراصل میلے کے علاقے کو جتنا چاہو اتنا پھیلا دو، لیکن نہانے کے گھاٹ یا گنگا کنارے کی لمبائی تو گنگا ندی  کی لمبائی تک  ہی محدود رہےگی۔

اس کے علاوہ لوگ اپنی مذہبی اہمیت کی وجہ سے صرف مخصوص گھاٹوں پر ہی نہانا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض جگہوں پر بھیڑ کا دباؤ اور بھی ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان گھاٹوں کی گنجائش کے مطابق بھیڑ کا انتظام کیا جانا چاہیے تھا۔ اگرچہ ہری دوار میں لوگ ‘ہر کی پوڑی’ میں نہانے کی خواہش رکھتے ہیں،پھر بھی  وہاں سنگم نہیں ہے اور گنگا کا کنارہ اتنا لمبا ہے کہ لوگ کہیں بھی نہا سکتے ہیں۔

ہری دوار مہا کمبھ میں بھی کئی کلومیٹرتک الکنندا اور بھاگیرتھی کے سنگم دیوپریاگ تک کو کمبھ علاقہ قرار دیا گیا ہے، لیکن غسل صرف ہری دوار کے گھاٹوں پر ہی ہوتا ہے۔

سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں بھی ایک ہی جگہ پرچلتے ہوئےکروڑوں انسانی سروں کو درست طریقے سے شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود جمع ہونے والے کروڑوں لوگوں کی گنتی کے اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ ایسا نہ صرف الہ آباد میں ہوتا ہے بلکہ ہری دوار، ناسک اور اجین کے کمبھوں میں بھی اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ 2010 کے ہری دوار مہا کمبھ میں اتراکھنڈ حکومت نے اپنے اسپیس ایپلی کیشن سینٹر کے ذریعے سیٹلائٹ امیجری کا استعمال کرتے ہوئے گنتی کی تھی اور گنگا گھاٹوں پر نہانے والے 9 کروڑ لوگوں کا اعداد و شمار جاری کیا تھا۔

درحقیقت، حکومتیں بھیڑ میں اضافے کو اپنی کامیابی کا پیمانہ سمجھتی ہیں۔ صرف کمبھ ہی کیوں، اتراکھنڈ کی چاردھام یاترا کے دوران بھیڑ جمع ہونے کی بھی یہی کہانی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2000 میں چار دھام یاترا پر کل 1292411 یاتری آئے تھے، جن کی تعداد 2024 میں 4544975 تک پہنچ گئی تھی۔ حکومتیں یاتریوں کی تعداد میں اس بڑے اضافے کو اپنی کامیابی سمجھ رہی ہیں۔ جبکہ حکومت اپنے تمام تر وسائل لگانے کے باوجود اتنی بڑی بھیڑ کو صحیح طریقے سے سنبھال نہیں سکتی اور ماحولیاتی نقصان کا حساب تو کسی شمار میں ہی نہیں ہے۔

تاہم، حکومتیں اپنی بھاری بھرکم مشینری کے ذریعے بڑی حد تک ہجوم کو کنٹرول کرتی ہیں۔ لیکن مذہبی اداروں کے لیے اتنے بڑے ہجوم کا انتظام کرنا آسان نہیں ہوتا اور وہ اب بھی لوگوں کی تعداد میں دوگنا اور چوگنا  اضافہ ہونے کی توقع رکھتے ہیں، چاہے ان کے پاس وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ جتنی زیادہ بھیڑ آتی ہے، اس مذہبی مقام کی عظمت اور شہرت اتنی ہی زیادہ مشتہر کی جاتی  ہے تاکہ اگلی بار اور زیادہ ہجوم جمع ہو سکے اور ریونیو بھی اکٹھا ہو سکے۔

مشہور مذہبی مقامات کے علاوہ سنت مہاتما، روحانی گرو بھی اپنے خطبات اور سنتوں کے اجتماعات کے لیے بھیڑ جمع کرتے ہیں۔ پچھلے ہی سال، ہاتھرس میں بھولے بابا کے مذہبی اجتماع میں بھگدڑ میں 121 عقیدت مندوں کی جانیں گئیں۔ اسی طرح کی بھگدڑ 9 نومبر 2011 کو ہری دوار کے شانتی کنج میں ہونے والے اجتماع میں ہوئی تھی۔

(جئے سنگھ راوت آزاد صحافی ہیں۔)

Next Article

دہلی فسادات معاملہ: عدالت نے کہا – قتل کے معاملوں میں وہاٹس ایپ چیٹ ٹھوس ثبوت نہیں

دہلی کی عدالت نے 2020 کے شمال -مشرقی دہلی فسادات کے دوران درج کیے گئے پانچ قتل کے مقدمات کے سلسلے میں یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہاٹس ایپ چیٹ کو ‘معاون ثبوت’ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ٹھوس ثبوت کے طور پر نہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایلن ایلن/فلکر سی سی BY 2.0)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ وہاٹس ایپ چیٹ ٹھوس ثبوت نہیں ہوسکتا اور کہا کہ اس طرح کے چیٹ کو ‘معاون ثبوت’ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عدالت نے یہ فیصلہ 2020 کے شمال -مشرقی دہلی فسادات کے دوران درج کیے گئے قتل کے پانچ مقدمات کے سلسلے میں دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پانچوں معاملات میں 12 ملزمان ایک جیسے تھے اور استغاثہ نے ثبوت کے طور پر وہاٹس ایپ چیٹ پر بہت زیادہ انحصار کیا تھا۔

