ڈل جھیل کے ایک گھاٹ پر دھوپ سیکنے اور کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بحث و تمحیص میں مصروف شکارا والوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بند ہوجانے سے وہ روزی روٹی سے محروم ہوچکے ہیں۔
پیشے سے صحافی قیصر بابا دن بھر کی تھکان سے چھٹکارا پانے کے لئے ہر شام کو سرینگر کی شہرہ آفاق ڈل جھیل کے سنگ چلنے والے بلیوارڈ روڑ کا پیدل مارچ کرتے ہیں۔ اس روڑ کے ایک طرف سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز یعنی ڈل جھیل تو دوسری طرف زبرون پہاڑی سلسلہ اور اس کے دامن میں دہائیوں پرانے بلند وبالا ہوٹل قائم ہیں۔
قیصر بابا کا کہنا ہے کہ ڈل جھیل کے صاف و شفاف پانی کی سطح پر تیرتے اور تیز ہواؤں کی لہروں کے ساتھ بل کھاتے ہاؤس بوٹوں، شکاروں، زبرون پہاڑی کے دامن میں قائم ہوٹلوں کا ڈل جھیل میں نظر آنے والے دلفریب عکس اور بلیوارڈ روڑ پر سیاحوں کی غیر معمولی چہل پہل کو دیکھتے ہی میری دن بھر کی تھکان غائب ہوجاتی تھی لیکن پانچ اگست کے بعد سے یہاں سناٹا چھایا ہے، زبرون پہاڑی سلسلہ، ڈل جھیل کے پانی پر کھڑے شکارے او رہاؤس بوٹ اور دیگر منفرد اور دلچسپ نظارے تو وہیں ہیں پر ان سے لطف اندوز والے نفوس ہی کافور ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں؛’میں نے بلیوارڈ روڑ کا پیدل مارچ کرنا چھوڑا نہیں ہے لیکن آج جب میں ہوٹلوں اور ہاؤس بوٹوں میں بجلی بند اور بلیوارڈ روڑ کو سنسان دیکھتا ہوں تو میرا دل بہت اداس ہوجاتا ہے۔ اس سال سیاحوں کی آمد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو آیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ڈھونڈنے سے بھی سیاح نہیں ملتے۔ سیاحتی شعبے سے وابستہ لوگ بے حد پریشان ہیں۔ انہیں 1990کی دہائی جب یہاں ملی ٹنسی زوروں پر تھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا’۔
ایڈوائزری تو گئی لیکن کیا نقصان کی بھرپائی ہوگی؟
2 اگست کو غیر مقامی سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کے لئے جاری کی گئی ایڈوائزری اور بی جے پی حکومت کی طرف سے 5 اگست کو لئے گئے فیصلوں کے نتیجے میں وادی کشمیر میں سیاحتی شعبے کا غیر معمولی نقصان ہوا ہے جس کی فوری بھرپائی ناممکن ہے۔سیکورٹی ایڈوائزری جس میں وادی کشمیر میں موجود امرناتھ یاتریوں اور سیاحوں کو فوراً سے پیشتر کشمیر چھوڑ کر چلے جانے کے لئے کہا گیا تھا، کو حکومت نے 70 دن بعد گزشتہ بدھ کوواپس لیا۔ یعنی اب سیاح کشمیر آسکتے ہیں اور یہاں کے سیاحتی مقامات کی سیر کرسکتے ہیں۔
تاہم موجودہ صورتحال یہ ہے کہ روئے زمین پر جنت کہلانے والی وادی کی تمام سیاحتی مقامات سنسان منظر پیش کررہی ہیں۔ ان سیاحتی مقامات پر واقع سبھی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤسز بند یا خالی ہیں۔ وہ ہزاروں افراد جن کی روزی روٹی سیاحتی شعبے پر منحصر ہے کو شدید مالی دشواریاں درپیش ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد قرض لے کر زندگی گزر بسر کرنے لگے ہیں۔
کیا کہتے ہیں سیاحتی شعبے سے وابستہ افراد
وادی کشمیر میں سیاحتی شعبے سے وابستہ افراد 5 اگست کو لئے گئے فیصلوں جن کے تحت جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے گئے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں تبدیل کیا گیا، سے بے حد مایوس اور ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی میں سیاحتی سرگرمیوں کی فوری بحالی کے امکانات مخدوش ہیں کیونکہ سیاح اُس جگہ جانا نہیں چاہیں گے جہاں حالات خراب ہیں۔
ٹورسٹ ٹیکسی آپریٹرس ایسوسی ایشن کشمیر کے ایک عہدیدار علی محمد نے بتایا کہ سیاحوں کے متعلق ایڈوائزری تو ہٹ گئی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ سیاح نہیں آئیں گے کیونکہ بقول ان کے سیاح وہاں نہیں جانا چاہیں گے جہاں حالات خراب ہیں۔
