سرنکوٹ پونچھ: کورونا کے خاتمے کے بعد بھی کیوں تعلیم سے محروم ہیں بچے

کورونا نے بچوں کا تعلیمی حق پوری طرح سے چھین لیا۔حالاں کہ کورونا کے دوران آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا گیاتھا، لیکن بدقسمتی سےعلاقے میں موبائل ٹاور نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے بچوں کو آن لائن کلاسز لگانے کا موقع میسر نہیں آیا۔

کورونا نے بچوں کا تعلیمی حق پوری طرح  سے چھین لیا۔حالاں کہ کورونا کے دوران  آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا گیاتھا، لیکن بدقسمتی سےعلاقے میں موبائل ٹاور نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے بچوں کو آن لائن کلاسز لگانے کا موقع میسر نہیں آیا۔

ضلع پونچھ کے گورنمنٹ مڈل اسکول چکھڑی بن اور مڈل اسکول موڑھا بچھائی کی تصاویر۔ جہاں بچوں نے کورونا کے بعد دوبارہ تعلیمی دور کا آغاز کیا۔ کورونا کے دوران ان بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس علاقہ میں نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ فوٹو خالدہ بیگم

ضلع پونچھ کے گورنمنٹ مڈل اسکول چکھڑی بن اور مڈل اسکول موڑھا بچھائی کی تصاویر۔ جہاں بچوں نے کورونا کے بعد دوبارہ تعلیمی دور کا آغاز کیا۔ کورونا کے دوران ان بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس علاقہ میں نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ فوٹو خالدہ بیگم

میں نے18 سال  کی عمر میں نے بارہویں پاس کی۔ میں نے خواب سجائے تھے کہ  اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کسی اچھے عہدے پر فائز ہوجاؤں گی۔ لیکن اسی دوران کورونا وائرس نے پوری دنیا کے ساتھ جموں کشمیر کو بھی اپنی زدمیں لے لیا

یہ کہنا ہے ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں فضل آباد میں مقیم نجمہ کوثر کا۔جنہوں نے کورونا کے دوران مجبوراََ اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ، شادی کے بعد بھی میں اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہتی تھی، میرے شوہر نے اس  میں میرا پورا ساتھ بھی دیا،لیکن بد قسمتی سےجس سال میں نے گریجویشن کے لیے  ڈگری کالج سرنکوٹ میں داخلہ لیا۔ اسی سال کورونا کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہوگئے اور میری تعلیم ادھوری رہ گئی۔دو سال بعد اب میری مصروفیات میں بڑھ گئی ہیں ، اور تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کہیں دب سی گئی ہے۔ میری خواہش تھی کہ دوسری لڑکیوں کی طرح میں بھی تعلم حاصل کرکے اچھا مقام حاصل کر وں۔ لیکن میرا خواب بس خواب ہی رہ گیا ہے۔

غورطلب ہے کہ ضلع پونچھ سے محض آٹھ کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤں سلوتری میں تعلیمی بحران شدید ہے۔سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ سال تک سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہونے کے باعث اس گاؤں کے بچوں کی تعلیم شدید طور پر متاثر ہوئی۔

اسی گاؤں کی وارڈ نمبردو کی پنچ شمیم اختر کہتی ہیں کہ ہمارا گاؤں عین سرحد کے اوپر ہے اور آزادی سے لےکر گزشتہ سال تک یہاں کی عوام نے انتہائی کرب و الم کا دور دیکھا ہے اوریہی وجہ ہےکہ یہ علاقہ آج بھی دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔

وہ کہتی ہیں ؛ دراصل گزشتہ سال سرحد پر دونوں ممالک کے مابین سیز فائر ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں امن کا قیام تو عمل میں آیا، لیکن کورونا نے اس علاقے کے بچوں کا تعلیمی حق پوری طرح  سے چھین لیا۔ کورونا کے دوران  بچوں کی تعلیم کے لیے آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا گیاتھا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے علاقے میں موبائل ٹاور نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے بچوں کو آن لائن کلاسز لگانے کا موقع میسر نہیں آیا۔

اسی گاؤں کے ایک رہائشی عبدالرشید کہتے ہیں کہ ،میری بیٹی (نام مخفی) نے دسویں جماعت کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اور میں اپنی بیٹی کو مزید تعلیم دلوانا چاہتا تھا، لیکن کورونا کی وجہ سے میری بیٹی کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔

وہ کہتے ہیں، میری خواہش تھی کہ میں اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے مراحل تک پہنچاؤں گا لیکن کورونا کی وجہ سے میری بیٹی کے قیمتی دو سال ضائع ہوگئے۔اور اب دوبادہ اس تعلیمی سلسلہ کو شروع کرنا بہت مشکل کام ہے۔