یہ پانچ معاملے ان نو معاملوں میں ہیں جو 9 لوگوں کے قتل کے لیے درج کیے گئے تھے، جن کی لاشیں فسادات کے ایک ہفتے بعد برآمد ہوئی تھیں۔ اب تک باقی چار میں سے ایک کیس میں بری  کر دیا گیا جبکہ باقی تین میں ٹرائل جاری ہے۔

تمام پانچوں معاملات میں دہلی پولیس نے بنیادی طور پر ’کٹر ہندو ایکتا‘ نامی وہاٹس ایپ گروپ کی چیٹ پر انحصار کیا تھا۔ کئی چارج شیٹ میں اس گروپ کا نام  شامل ہے۔

چارج شیٹ کے مطابق، ملزمین میں سےایک  لوکیش سولنکی نے مبینہ طور پر وہاٹس ایپ گروپ پر لکھا تھا: ’تمہارے بھائی نے رات 9 بجے 2 مسلمانوں  کو قتل کر دیا ہے۔ ‘

سولنکی سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں دیگر افراد کی گرفتاری عمل میں آئی، جن پر بالآخر نو قتل کا الزام عائد کیا گیا۔

کڑکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج پلستیہ پرماچل نے ملزم کو بری کرتے ہوئے کہا، ‘اس طرح کی پوسٹ صرف گروپ کے دیگر ممبران کی نظر میں ہیرو بننے کی نیت سے پوسٹ کی جا سکتی ہیں۔ یہ بغیرسچائی کے شیخی بگھاڑنے جیسا ہوسکتا ہے۔ اس لیے چیٹ پر بھروسہ کر کے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم نے… اصل میں دو مسلمان لوگوں کو قتل کیا تھا۔ ان چیٹس کو زیادہ سے زیادہ معاون ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔’

اس سے قبل 30 اپریل کو ایک اور فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ہاشم علی نامی شخص کے قتل سے متعلق مقدمے میں کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے اور اس کے بعد 12 ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔

عدالت نے کہا تھا، ‘وہ( وہاٹس ایپ چیٹ) اپنی خامیوں کی وجہ سے سزا کی واحد بنیاد نہیں بن سکتے اور انہیں آزاداورمعتبر شواہدسےحمایت یافتہ ہونا چاہیے۔’

اس میں یہ بھی کہا کہ ایک گواہ کے علاوہ کسی اور نے واقعہ کو دیکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔

Next Article

دہلی کی عدالت نے کپل مشرا کے فرقہ وارانہ ٹوئٹ کی لاپرواہ جانچ پر پولیس کی سرزنش کی

دہلی کی راؤز ایونیو کورٹ نے دہلی حکومت کے کابینہ وزیر کپل مشرا کے سال 2020 میں کیے گئے فرقہ وارانہ ٹوئٹ کی تحقیقات کےطریقے پر دہلی پولیس کی سرزنش کی۔ ٹوئٹ میں مشرا نے سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں ہوئے پرامن احتجاج کا موازنہ ‘منی پاکستان’ سے کیا تھا۔

کپل مشرا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور دہلی کے کابینہ کے وزیر کپل مشرا کی جانچ کے طریقے کو لے کر دہلی پولیس کی سرزنش کی ۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، یہ معاملہ 2020 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر مبینہ طور پر فرقہ وارانہ طور پرپولرائزکرنے والے پیغامات پوسٹ کرنے کے لیے مشرا کے خلاف درج ایف آئی آر سے متعلق ہے۔

راؤز ایونیو کورٹ کے ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ ویبھو چورسیا نے کہا کہ عدالت نے 20 مارچ 2024 سے پچھلے ایک سال تک مشرا کے ایکس ہینڈل سے ثبوت اکٹھا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن اس کی کوششیں بے سود رہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ انہوں نے پولیس سے 8 اپریل 2025 تک لگ بھگ 10 بار متعلقہ تفصیلات جمع کرنے کو کہا تھا۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق ، یہ معاملہ مشرا کے اس ٹوئٹ پر ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے شاہین باغ میں ایک ‘منی پاکستان’ بنایا ہے، جہاں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن دھرنا دیا جا رہا ہے، اور اس وقت کے اسمبلی انتخابات ‘ہندوستان اور پاکستان’ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

دہلی پولیس کی تنقید کرتے ہوئے جج نے کہا کہ پولیس کی طرف سے کوئی بھی اس کیس کے بارے میں معلومات دینے کے لیے موجود نہیں  ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے کہا کہ، ‘عدالتی ہدایات کے حوالے سے جانچ ایجنسی کے لاپرواہ رویے پر کوئی سخت تبصرہ کرنے سے پہلے یہ عدالت معاملے کی حیثیت اور تفتیشی ایجنسی کی جانب سے دی گئی ناکافی وضاحت کے سلسلے میں پولیس کمشنر کے نوٹس میں لانے کے لیے مجبور ہے۔’

