جموں و کشمیر: میر واعظ کی پارٹی پر پابندی، مقامی جماعتوں نے کہا – اختلاف رائے کو دبایا جا رہا ہے

مرکزی وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی لگا دی ہے۔ میرواعظ نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اے اے سی بات چیت اور مشاورت کے توسط سے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کرتی ہے۔

مرکزی وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی لگا دی ہے۔ میرواعظ نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اے اے سی بات چیت اور مشاورت کے توسط سے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کرتی ہے۔

میر واعظ عمر فاروق 7 مارچ کو سری نگر میں رمضان کے مقدس مہینے کے پہلے جمعہ کو جامع مسجد میں خطبہ دیتےہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

میر واعظ عمر فاروق 7 مارچ کو سری نگر میں رمضان کے مقدس مہینے کے پہلے جمعہ کو جامع مسجد میں خطبہ دیتےہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

سری نگر: حکمراں نیشنل کانفرنس (این سی ) اور اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ٌی) نے منگل (11 مارچ) کو مرکز کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، جس میں اعتدال پسند حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کی  قیادت  والی عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، مرکزی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن میں اے اے سی پر پابندی لگا دی ہے۔ اے اے سی ایک سماجی-سیاسی-مذہبی تنظیم ہے جس کا صدر دفتر سری نگر میں ہے اور اس کی بنیاد 1964 میں موئے مقدّس تحریک کے عروج پر رکھی گئی تھی۔ اس پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ 1967 (یو اے پی اے) کے دفعات کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اے اے سی ‘غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو ملک کی سالمیت، خودمختاری اور سلامتی کے لیے نقصاندہ ہیں۔’ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اے اے سی کے ارکان ‘جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے لیے دہشت گردانہ  سرگرمیوں اور ہندوستان  مخالف پروپیگنڈے کی حمایت میں ملوث تھے۔’

وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اے اے سی کے لیڈران اور ممبران ‘جموں و کشمیر میں علیحدگی پسنداور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت سمیت غیر قانونی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں ملوث تھے۔’

میرواعظ کے خلاف جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے درج چار معاملےاور ایک نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی طرف سے درج کیس، جس میں میرواعظ کے سابق ترجمان آفتاب احمد شاہ کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت ‘کی مستحکم  رائے ہے کہ… یہ ضروری ہے کہ اے اے سی کو فوری اثر سے غیر قانونی ایسوسی ایشن قرار دیا جائے۔’

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ‘غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ 1967 (1967 کا 37) کی ذیلی دفعہ (1) کے ذریعے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مرکزی حکومت عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیتی ہے۔’

کارروائی کی مذمت

ایکس  پر ایک پوسٹ میں میرواعظ، جو کشمیر کے ایک ممتاز مذہبی رہنما بھی ہیں، نے حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ اے اے سی’جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ مکمل طور پر غیر متشدد اور جمہوری طریقوں سے ان کی عزائم  اور حقوق کی وکالت میں کھڑا ہے اور بات چیت اور مشاورت کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کرتا ہے۔’

میرواعظ نےاس  فیصلے کو 2019 میں جموں و کشمیر کی تقسیم اور اسے یونین کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے معاملے سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اے اے سی کے اراکین نے ‘جیلوں اور قید اور یہاں تک کہ شہادت بھی پائی ہے۔’

‘یہ اقدام  اگست 2019 سے جموں و کشمیر کے معاملے میں اپنائے جا رہے ڈرانے دھمکانے اور بے اختیار کرنے کی پالیسی کے تسلسل کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔ حق کی آواز کو طاقت کے ذریعے دبایا جا سکتا ہے، لیکن اسے خاموش نہیں کیا جا سکتا،’ انہوں نے کہا۔

مقامی جماعتوں نے بھی تنقید کی

میرواعظ کی حمایت میں سامنے آتے ہوئے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ فیصلہ ‘کشمیر کے سماجی اور سیاسی منظر نامے کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔’

مفتی نےایکس  پر لکھا: ‘اختلافات کو دبانے سے تناؤ حل ہونے کے  بجائے اوربڑھے گا۔ جموں و کشمیر حکومت کو ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔ جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات نہیں بلکہ اس کا مطلب شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ کشمیرکی آواز کو دبانا بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی ایجنڈے کو پورا کر تا ہو، لیکن یہ  آئین کو کمزور کرتا ہے، جو ان حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مرکزی حکومت کو اپنے نقطہ نظر کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے اور سخت ہتھکنڈوں سے دور رہنا چاہیے۔’

نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر علی محمد ساگر نے کہا کہ میرواعظ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کی ’’آئرن فسٹ  پالیسی‘‘ کا ایک اور شکار بن گئے ہیں۔

انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ اے اے سی (عوامی ایکشن کمیٹی) اور جے کے آئی ایم (جموں کشمیر اتحاد المسلمین) کو وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت لایا ہے۔ میرواعظ خاندان امن، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت رہا ہے اور اس نے جموں و کشمیر کو اپنی سیکولر ساکھ کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔ ایسے اقدامات سے جموں و کشمیر کے حالات میں بہتری نہیں آئے گی، ہندوستانی حکومت  کو علیحدگی کے بجائے مفاہمت کا راستہ اپنانا چاہیے…’

دریں اثنا، ایک دوسرے نوٹیفکیشن میں مرکزی وزارت داخلہ نے مسرور عباس انصاری کی زیر قیادت جموں و کشمیر اتحاد المسلمین (جے کے آئی ایم) پر بھی پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

یہ تنظیم میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں اعتدال پسند حریت کانفرنس کا حصہ رہی ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جے کے آئی ایم کے ارکان ‘ملک کے آئینی اختیار اور آئینی نظام  کی عزت نہیں کرتے ہیں، ‘ملک دشمن اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر جموں و کشمیر کی ہندوستان سے علیحدگی میں مدد کرتے ہیں؛ لوگوں میں عدم اطمینان کے بیج بوتے ہیں۔ لوگوں کو امن و امان کو غیر مستحکم کرنے پر اکساتے ہیں؛ جموں و کشمیر کو یونین آف انڈیا سے الگ کرنے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں  اور حکومت کے خلاف نفرت کو فروغ دیتے ہیں ۔’

Next Article

یوپی: فتح پور مقبرے میں توڑ پھوڑ کے معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں؛ مقامی لوگوں کے بات کرنے اور میڈیا کے داخلے پر پابندی

گیارہ اگست کو فتح پور میں مختلف ہندوتوا تنظیموں کے ہجوم نے آبو نگر واقع صدیوں پرانے مقبرے پر حملہ کیا، بھگوا جھنڈے لہرائے، ہندو رسومات ادا کیں اور قبروں  میں توڑ پھوڑ کی۔ اب تک جہاں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا گیا، وہیں پولیس نے ملزمین  کے خلاف احتجاج کرنے پر کانگریس لیڈر کو حراست میں لیا ہے۔

سوموار، 11 اگست 2025 کو فتح پور میں ایک مقبرے پر ہندو دائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان کی جانب سے مبینہ طور پر ہنگامہ آرائی کے بعد موقع پر موجود پولیس اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اترپردیش میں فتح پور کے آبو نگر علاقے میں ایک مقبرے کی توڑ پھوڑ کے معاملے میں پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے ۔ تاہم، بتایا گیا ہے کہ اس جگہ کے ارد گرد ایک کلومیٹر کے دائرے کو بیریکیڈز لگا کر گھیر دیا گیا ہے تاکہ  ممکنہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکا جا سکے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ، منگل (13 اگست) کو پولیس نےعوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور امن  و امان کوبگاڑنے کے الزام میں 150 سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا، جن میں سے 10 نامزد ہیں۔

ایف آئی آر میں جن 10 لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے ان میں دھرمیندر سنگھ (بجرنگ دل)، ابھیشیک شکلا (بی جے پی)، اجئے سنگھ (ضلع پنچایت ممبر)، دیوناتھ دھاکڑ (بی جے پی)، ونئے تیواری (سٹی کونسلر)، پشپراج پٹیل، ریتک پال (بی جے پی)، پرسون تیواری (بی جے پی)، آشیش تیواری اور پپو چوہان (بی جے پی) شامل ہیں۔

اس دوران مقامی لوگوں کو باہر کے لوگوں سے بات کرنے سے روک دیا گیا ہے اور میڈیا کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سادہ کپڑوں میں پولیس مقبرے کے اطراف کے علاقوں میں گھوم رہی ہے، مقامی لوگوں سے بات کر رہی ہے اور سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی ہے۔

