اشعر نجمی کا ناول ‘کانگریس ہاؤس’ ایک بڑے سیاسی کھیل کو موضوع بناتے ہوئے جمہوریت کی ہوشیاری، ہوسناکی اور اس کی آمریت کے سارے بھید کھول دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ناول ہماری مٹی کا ہمزاد ہے، ہمارا ہمزاد ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے دکھوں کا اور ہمارے نفسی وجود کا ہمزاد ہے۔

تصویر بہ شکریہ: فیس بک
حال ہی میں ممبئی ٹرین بلاسٹ (2006) کے تمام ملزمین کو عدالت نےرہا کر دیا۔یہ 19 سال سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔انہیں کس بات کی سزا دی گئی؟ کیاان کی مذہبی پہچان ان کی پیشانی پر گناہ کی صورت لکھ دی گئی ؟
شاید آپ سوچیں کہ ناول پربات کرنے کے بجائے میں یہ کون سا قصہ لے کر بیٹھ گئی۔لیکن یہ قصہ نہیں ، ایک پوری قوم کا اجتماعی بین ہے۔
اس’ سیاست‘ کی تفہیم آسان ہے اور مشکل بھی؟آسان یو ں کہ مسلمانوں کی پیشانی پر ان کا گناہ لکھ دیا گیا ہے، اورمشکل اس لیے کہ آخر مسلمان ہونا جرم کیوں ہے؟
اس کیوں کی تلاش تاریخ میں کی جا سکتی ہے، سیاست میں کی جاسکتی ہے اور عدالتوں کے ساتھ ساتھ اپنی ہر سانس میں گھلتی اجنبیت اور اس بیگانگی کے لمبے ہوتے سایے میں بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ سب کئی طرح سے ہم سب کا انفرادی مشاہدہ /تجربہ ہو سکتا ہے، لیکن ہےاجتماعی دکھ۔ خبروں میں ہمارے اسی دکھ کی سیاہی پر سیاست کی منھ لگی سرخی پھیلا دی گئی ہے۔ ہمارے خون کی چاٹ سے سیاست کی زبان موٹی ہو چکی ہے اور اسی طرح کی’سیاست‘کا تخلیقی ، تجمیلی اور توسیعی بیانیہ اشعر نجمی کا ناول ’کانگریس ہاؤس‘ہے۔
میں اس ناول کو کمزوراورمحکوموں کا بیانیہ بھی کہہ سکتی ہوں، یہ ہے بھی ،لیکن اس کی تخلیقی تہیں کسی اکہری ساخت پر دیر تک ٹھہرنے نہیں دیتیں۔ وہ تاریخ کے ورق کھولتی ہے مگر تاریخ کا ہندسہ نہیں لکھتی ، دراصل وہ وقت کے تسلسل میں بنتی بگڑتی ہے اوراس کے پڑاؤ سےتخلیقی معنی کشید کرتی ہے۔
اس طرح کے تخلیقی عمل میں ہمارے دیکھے بھالے بلکہ ہماری جان پر گزرے صدمات کو اشعر نجمی نے بڑی خوبی سے فکشن بنا کر پیش کیا ہے۔ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ارے اس واقعہ کا تو مجھے پہلے سے علم ہے، ہاں یہ ضرور لگتا ہے ایک مانوس بلکہ اخبار کی خبروں کو تخلیقی سطح پر اس طرح بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ اشعر نجمی کا تخلیقی صدمہ ہی ہے جو ناول کے بیانیہ کو اس کی فطری افسانویت سے ہمکنار کرتا ہے۔
پتہ نہیں ، میں جو کہنا چاہ رہی ہوں ، وہ کہہ پا رہی ہوں یا نہیں، لیکن ان باتوں کے پس پردہ یہ ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ ناول میں یہ وہ مقام ہیں جہاں بیانیہ میں افسانویت کے بجائے صحافتی جوہر نمایاں ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن اشعر نجمی نے ہمارے عہد کی سیاسی کروٹوں کو اپنے کرداروں کی گھلتی سانسوں کے ساتھ لکھنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