لائیو لا کے مطابق، مارچ میں دہلی ہائی کورٹ نے مشرا کے خلاف مقدمے میں ٹرائل کورٹ کی کارروائی پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا، مشراکی نظرثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘پاکستان’ کا لفظ انھوں نے اپنے مبینہ بیانات میں نفرت پھیلانے کے لیے بہت مہارت سے استعمال کیا تھا، انتخابی مہم میں ہونے والے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے تئیں لاپرواہ ہوکر ، صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے۔

عدالت کے تازہ ترین تبصرے شمال -مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے کردار کی تحقیقات کے لیے مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیے جانے کے دو ماہ بعد سامنے آئے ہیں ۔ دہلی پولیس نے ایف آئی آر کا مطالبہ کرنے والی درخواست کی مخالفت کی تھی ۔

اس نے کہا تھا کہ فرقہ وارانہ تشدد میں مشرا کے مبینہ کردار کی پہلے ہی جانچ کی جا چکی ہے اور اس میں کوئی قابل اعتراض چیز نہیں پائی گئی۔

Next Article

ہندوپاک کشیدگی: امن اور دوستی کے لیے نئی پہل ضروری

امن کا راستہ بہت کٹھن ہے اور ہوگا۔ ہمارا ہمسایہ بھی آسانی سے اس راستے  پر چلنے کوراضی نہیں ہوگا کیونکہ وہ فوج کے زیر انتظام  ملک ہے۔ لیکن یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے ہندوستانی سیاحوں کی بیویوں کے جذبات پر، لگتا ہے  کہ لوگوں نے  دھیان دیا اور حکمرانوں کے اکسانے کے باوجود اسے ہندو-مسلم تنازعہ نہیں بنایا اور جب ہندوستان کے بدلے کی کارروائی میں  پاکستان کےدہشت گردوں کےبعض ٹھکانوں پر حملہ کیاگیاتو پورے ملک نےاس کی حمایت کی۔ کئی لوگوں کے دنگے کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ زہر بہت پھیلایا گیا ہے اور اس میں اقتدار-مذہب-میڈیا-بازار نے بہت فعال کردار ادا کیا ہے، لیکن ہندوستانی عوام نے گویا اس زہر کو اور پھیلنے سے روک دیا۔

شاید اس سے بے زارہو کر بی جے پی کے ہی کچھ لیڈروں نے اب فوج کے خلاف زہر اگلنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ اس کی شروعات مدھیہ پردیش سے ہوئی، جو بی جے پی مقتدرہ ریاست ہے۔پہلے ایک وزیر نے ہندوستانی حکومت کی طرف سے تعینات ہندوستانی فوج کی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف زہر اگلتے ہوئے انہیں  ان کے مذہب کی بنیاد پر ‘دہشت گردوں کی بہن’ قرار دیا ۔ پھر اسی ریاست کے نائب وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہندوستانی فوج وزیراعظم کے قدموں میں جھک گئی ہے۔ یہ بیک وقت ہندوستانی فوج کی توہین اور اس پرسیاست ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں اس طرح کی اورکتنی  کجی سامنے آئے گی۔ لیکن چونکہ بہار میں انتخابات ہیں اس لیےاس کا امکان بہت زیادہ ہے۔

ایسے موقع پر طرح طرح کے الزامات کا سامنا کرنے کا خطرہ اٹھاتے ہوئے یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہندوستانی ریاست ہندوستانی عوام نہیں ہے اسی طرح پاکستانی ریاست پاکستانی عوام نہیں ہیں۔ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتیں۔ دونوں باہمی امن اور خوشحالی چاہتے ہیں؛ دونوں کو بہتر زندگی اورہمہ جہت ترقی کاانتظار ہے۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی اور جنگ ان کی نمائندگی نہیں کرتے اور انہیں امن اور بہتر زندگی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔

ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ 78 سال پہلے ہم ایک ہی ملک  تھے اور اب ہمسائے ہیں۔ ہماری زبانوں پنجابی-اردو-سندھی میں، خوراک، لباس، رہن سہن اور ہمارے سماجی رویوں میں حددرجہ مماثلت ہے۔ جغرافیائی بٹوارہ ہوا، لیکن ثقافتی بٹوارہ  نہیں ہوا۔ پاکستانی  شاعر،جیسے  فیض، احمد فراز، منیر نیازی، کشور ناہید، ان کے افسانہ نگار جیسےانتظار حسین، ان کے گلوکار جیسے مہدی حسن، اقبال بانو، فریدہ خانم، نصرت فتح علی، ان کے کلاسیکی فنکار جیسے روشن آرا بیگم، نزاکت علی-سلامت علی وغیرہ ہندوستان میں اتنے ہی تسلیم شدہ اورمقبول ہیں جتنےپاکستان میں۔