واضح ہو کہ فتح پور میں 11 اگست کو اس وقت پرتشدد تصادم ہوا جب مختلف ہندوتوا تنظیموں کے ہجوم نے آبو نگر میں ایک صدیوں پرانے مقبرے پر دھاوا بول دیا، اس پر بھگوا جھنڈے لہرائے، اندر ہندو رسومات ادا کیں اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں قبروں میں توڑ پھوڑ کی۔

اس کے بعد مسلم کمیونٹی کے ارکان کے ساتھ پتھراؤ اور جھڑپیں ہوئیں، جس سے سیاسی غم و غصہ پیدا ہوا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی اتر پردیش میں امن و امان کے بارے میں سوال اٹھے۔

پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگرچہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے، اور پولیس نے کانگریس کے سٹی صدر عارف عرف گڈا اور ان کے کئی حامیوں کو توڑ پھوڑ کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے پر احتجاج کرنے پر گرفتار کر لیا ہے۔

اس دوران پارٹی کے ضلع صدر مہیش دویدی کو اس وقت نظر بند کر دیا گیا جب دو سابق ایم ایل اے پر مشتمل پارٹی کے ایک وفد نے جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔

دویدی نے پولیس کی کارروائی کو ‘آمرانہ’ قرار دیا اور انتظامیہ پر توڑ پھوڑ کے دوران ‘خاموش تماشائی’ بنے رہنے کا الزام لگایا۔ سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ نریش اتم پٹیل نے کہا کہ انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط بھیجا ہے جس میں اس معاملے کی آزاد ایجنسی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دریں اثنا، مقبرے کی توڑ پھوڑ کو لے کر منگل کو اتر پردیش اسمبلی میں ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی ایک ‘منصوبہ بند’ کوشش ہے۔

دی پرنٹ کے مطابق ، سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے رہنما ماتا پرساد پانڈے نے دعویٰ کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ایک ہفتہ قبل مقبرے پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا  کہ ہجوم ڈھیلے سیکورٹی کی وجہ سے اندر داخل ہوا۔

پانڈے نے کہا، ‘یہ ریاست بھر میں ایک رجحان بن گیا ہے کہ ایک پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے مدرسوں اور مقبروں کو گرایا جائے۔’

Next Article

لال قلعہ سے وزیر اعظم کے اعلانات: آپریشن سیندور، سدرشن چکر مشن، روزگار اسکیم اور جی ایس ٹی اصلاحات

یوم آزادی پر وزیر اعظم نریندر مودی نے آپریشن سیندورکی کامیابی،نئی سیکورٹی پالیسی، آتم نربھر بھارت، روزگار اسکیم، جی ایس ٹی اصلاحات اور سدرشن چکر مشن کا اعلان کیا۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے، دراندازی، آبادیاتی تبدیلی اور ایمرجنسی پر کڑی تنقید کی۔

فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے آج 79 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کئی اہم اعلانات کیے۔

اس تقریر میں آپریشن سیندورکی ‘کامیابی’، مستقبل کی سکیورٹی پالیسی، خود انحصاری کے اہداف، تکنیکی ترقی اور سماجی و اقتصادی اصلاحات پر تفصیلی بات کی گئی۔

آپریشن سیندور: نئی سکیورٹی پالیسی کا اعلان

وزیراعظم نے اپنی تقریر کا آغاز آپریشن سیندور کو کامیاب قرار دیتےہوئے کیا۔ انہوں نے کہا، ‘آپریشن سیندور غصے کا اظہار ہے۔ 22 تاریخ کے بعد ہم نے اپنی فوج کو کھلی چھوٹ دے دی۔ حکمت عملی وہ طے کریں، ہدف کا تعین وہ کریں، وقت کا انتخاب بھی وہ کریں  اور ہماری فوج نے وہ کیا جو کئی دہائیوں میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں کلومیٹر تک دشمن کے علاقے میں گھس کر دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر کو زمین بوس کر دیا، دہشت گردوں کی عمارتوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان  کی نیند ابھی بھی اڑی ہوئی ہے۔’

ایک اہم اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اب ہندوستان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم ان جوہری خطرات کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ نیوکلیئر بلیک میلنگ کافی عرصے سے جاری ہے، اب اس بلیک میلنگ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔’

پاکستان کے ساتھ حالیہ تصادم پر اپوزیشن کے سوال اب بھی قائم ہیں۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک واضح طور پر یہ نہیں بتایا ہے کہ اس جھڑپ میں ہندوستان کے کتنے لڑاکا طیارے گرائے گئے۔ اگرچہ فوج نے اعتراف کیا ہے کہ ہندوستان کے طیارے گرے، لیکن کتنے اس کی جانکاری نہیں ہے۔

کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ہندوستانی جیٹ طیاروں کے نقصان کا ذمہ دار سیاسی قیادت کو قرار دیا ہے۔ مانسون اجلاس کے دوران گاندھی نے پارلیامنٹ میں کہا تھا، ‘میں سی ڈی ایس جنرل انل چوہان جی سے کہنا چاہتا ہوں، آپ نے کوئی اسٹریٹجک غلطی نہیں کی، ہندوستانی فضائیہ نے کوئی غلطی نہیں کی، غلطی سیاسی قیادت کی تھی جس نے کہا کہ آپ ملٹری انفراسٹرکچر پر حملہ نہیں کرسکتے۔ فضائیہ بالکل قصوروار نہیں ہے۔’

سندھ طاس معاہدے پر سخت موقف

وزیراعظم نے پانی کے سندھ طاس معاہدے کے معاملے پر واضح پیغام دیا۔ انہوں نے کہا، ‘اب ہندوستان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہیں گے۔ اب اہل وطن اچھی طرح جان چکے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ کتنا غیر منصفانہ اور یکطرفہ ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘اب ہندوستان کے حق کا جو پانی ہے اس پر  صرف اور صرف ہندوستان کا اختیار ہے، ہندوستان کے کسانوں کا ہے۔’

وزیر اعظم کے اس بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سنجے کے جھا لکھتے ہیں ، ‘یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ہندوستانی کسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اور اگر کانگریس حکومت پر اس معاہدے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے تو پھر سبز انقلاب کی بات کرتے ہوئے اندرا گاندھی کو کریڈٹ کیوں نہیں دیا جاتا؟ ایک صحت مند جمہوریت کچھ وقار کے ساتھ متعصبانہ سیاست کے لیے بھی جگہ دیتی ہے۔’

خود انحصاری: ترقی یافتہ ہندوستان کی بنیاد

خود انحصاری کے موضوع پر طویل بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا، ‘ترقی یافتہ ہندوستان کی بنیاد آتم نربھر بھارت ہے۔ جو دوسروں پر زیادہ انحصار کرتا ہے، اس کی آزادی پر اتنا ہی بڑا سوالیہ نشان لگ جاتاہے۔’

انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندورمیں میڈ ان انڈیا مصنوعات کا کردار اہم تھا۔

سیمی کنڈکٹر فیلڈ میں تاریخی پیش رفت

تکنیکی خود انحصاری پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے بڑا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘میڈ ان انڈیا چپس جو میڈ ان انڈیا ، بھارت کی بنی ہوئی، بھارت میں بنی ہوئی، بھارت کے لوگوں کی بنائی ہوئی ہیں، اس سال کے آخر تک مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘چھ مختلف سیمی کنڈکٹر یونٹ زمین پر اتررہے ہیں، ہم نے پہلے ہی چار نئے یونٹس کو گرین سگنل دے دیا ہے۔’

سیمی کنڈکٹرز کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں سیمی کنڈکٹر فائلیں 50-60 سال پہلے شروع کی گئی تھیں لیکن وہ پھنس گئیں۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سنجے کے جھا کہتے ہیں، ‘وزیراعظم نے کہا کہ سیمی کنڈکٹرز سے متعلق فائلیں 50 سال سے پھنسی ہوئی تھیں، لیکن انہوں نے سائنس، توانائی اور خلائی شعبوں میں عظیم ادارے اور تنظیمیں قائم کرنے کا کریڈٹ جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کو دینے سے گریز کیا۔ سیمی کنڈکٹر پر بھی قوم کو گمراہ کیا۔ جبکہ زیادہ تر بڑی سیمی کنڈکٹر کمپنیاں 2014 سے پہلے قائم کی گئی تھیں، چندی گڑھ میں سیمی کنڈکٹر کمپلیکس 1983 میں ہی قائم کیا گیا تھا۔’

روزگار کے شعبے میں بڑا اعلان

یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم نے نوجوانوں کے لیے بڑا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا، ‘آج 15 اگست کو ہی ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کے لیے 1 لاکھ کروڑ روپے کی اسکیم شروع کر رہے ہیں اور اسے نافذ کر رہے ہیں۔ پردھان منتری وکست بھارت روزگار یوجنا آج 15 اگست کو نافذ ہو رہی ہے۔’