ایسے میں ناول کی کیسی بھی تشریح کر لی جائے، بنیادی بات یہی ہے کہ یہ ناول ہماری مٹی کا ہمزاد ہے، ہمارا ہمزاد ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے دکھوں کا اور ہمارے نفسی وجود کاہمزاد ہے۔
یہاں میں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ کسی قوم کی سائیکی اور اس کی نفسیات پر اس طرح کا ناول میں نے نہیں پڑھا۔ دراصل، کئی جگہوں پر لگتا ہے کہ اشعر نجمی نے ہماری سائیکی کے تمام احوال رقم کر دیے ہیں۔
یوں دیکھیں تو اشعر نجمی کا یہ ناول ایک ایسے ملک کی علامت ہے، جو تیزی سے جنگل میں تبدیل ہو رہاہے۔اور اس میں وہ تمام حوالے ہیں جس کی وجہ سے اس کو کانگریس پارٹی اور اس کی مکروہ سیاست کا بیانیہ سمجھا جا سکتا ہےاور اگر اس میں انگریزوں کی سیاست کو بھی شامل کرلیں تویہ ناول ایک بڑے سیاسی کھیل کو موضوع بناتے ہوئے جمہوریت کی ہوشیاری، ہوسناکی اور اس کی آمریت کے سارے بھید کھول دیتا ہے ۔
اپنی آسانی کے لیے کہنا چاہتی ہوں کہ کہانی در کہانی کی تکنیک میں لکھا گیا یہ ناول اپنے اندر جہان معنی کو آباد کرتاہے۔کہیں ہندو مسلمان کے درمیان بڑھتی کشیدگی ہے تو کہیں ذات-پات کا بیانیہ۔کہیں عورت کا وجودی کرب ہے تو کہیں بے غرض، بے لوث دوستی کا بیانیہ۔
اور یقین کیجیے یہ کہانیاں ہمیں بے چین کر تی ہیں، راتوں کو سونے نہیں دیتیں اور ناول ختم کرنے کے بعد بھی اس کی گفت و شنید جاری رہتی ہے۔اصل میں تخیل اور حقیقت اس ناول میں ایک خواب کے سایے کی طرح حل ہو گئے ہیں، مطلب ہم نیند سے بیدار ہونے کے بعد بھی خواب میں ہیں ۔
سچ پوچھیے تو اس ناول کو خواب کی زبان میں لکھا گیا ناول کہنا چاہیے، بات کو اور واضح کروں تو اس کے کردار بھی ہم ہیں اور اس میں جاری رات بھی ہمارے ہی خون کی سیاہی سے لپٹی ہے۔
بہرحال ، ناول کا پس منظر ممبئی ہے ،جہاں پورے ملک سے لوگ روزی روٹی کی تلاش میں آتے ہیں اور کچھ راجن جیسے بھی ہیں جو ذات -پات کے جابرانہ نظام سے نکلنے کی کوشش میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اس نظام نےانسان سے انسان ہونے کا حق بھی چھین لیا ہے۔
ایک ایسا نظام جہاں کبھی ایک بچے کوچپل پہن لینے کی وجہ سےتشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی سرکاری اسکول کے گھڑے سے پانی پی لینے پر زدوکوب کیا جاتاہے۔
اس طرح ہرکردار سہانی، راجیش،نسرین،سیما اور راجن کی اپنی اپنی کہانی ہے۔لیکن یہ ساری کہانی ایک بڑے بیانیہ کی ذیلی کہانی ہے، یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کئی کہانیوں کو ایک مرکزی کہانی میں تبدیل کرتے ہوئے اشعر نجمی نے ہندوستان کے حوالے سے ایک اہم ناول ہمیں دیا ہے۔
