ہندو سیواکیندرم نام کی ایک تنظیم نےکیرل ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے یہ مانگ کی تھی کہ اگر مسلمان، لیٹن کیتھولک، عیسائی نادر اور شیڈول کاسٹ کا کوئی شخص عیسائی مذہب کے کسی بھی فرقے میں جاتا ہے تو اسے پسماندہ طبقے میں نہ گنا جائے۔ عدالت نے عرضی خارج کرنے کے ساتھ ساتھ عرضی گزار پر 25000 روپے کا جرمانہ بھی لگایا ہے۔
نئی دہلی: کیرل ہائی کورٹ نے ہندو سیواکیندرم نام کی ایک تنظیم کی اس عرضی کو خارج کر دیا، جس میں یہ مانگ کی گئی تھی کہ اگر مسلمان، لیٹن کیتھولک، عیسائی نادراور شیڈول کاسٹ کا کوئی شخص عیسائی مذہب کے کسی بھی فرقے کو اپناتا ہے تو اسے پسماندہ طبقے میں نہ گنا جائے۔
کورٹ نے عرضی خارج کرنے کے ساتھ ساتھ عرضی گزار پر 25000 روپے کا جرمانہ بھی لگایا ہے۔
دی نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے سیواکیندرم کو ہدایت دی کہ وہ صوبے میں سنگین بیماریوں سے متاثر بچوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے بینک کھاتے میں ایک مہینے کے اندر اس رقم کو جمع کریں۔
کورٹ نے کہا کہ اگروہ ایسا کر پانے میں ناکام رہتے ہیں تو کیرل ریونیو وصولی ایکٹ، 1968 کے تحت کارر وائی شروع کی جائےگی۔
کورٹ نے کوچی کے ہندو سیواکیندرم کے خزانچی شری کمار منکجھی کی عرضی پر یہ حکم جاری کیا۔
عرضی گزار نے کہا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے کچھ طبقوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ نوکریوں میں ریزرویشن دیا جاتا ہے، انہیں سماجی اور تعلیمی طور پرپسماندہ مانا جاتا ہے، جبکہ ان میں سے اکثر سماجی یا تعلیمی طور پرپسماندہ نہیں ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اس کی وجہ سےکیرل میں سماجی اورتعلیمی طور پرپسماندہ ہندوؤں کو پریشانی ہوتی ہے۔
اس کو لے کر 10 ستمبر 1993 کو جاری ایک گزٹ نوٹیفکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل کے گوپال کرشن کرپ نے کہا کہ کچھ طبقوں کی پہچان پسماندہ طبقوں اور ریاست وار سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ طبقوں کے طور پر کی گئی ہے اور اس کے مطابق مرکز اور ریاستی سرکاروں کے احکامات کے مطابق ریزرویشن دیا جاتا ہے۔
اس نوٹیفکیشن کے مطابق، میپلا اور لیٹن کیتھولک کو پہلے ہی سماجی اورتعلیمی طور پرپسماندہ کمیونٹی کے طور پرپہچانا جا چکا ہے، جس کے لیے ریزرویشن دیاجاتا ہے۔وکیل نے کہا کہ ہندوستان کے صدر کو سماجی اورتعلیمی طور پر پسماندہ طبقوں کی وضاحت کرنے کا اختیار ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ قومی کمیشن برائے اقلیتی ایکٹ کے مطابق مرکزی حکومت نے چھ مذہبی کمیونٹی مسلم، عیسائی، سکھ، بودھ، پارسی(پارسی)اور جین کواقلیتی کمیونٹی کے طور پرمنظوری دی ہے۔ اس طرح آئینی اور قانونی اہتماموں کے مدنظریہ واضح ہے کہ کچھ کمیونٹی کو اقلیتی، ایس سی/ایس ٹی ،پسماندہ اور اوبی سی کمیونٹی کےطورپر منظوری دی گئی ہے اور اس کے مطابق صوبائی اورمرکزی حکومتوں کی طرف سے ریزرویشن دیا جاتا ہے۔
بنچ نے کہا، ‘ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عرضی گزار نے کیسے یہ مانگ کی ہے کہ مسلم، لیٹن کیتھولک، عیسائی نادر اور شیڈول کاسٹ ، عیسائی مذہب کے کسی بھی فرقے میں جانے کے حقدار نہیں ہیں۔’
عدالت نے سچر کمیٹی اور پالولی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ان طبقوں کو تعلیمی اور دوسری سماجی بہبود کی سرگرمیوں کے لیے دی جانے والی تمام مالی امدادکو روکنے کی بھی عرضی خارج کر دی۔