اسکیم کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘اس اسکیم کے تحت حکومت پہلی بار پرائیویٹ سیکٹر میں نوکری حاصل کرنے والے نوجوانوں کے بیٹے یا بیٹی کو 15000 روپے دے گی۔ جو کمپنیاں زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کریں گی انہیں بھی مراعات دی جائیں گی۔’ انہوں نے کہا کہ ‘پردھان منتری وکست بھارت روزگار یوجنا تقریباً ساڑھے تین کروڑ نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گی۔’

جی ایس ٹی اصلاحات کا اعلان

تہوار کے موسم سے پہلے ایک بڑا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا، ‘اس دیوالی آپ کے لیے ڈبل دیوالی بنانے جا رہا ہوں۔ اس دیوالی پر آپ ہم وطنوں کو بہت بڑا تحفہ ملنے والا ہے۔ ہم نیکسٹ جنریشن  جی ایس ٹی اصلاحات لا رہے ہیں، یہ دیوالی کے دوران آپ کے لیے تحفہ بن جائیں گے۔’

اس تناظر میں انہون نے مزید کہا کہ ‘عام آدمی کو درکار ٹیکس بہت حد تک کم ہو جائیں گے، سہولیات بہت بڑھ جائیں گی۔ ہمارے ایم ایس ایم ای، ہمارے چھوٹے کاروباریوں کو بہت بڑا فائدہ ملے گا۔’

قومی سلامتی: سدرشن چکر مشن

مستقبل کے سیکورٹی چیلنجز کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک پرجوش مشن کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا، ‘آنے والے 10 سالوں میں، 2035 تک، ملک کے تمام اہم مقامات بشمول اسٹریٹجک اور شہری علاقوں، جیسے کہ ہسپتال، ریلوے، کسی بھی عقیدے کے مرکز کو ٹکنالوجی کے نئے پلیٹ فارمز کے ذریعے مکمل حفاظتی حصار فراہم کیا جائے گا۔’

کرشن کے سدرشن چکر سے تحریک لیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ملک سدرشن چکر مشن شروع کرے گا۔ یہ مشن سدرشن چکرایک طاقتور ہتھیاروں کا نظام ہے اور نہ صرف دشمن کے حملے کو بے اثر کرے گا بلکہ دشمن پر کئی گنا زیادہ جوابی وار کرے گا۔’

ڈیموگرافی پر تشویش

دراندازی کے معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا، ‘ایک سازش کے تحت، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت، ملک کی آبادی کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ایک نئے بحران کے بیج بوئے جا رہے ہیں اور یہ درانداز میرے ملک کے نوجوانوں کی روزی روٹی چھین رہے ہیں۔’

اس کو حل کرنے کے لیے انہوں نے اعلان کیا، ‘ہم نے ایک ہائی پاور ڈیموگرافی مشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مشن یقینی طور پر ہندوستان پر منڈلا رہے سنگین بحران کو حل کرنے کے لیے مقررہ وقت کے اندر سوچے سمجھے طریقے سے اپنا کام کرے گا۔’

ثقافت اور ورثے کا احترام

ہندوستانی ثقافت کے تنوع کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ‘مراٹھی، آسامی، بنگالی، پالی، پراکرت کو کلاسیکی زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے۔’ انہوں نے ‘گیان بھارتم یوجنا’ کے تحت ملک بھر میں ‘ہاتھ سے لکھے ہوئے متن، مخطوطات، صدیوں پرانے دستاویزات کو تلاش کرکے اور آج کی ٹکنالوجی کا استعمال کرکے محفوظ کرنے’ کے منصوبے کا ذکر کیا۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا احترام

سنگھ کے 100 سال مکمل ہونے پر وزیر اعظم نے کہا، ‘100 سال پہلے ایک تنظیم نے جنم لیا تھا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ۔ قوم کی 100 سالہ خدمت ایک بہت ہی قابل فخر سنہری صفحہ ہے۔ عوام کی  ترقی کے ذریعے قوم کی تعمیر کے عزم کے ساتھ، اور 100 سال تک ماں بھارتی کی فلاح و بہبود کے مقصد کے ساتھ، سویم سیوکوں نے مادر وطن کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں۔’

ایمرجنسی کی مذمت

ایمرجنسی کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر وزیر اعظم نے کہا، ’50 سال پہلے ہندوستان کے آئین کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے آئین کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا، ملک کو جیل میں تبدیل کردیا گیا، ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ ایمرجنسی کو 50 سال ہوچکے ہیں،کوئی بھ آئین کے قتل کے اس گناہ کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔’