ان کرداروں کا مخصوص علامتی مطلب بھی ہےاور ان پر بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن ‘سہانی’ جو ناول کامرکزی کردار کہی جا سکتی ہےاورجس کی زندگی کا بیانیہ یہ ناول ہےاور اس کی پیدائش اس ملک کی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے، ہم اس کی تخلیقی سائیکی سے یوں ہی نہیں گزر سکتے کہ؛
میں1992 -93میں ہونے والےممبئی دنگوں کا نتیجہ ہوں…میں مسلمانوں سے لیا گیا انتقام ہوں۔ص: 66
یہاں ایک ایک لفظ میں عجیب سی کرید ہے جس میں عورت کا وجودی کرب بھی ہے اور سیاست کی کریہہ صورت بھی۔ عورت اور وہ بھی سیکس ورکر ،ایک مرد کو مارے گئے اس کےتھپڑ کا بدلہ تو ریپ ہی ہو سکتا تھا؟ اور اس ریپ میں جنسی آلودگی سے زیادہ سیاست کی ہوسناکی ہے۔ شاید یہی بات یہاں کہی گئی ہے کہ عورت کے ساتھ ہونے والا ریپ کئی بار جنسی استحصال ہوتا ہی نہیں اس کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔
اقتدار کا نشہ اور تشدد کا یہ تماشا ناول میں اس مکار سیاست کی شرمگاہ کو کھول کر دکھاتا ہے۔ بار ڈانسر سے جسم فروشی تک کے سفر میں سہانی کے کردار کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے ، اس کے حوصلے کی داد دی جا سکتی ہے، لیکن یہاں سماج کی ہوسناکی اور اس کی سیاست کی تفہیم ضروری ہے۔
سہانی کی طرح ہی نسرین اور سیما کا کردار بھی پدری جبر کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس ناسور زدہ پدری سماج میں ان کی کوئی حیثیت کوئی ،وقعت نہیں۔ناول کے بیانیہ سے ایک مثال دیکھیے؛
ناصر کی پندرہ سالہ بیٹی نسرین نے بھاگنے کی کوشش کی،وہاں کھڑے ایک پولیس کانسٹبل نے اسے راستے میں ہی دبوچ لیا اور بھیڑ کی طرف دھکیل دیا۔بھیڑ نے اسے بھی ہوا میں اچھال کرآگ کی نذر کرنا چاہالیکن راجیش مہاترےنےبڑی پھرتی سے اسے درمیان میں ہی دبوچ لیا…
”یہ میرا بدلہ ہے۔“راجیش مسکرایا۔اس مسکراہٹ میں وحشت بھری طمانیت تھی……اس وقت وہ عجیب قسم کی مسرت سے سرشارتھا۔ اس نے سیما کا انتقام لے لیا تھا۔اس نے اپنی مردانگی ثابت کر دی تھی۔
”آئی!یہ تیری بیٹی نہیں…تیری بیٹی کا بدلہ ہے…میں نپنسک نہیں ہوں۔“ص:85-86
راجیش کے بدلے کی آگ نسرین کے گھر والوں کو آگ میں زندہ جلانے کے بعدبھی شانت نہیں ہوئی، وہ شانت ہوئی نسرین کے ریپ سے،اس پر مسلسل تشدد سے۔ مرد کی مردانگی کا ثبوت اس کے علاوہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟عورت بہن ہے، بیوی ہے، ماں ہے لیکن اس کی اپنی کوئی شناخت نہیں ۔اور محبت !محبت کرنے کا حق ؟وہ بھی غیر مذہب سے ،یہ تو موت کی حد تک ناقابل قبول ہے کہ مردوں کی عزت کا بار بھی عورت کے کاندھوں پرہی ہے۔

تصویر بہ شکریہ: فیس بک
