مودی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے، وہ صرف کانگریس کے منشور کے خلاف لڑ رہے ہیں: بھوپیش بگھیل

نریندر مودی کے دل میں کانگریس کا اتنا خوف سما گیا ہے کہ وہ اپنی بات کہنے کے بجائے صرف کانگریس اور ان کے لیڈروں کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی ان کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں۔

نریندر مودی کے دل میں کانگریس کا اتنا خوف سما گیا ہے کہ وہ اپنی بات کہنے کے بجائے صرف کانگریس اور ان کے لیڈروں کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی ان کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں۔

پی ایم نریندر مودی اور کانگریس کا منشور۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/INC)

پی ایم نریندر مودی اور کانگریس کا منشور۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/INC)

دس سال تک وزیر اعظم رہے ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ایک صحافی نے سوال پوچھا تھا، ‘آپ اپنے دور اقتدار کو کیسا دیکھنا چاہیں گے؟’ اس کے جواب میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے خاص انداز میں کہا تھا، ‘تاریخ میرا جائزہ لیتے ہوئے مجھ پر مہربان ثابت ہوگی۔ وہ اس قدر بے رحم نہیں ہوگی جس قدر آج میڈیا اور اپوزیشن ہے۔’

جب وہ اپنی دوسری مدت مکمل کرنے والے تھے تو ان پر اور ان کی حکومت پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے۔ اپوزیشن منموہن سنگھ کی ولن والی امیج بنانے میں مصروف تھی۔ سی اے جی نے من گھڑت ڈیٹا کے ساتھ اپوزیشن کو ہتھیار فراہم کیے تھے۔ اور میڈیا نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر منموہن سنگھ کے خلاف مہم شروع کر دی تھی۔

تاریخ کسی پر  مہربان نہیں ہوتی۔ وہ سفاک جائزہ لیتی ہے اور لوگوں کے اعمال کا بھی بے رحمی سے فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن پچھلے دس سالوں نے منموہن سنگھ کو درست ثابت کر دیا ہے۔ آج یہ بات دلیل کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ منموہن سنگھ کا دس سالہ دور ہمارے ملک کے لیے کئی لحاظ سے سمت نما تھا۔

ایسا نہیں ہے کہ ان کے دور میں غلطیاں سرزد نہیں ہوئیں۔ انہوں نے خود بھی کچھ غلطیوں کا اعتراف کیا تھا۔ لیکن جاننے کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے خلاف سازشی مہم چلا کر انہیں بدنام کرنے کے بعد وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے نریندر مودی اپنے دس سالہ دور کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

جنوری 2014 میں جب منموہن سنگھ بطور وزیر اعظم اپنی آخری پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے تو ان کے پاس اپنے دور میں کیے گئے کاموں کی تفصیلی فہرست تھی۔ کسانوں سے لے کر مزدوروں تک، تعلیم سے لے کر صحت تک اور ملکی سلامتی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک، وہ ہر موضوع پر اپنی حصولیابیوں کے حوالے سے بہت بے باک تھے۔

آج جب نریندر مودی جی نے دس سال پورے کر لیے ہیں تو ان کے پاس اپنے دس سالہ دور کے بارے میں کہنے کے لیے کیا ہے؟ وہ کون سے کارنامے ہیں جن کے بارے میں وہ بے باکی سے کچھ کہہ سکتےہیں؟ ان کی اپنی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس  گنانے  کے لیے اپنی حکومت کے کون سے کام ہیں؟

میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کچھ ہے ہی نہیں جس کو لے کرنریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی عوام کے بیچ جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو مدت کے بعد لوک سبھا الیکشن میں اترے نریندر مودی اور بی جے پی کے پاس ‘جو رام کو لائے ہیں’ اور ‘کشمیر میں آرٹیکل 370 ہٹایا’ جیسے جملوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

‘اچھے دن’ کے جس نعرے کے ساتھ نریندر مودی جی نے اقتدار سنبھالا تھا، اس کا مغالطہ دور ہوئے  اب برسوں بیت گئے۔ نہ وہ مہنگائی کی مار کو کم کر سکے، نہ خواتین پر حملے، نہ وہ ہر سال دو کروڑ لوگوں کو روزگار دے سکے اور نہ کالا دھن ہی واپس لا سکے۔

