جموں و کشمیر: میر واعظ کی پارٹی پر پابندی، مقامی جماعتوں نے کہا – اختلاف رائے کو دبایا جا رہا ہے

مرکزی وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی لگا دی ہے۔ میرواعظ نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اے اے سی بات چیت اور مشاورت کے توسط سے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کرتی ہے۔

مرکزی وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی لگا دی ہے۔ میرواعظ نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اے اے سی بات چیت اور مشاورت کے توسط سے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کرتی ہے۔

میر واعظ عمر فاروق 7 مارچ کو سری نگر میں رمضان کے مقدس مہینے کے پہلے جمعہ کو جامع مسجد میں خطبہ دیتےہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

میر واعظ عمر فاروق 7 مارچ کو سری نگر میں رمضان کے مقدس مہینے کے پہلے جمعہ کو جامع مسجد میں خطبہ دیتےہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

سری نگر: حکمراں نیشنل کانفرنس (این سی ) اور اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ٌی) نے منگل (11 مارچ) کو مرکز کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، جس میں اعتدال پسند حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کی  قیادت  والی عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، مرکزی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن میں اے اے سی پر پابندی لگا دی ہے۔ اے اے سی ایک سماجی-سیاسی-مذہبی تنظیم ہے جس کا صدر دفتر سری نگر میں ہے اور اس کی بنیاد 1964 میں موئے مقدّس تحریک کے عروج پر رکھی گئی تھی۔ اس پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ 1967 (یو اے پی اے) کے دفعات کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اے اے سی ‘غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو ملک کی سالمیت، خودمختاری اور سلامتی کے لیے نقصاندہ ہیں۔’ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اے اے سی کے ارکان ‘جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے لیے دہشت گردانہ  سرگرمیوں اور ہندوستان  مخالف پروپیگنڈے کی حمایت میں ملوث تھے۔’

وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اے اے سی کے لیڈران اور ممبران ‘جموں و کشمیر میں علیحدگی پسنداور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت سمیت غیر قانونی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں ملوث تھے۔’

میرواعظ کے خلاف جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے درج چار معاملےاور ایک نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی طرف سے درج کیس، جس میں میرواعظ کے سابق ترجمان آفتاب احمد شاہ کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت ‘کی مستحکم  رائے ہے کہ… یہ ضروری ہے کہ اے اے سی کو فوری اثر سے غیر قانونی ایسوسی ایشن قرار دیا جائے۔’

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ‘غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ 1967 (1967 کا 37) کی ذیلی دفعہ (1) کے ذریعے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مرکزی حکومت عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیتی ہے۔’

کارروائی کی مذمت

ایکس  پر ایک پوسٹ میں میرواعظ، جو کشمیر کے ایک ممتاز مذہبی رہنما بھی ہیں، نے حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ اے اے سی’جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ مکمل طور پر غیر متشدد اور جمہوری طریقوں سے ان کی عزائم  اور حقوق کی وکالت میں کھڑا ہے اور بات چیت اور مشاورت کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کرتا ہے۔’

میرواعظ نےاس  فیصلے کو 2019 میں جموں و کشمیر کی تقسیم اور اسے یونین کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے معاملے سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اے اے سی کے اراکین نے ‘جیلوں اور قید اور یہاں تک کہ شہادت بھی پائی ہے۔’

‘یہ اقدام  اگست 2019 سے جموں و کشمیر کے معاملے میں اپنائے جا رہے ڈرانے دھمکانے اور بے اختیار کرنے کی پالیسی کے تسلسل کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔ حق کی آواز کو طاقت کے ذریعے دبایا جا سکتا ہے، لیکن اسے خاموش نہیں کیا جا سکتا،’ انہوں نے کہا۔

مقامی جماعتوں نے بھی تنقید کی

میرواعظ کی حمایت میں سامنے آتے ہوئے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ فیصلہ ‘کشمیر کے سماجی اور سیاسی منظر نامے کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔’

مفتی نےایکس  پر لکھا: ‘اختلافات کو دبانے سے تناؤ حل ہونے کے  بجائے اوربڑھے گا۔ جموں و کشمیر حکومت کو ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔ جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات نہیں بلکہ اس کا مطلب شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ کشمیرکی آواز کو دبانا بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی ایجنڈے کو پورا کر تا ہو، لیکن یہ  آئین کو کمزور کرتا ہے، جو ان حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مرکزی حکومت کو اپنے نقطہ نظر کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے اور سخت ہتھکنڈوں سے دور رہنا چاہیے۔’

نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر علی محمد ساگر نے کہا کہ میرواعظ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کی ’’آئرن فسٹ  پالیسی‘‘ کا ایک اور شکار بن گئے ہیں۔

انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ اے اے سی (عوامی ایکشن کمیٹی) اور جے کے آئی ایم (جموں کشمیر اتحاد المسلمین) کو وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت لایا ہے۔ میرواعظ خاندان امن، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت رہا ہے اور اس نے جموں و کشمیر کو اپنی سیکولر ساکھ کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔ ایسے اقدامات سے جموں و کشمیر کے حالات میں بہتری نہیں آئے گی، ہندوستانی حکومت  کو علیحدگی کے بجائے مفاہمت کا راستہ اپنانا چاہیے…’

دریں اثنا، ایک دوسرے نوٹیفکیشن میں مرکزی وزارت داخلہ نے مسرور عباس انصاری کی زیر قیادت جموں و کشمیر اتحاد المسلمین (جے کے آئی ایم) پر بھی پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

یہ تنظیم میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں اعتدال پسند حریت کانفرنس کا حصہ رہی ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جے کے آئی ایم کے ارکان ‘ملک کے آئینی اختیار اور آئینی نظام  کی عزت نہیں کرتے ہیں، ‘ملک دشمن اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر جموں و کشمیر کی ہندوستان سے علیحدگی میں مدد کرتے ہیں؛ لوگوں میں عدم اطمینان کے بیج بوتے ہیں۔ لوگوں کو امن و امان کو غیر مستحکم کرنے پر اکساتے ہیں؛ جموں و کشمیر کو یونین آف انڈیا سے الگ کرنے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں  اور حکومت کے خلاف نفرت کو فروغ دیتے ہیں ۔’