جس طرح ایک طوائف کو اس سماج نے کبھی قبول نہیں کیا، اسے انسان نہیں سمجھا ، اس لیے اس کے ساتھ ہوا ریپ بھی سیکس میں شمار کیا جاتا ہے۔ شاید یہی ’دوجی حیثیت‘ آج ہندوستان کے مسلمانوں کی بھی ہے۔ چند مثالیں دیکھیے؛
”جب پوری دنیا پاگل ہو جائے تو پاگل پن قانون بن جاتا ہے…پھر کسی قوم کی اجتماعی یادداشت کا ریپ بھی صرف سیکس کہلاتا ہے…باہمی رضامندی والا سیکس…بابری مسجد کی مسماری،گجرات کا قتل عام،ممبئی کے فسادات،کشمیریوں کا استحصال،لنچنگ کے واقعات،وقف کی زمین پر قبضہ…یہ سب سیکس ہیں۔ریپ تھوڑی ہیں…“
”یہاں بلڈوزر بھی ریپ نہیں کرتا،سیکس کرتا ہےمائی لارڈ…وہ مکانوں،دکانوں،مدرسوں،مقبروں،عبادت گاہوں کا پہلے بڑے پیار سے بوسہ لیتا ہے…پھر ان کی سرین دباتا ہے…پھران کےکپڑے پھاڑتا ہے…پھر ان میں اپنا لوہے کا عضو تناسل زور سے گھسیڑ دیتا ہے…“
”قانون بنانے اورچلانے والے منتری اور سنتری لوگوں سے کاغذ مانگتے ہیں…ان کی اصل کا…ان کی شناخت کا…وہ انھیں گھس پیٹھیاکہتے ہیں…منگل سوتر اور بھینس چرانے والا کہتے ہیں…غدار اور پاکستانی کہتے ہیں…کچھ خاموش بھی ہیں…کچھ منمنا بھی رہے ہیں…ان کی خاموشی اورمنمناہٹ میں ایک خوف چھپا ہے…ایک دور اندیشی چھپی ہے…وہ اپنے سامنے ہونے والے ریپ کے گواہ ہیں لیکن وہ اس کے خلاف گواہ نہیں بننا چاہتے…انھیں ڈر ہےکہ ریپ کرنے والوں کی بھیڑ ان کی لنچنگ نہ کر دے…ان کا وجود جنگل کی سیاست سے ناپیدنہ ہو جائے…“ص:147-148
یہ عجیب طرح کا بیانیہ ہے جو ناول میں منقلب ہوتا رہتاہے، ریپ اور سیکس کے اس بُعد میں ہی ہندوستان کی ساری سیاست کا استعارہ موجود ہے، ایسے میں یہ کسی کردار کی کہانی کہاں ہے یہ تو آوازوں کا جنگل ہے، جہاں ساری آوازیں گڈمڈ ہو گئی ہیں ، ہر آواز چھلنی ہے، جانے کون کس کا دکھ اٹھائے پھر رہا ہے۔
کیا ریپ اور لنچنگ دو الگ باتیں ہیں کیا عورتیں اور ہماری عبادت گاہیں یا مذہبی تشخص دو چیزیں ہیں؟ بالکل نہیں سیاست کی ہوسناکی ان سب کو نگل لینا چاہتی ہے۔ اشعر نجمی نے اسی ہوسناکی کا ناول لکھا ہے۔
اس طرح دیکھا جائے توسہانی کی کہانی کے درمیان میں ہمیں کئی اور کہانیاں ملتی ہیں۔ دھرم کے نشے میں راجیش کے انسان سے حیوان بننے کی کہانی، شاکھا پرمکھ سنیل مورے کا راجیش کو استعمال کرکے پھینک دینے کی کہانی۔بلکہ یوں کہا جائے کہ سہانی کی کہانی کے ساتھ ساتھ زیر بیانیہ ایسی کئی کہانیاں ہیں جو موجودہ بدلتے ہندوستان کی تصویریں پیش کرتی ہیں۔
شاکھا کی بڑھتی طاقت، اپنے مطلب کے لیے معصوم، غریب شہریوں کا استعمال ،بابری مسجد انہدام،ممبئی کے فرقہ وارانہ فسادات ، ڈانس بار کا بند ہونا، جسم فروشی کا بڑھ جانا، سیکس ورکرز اور طوائف کی زندگی، مذہب کا نشہ،سیاست کا مکروہ چہرہ، ذات -پات کا زہر ،مسلمانوں کی دوجی حیثیت،ماب لنچنگ، پدری جبر،آئے دن ہونے والے ریپ، عورت کی دوجی حیثیت وغیرہ۔