ان  کا دعویٰ ہے کہ ، اسی طرح سینکڑوں بچے ہیں جن کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔

انگریزی اخبار’دی  نارتھ لائن‘لکھتا ہے کہ ’یونین منسٹر آف ایجوکیشن’درمندھر پردھان‘کے مطابق، جموں کشمیر میں ڈراپ آؤٹ کی شرح سال 2019-20 میں سکینڈری سطح پر 16.7  اور ایلیمنٹری سطح پر ڈراپ آؤٹ کی شرح 3.7 ہے۔

 انہوں نے مزید کہا  ہےکہ، ڈپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشن اینڈ لیٹریسی منسٹری آف ایجوکیشن کی جانب سے سمگر شکشا اسکیم کا انعقاد عمل میں لایا گیا ہے جس  کے تحت بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ بچیوں کی سہولت کے لیے جگہ جگہ تعلیمی ادارے کھولے جارہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ دور دراز کے پہاڑی  علاقوں میں اساتذہ کے لیے کوارٹر تعمیر کیے جارہے ہیں۔اضافی اساتذہ اور خواتین اساتذہ کو تعینات کیا جارہاہے،مفت کتابیں،مفت وردی،اور طالبات و اساتذہ  کے لیے علیحدہ طور پر بیت الخلاء تعمیر کیے جارہے ہیں۔طالبات کی شرکت کے لیے مختلف پروگرام عمل میں لائے جارہے ہیں۔اور جینڈر سینسٹیوکےتعلق سے نصاب پڑھایا جارہا ہے۔

تاہم زمینی سطح پر اس کا نفاذ ابھی تک عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ اس کی زندہ مثال ضلع پونچھ کے متعدد تعلیمی ادارے ہیں جہاں عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔بیت الخلاءپورےطور پربن کر تیار نہیں ہے۔ جہاں کہیں بیت الخلاء بن چکے ہیں وہ بھی استعمال کے لائق نہیں  ہیں، پانی کی عدم دستیابی بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔

انہی تعلیمی اداروں میں ضلع پونچھ کے سرحدی گاؤں سلوتری کا مڈل اسکول بھی ہے۔ جہاں کی عمارت  خستہ حالی کا شکارہے اور بیت الخلاء تعمیر تو کیا گیا ہے لیکن اس میں نہ تو پانی موجود  ہےاور نہ ہی اس پردہ کے لیے دروازے ہیں۔

 اسی اسکول کی طالبہ آفرین کہتی ہیں کہ، ہمارے اسکول میں بیت الخلاء نہ ہونے کی وجہ سے شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔وہیں اس گاؤں کے ایک مقامی عبدالرشیدکہتے ہیں کہ ،میری بیٹی نے آٹھویں پاس کی ہے۔ لیکن گاؤں میں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے میں اس کی تعلیم جاری نہ رکھوا سکا۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ،گاؤں جھلاس جو ہمارے گاؤں سے چند کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اس گاؤں میں ایک ہائی اسکول ہے لیکن مخلوط تعلیمی نظام ہونے کی وجہ سے میں اپنی بیٹی کو مزید تعلیم نہیں دلو سکتا۔

ضلع پونچھ کے دور دراز علاقاجات میں سڑک کی عدم دستیابی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ علاقے مکمل طور پر ملک کے دیگر حصوں سے کٹے ہوئے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے لیے تعمیر کی گئیں  عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ بارش کے  ایام میں ان عمارتوں میں بارش کا پانی آتا ہے اور کئی عمارتیں  ایسی ہیں جو بچوں کے بیٹھنے کے قابل ہی نہیں۔ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں ’بچھائی محلہ اپر کلالا‘ میں تعمیر شدہ اسکول بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔ اسکول میں تعینات  استانی شمیم النساء کہتی ہیں کہ،گورنمنٹ پرائمری اسکول اپر کلالا کی عمارت بچوں کے بیٹھنے کے قابل نہیں ہے۔ جوں ہی بارش شروع ہوتی ہے  پانی اسکول کی عمارت کے اندر آجاتا ہے ہمیں بارش کے ایام میں مجبوراََ بچوں کی چھٹی کرنی پڑتی ہے۔ ہم نے چند ماہ قبل اس عمارت میں مرمت کا کام کیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی چھت سے بارش کا پانی نہیں رکا۔ ہمارے پاس صرف دو ہی کمرے ہیں ایسے میں بچوں کو یہاں تعلیم دینا بہت مشکل ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ،اس اسکول کے ساتھ بیت الخلاء بھی تعمیر کیا گیا تھا لیکن اعلیٰ اور معیاری میٹریل نہ لگائے جانے کی وجہ سے اس کی دیواریں ٹوٹ گئی ہیں اور یہ استعمال کے قابل نہیں ہے اور ہمیں مجبوراََ قضائے حاجت کے لئے پروسیوں کے بیت الخلاء کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ وہیں اسکولی بچوں کو بھی اس تعلق سے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم نے اس حوالےسے اعلیٰ حکام کو کئی بار مطلع کیا لیکن ہماری اس پریشانی کا ازالہ آج تک کسی نے نہیں کیا۔