انہوں نے کہا؛’ایڈوائزری تو ہٹی لیکن ہم جانتے ہیں کہ سیاح نہیں آئیں گے۔ دہلی میں حالات خراب ہیں اور مجھ سے کہا جائے دہلی گھومنے جاؤ، کیا میں جاؤں گا؟ اس وقت تو یہاں سیاحوں کا زبردست رش رہتا تھا۔ لیکن 5 اگست کو لئے گئے فیصلوں سے پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں ہم نے ٹیکسی اسٹینڈ کو بند رکھا ہے۔ اب ہمارے پاس آرام کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہے’۔
ایسوسی ایشن کے ایک اور عہدیدار ناز محمد کا کہنا ہے کہ سیاحتی شعبے سے وابستہ بیشتر ٹیکسی مالکان قرضے میں ڈوبے ہیں اور انہیں بغیر کوئی پیسہ کمائے انشورنس کی قسطیں اور ٹوکن ٹیکس ادا کرنا پڑرہا ہے۔
ان کا کہنا تھا؛’اس سال بڑی تعداد میں سیاح یہاں آئے تھے۔ حالات بھی ٹھیک تھے۔ ہم اس وقت خدا کے فضل و کرم سے زندگی گزر بسر کررہے ہیں۔ بیشتر ٹیکسی مالکان نے بینکوں سے قرض لے رکھا ہے۔ وہاں اب سود پر بھی سود چڑھے گا۔ بینک کے قرضے کی فی الحال بات چھوڑیے۔ ہمیں انشورنس کی قسطیں، ٹوکن ٹیکس وغیرہ ادا کرنا ہی ہے۔ انشورنس کی قسط 25 ہزار سے 35 ہزار ہے’۔
ڈل جھیل کے ایک گھاٹ پر دھوپ سیکنے اور کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بحث و تمحیص میں مصروف شکارا والوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بند ہوجانے سے وہ روزی روٹی سے محروم ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا؛ ‘ہمارے پاس دھوپ سیکنے اور یہاں وہاں کی بات کرنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہے۔ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بند ہے۔ کیا آپ کو ڈل جھیل میں کوئی سیاح نظر آیا؟ اب اگر کوئی ہمارے شکاروں میں چڑھتا بھی ہے تو وہ مقامی لوگ ہیں جو بلیوارڈ سے اندرون ڈل کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ پانچ اگست کے فیصلوں نے یہاں سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے مشکلات سے ہمارا خدا ہی واقف ہے’۔
ہاؤس بوٹ ایسوسی ایشن کے صدر عبدالحمید وانگنو کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی طرف سے 5 اگست کو لئے گئے فیصلے کشمیر کی معیشت اور سیاحت کے لئے کاری ضرب ثابت ہوئے ہیں اور سیاحوں کی واپسی کے کوئی فوری امکانات نظر نہیں آتے۔
انہوں نے کہا؛ ‘5 اگست کو لئے گئے فیصلے کشمیر کی معیشت اور سیاحت کے لئے کاری ضرب ثابت ہوئے ہیں۔ ہاؤس بوٹ مالکان اس وقت کلی طور پر بے کار بیٹھے ہیں۔ ان کی روزی روٹی ہاؤس بوٹوں پر ہی منحصر ہے۔ ہمارا اب تک قریب دو سو کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیاحتی سیزن ختم ہوچکا ہے۔ کشمیر کو ترقی سے آراستہ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں لیکن اب تک ہمیں کوئی ترقی نظر نہیں آئی’۔
ان کا مزید کہنا تھا؛ ‘اب اگر حکومت کشمیر کی سیاحت کو پروموٹ کرنے بھی نکلے گی تب بھی اس کو پروموٹ کرنے میں زائد از چھ ماہ لگیں گے۔ سیاحوں کے دماغ میں یہ بات ہے کہ کشمیر میں جنگ چل رہی ہے اور ہڑتال ہے۔ وہ کہاں کشمیر کا رخ کریں گے؟’
سرینگر کے نوہٹہ میں واقع عاشیہ ٹور اینڈ ٹریولز کے مالک شکیل احمد نے بتایا کہ 5 اگست سے تمام ٹور ایجنسیوں کا کام ٹھپ ہے اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ پر پابندی نے پوری کردی ہے۔
انہوں نے کہا؛’پانچ اگست سے تمام ٹور ایجنسیاں بند ہیں۔ ہمارا کام سیاحتی سرگرمیوں اور انٹرنیٹ پر منحصر ہے لیکن یہ دونوں نایاب ہیں۔ ہم نے اپنے تمام ملازمین کی چھٹی کردی ہے کیونکہ جہاں ہم انٹرنیٹ کی معطلی کی وجہ سے فضائی اور ریل ٹکٹیں نکالنے سے قاصر ہیں وہیں سیاحتی سرگرمیاں ٹھپ ہوجانے کی وجہ سے ہوٹلوں کے کمرے، ہاؤس بوٹ اور ٹیکسیاں بک کرنے کے سلسلے پر بریک لگ چکا ہے’۔