Next Article

سنگھ کے ماؤتھ پیس میں ٹرمپ کے ٹیرف کی تنقید – ’امریکہ دہشت گردی اور آمریت کو فروغ دے رہا ہے‘

ایک طرف جہاں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کے ٹیرف اور جنگ بندی کے ثالثی کے دعووں پر امریکہ کے خلاف براہ راست کچھ کہنے سے گریز کیا ہے، وہیں بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی اور آمریت کو فروغ دے رہا ہے۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ  نئےٹیرف کے اعلان کے لیے ایک تقریب کے دوران دستخط شدہ ایگزیکٹو آرڈر دکھاتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یا ہندوستانی برآمدات پر عائد 50 فیصد ٹیرف پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے ۔ تاہم، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی اور آمریت کو فروغ دے رہا ہے۔

آر ایس ایس نے اپنے ماؤتھ پیس آرگنائزر میں ایک تنقیدی اداریے میں کہا ہے کہ ‘امریکی یک قطبی دنیا زوال کا شکار ہے اور اسے کئی سطحوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔’

آرگنائزر کے ‘ انڈین ورلڈ ویو: ری ڈیفائننگ پاور ‘ کے عنوان  والے اداریے میں  کہا گیا ہے کہ،’ہم تجارتی جنگوں، غیر ضروری محصولات، پابندیوں اور اقتدارکی تبدیلی کے اقدامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔آزادی اور جمہوریت کا خود ساختہ مسیحا امریکہ دہشت گردی اور آمریت کو فروغ دے رہا ہے۔’

اداریہ میں مزید کہا گیا ہے، ‘چین موجودہ نظام کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر ابھر رہا ہے، قرض کے جال میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے پاس مستحکم اداروں کے لیے قابل اعتبار متبادل نہیں ہے۔روس-یوکرین جنگ، اسرائیل-حماس جنگ اور اسرائیل-ایران تنازعہ اس ٹوٹتے ہوئے بین الاقوامی نظام کی علامات ہیں – اس ٹوٹتی ہوئی دنیا کی واضح علامت – جو کبھی منظم نہیں تھا۔’

اداریہ میں مزید کہا گیا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک، آپریشن سیندور جیسے اقدامات اور خارجہ پالیسی کے دانشمندانہ انتخاب کے ذریعے اسٹریٹجک خود مختاری کو یقینی بنانے کی مسلسل کوششیں اسی قومی شعور کی علامت ہیں۔

آرگنائزر کے اداریے میں یہ بھی کہا گیا،’اقوام متحدہ سے لے کر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن تک، بین الاقوامی ادارے براعظموں کے مختلف ممالک کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے میں غیر متعلقہ اور غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔’

قابل ذکر ہے کہ آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس کی طرف سے امریکہ پر تنقید اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اب تک وزیر اعظم مودی ٹیرف اور آپریشن سیندور کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ‘جنگ بندی میں ثالثی’ کرنے کے ٹرمپ کے دعوے جیسے مسائل پر امریکہ پر براہ راست حملہ کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں ۔

پی ایم مودی، جو آر ایس ایس کے پرچارک رہے ہیں، اپوزیشن کی طرف سے اس مسئلے پر بات کرنے کے بار بار کہنے کے باوجود خاموش رہے ۔

حالیہ مہینوں میں آر ایس ایس کی قیادت اور مودی کی قیادت والی بی جے پی کے درمیان ممکنہ اختلافات کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

اس سال کے شروع میں پی ایم مودی نے 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی بار ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا تھا۔

غور طلب  ہے کہ جولائی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے 75 سال کی عمر میں استعفیٰ دینے کی بات کہی تھی، جس سےیہ بحث چھڑ گئی تھی کہ کیا یہ بات دراصل مودی کے لیے تھی، جو بھاگوت کے ساتھ اس ستمبر میں 75 سال کے ہو جائیں گے۔

Next Article

بہار میں ووٹر لسٹ تنازعہ: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا امتحان