اسی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں ہاڑی لور محلہ عثمانی والا میں پرائمری اسکول کی عمارت گزشتہ کئی سالوں سے بوسیدگی کا شکار ہوچکی ہے۔اس تعلق سے اسی گاؤں کے ایک نوجوان انوار الحق کہتے ہیں کہ،یہ عمارت سال 2000 میں بچوں کی سہولت کے لیے تعمیر کی گئی تھی، لیکن اس میں معیاری سامان استعمال نہیں کیا گیا۔جس کی وجہ سے چند سالوں میں ہی یہ عمارت اچانک زمین بوس ہوگئی۔اس کے بعد جب محکمہ کے افسران کو اسبارے اطلاع دی گئی تو سال2013میں زونل ایجوکیشن افسر نے اس عمارت میں زیر تعلیم بچوں کو گورنمنٹ پرائمری اسکول محلہ اعوانا میں منتقل کیا جہاں آج بھی اس محلہ کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے ڈیڑھ کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے جو کم عمر بچوں کے لیے انتہائی مشکل کام ہے۔

تحصیل منڈی کے دور دراز پہاڑی علاقہ چکھڑی بن میں بھی تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے مقامی بچوں کی تعلیم پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ علاقہ میں سڑک سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں نہ تو اساتذہ وقت پر پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی بچے وقت پر تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔

فوٹو: خالدہ بیگم

فوٹو: خالدہ بیگم

اس گاؤں میں گورنمنٹ مڈل اسکول لور بن کے انچارج  غلام حسین کہتے ہیں کہ،سال   1988  میں یہاں یہ اسکول تعمیر کیا گیا ہے۔یہاں پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کوتعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس صرف دو ہی کمرے ہیں جہاں ہم ان بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں پر تعینات اساتذہ کو اسکول تک پہنچنے میں کئی گھنٹوں کاسفر طے کرکے ان پر خطر راستوں سے یہاں پہنچنا پڑتا ہے۔اور موسم سرما میں یہاں بھاری برف باری کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور موسم گرما میں جب گھاس زیادہ ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں جنگلی جانور عام ہوجاتے ہیں۔ہمیں اسکول تک پہنچنے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی گاؤں کے ایک بزرگ عبدالشکوراپنے علاقہ کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ،اس علاقہ میں مڈل اسکول تو ہے جہاں بچے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے بچے اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ مزید تعلیم حاصل کریں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہےکہ اس علاقہ میں کوئی بھی ہائی اسکول  نہیں ہے ۔ یہاں بہت سی ایسی بچیاں ہیں جو اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکیں اور گھر والوں نے ان کی مجبوراََ شادیاں کروا دیں۔کیونکہ ہائی اسکول پہنچنے تک ہمارے بچوں کو سنسان راستوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے اور تقریباََتین گھنٹے کا سفر طے کرکے اسکول تک پہنچنا پڑتا ہے جو ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔

اس تعلق سے جب زونل ایجوکیشن افسر منڈی بشیر احمدسے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ،کورونا مہاماری کے بعد تعلیمی نظام پوری طرح سے برباد ہوگیا ہے اور ہماری پوری کوشش ہےکہ اس نظام تعلیم کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ جو اساتذہ کسی دوسری جگہ اٹیچ ہیں انہیں ہم دوبارہ پہلی پوسٹنگ پر واپس لائیں گے۔

مقامی لوگوں نے مرکزی حکومت سے یہ مانگ کی کہ دور دراز علاقاجات جہاں سڑکیں آج تک تعمیر نہیں کی گئی ہیں ان علاقاجات کی جانب خصوصی توجہ دی جائے  اور بوسیدہ تعلیمی اداروں کی مرمت کی جائے تاکہ تعلیمی نظام بہتر ہوسکے  اور ہمارے اس پسماندہ علاقے کے بچے بھی بلندیوں کو اپنا مقدر بنا سکیں۔

( یہ رپورٹ این ایف آئی کی آزادصحافیوں کے لیے فیلوشپ پروگرام کے تحت تیار کی گئی ہے۔)