یہ بات بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس عرصے میں ہماری ساجھی اردو میں لکھے گئے بہترین ادب کا بڑا حصہ پاکستان میں لکھا گیا ہے۔ جس طرح ہندوستانی جمہوریت میں زیادہ تر ادب کارپوریٹ مخالف رہا ہے، اسی طرح پاکستان میں ادیب اور فنکارآمریت اور تانا شاہی کے خلاف رہے ہیں۔

معروف سیاسی تجزیہ کار سوہاس پالشیکر نے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں تین طبقے ہیں۔ پہلے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ فیصلہ کن جنگ ، آخری نہیں پہلا آپشن ہے۔ اس میں جنگ کے بارے میں ایک خوفناک رومان ہے۔ دوسرے خطے میں یہ عقیدہ غالب ہے کہ ہندوستان کوایک بار میں بٹوارے کے گناہ سےخود کو آزادکر لینا چاہیے اور پاکستان کو تباہ وبرباد کر دینا چاہیے۔ تیسرےمیں مسلمانوں کے خلاف جنون پیدا کیا جا رہا ہے۔

اسی دوران خبر آئی کہ ہندوستانی حکومت دنیا بھر میں اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کئی وفد بھیج رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مختصر جنگ میں ہندوستان کو وہ وسیع خیر سگالی اور حمایت حاصل نہیں ہوئی،جس کی اسے اپنی مبالغہ آمیزسرکاری اور خود ساختہ امیج کے باعث امیدتھی۔ سارے اشتہارات، شور شرابے اور وشو گرو (عالمی رہنما) مانے جانے کے بے بنیادگھمنڈ کے باوجود،  ہندوستان کی سفارت کاری ناکام ثابت ہوئی ہے۔ دنیا اپنے مسائل، کاروبار وغیرہ میں مصروف ہے اور اسے ‘وشوگرو’ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ہمارے یہاں پاکستان کو ایک ناکام ملک سمجھنے کا جوش بھی خوب ہے۔ یہ صفت ہم نے نہیں ایجاد نہیں کی، مغرب سے آئی ہے۔ لیکن یہی ناکام پاکستان مختلف بنیادوں پر بنائی گئی عالمی فہرستوں میں ہندوستان سے زیادہ نیچے نہیں ہے۔ کچھ میں شاید اوپر بھی ہے۔ اگر ہم اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پاکستان کے بارے میں ہمارا فوجی اور سفارتی اندازہ درست نہیں تھا۔

اس مقام پر، یہ تجویز کرنا اچھی سوچ ہے، چاہے یہ کتنا ہی متنازعہ کیوں نہ ہو، ہمیں امن اور دوستی کے لیے نئی پہل کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو قبول کرنا چاہیے اوربٹوارے کو ختم کرنا چاہیے اور اپنے پڑوسی کو تباہ کرنے کے خیال کو بالکلیہ ترک کر دینا چاہیے۔ امن کا راستہ بہت مشکل ہے اور ہوگا۔ ہمارا ہمسایہ بھی آسانی سے اس پر چلنے کوراضی نہیں ہوگا کیونکہ وہ  فوج کے زیر انتظام  ملک ہے۔ لیکن یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے۔

(اشوک واجپئی ہندی کےممتاز ادیب اور نقادہیں۔)

Next Article

ہندوپاک کشیدگی کے درمیان ’بائیکاٹ ترکیہ‘ کا مطلب کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

سودیشی جاگرن منچ کے اراکین کا جمعہ 16 مئی 2025 کو نئی دہلی میں ترکی کے خلاف احتجاج۔ تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر کے پہلگام پہاڑو ں میں سیاحوں کی ہلاکت اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ محدود جنگ میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، ہندوستان میں سارا غصہ ترکیہ پر اتارا جا رہا ہے۔

کہیں تجارت یا سیاحت کا بائیکاٹ، تو کہیں ترکیہ کو فوجی طریقے سے گھیرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

حیرت تو یہ ہے کہ سرکاری ترجمان نے اس پاگل پن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے پہلگام واقع کی مذمت نہیں کی۔ ایسی بے خبری بھی کیا۔ ترک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر وہ بیان ا بھی بھی موجود ہے، جو 22اپریل کو ہی ریلیز کیا گیا تھا، جس میں پہلگام واقعہ کی  شدیدمذمت کی گئی تھی۔

وزیرا عظم نریندر مودی غالباًامریکی صدر جارج بش کے نو گیارہ حملوں کے بعد دنیا کو دیے پیغام کی کاپی کر رہے ہیں کہ یاتو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ہیں۔ غیر جانبدار رہنے کا سوال ہی نہیں ہے اور جو خلاف ہیں، ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایسی دوٹوک باتیں سفارتی طور پر تو کسی سپر پاور کو بھی زیب نہیں دیتی ہیں۔ ہندوستان جیسے درمیانہ درجے کے پاور کے لیے جو ابھی ایک موثر ایشیائی علاقائی طاقت بننے کے  ابتدائی مراحل میں ہی ہے، یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہندوستان کے اندر گودی میڈیا کے ذریعے عوام کو اپنی فوجی اور سفارتی کامیابیا ں بتاکر ایک جنون تو پیدا کیا جاسکتا ہے، مگر بین الاقوامی طور پر حقائق کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے۔

