کہا جاتا ہے کہ کانگریس میں امیدوار الیکشن لڑتا ہے، بی جے پی میں یہ ذمہ داری تنظیم سنبھالتی ہے۔ اس بار بی جے پی اور سنگھ کے کارکنوں میں زیادہ جوش نظر نہیں آ رہا ہے۔
نئی دہلی: گریش شرما کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اس بار بی جے پی کی انتخابی مہم اتنی پھیکی پھیکی کیوں ہے۔ ‘ان کے لوگ ہمیں گھروں سے بلا کر ووٹ ڈالنے لے جاتے تھے۔ اس بار کیا ہوا؟ کہاں گئے ان کے پنا پرمکھ؟’
گریش متھرا ضلع کے عیسیٰ پور گاؤں کے رہنے والے ہیں اور پچھلے کئی لوک سبھا انتخابات کے گواہ ہیں۔ ‘اس بار ان کے لوگ نظر نہیں آ رہے،’ وہ کہتے ہیں۔
پچھلے دس سالوں میں بی جے پی کی انتخابی کامیابی کی ایک بڑی وجہ پارٹی کا پھیلا ہوا نیٹ ورک رہا ہے۔ ہر پارلیامانی حلقے کے ہر بوتھ کی ذمہ داری پنا پرمکھ سنبھالتے ہیں۔ پنا پرمکھ بی جے پی تنظیم کی بنیادی اور انتہائی اہم اکائی ہے۔ انہیں اپنے علاقے کے رائے دہندگان کی فہرست دی جاتی ہے، جن سے وہ ووٹنگ سے بہت پہلے ملنا جلنا شروع کر دیتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ حق رائے دہی کا استعمال کریں۔
اس طرح بہت سے شہری جو بی جے پی کے ووٹر نہیں ہیں، پنا پرمکھوں کے رابطے کے بعد پارٹی کی طرف جھک جاتے ہیں۔
اس بار یہ لوگ اتر پردیش کے کئی پارلیامانی حلقوں سے پوری طرح سے غائب ہیں۔ اسی لیے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014 اور 2019 کے مقابلے اس بار اتر پردیش کے انتخابات کئی معنوں میں مختلف ہیں۔
سنگھ کی سر د مہری
پہلا، بی جے پی کی طاقت یعنی اس کا سنگھ پریوار اس بار کہیں سست رفتار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کانگریس میں امیدوار الیکشن لڑتا ہے، بی جے پی میں یہ ذمہ داری تنظیم سنبھالتی ہے۔ ‘اس بار بی جے پی کارکنوں میں زیادہ جوش نہیں ہے۔ وہ نظر نہیں آ رہے ،’ مین پوری میں کام کرنے والے ایک سینئر صحافی یہ جانکاری دیتے ہیں جو کئی دہائیوں سے ‘دینک جاگرن’ سے وابستہ ہیں اور بی جے پی کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔
سہارنپور کے ایک رہائشی بڑی اچھی مثال دے کر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ‘ٹھیک تین مہینے پہلے رام مندر کی پران-پرتشٹھا میں ان لوگوں (سنگھ پریوار) نے جان لگا دی تھی۔ مہینے بھر پہلےسے گھر گھر جانا شروع کر دیا تھا۔ جنم بھومی اور نریندر مودی کے پوسٹر تقسیم کر رہے تھے۔ یہ لوگ الیکشن کے دوران بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اس بار اچانک کیا ہوگیا؟ کوئی پوسٹر-پرچہ – جھنڈا نہیں؟ ہمارے گھر کوئی ووٹ مانگنے بھی نہیں آیا۔’
اس کی وجہ بتاتے ہیں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے قائد دین دیال اپادھیائے کی جائے پیدائش دین دیال دھام کے ایک رہائشی، جو سنگھ کے نظریے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ‘سچ یہ ہے کہ ہمارے کارکن ناراض ہیں۔ آپ باہری لوگوں کو لے آئے ہو۔ جن لوگوں کے خلاف ہم کل تک لڑ رہے تھے وہ ہمارے ساتھ آگئے ہیں،’ وہ کہتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کچھ عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔ ‘انہوں نے مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ اور چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کو ختم کر دیا۔ کیا وہ یوگی (آدتیہ ناتھ) کے ساتھ یہی سلوک کرنے والے ہیں؟’ وہ جوڑتے ہیں۔