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے جواں سال نوجوان تنویر احمد (تبدیل شدہ نام ) جو عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام گلمرگ میں قائم ایک ہوٹل میں منیجر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، نے کہا کہ ہوٹلوں میں کام کرنے والے تقریباً 90 فیصد افراد کی غیر معینہ مدت تک چھٹی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا؛’2 اگست کو ایڈوائزری جاری ہونے کے ساتھ جب سیاح ہوٹل چھوڑ کر بھاگنے لگے تو ہوٹل مالکان نے غیر ضروری اخراجات سے بچنے کے لئے ملازمین کی بھی چھٹی کردی۔ میں سات اراکین پر مشتمل کنبے کا واحد کفیل ہوں۔ میری چند ماہ قبل ہی شادی ہوئی ہے۔ خرچے بھی بڑھ گئے تھے۔ لیکن اب چونکہ مکمل طور پر بے کار ہوں، اس لئے بہت پریشان ہوں کہ گھر کو کیسے چلایا جائے۔ میری طرح ہوٹلوں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد بہت پریشان ہیں۔ ہوٹل مالکان کا بھی یہی حال ہے’۔
اس نامہ نگار نے وادی کی شہرہ آفاق سیاحتی مقامات گلمرگ اور پہلگام میں قائم کچھ بڑے ہوٹلوں کے لینڈ لائن نمبرات پر رابطہ قائم کیا۔ ان ہوٹلوں میں فون اٹھانے والے ملازمین نے بتایا کہ سیاحوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوٹلوں میں آپریشنز بند ہیں اور ہوٹلوں کے وارڈ اینڈ واچ شعبے سے وابستہ کچھ ملازمین کو چھوڑ کر دیگر عملے کو دو ماہ قبل چھٹی پر گھر بھیجا گیا ہے۔
گلمرگ میں گنڈولہ کی آپریشنز 2 اگست سے بند ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گنڈولہ بند رہنے کی وجہ سے جموں وکشمیر کیبل کار کارپوریشن کو اب تک زائد از 6 کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
کیا کہتی ہے حکومت
جموں وکشمیر حکومت کے پرنسپل سکریٹری شالین کابرا کی طرف سے ایک تازہ سرکاری حکم نامہ جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2 اگست کو جاری کی جانے والی ایڈوائزری واپس لی گئی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے؛ ‘گورنمنٹ آڈر نمبر 881 ہوم آف 2019 بتاریخ 2 اگست 2019 کے تحت جاری ہونے والی سکیورٹی ایڈوئزری جس میں جموں وکشمیر آنے والے سیاحوں کو وادی کشمیر میں اپنا قیام مختصر کرنے کی اپیل کی گئی تھی، واپس لی جاتی ہے۔ ریاست کا دورہ کرنے والے سیاحوں کو ہر ضروری راحت اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کیا جائے گا’۔
قبل ازیں گورنر ستیہ پال ملک نے 7 اکتوبر کو وادی کشمیر کے حالات اور حفاظتی انتظامات کا جائزہ لینے کے دوران سیاحوں کے کشمیر آنے پر لگی پابندی کو 10 اکتوبر سے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ناظم سیاحت کشمیر نثار احمد وانی نے بتایا کہ سیکورٹی ایڈوائزری کو ہٹانا ایک مثبت قدم ہے اور امید ہے کہ مواصلاتی خدمات بھی بہت جلد بحال ہوں گی جس کے نتیجے میں یہاں آنے والے سیاحوں کو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ جڑے رہنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا؛ ‘ہم سیاحوں کو دوبارہ کشمیر لانے کے لئے ملک اور بیرون ملک روڑ شو کریں گے۔ ملک میں قائم اپنے دفاتر کو بھی متحرک کیا جائے گا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی مدد طلب کریں گے۔ اشتہاروں کے ذریعے یہاں کی سیاحت کو پروموٹ کرنے کی کوششیں کریں گے’۔
یہ پوچھے جانے پر کہ سیاحتی شعبے سے وابستہ افراد جن کا گزشتہ زائد از دو ماہ کے دوران غیر معمولی نقصان ہوا ہے، کے لئے کون سے اقدامات اٹھائیں جائیں گے، ان کا کہنا تھا؛’ہم ایک پالیسی مرتب کریں گے جس میں تمام متعلقین کا خیال رکھا جائے گا
(مضمون نگار کشمیری صحافی ہیں)