یہ وہ کہانیاں ہیں جس کو ہم اور آپ اس ملک میں دیکھتے، پڑھتے، سنتے آ رہے ہیں، البتہ اشعر نجمی نے ان کہانیوں کے بطن میں سیاست کی ہوسناکی کو کمال فن کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔
ممبئی فسادات کی جو تصویر ناول کے بیانیہ میں کھینچی گئی ہے وہ کم وبیش پورے ہندوستان کی حقیقت ہے۔ ممبئی ،گجرات،سنبھل،ناگپور، مرشد آباد،مظفر نگر، اورنگ آباد، نالندہ ،مونگیر، اس طویل لسٹ میں بس شہر کے نام بدلتے جائیں گے، سیاست کی ہوسناکی ہر جگہ ایک سی ہی ہے۔
پولیس کی تماشائی حیثیت بھی اسی سیاست کی ہوسناکی ہے جو ان فسادات کے دوران آگ میں گھی کا کام کرتی ہے، بعد میں قانون کی پر اسرار مسکراہٹ بھی اسی سیاست کو مستحکم کرتی ہے کہ؛
اجنبیت کی یہ دیوار اتنی اونچی ہو گئی تھی کہ ان کی آنکھوں سے اپنی ساجھی وراثت اور مشترکہ روایت تک اوجھل ہو گئیں۔اس کے بعد کچھ نہیں بچا…سوائے ایک دبیز اندھیرے کے۔چیخوں ،کراہوں اور مدد کی پکار کے درمیان قانون کی پر اسرار مسکراہٹ اس اندھیرے کو مزید دبیز کرتی چلی گئی۔ص: 82
مذہب ایک ایسا نشہ ہے جس میں سارے رشتے چتا کی نذر ہو جاتے ہیں۔راجیش مہاترے کا کردار اس کی زندہ مثال کہی جا سکتی ہے۔بھائی سے کب وہ دھرم کا رکشک اورتلک نگر کا کنگ بنا دیا گیا۔ا س کے پیچھے کی سیاست کو بھی ناول میں پیش کیا گیا ہے۔ نہ جانے ایسے کتنے راجیش ہمارے آس پاس موجود ہیں جنھیں شاکھا میں مذہب کا نشہ دے کر جانور میں تبدیل کیا جارہا ہے۔
سیما بیچ بچاؤ کرنے آئی تو راجیش نے سب کے سامنے اسے بھی دو ہاتھ جڑ دیے۔بہن نے غور سے بھائی کو دیکھا۔بھائی بڑا ہو چکا تھا۔ اس کی سوئی ہوئی مردانگی اس کی طرح جوان ہو چکی تھی۔وہ اس کا رکشک بن چکا تھا۔رکشک نے فرمان سنایاکہ گھر سے باہر نکلنا بند۔جب ماں نے اسے گالی دیتے ہوئےپوچھا کہ تیرا پیٹ کون بھرے گا؟تو رکشک نے ماں کو بھی دوتھپڑ رسید کر کے اس کے دودھ کا قرض وہیں ادا کر دیا۔ص:60
یوں تو یہ سہانی، راجیش، راجن ،سیما،نسرین کی کہانی ہے، لیکن ناول نگار نے جنگل میں تبدیل ہوتےاس ملک کے تقریباًسبھی مسائل کو ناول کے بیانیہ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان کرداروں کی کہانی کے درمیان میں آنے والی یہ تحریریں با معنی بھی ہیں اور موجودہ ہندوستان،خصوصی طور پر مسلمان آج جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کا بیانیہ ہے۔
چاہے وہ شناخت کا مسئلہ ہو، شہریت قانون ہو، ہندو مسلم فسادات ہوں،وقف کی زمین پر قبضہ ہو، ان کے گھروں پربلڈوزر چلانا ہویااپنے وجود کی لڑائی، وہ اپنے ہی ملک میں کسی دوئم درجے کے شہری کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
خوف کے سائے اورنفرت کا اندھیرا اتنا دبیز ہے کہ اس کے پرے دیکھنا بہت مشکل ہے۔ رہی سہی کسر ’گودی میڈیا‘ نے پوری کر دی ہے۔ناول میں ایسے کئی موضوع /مسائل سے سابقہ پڑتا ہے؛