مغربی اتر پردیش میں آر ایس ایس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ‘میں انتخابات میں کبھی فری نہیں رہتا تھا۔ اس بار میں گھر سے ہی نہیں نکلا۔ سنگھ کا کارکن گھر سے ہی نہیں نکل رہا۔’
بی جے پی میں اندرونی کشمکش
دوسرا، بی جے پی میں اندرونی کشمکش۔ اس کی ایک بڑی مثال ہے فتح پور سیکری سیٹ جو پچھلے دو انتخابات سے بی جے پی کے پاس ہے۔ 2019 میں بی جے پی امیدوار راجکمار چاہر نے یہاں سے 495065 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی، جو وارانسی میں مودی کی جیت سے بڑی تھی۔ اس کی بڑی وجہ تھی 2014 کے بی جے پی ایم پی اور مقامی باہو بلی بابولال چودھری کی جانب سے چاہر کو دی گئی حمایت۔ اس بار بابو لال چاہر کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔ انہوں نے جلسوں میں واضح کر دیا تھا کہ اگر بی جے پی چاہر کو ٹکٹ دیتی ہے تو وہ انہیں ہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔
بابولال نے بی جے پی کے خلاف بغاوت کر دی اور اپنے بیٹے رامیشور چودھری کو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اتار دیا۔ مقامی رجحانات کے مطابق چاہر کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر جھگڑا اور بھی جگہوں نظر آتا ہے۔’ آپ نے میرٹھ سے لگاتار تین بار کے ایم پی (راجندر اگروال) کو ٹکٹ نہیں دیا ۔ غازی آباد سے دو بار کے ایم پی (ریٹائرڈ جنرل وی کے سنگھ) کو ٹکٹ نہیں دیا۔ باغپت سے دو بار کے ایم پی کا ٹکٹ صرف اس لیے کٹا کہ بی جے پی اعلیٰ کمان کی ان سے ناراضگی تھی،’ مغربی اتر پردیش میں سنگھ کے ایک عہدیدار کہتے ہیں۔
سمجھا جاتا ہے کہ بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران کسی وجہ سے باغپت کے موجودہ بی جے پی ایم پی اور ممبئی کے سابق پولیس کمشنر چودھری ستیہ پال سنگھ سے ناراض تھے۔ نہ صرف ان کا ٹکٹ کاٹاگیا، بلکہ بی جے پی نے راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اتحاد کیا اور باغپت ان کے امیدوار کو سونپ دیا۔’ان تینوں کے ٹکٹ کٹنے پر کارکنوں میں بہت ناراضگی ہے،’ سنگھ کے عہدیدار کہتے ہیں۔
نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کا کم ووٹ فیصد
تیسرا، بی جے پی کے روایتی اعلیٰ ذات کے ووٹروں نے بہت کم ووٹنگ کی ہے۔ اس صحافی نے مغربی اتر پردیش کے کئی اضلاع میں کئی خاندانوں سے بات کی۔ سب کا کہنا تھا کہ وہ عموماً صبح دس بجے کے بعد ووٹ ڈالنے نہیں گئے۔
‘یہ تو ہے کہ اس بار ہمارے بہت کم لوگ ووٹ ڈالنے گئے ہیں،’ دہلی میں مقیم ایک وکیل کہتے ہیں جو علی گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے خاندان کی ریاست میں بی جے پی حکومت میں نمائندگی رہی ہے۔
آگرہ میں ایک 74 سالہ ریٹائرڈ اعلیٰ ذات کے افسر نے گزشتہ لوک سبھا اور اسمبلی دونوں انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ اس بار ان کی بیوی نہیں گئیں، اور انہوں نے خود نوٹا کا انتخاب کیا۔ ‘اس بار تو کوئی ہماری کالونی میں انتخابی مہم چلانے بھی نہیں آیا۔ ہم ہی کیوں ووٹ ڈالنے جاتے،’ وہ کہتے ہیں۔
‘انڈیا’ اتحادنےپہنچ بنائی
چوتھا، اس بار ایس پی اور کانگریس کا اتحاد بہتر کام کر رہا ہے۔ ‘ہمارے گاؤں میں یہ پہلا موقع ہے جب آدھے سے زیادہ ٹھاکروں نے کانگریس کو ووٹ دیا۔ جب کانگریس اپنے عروج پر تھی تب بھی کانگریس کو ٹھاکروں کے ووٹ نہیں ملتے تھے۔ وہ یا تو بی جے پی کو دیتے تھے یا چودھری چرن سنگھ کو،‘ گریش شرما کہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی ہے جب متھرا سے اتحاد کے کانگریس امیدوار مکیش دھنگر موجودہ رکن پارلیامنٹ ہیما مالنی کے سامنے ایک نامعلوم لیڈر ہیں۔
مین پوری کے صحافی بھی اس اتحاد کے بارے میں ایسا ہی کہتے ہیں۔ ‘اس بار اتحاد مضبوط ہے۔ بی ایس پی کے کچھ ووٹ ایس پی کو بھی جا رہے ہیں۔’
یادو-مسلمان کی پارٹی مانی جانے والی ایس پی نےٹکٹوں کی تقسیم کی اپنی حکمت عملی میں غیر معمولی تبدیلی کی ہے۔ 2019 میں ایس پی نے کل 37 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے، جن میں سے دس یادو اور چار مسلمان تھے۔ اس بار ایس پی 63 سیٹوں پر لڑ رہی ہے، جن میں سے صرف پانچ یادو اور چار مسلمان ہیں۔
ایس پی کی حکمت عملی ہے جہاں جس طبقے کی آبادی سب سے زیادہ ہے، اس کو ٹکٹ دیا جائے۔ مثال کے طور پر، جس سیٹ پر بی جے پی کا روایتی لودھی ووٹ ہے، ایس پی نے لودھی کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی کے بیس تیس فیصد ووٹ ایس پی کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں۔
پارٹی نے مسلمانوں اور یادووں کے بجائے پسماندہ ذاتوں اور دلت برادری کو زیادہ ٹکٹ دیے ہیں۔ پچھلی بار ایس پی نے ایک بھی جاٹو کو ٹکٹ نہیں دیا تھا، جبکہ اس بار چھ جاٹو کو میدان میں اتارا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بی ایس پی کے ووٹ توڑنے کی کوشش ہے۔
چونکہ یہ اتحاد مضبوط دکھائی دے رہا ہے، اس لیے مانا جا رہا ہے کہ مسلم ووٹ بھی بہت کم تقسیم ہوئے ہیں۔
کیا رام مندر کا اثر کم ہوگیا؟
سب سے بڑا فرق رام مندر کو لے کر نظر آرہا ہے۔ سنگھ پریوار نے پچھلے دو لوک سبھا انتخابات میں اسے بڑا ایشو بنایا تھا۔ لیکن آج کارکن اس معاملے پر بھی پرجوش نظر نہیں آ رہے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کے وجود کی سب سے بڑی پہچان تھی۔ ‘ہم نے جنوری میں ماحول بنا دیا تھا کہ اس بار تو پورا الیکشن رام مندر کے نام پر لڑا جائے گا۔ لیکن اب ہم پیچھے ہٹ گئے ہیں،‘ سنگھ کے ایک عہدیدار کہتے ہیں۔
بھلے ہی بڑے لیڈر اپنی ریلیوں میں مندر کا ذکر کر رہے ہوں، لیکن زمین پر اس کی زیادہ گونج سنائی نہیں دے رہی ہے۔
سنگھ کے کچھ کارکن وزیر اعظم کے کچھ بیانوں سے ناخوش بھی ہیں۔ ‘آپ ٹیمپو (اڈانی-امبانی کانگریس کو پیسے دے رہے ہیں) کا بیان کیوں دے رہے ہو؟ آپ وزیراعظم ہو۔ اگر کوئی ایسا پیسہ پہنچا رہا ہے تو اس کے خلاف قدم اٹھاؤ،’ سنگھ کے ایک عہدیدارکہتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ اس بار بی جے پی کے کچھ روایتی ووٹ میں کہیں جوش کی کمی ہے تو کہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ وہ بھلے ہی مودی کی مخالفت میں نہیں آئے،لیکن منہ ضرورپھیر لیا ہے۔
اب تک کے چار مرحلوں کے حوالے سے ایک بہترین تجزیہ 8 مئی کے ‘دینک ہندوستان’ میں ملتا ہے، جب اس کے صحافیوں نے 170 کلومیٹر کا سفر کیا اور لکھا؛ ‘نہ کوئی پارٹی، نہ کوئی قومی مسئلہ۔ کسی طرح کی کوئی ہوا بھی نہیں۔’
اس اخبار نے 9 مئی کو ان انتخابات کا تعین کرنے والے ‘پانچ بڑے عوامل’ کی نشاندہی کی تھی؛ دلت ووٹ بینک اس بار اپنی روایت سے الگ ہو گیا۔ مسلم ووٹروں نے بکھراؤ سے گریز کیا اور ایک راستے پر چلے۔ ٹھاکروں، برہمنوں اور جاٹوں میں انتشار نظر آیا؛ قلعہ بندی میں لگی سیندھ۔
ممکن ہے ووٹر کے اندر کوئی ایسی بات ہو جسے وہ ظاہر نہیں کر رہے۔ یا پھر وزیر اعظم کا ذاتی امیج مذکورہ فرق کو بے معنی کر دے اور وہ تیسری بار پھر سےبھاری اکثریت سے منتخب ہو جائیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس الیکشن کی سطح گزشتہ دو انتخابات سے مختلف ہے۔