بہار کے ووٹر دیکھ رہے ہیں کہ کون ان کے حقوق کی حفاظت کر رہا ہے اور کون ان کی خاموشی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔آنے والے انتخابات نہ صرف حکومت بدلنے کی لڑائی ہوں گے بلکہ اس میں اس بات کا بھی امتحان ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمہوریت کی کسوٹی پر میں کون کھرا اترتا ہے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بات اور واضح ہو گئی ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت اور احتساب کا فقدان ہی تنازعات کی اصل جڑ ہے جسے دور کیے بغیر ووٹر لسٹ پر اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ (تصویر بہ شکریہ: الیکشن کمیشن)

بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی صرف ایک تکنیکی عمل نہیں، بلکہ یہ قومی سیاست میں ہلچل کا باعث بھی ہے۔ کل سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ ووٹر لسٹ سے نکالے گئے تقریباً 65 لاکھ ووٹرز کے نام اور نکالنے کی وجوہات عام کی جائے،تاکہ شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جاسکے۔

اس سمت میں ہر ضلع الیکشن افسر کی ویب سائٹ پر یہ تفصیلات ای پی آئی سی نمبر اور بوتھ وائز  دستیاب کرائی جائیں اور اس کے بارے میں  وسیع معلومات اخبارات، دور درشن، ریڈیو اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی جائے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ آدھار کارڈ کو شناختی کارڈ کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے، جس سے ووٹر اپنی شناخت ثابت کر سکیں گے اور انتخابی عمل میں اپنی شرکت کو یقینی بنا سکیں گے۔ اس فیصلے نے پوری بحث کا رخ ہی بدل دیا ہے اور اس مسئلے کو آئینی حقوق کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔

تارکین وطن بہاریوں کی حاشیے پر جاتی آواز

بہار کی سماجی اور اقتصادی حقیقت یہ ہے کہ ‘گھر سے باہر رہنا’ یہاں کوئی استثنیٰ نہیں، بلکہ زیادہ تر خاندانوں کا مقدر ہے۔ کھیت – کھلیانوں  سے لے کر دہلی-ممبئی  کے کنسٹرکشن سائٹ تک، خلیجی ممالک کے مزدور کیمپوں سے لے کر پنجاب کی منڈیوں تک – بہار کے مزدور ہر جگہ اپنی روزی روٹی تلاش کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جانے کا سب سے زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہے، کیونکہ وہ مہینوں یا سالوں تک گاؤں واپس نہیں آ پاتے۔

ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کا موجودہ عمل ان کے لیے کسی آفت سے کم نہیں ہے۔ بوتھ لیول آفیسر سے ملنے کے لیے شہر سے چھٹی لے کر آنا، ضروری کاغذات جمع کرنا اور پھر اس عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کرنا- یہ سب ان کے لیے تقریباً نامحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرافٹ لسٹ سے 65 لاکھ ناموں کا غائب ہونا کوئی حادثاتی واقعہ نہیں ہے بلکہ مزدوروں  کے لیے پیدا کیے گئے بحران کا براہ راست نتیجہ ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں اس نکتے کو واضح طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘صرف دستاویز جمع نہ کرنے کو حق رائے دہی سے محرومی کی بنیادنہیں بنایا جا سکتا اور ایسا اقدام جمہوری حقوق کے منافی ہے۔’ یہ تبصرہ تارکین وطن  بہاریوں کے حق میں ایک اہم قانونی ڈھال بن کر ابھرا ہے۔

سیاسی پیچ اور مقامی ایکوئیشن

بہار کی سیاست میں ووٹر لسٹ صرف ایک انتخابی دستاویز نہیں ہے بلکہ اسے پاور- ایکوئیشن  کی نبض شناسی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت خاص طور پر سیمانچل  کےاضلاع جیسے کشن گنج، ارریہ، کٹیہار اور پورنیہ میں بڑھ جاتی ہے۔ یہاں بی جے پی اس معاملے کو قومی سلامتی اور آبادی کے عدم توازن کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ آر جے ڈی اور کانگریس اسے ‘ووٹ چوری’ اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ قرار دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اس بحث میں ایک نئی تہہ ڈال دی ہے۔