بات کسی مسجد کے ٹوٹنے کی نہیں تھی،ان میں سے بیشتر تو اپنے محلے کی مسجد میں بھی شاذ ہی جاتے تھے۔ان کی مغلوں سے رشتہ داری بھی نہ تھی لیکن ’شناخت‘ایک ایسا زہر بجھا ہوا تیر تھا،جو ان کے دلوں میں اتر کت ترازو ہو گیا تھا۔ انھیں لگا جیسے ان کی ماں ہی انھیں ماں کی گالی دے رہی ہو…انھیں اپنی ناجائز اولاد بتا رہی ہو…ص:81-82
ناول نگار نےتاریخی واقعات سے ماضی کی جھلکیاں اور سیاست کا مکروہ چہرہ دونوں کو بیانیہ کا حصہ بنایاہے۔کانگریس ہاؤس اور این بی کمپاؤنڈ کے ذریعےماضی اور حال کا تصادم پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہیں علامتی طور پر تو کہیں براہ راست؛
اس کا مقدمہ میرے لیے یوں بھی اہم تھا کہ یہ کانگریس ہاؤس اور اس سے ملحق این بی کمپاؤنڈ سے جڑا تھا۔یہ صرف دو عمارتیں ہی نہیں بلکہ ان سے وابستہ ان کا تاریخی کردار بھی تھا جس میں چمک بھی تھی اور سیاہ دھبے بھی۔ ص: 52
کانگریس پارٹی کی تاریخ، جنگ آزادی میں اس کا رول، ملک کی تقسیم ، تقسیم کے بعد شروع ہونے والی اس کی سیاست اور کئی سیاست دانوں کا ذکر ناول میں موجود ہے۔ناول کے بیانیہ میں اس ملک کی تاریخ مختلف علامتوں ،شخصیتوں کے ساتھ پیش کی گئی ہے، اور اشعر نجمی کے اس ناول میں ہمارا ملک جس جنگل میں تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے وہاں شاید کوئی قانون/دستور نہیں ہے۔ ایک عجیب سی بے ہنگم دنیا کی تصویر کشی ہے۔
دوسرےلفظوں میں کہوں تو’کانگریس ہاؤس‘ہمارےملک کا بیانیہ ہے اورہماری زندگی کابھی۔وہ زندگی/سماج جو رنگ،نسل،ذات-پات،مذہب،جنس،کمزور-طاقتور ،حاکم -محکوم نہ جانے کتنے خانوں میں تقسیم ہے۔یہ ناول زندگی کی تمام تر الجھنوں کی طرح ہمارے سامنے کئی سوال چھوڑ جاتا ہے۔
یہ کانگریس ہاؤس کیا ہے؟ راجیش کون ہے؟انھیں کون پیدا کر رہا ہے؟ سیما، نسرین، سہانی کون ہیں؟یہ کون سا جنگل ہے جہاں لکڑ بگھے تعداد میں زیادہ ہو گئے ہیں؟کیا اس جنگل کی سیاست سے آپ واقف نہیں؟ اور کیا آپ نہیں جانتے کہ اگرآپ کے پاس دیکھنے والی نظریں اور بولنے والی زبان موجود ہے، تو آپ کا انجام’ کانگریس ہاؤس ‘کےراوی(وکیل) سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔
بہرحال، سیاست کی ہوسناکی پر اشعر نجمی کا یہ ناول جہاں ہمارے تجربے اور احساس کی روداد ہے وہیں ان کے غیرمعمولی تخلیقی مشاہدے کی مثال بھی ہے۔
آخر میں جملہ معترضہ کے طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ ناول کی صورت گری میں یا ٹیگ لائن میں یہ جو کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ’ایک سیاست دان پر بھروسہ کرنا طوائف کے ساتھ محبت کرنے جیسا ہے‘ تو اس کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہاں وہ اسی طوائف کے خلاف چلے گئے ہیں جو ان کے ناول میں موجود ہے اور شاید طوائف سے محبت کے جذبےکو اس طرح نہیں دیکھا جا نا چاہیے۔