ایک جادوگر کبھی اپنی ٹوپی سے رنگ برنگے پھول نکال کر اور کبھی خرگوش نکال کر اپنے ناظرین کو حیران کرتا رہتا ہے۔ اس ملک کے معصوم عوام کو بھی یہی امید تھی۔ مودی جی کا جادو ایک ایک کر کے ٹوٹتا چلا گیا۔ نوٹ بندی نافذ ہوئی تو ملک میں ہنگامہ برپا  ہو گیا۔ لیکن لوگوں کو لگا کہ اگر مودی جی نے کیا ہے تو کوئی جادو بعد میں ضرور جاگے گا۔ لیکن سینکڑوں اموات اور کروڑوں لوگوں کے دردناک تجربے کے بعد پتہ چلا کہ اس سے کوئی کالا دھن واپس نہیں آیا۔

نریندر مودی نے جس لاپرواہی کے ساتھ کورونا کی وبا سے نمٹنے کی کوشش کی اس نے اس وبا کو مزید المناک بنا دیا۔ بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن سے لے کر گنگا کے کنارے دفن کی گئی لاشوں تک اور آکسیجن کی کمی سے دم توڑنے والے افراد اور اسپتالوں میں جگہ تلاش کرنے والے لوگوں کی تصویریں، اس المیے کی گاتھا بن کررہ گئی ہیں۔

دراصل نریندر مودی کےدل میں کانگریس کا ایسا خوف سما گیا ہے کہ وہ اپنی بات کہنے کے بجائے صرف کانگریس اور اس کے لیڈروں کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ وہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو لے کر گہرے صدمے میں ہیں۔ راہل گاندھی ان کا ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے درمیان کھڑے ہو کر ملک کے وزیر اعظم بے شرمی سے ملک کے 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو ‘گھس پیٹھیا‘ کہہ رہے ہیں ۔ وہ کانگریس کے منشور کو بغیر کسی بنیاد کے ‘مسلم لیگ کا دستاویز‘ کہہ رہے ہیں ۔ یہ صرف خوف ہے جس کی وجہ سے انہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ کانگریس کی جیت سے پاکستان خوش ہوگا ۔

نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے ملک میں ذات پات، مذہب اور فرقہ کے نام پر جو مہم چلائی ہے اس نے ملک کی رگوں میں نفرت بھر دی ہے۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا احساس بھر گیا ہے۔

یہ لوک سبھا الیکشن ہر لحاظ سے ایک بے مثال الیکشن ہے۔ ہر وہ ایجنسی جسے غیر جانبداری سے کام کرنا چاہیے وہ مودی سرکار کے اشارے پر ناچ رہی ہے۔ ای ڈی، محکمہ انکم ٹیکس، سی بی آئی سے لے کر ڈی آر آئی تک سبھی ایجنسیاں لوگوں کو ڈرا —دھمکا کر بی جے پی کے باڑ میں ہانکنے میں لگی ہوئی ہے یا پھر چندہ اکٹھا کرنے میں۔

مرکزی الیکشن کمیشن بھی غیر جانبدار نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہا کہ حزب اختلاف کے امیدواروں کو خرید کر یا ڈرا دھمکا کر انتخابی میدان سے ہٹایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے بینک اکاؤنٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ ملک کی ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ جیل میں ہے اور ایک کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

آزادی کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے جب ملکی میڈیا بھی انتخابات کو اسی طرح دکھا رہا ہے جس طرح حکمران جماعت چاہتی ہے۔ میڈیا کے تمام سوالات اپوزیشن سے ہیں، اسے صرف اپوزیشن میں خامیاں نظر آتی ہیں اور انہیں صرف بھارتیہ جنتا پارٹی ہی اقتدار کی حقدار نظر آتی  ہیں۔

آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی خطرے میں ہے اور سب سے بڑا خطرہ ہمارے آئین کو ہے جسے بدلنے کا بی جے پی لیڈر کھلے عام اعلان کر رہے ہیں لیکن میڈیا عوام سے جڑے ملک کے ان اہم سوالات پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ یہ آر ایس ایس-بی جے پی کی دھن پر رقص کرتانظر آ رہا ہے۔

کرپشن کے سوال پر مودی حکومت بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے۔ دیوار پر لکھا ہے کہ مودی حکومت کو اس ملک کے عام لوگوں کی پریشانیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے، اس کی ہمدردی صرف ان کے چند صنعتکار دوستوں کے لیے ہے۔ الیکٹورل بانڈ نے ثابت کر دیا ہے کہ نریندر مودی اس ملک میں بدعنوانی کو فروغ دینے والے سب سے بڑے محرک ہیں۔ جس طرح انہوں نے پی ایم کیئرز فنڈ کو چھپایا وہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ لیکن میڈیا ان سوالوں پر خاموش ہے۔

انتخابات بھارتیہ جنتا پارٹی کے دس سال کے کام کی بنیاد پر لڑے جانے چاہیے تھے۔ نریندر مودی اپنی حصولیابیوں کے بارے میں بتاتے اور عوام ان کو دوبارہ منتخب کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی۔ لیکن ‘اب کی بار 400 پار’ کے نعرے کے ساتھ میدان میں اترے نریندر مودی اور امت شاہ کے پاس کانگریس کے منشور کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انتخابات کے دو مرحلوں کے بعد بی جے پی نے 400 پار کا نعرہ لگانا بند کر دیا ہے اور اپنی تمام تر توجہ کانگریس کی مخالفت پر مرکوز کر دی ہے۔ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ حکمراں بی جے پی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے منشور کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہے۔ اور چونکہ بی جے پی کے پاس ہمارے منشور کی نیت اور خلوص کا کوئی جواب نہیں ہے، اس لیے وہ اس کے خلاف ہر طرح کا جھوٹ پھیلا رہی ہے۔

کانگریس پارٹی جو وسائل کی بے مثال کمی کے درمیان الیکشن لڑ رہی ہے، اس مسئلے کا سامنا کر رہی تھی کہ جب میڈیا بھی نہیں ہے تو انتخابی اعلانات عوام تک کیسے پہنچیں گے، لیکن نریندر مودی نے اسے آسان کر دیا ہے۔نریندر مودی نے کانگریس کے منشور کو صحیح طریقے سے عوام تک پہنچا دیا ہے۔ اب عوام سمجھ رہی ہے کہ کون ان کے حقوق کی بات کر رہا ہے، کون ان کی زندگی سے جڑے مسائل پر بات کر رہا ہے اور کون ان کو صرف جھانسے دے رہا ہے۔

مہنگائی سے دوچار عوام کو یہ  سمجھ میں آ گیا ہے کہ گزشتہ برسوں میں حب الوطنی کے نام پر انہیں دھوکہ دیا گیا ہے اور حکومت نے آہستہ آہستہ ان سے وہ تمام حقوق چھین لیے ہیں جو انہیں پچھلی کانگریس حکومت نے دیے تھے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ غریب خواتین کو ایک لاکھ روپے ملنے  سے کیا ہوگا، بے روزگاروں کو ایک سال کی تربیت اور لاکھ روپے ملنے سےکیا ہوگا، منریگا کی مزدوری 400 روپے ملنے سے کیا فائدہ ہوگا اور کسانوں کو ایم ایس پی کی گارنٹی ملی تو کیسے دن لوٹ آئیں گے۔

آمریت کی آہٹ کے درمیان ہر طرح سے مالا مال پارٹی کے خلاف ایک ایسا  ‘انڈیا’ اتحاد لڑ رہا ہے جس کا نام لینے  میں نریندر مودی اور امت شاہ کو دقت ہو رہی ہے۔ اس بار عوام کی جیت ہوگی۔ پھر دیکھنا ہوگا کہ نریندر مودی تاریخ میں کیسے درج کیے جاتے ہیں۔

(بھوپیش بگھیل کانگریس کے سینئر رہنما اور چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔)