لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس پر الزام لگایا تھا کہ وہ ٹیمپو میں بوریاں بھر کر امبانی اور اڈانی سے پیسے لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا ہے کہ اس دعوے پر لوک پال کا تبصرہ مودی کے سیاسی بڑبولے پن کو اجاگر کرتا ہے۔
نئی دہلی: انسداد بدعنوانی اتھارٹی لوک پال نے لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک تقریر کے حوالے سے ان کے اور راہل گاندھی کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی عرضی کو مسترد کر دیا ہے۔ اس تقریر میں پی ایم مودی نے کانگریس پارٹی پر اڈانی اور امبانی سے کالا دھن لینے کا الزام لگایا تھا۔
وزیر اعظم، کابینہ کے وزراء اور ممبران پارلیامنٹ سمیت اعلیٰ سرکاری افسران کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے مجاز ادارہ لوک پال نے 19 جولائی کو اپنے فیصلے میں کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر محض ‘قیاس’ پر مبنی ‘پوری طرح سے انتخابی پروپیگنڈہ’تھی، جس نے’اپنے مخالف کو گھیرنے کے لیے خیالی حقائق پر مبنی سوال کھڑے کیے تھے’۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اے ایم کھانولکر کی سربراہی والی اتھارٹی کے مطابق، لوک پال اور لوک آیکت ایکٹ، 2013 کے تحت اس معاملے پر کارروائی کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
یہ تقریر وزیر اعظم مودی نے 8 مئی کو تلنگانہ کے کریم نگر میں اپنی انتخابی مہم کے دوران کی تھی۔ اپنی تقریر میں پی ایم نے کانگریس پر الزام لگایا تھا کہ وہ ٹیمپو میں بوریاں بھر کر امبانی اور اڈانی سے پیسے لے رہی ہے۔ پی ایم نے کہا تھا کہ اسی وجہ سے راہل گاندھی نے انتخابی مہم کے دوران امبانی-اڈانی کا نام لینا’ بند‘ کردیا تھا۔
اس تقریر کے وائرل ہونے کے بعد لوک پال کے سامنے معاملہ دائر کیاگیا تھا ۔
شکایت میں کہا گیا تھاکہ ‘ملک کابیدار شہری ہونے کے ناطے مجھے ان سنگین الزامات سے بہت دکھ پہنچا ہے کہ اس طرح سے یہ سرمایہ دار اور بڑے بڑے سیاستدان آپس میں مل کر کالے دھن سے ملک کی یکجہتی اور خودمختاری کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور اس کالے دھن سےملک کی جمہوریت اور انتخابی نظام کو متاثر کر رہے ہیں۔‘
شکایت کنندہ نے کہا تھا، ‘ان انتخابات میں صنعتکاروں کے اس کالے دھن سے جمہوریت بری طرح متاثر ہوگی۔ اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی، صنعت کار گوتم اڈانی، مکیش امبانی، کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور نامعلوم ٹیمپو مالکان کے خلاف یو اے پی اے، منی لانڈرنگ ایکٹ، اینٹی کرپشن ایکٹ اور آئی پی سی کی دفعہ 420/467/468/469/ 120 بی کے تحت فوجداری مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی کی جائے، تاکہ ملک میں جمہوریت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور کالے دھن کو روکا جا سکے۔‘
لوک پال نے اپنے حکم میں کہا ہے، ‘یہ بیان شیڈو باکسنگ جیسا ہو سکتا ہے۔ تاہم، کسی بھی معیار کے مطابق اس طرح کی تقریر کو کسی بھی معلومات کا انکشاف نہیں سمجھا جا سکتا…اس لیے اس معاملے میں لوک پال کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔‘
لوک پال نے کہا، ‘تقریر میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ہے جس سے یہ پتہ چل سکےکہ یہ معلومات خفیہ ذرائع سے مقرر(وزیراعظم) کےپا س آئی ہے’۔
اینٹی کرپشن اتھارٹی کے دیگر ممبران – جسٹس ایل نارائن سوامی، جسٹس سنجے یادو، سشیل چندر، جسٹس ریتو راج اوستھی، پنکج کمار اور اجئے ترکی بھی اس معاملے کی شنوائی میں شامل تھے۔
لوک پال نے شکایت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لیے ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دی وائر کو بتایا، ‘ لوک پال کا یہ کہنا کہ وزیر اعظم کی جانب سے کانگریس پر لگائے گئے الزامات ‘قیاس’ پر مبنی تھے اور یہ محض ‘انتخابی مہم’ کا حصہ تھا، جو اپوزیشن پارٹی کو گھیرنے کے لیے ‘خیالی حقائق’ پر مبنی تھا، اس معاملے کاسب سے اہم پہلو ہے۔ لوک پال کا یہ تبصرہ مودی کے سیاسی بڑبولے پن کو اجاگر کرتا ہے۔‘