مودی جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں کہ کانگریس کے منشور میں ’مسلمانوں کو سرکاری ٹھیکوں میں ریزرویشن‘ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے

فیکٹ چیک: کانگریس کے منشور کو شعوری طور پرنظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی ہندو رائے دہندگان کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔

فیکٹ چیک: کانگریس کے منشور کو شعوری طور پرنظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی ہندو رائے دہندگان کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔

نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی:گزشتہ 2 مئی کو گجرات کے سریندر نگر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر مسلمان مخالف بیان دیا ہے، جو ان کی انتخابی مہم کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ کانگریس پارٹی پر ایک نیا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں آتی ہے تو ایک خصوصی کوٹا بنائے گی جس کے تحت مسلمانوں کو سرکاری ٹھیکے دیے جائیں گے۔

وزیر اعظم نے کہا، ‘کانگریس کا انتخابی منشور ہر طرح سے اپیزمنٹ، اپیزمنٹ اوراپیزمنٹ سے بھرا ہوا ہے۔ آج میں آپ کو ان کے منشور کے بارے میں کچھ بتاؤں گا جسے سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے منشور میں کہا ہے۔ میرے صحافی بھائی بھی یہ سن کر حیران رہ جائیں گے۔ انہوں نے تحریری طور پر کہا ہے…کہ اب جو سرکاری ٹینڈر ہوں گے… اس ٹینڈر میں بھی، اقلیتوں کے لیے —مسلمانوں کے لیے…ایک کوٹا مقرر کیا جائے گا۔ تو کیا اب سرکاری ٹھیکوں میں بھی …مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن لایا جائے گا کیا؟’

مودی نے مزید کہا کہ جب سے ملک آزاد ہوا ہے، سرکاری ٹینڈر دینے کا ایک طے شدہ عمل ہے۔ جس نے صحیح بولی لگائی اور اس کا ٹریک ریکارڈ اچھا ہے،تو اسے ٹھیکہ مل جاتا ہے۔ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر ٹھیکہ نہیں ملتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پھر بھی کانگریس اپنے ‘ووٹ بینک’ کے لیے مذہب کی بنیاد پر ٹھیکے دینے کی بات کر رہی ہے۔

لیکن مودی کے اس دعوے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے کانگریس کے منشور میں حقیقت میں سرکاری ٹھیکوں میں مسلمانوں کے لیے کوٹا شروع کرنے کی تجویز ہے؟

نہیں۔

کانگریس کے انتخابی منشور میں دو جگہوں پر اس طرح کے عوامی ٹھیکوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

پہلا  صفحہ 6، پیراگراف 8؛

ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے ٹھیکیداروں کو مزید پبلک ورک کانٹریکٹس دینے کے لیے پبلک پروکیورمنٹ پالیسی کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔

صفحہ 8، پیرا 6؛

ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اقلیتوں کو تعلیم، صحت، ملازمت، پبلک ورکس کانٹریکٹس، اسکل ڈیولپمنٹ، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں بغیر کسی امتیاز کے مواقع کا مناسب حصہ ملے۔

یہ واضح ہے کہ کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ ‘ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے ٹھیکیداروں کو زیادہ عوامی کاموں کے ٹھیکے دے گی۔ وہیں اقلیتوں کے معاملے میں پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ‘اقلیتوں کو…عوامی کام کے ٹھیکوں میں…بغیر کسی امتیاز کے ان کا مناسب حصہ ملے۔’

منشور میں کہیں بھی اقلیتوں یا مسلمانوں کے لیے مقررہ کوٹے کا ذکر نہیں ہے۔ کانگریس صرف یہ کہتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے بغیر کسی ‘تعصب’ کے ‘مناسب حصے داری کو’یقینی بنائے گی۔ ایک اور پیراگراف اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے کہ بینک اقلیتوں کو بغیر کسی امتیاز کے ادارہ جاتی قرض فراہم کریں گے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو اکثر اس پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن شاید مودی اپنی مستقبل کی تقریروں میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ، ‘کانگریس ‘بینک لون کے لیے بھی کوٹا’ کا وعدہ کر رہی ہے۔’

اقلیتوں کو بغیر کسی امتیاز کے ‘مواقع کا منصفانہ حصہ’ دینے کے وعدے کا مطلب ان کے لیے کوٹا مقرر کرنا نہیں ہے۔ غور  کریں، سچر کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مسلمانوں کو روزگار، تعلیم، رہائش اور مالی امداد میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ اکتوبر 2014 میں پروفیسر امیتابھ کنڈو کی طرف سے مودی حکومت کو پیش کی گئی فالو اپ رپورٹ میں بھی اس حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے۔

کنڈو پینل نے خاص طور پر کہا تھاکہ کوٹا ‘کسی معاشرے میں بڑے پیمانے پر،سسٹیمیٹک امتیاز کو دور کرنے کے لیے بہت سے ٹولز میں سے ایک ہے’ اور حکومت کو ‘ تنوع کو فروغ دینے اور امتیازی سلوک کو روکنے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ‘ریزرویشن سے بالاتر ‘ ہو کر آگے بڑھنا چاہیے تاکہ سماجی انصاف ہو سکے۔مودی حکومت اب تک اس کی سفارشات کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مسلم کاروباریوں کو مواقع میں برابری کی ضرورت ہے، اور کانگریس کا منشور بھی یہی فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہوالگتاہے۔  ایسا  کیسے ہوا کہ مودی کانگریس کے منشور میں یہ دیکھ نہیں پائے۔

کانگریس کا منشور انہیں پریشان کر رہا ہے۔ لیکن وہ ہوشیار سیاستداں ہیں ،اور یہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے کانگریس پارٹی کی جانب سےکیے گئے ‘سرکاری ٹینڈر’ والے وعدوں پر حملہ کیا تو وہ ایس سی اور ایس ٹی ووٹروں کو دور کرنے کا خطرہ مول لیں گے۔ اس لیے انہوں نے جان بوجھ کر مسلمانوں کےلیے کوٹا کے معاملے پر لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔

جیسے جیسے انتخابات آگے بڑھ رہے ہیں، ہندو ووٹوں کی تلاش میں مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے والی مودی کی جھوٹی تقریروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس شکایتوں کا انبار ہے لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)