سال 2019میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد جس طرح کی حمایت ہندوستان کو حاصل ہوئی تھی،اس وقت واضح طور پر مفقود ہے۔ دنیا بھر کے فوجی ماہرین متفق ہیں کہ اس محدود جنگ کے دوران ہندوستان کے چند انتہائی جدید رافیل طیارے چینی طیاروں اور ان کی فراہم کردہ تکنیک کی وجہ سے گرائے گئے ہیں۔

اس لیے اگر پاکستان کو دفاعی ساز و سامان دینے کا معاملہ ہے، تو یہ غصہ چین پر نکالنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حملوں کی جانکاری ہونے کے باوجود اس کا سد باب کرنے کے بجائے، ہلاکتوں اور نقصان کے بعد ہی دنیا بھر میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا ڈھونڈورا پیٹا جاتا ہے اور داخلی طور پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 ایک ملک میں حال ہی میں رپورٹروں اور تھینک ٹینک کے اسکالروں کے لیے ہندوستان نے بریفنگ کا انتظام کیا تھا۔  چونکہ اسی دن بائیکاٹ ترکیہ کا ٹرینڈ چل رہا تھا، اس لیے جب سوالات کیے گئے کہ اس ملک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو بتایا گیا کہ پاکستان نے جو 300 سے 400 ڈرونز استعمال کیے، وہ مبینہ طور پر ترکیہ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔

اب اس محفل میں فوجی ماہرین بھی شامل تھے، تو انہوں نے ان ڈرونز کی تصویریں دکھانے کا مطالبہ کردیا۔ جو پریزنٹیشن دی جارہی تھی، اس میں صرف چینی ملٹری ڈرون نظر آرہے تھے۔

پوچھا گیا کہ کیا ترکیہ کے جدید ترین بیرکتر ٹی بی سیریز کا کوئی ملٹری ڈرون پاکستان نے استعمال کیا، تو جواب نفی میں تھا۔ لے دے کے بس اتنا پتہ چلا کہ پاکستان نے ترکیہ کے سونگر ڈرون نگرانی کے لیے استعمال کیے تھے۔ان کا رینج بھی زیادہ نہیں ہوتا ہے۔

اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ نگورنو کاراباخ کی جنگ میں تو ہندوستان نے آکاش میزائل اور ڈیفنس سسٹم کے علاوہ جنگی جہاز اور دیگر ساز و سامان آرمینیا کو فراہم کر دیے تھے، وہ کس کھاتے میں آتا ہے؟ ترکیہ نہ آذربائیجان نے اس کو کبھی ایشو نہیں بنایا، تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

 ویسے تو دنیا  بھر میں ترکیہ نے اپنے آپ کو ڈرون پاور کے بطور منوا لیا ہے۔ 15مئی کو جب یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی انقرہ میں تھے، تو اپنے ملک کے سفارت خانہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24فرروری 2022کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، تو انہوں نے دارالحکومت کیف کے ایر پورٹ پر تقریبا ً قبضہ کر لیا تھا اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ دارالحکومت پر قبضہ کرکے پورے ملک کوکنٹرول کرنے کے قریب تھے۔ جس چیز نے یوکرین کو بچایا اور جنگ نے طول کھنچا وہ ترکیہ کے بیرکتر ڈرون تھے۔

انہوں نے روسی ایر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیکر روسی ٹینکوں کو اس حد تک تہس نہس کر ڈالا کہ ان کو پسپا ہونا پڑا۔ انہی ڈرونز نے شام، لیبیا، آذربائیجان، ایتھوپیا سمیت کئی محاذوں پر جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بات اب طے ہے کہ پاکستان نے یہ ڈرونز استعمال نہیں کیے اور چینی ڈرونز پر ہی انحصار کیا ہے۔  جبکہ نگرانی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مقصد سےترک ’سونگار‘ ڈرونز استعمال کیے۔

اس دعویٰ کی پو ل کھلنے کے بعد بتایا گیا کہ ناراضگی کی وجہ کراچی میں ترک جنگی بحری جہازوں کی آمد اور اسلام آباد میں ترک فوجی طیارے کی لینڈنگ ہے۔ جن کی تصاویر پاکستانی فوج کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر ہوگئی۔ دراصل جنگی بحری جہاز کوریا سے روانہ ہوکر استنبول کی طرف رواں تھا اور ایندھن لینے کے لیے کراچی میں رک گیا تھا۔

انقرہ میں ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 مئی کو جب ہندوستان نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا، تو تو ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق اپنی حکمراں جماعت آق پارٹی اور قریبی مشیروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس بلایا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ اجلاس محض 10 منٹ جاری رہا اور صدر کا پیغام نہایت واضح تھا: ضبط و تحمل اپنایا جائے اور خطے میں امن یقینی بنایا جائے۔

انقرہ اور استنبول میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرامن تعلقات ترکی کے اسٹریٹجک مفاد میں ہیں، لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ جاتی ہے تو عسکری روابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے پاس پاکستان کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ماضی میں پاکستان کی فضائیہ نے ترکیہ کی مدد کی ہے، خواہ وہ 1973 میں یونان کے ساتھ قبرص کی جنگ ہو یا شام کے حالیہ تنازعات۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

جو چیزیں ہندوستان سے آتی ہیں جیسے باسمتی چاول وغیرہ، وہ پاکستان سے بھی دستیاب ہے۔ اگر ترکیہ جوابی اقدام کرتا ہے، تو اس سے ہندوستانی معیشت کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ تجارت کا  بیلینس ہی ہندوستان کی طرف ہے۔

مزید یہ کہ تقریباً 200 بڑی بھارتی کمپنیوں کے دفاتر استنبول، ازمیر اور انتالیہ میں ہیں، جہاں سے وہ یورپ میں اپنی تجارت کو کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ترکی چونکہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ہے، اس لیے ہندوستانی کمپنیوں کو یہاں کام کرنے میں لاگت میں بچت ہوتی ہے۔

پندرویں صدی میں عثمانی اور مغلیہ سلاطین میں خط و کتابت سے لے کر مشترکہ صوفی روایات اور لسانی مماثلتوں تک،  غیر منقسم ہند-ترک تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1912 میں بلقان کی جنگوں کے دوران،  ڈاکٹر ایم اے انصاری جو بعد میں مسلم لیگ اور پھر انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بنے — زخمی ترک سپاہیوں کا علاج کرنے کے لیے ایک طبی مشن لے کر ترکیہ پہنچے۔

ان کے ساتھ علی گڑھ کالج کے طالبعلم  عبد الرحمان صمدانی عرف پشاوری بھی تھے — جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ترکوں کی مدد کرنے کے لیے استبول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کے باقی ساتھی مشن مکمل کرکے تو واپس ہندوستان آگئے، مگر وہ ترکیہ میں ہی مقیم رہے۔وہ مصطفیٰ کمال اتا ترک کے قریبی رفیق بنے اور گیلی پولی کی جنگ میں حصہ لیا۔

جب اتا ترک نے انادولو نیوز ایجنسی قائم کی تو وہ اس کے پہلے رپورٹر مقرر ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے کشمیری خاندان سے تھا جو بارہمولہ سے پشاور ہجرت کر گیا تھا۔

ان کے چھوٹے بھائی محمد یونس گاندھی خاندان کے قریبی تھے اورہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کئی ممالک میں سفیر، اور انڈیا ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کے سربراہ بھی رہے۔ غیر منقسم ہندوستان  میں ترکیہ کے لیے جو امدادی فنڈ جمع ہوا، اس سے ‘ایش بینک’قائم ہوا — جو آج بھی ترکیہ کے بڑے بینکوں میں شمار ہوتا ہے۔

کم لوگ  ہی جانتے ہوں گے کہ 20ویں صدی کے وسط تک لداخ میں لداخی کے بعد ترک زبان کا ہی استعمال ہوتا تھا۔  لیہہ کے ارغون مسلمان — جو ترک تاجروں کی نسل سے ہیں — آج بھی وسطی ایشیا اور ترک رسم و رواج، ناموں اور اشیاء کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ترک ارغون  غلام رسول گلوَان کے  نام پر ہی  گلوَان وادی منسوب ہے، اور ترک سلطان سعید خان، کے نام پر  لق دق صحرا کا نام دولت بیگ اولدائی  رکھا گیا۔

چند ماہ قبل ترکیہ دورہ پر آئے ہندوستان کے  اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر سی راجہ موہن نے حقیقت پسندی اور فوری توجہ کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ اور ہندوستان دونوں اکیسویں صدی کی بااثر علاقائی طاقتیں ہیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ترکیہ کی طرف سے کشمیر کے ذکر اور پاکستان کی حمایت کرنے سے ہندوستان میں ناراضگی پائی جاتی ہے، تو ترکیہ بھی ہندوستان کی طرف سے آرمینا کو ہتھیار سپلائی کرنے اور قبرص پر یونانی موقف کی حمایت کرنے سے تشویش ظاہر کرتا ہے۔

لہذاطویل مدتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کو ان چپقلشوں کو درکنار کرتے ہوئے بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ڈھونڈنی ہوں گی۔سینئر سفارت کار ایم کے بھدرکمار، جو انقرہ میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ  ترکیہ اور پاکستان کے درمیان عسکری تعلقات واقعی موجود ہیں، مگر یہ تعلق ہندوستان کے لیے چین کی پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک قربت جتنا خطرناک نہیں۔ انہوں نے ہندوستانی لیڈروں پر واضح کیا کہ سفارتی امور پر جذباتی ردعمل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے تزویراتی مفاد کو مقدم رکھیں۔

ترکیہ کی ابھرتی عالمی حیثیت کے پیش نظر، دنیا کے لیے اسے نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔مثال کے طور پر، ترکیہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ترکیہ کے ڈرون نے روسی صدر ولادمیر پوتن کے یوکرین پر قبضہ کرنے کے پلان کو خاک میں ملا دیا۔ مگر وہ پھر بھی ترکیہ کو ہی قابل اعتماد ثالث گر دانتے ہیں۔وہ مودی کی طرح روٹھے نہیں۔

اردوان نے بیک وقت دونوں ملکوں سے دوستی برقرار رکھی ہے۔ شام میں بشارالاسد کی برطرفی اور جلاوطنی ترکیہ کی عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی کی بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ترکیہ ایک یوریشیائی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، یوکرین میں ثالثی کے علاوہ وہ وسطہ ایشاء نیز افریقہ اور جنوبی امریکہ میں ایک بڑے رول میں سامنے آرہا ہے۔ ہندوستان اگر اپنی معیشت اور اثر و رسوخ کو پر امن طور پر وسعت دینا چاہتا ہے تو اسے خارجہ پالیسی میں ردعمل سے ہٹ کر فعال حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

 انقرہ یلدرم بیازیت یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے اسکالراور مصنف پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ ہندوستان-پاکستان کی حالیہ محدود جنگ ترکیہ کی پالیسی پر خاصی اثر انداز ہو گئی ہے۔ تر کیہ کی نظر میں اب جنوبی ایشیا ایک ‘سکیورٹائزڈ’ یعنی سکیورٹی مرکز خطہ ہے، جہاں اس کی اپنی سلامتی بھی جڑی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق انقرہ اور ریاض میں خاموش اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ملٹری پاور کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اسلام آباد اب نیٹو سے باہر ترکی کا سب سے اہم دفاعی شراکت دار بن چکا ہے۔لیکن اس تعلق کی بھاری قیمت ہندوستان کی ناراضگی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ترکیہ نے طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ابہام برقرار رکھا اور ہندوستان سے بھی قریبی روابط قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے ہندوستان کو ایک پیشکش کی تھی، کہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی، بشمول کشمیر تنازع کا پرامن حل کے بدلے میں وہ ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں حصہ لے گا۔ اس مقصد کے لیے صدر اردوان نے کئی سطحوں پر ہندوستان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر یہ کوششیں سفارتی تناؤ کی نذر ہوگئیں۔

پروفیسر انس کے مطابق 2019 سے 2022 کا عرصہ ترکی-ہندوستان تعلقات کابد ترین دور کہلایا جا سکتا ہے، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا مہمات چلا رکھی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ ہندوستان کی حکمران جماعت کے نظریاتی بیانیے میں’انڈیا فرسٹ’ کا نعرہ گونجنا شروع ہو گیا تھا۔

مطلب یہ کہ ہندوستان کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں۔ نئی دہلی کے حقیقت پسند تجزیہ کار اکثر اس نعرے کی تشریح ‘انڈیا اکیلا’ کے طور پر کرتے ہیں، یعنی ہندوستان تنہا اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

یہ موقف گجرال ڈاکٹرائن سے متصادم ہے، جو ہندوستان کے ہمسایہ ممالک کو بلا مشروط مدد فراہم کرنے کی بات کرتا تھا۔۔مگر 2022 کے بعد ہندوستان اور ترکیہ نے تعلقات پر از سر نو غور کرنا شروع کیا تھا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس ترکیہ سے متعلق کوئی جامع پالیسی نہیں۔محض وقتی ردعمل اور لین دین پر مبنی تعلقات، جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سفارت کاری کے آئینے میں دیکھا جائے، تو ترکیہ صرف پاکستان کا دوست نہیں، اور ہندوستان صرف یونان یا آرمینیا کا حلیف نہیں  ہوسکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بیانیہ بدلا جائے۔ ‘بائیکاٹ ترکی’ کے بجائے پیغام ہونا چاہیے؛ ‘روابط بحال کرو، مکالمہ کرو اور نئے تعلقات  تعمیر کرو۔’

آج دونوں — ہندوستان اور ترکیہ — خطے کی کلیدی طاقتیں ہیں جو عالمی نظام میں نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ ایک پر امن ہندوستان، جو علاقائی مسائل کا حل پر امن طریقے سے سلجھانے پر یقین رکھتا ہو، وقت کی ضرورت ہے۔

چین ایک معاشی پاورتبھی بنا جب اس نے اپنی سرحد پر بیشتر ممالک کے ساتھ تنازعات سلجھائے۔ہندوستانی لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ قدیم تہذیبیں وقتی تنازعات کی بنیاد پر خود کو محدود نہیں کر سکتیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایک خول میں بند رہنے اور گھمنڈ و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے افکار و خیالات کے تبادلے سے اپنا مستقبل تراشیں۔

Next Article

بنگلہ دیش: محمد یونس کی عبوری حکومت بحران سے دوچار، فوج کا بڑھتا دباؤ

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کے استعفیٰ دینے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی اہم وجہ ان کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی ناراضگی اور فوج کا دباؤ ہے۔

محمد یونس۔تصویر بہ شکریہ: ورلڈ اكنامك فورم/فلكر۔

نئی دہلی: بنگلہ دیش ان دنوں ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ ملک کی عبوری حکومت بحران سے دوچار ہے۔ عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس کے استعفیٰ دینے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔ساتھ ہی  بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے محمد یونس پر دہشت گردوں کی مدد سے بنگلہ دیش میں اقتدار پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

حسینہ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں کہا  ، ‘جب امریکہ سینٹ مارٹن جزیرہ چاہتا تھا، تو میرے والد راضی نہیں ہوئے تھے۔ انہیں اپنی جان قربان کرنی پڑی۔ اور یہی میرا مقدر تھا۔ کیونکہ میرے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اقتدار میں میں بنے رہنے کے لیے ملک کو بیچ دیا جائے اور ملک کے عوام نے جنہوں نے بابائے قوم بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی اپیل پر لبیک کہا، ہتھیار اٹھا کر لڑے اور 30 ​​لاکھ لوگوں کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانیں دیں۔ اس ملک کی ایک انچ زمین بھی کسی کو دینا کسی کی منشا نہیں ہو سکتی، لیکن آج یونس بنگلہ دیش کو امریکہ کو بیچ رہے ہیں۔’

حسینہ نے مزید الزام لگایا کہ یونس دہشت گردوں کی مدد سے حکومت چلا رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا، ‘انہوں نے دہشت گردوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کیا ہے… یہاں تک کہ ان دہشت گردوں کی مددسےجن پر مختلف بین الاقوامی فورمز پر پابندی عائد ہے، جن سے ہم نے بنگلہ دیش کے لوگوں کی حفاظت کی ہے۔ ہم نے صرف ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد سخت کارروائی کی۔ کئی لوگ گرفتار کیے گئے۔ اب جیلیں خالی ہیں۔ انہوں نے سب کو رہا کر دیا۔ اب بنگلہ دیش میں ان دہشت گردوں کی حکومت ہے۔’

منتخب حکومت ہی ملک میں سیاسی استحکام لا سکتی ہے، آرمی چیف

دریں اثنا،آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے بھی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام صرف ایک منتخب حکومت ہی لا سکتی ہے۔ انہوں نے اس سال دسمبر تک عام انتخابات کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی منتخب حکومت ہی ایسے فیصلے کر سکتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے اور اس نے عبوری حکومت سے حمایت واپس لینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے حوالے سے بتایا کہ بنگلہ دیش میں شدید سیاسی بحران کے درمیان عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے سنیچر (24 مئی) کو ایڈوائزری کونسل کا اچانک اجلاس بلایا تھا۔ یہ ملاقات پہلے سے طے نہیں تھی۔

میٹنگ میں انہوں نےاس بات پرناراضگی اور مایوسی کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت دیگر جماعتوں کے عدم تعاون اور رکاوٹوں کی وجہ سے کام نہیں کر  پا رہی ہے۔

غورطلب  ہے کہ عوامی لیگ کو گزشتہ سال جولائی میں ایک زبردست تحریک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد محمد یونس کی قیادت میں قائم ہونے والی اس عبوری حکومت کو اس تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور فوج کے ساتھ ساتھ تمام قومی اداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

اگست 2024 میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کے بعد فوج نے بنگلہ دیش میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔ آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تھااور اس کی سربراہی نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو دی گئی۔ لیکن اب خبریں آرہی ہیں کہ یونس اور آرمی چیف کی آپس میں نہیں بن رہی ہے۔

بنگلہ دیش میں امن و امان کا مسئلہ، ہندوؤں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ

شیخ حسینہ کی حکومت کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور ہندوؤں پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے یونس حکومت سے ان کی اپنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ناراض نظر آئی۔ معاملہ اس وقت مزید بگڑ گیا، جب یونس نے آرمی چیف جنرل وقار کی غیر موجودگی میں خلیل الرحمان کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، یونس اور آرمی چیف جنرل وقار کے درمیان رخائن کاریڈور کے حوالے سے بھی تنازعہ ہے۔ محمد یونس پڑوسی ملک میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک راہداری بنانا چاہتے ہیں، جس کے ذریعے وہاں خوراک اور ادویات پہنچائی جا سکیں۔ لیکن آرمی چیف نے سیکورٹی کے نقطہ نظر سے اسے مسترد کرتے ہوئے اسے ‘بلڈ کاریڈور’ قرار دیا ہے۔

آرمی چیف کے مطابق، یہ راہداری بنگلہ دیش کی خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ روہنگیا پناہ گزین اس راہداری کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ رخائن میں سرگرم اراکان آرمی کو اسلحہ اور رسد کی فراہمی کا راستہ بن سکتا ہے۔ اس سے اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوگا۔

غورطلب ہے کہ بنگلہ دیشی سیاست میں فوج نے ایک پیچیدہ کردار ادا کیا ہے۔ فوج نے ایک طویل عرصے تک اس ملک پر حکومت کی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے دور میں فوج سیاست سے دور رہی، لیکن آرمی چیف نے انہیں اقتدار سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