دو ووٹر آئی ڈی کی سیاست

تیجسوی یادو کا دو ووٹر آئی ڈی  والے معاملے میں گھرنا اور پھر نائب وزیر اعلیٰ وجئے کمار سنہا کا نام دو اسمبلی حلقوں میں درج ہونا – یہ صرف قانونی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ بہار کے ووٹر لسٹ مینجمنٹ کی پرانی بیماری کا ٹھوس ثبوت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر ‘دھوکہ دہی’ کا الزام لگاتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بات اور بھی واضح ہو گئی ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت اور احتساب کا فقدان ہی ان تنازعات کی اصل جڑ ہے جسے دور کیے بغیر ووٹر لسٹ پر اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے راہل گاندھی اور اپوزیشن کو واضح اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے۔ اب راہل گاندھی مضبوطی سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کا احتجاج کسی پارٹی کی سیاست کا حصہ نہیں تھا، بلکہ آئین اور عام ووٹر کے حقوق کے تحفظ کے لیے تھا۔ اس فیصلے سے ان کے ‘ایک شخص، ایک ووٹ’ کے نعرے کو قانونی جواز اور عوامی حمایت دونوں مل گئی ہیں۔ اس سے ان کی اس دیرینہ دلیل کو نئی تقویت ملی ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت ہی جمہوریت کی اصل بنیاد ہے۔

یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے لیے ایک سخت وارننگ ہے – کہ اگر وہ شفافیت اور انصاف پر کسی بھی طرح سے سمجھوتہ کرنے دیتا ہے تو اس کا اثر بہار جیسی سیاسی طور پر حساس ریاست میں اسمبلی انتخابات تک محسوس ہوگا۔ ایسے میں یہ ایشو اپوزیشن کے ہاتھ میں سب سے مؤثر انتخابی ہتھیار بن سکتا ہے۔

بہار ووٹر لسٹ تنازعہ

بہار میں ووٹر لسٹ کا تنازعہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ 1990 کی دہائی میں جب ذات پات کی ایکوئیشن سب سے زیادہ شدید تھی، ووٹر لسٹ کی نظر ثانی سیاسی چالوں کا ایک اہم اوزار ہوا کرتی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے تنازعات مقامی دائرے تک محدود رہتے تھے، اب میڈیا، سوشل میڈیا اور عدالتی نگرانی کی وجہ سے یہ قومی مسئلہ بن  جاتا ہے۔

آج چیلنج یہ ہے کہ 65 لاکھ ووٹروں کے حقوق کو یقینی بنایا جائے، بغیر کسی ذات پات یا مذہبی تعصب کے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل محض قانونی رسم نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ ایک مضبوط سیاسی سماجی پیغام ہونا چاہیے کہ ‘ووٹ دینے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔’

الیکشن کمیشن کو ڈیجیٹل شفافیت کے ساتھ پورے عمل کو عام کرنا چاہیے، تارکین وطن بہاریوں کے لیے موبائل تصدیقی مراکز قائم کرنا چاہیے، اور کسی بھی ووٹر کا نام حذف کرنے سے پہلے شخصی تصدیق کو لازمی قرار دینا چاہیے۔

بہار کا ووٹر چوکنا ہے، اور وہ دیکھ رہا ہے کہ کون اس کے حقوق کی حفاظت کر رہا ہے اور کون اس کی خاموشی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ آئندہ انتخابات نہ صرف حکومت بدلنے کی لڑائی ہوں گے بلکہ یہ بھی امتحان ہو گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمہوریت کی کسوٹی پر کون کھرا اترتا ہے۔

(پرشانت کمار مشرا آزاد صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)

Next Article

مہاراشٹر: 21 سالہ مسلم نوجوان کو ’ہندو لڑکی سے قربت‘ کی وجہ سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا

مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے ایک گاؤں میں 21 سالہ مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ جب ان کے اہل خانہ نے بچانے کی کوشش کی تو ان پر بھی حملہ کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمین کو شبہ تھا کہ لڑکا ایک  ہندو لڑکی سے قریبی تعلق رکھتا تھا۔ معاملے میں آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

سلیمان رحیم خان(فوٹوبہ شکریہ:ایکس/ امتیاز جلیل)

نئی دہلی: مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے ایک گاؤں میں ایک 21 سالہ نوجوان، جو پولیس کے مطابق ہندو برادری کی ایک 17 سالہ لڑکی کا قریبی تھا، کو کچھ لوگوں نے پریڈ کرائی  اور پیٹ پیٹ کر مار ڈالا ۔ جب اس کے گھر والوں نے اسے بچانے کی کوشش کی تو ان پر بھی حملہ کیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے بدھ کو بتایا کہ یہ واقعہ سوموار کو پیش آیا اور اب تک آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

پولیس کے مطابق، سوموار کی صبح چھوٹی بیٹاوت گاؤں میں واقع اپنے گھر سے 21 سالہ سلیمان رحیم خان پٹھان پولیس بھرتی کے لیے آن لائن فارم بھرنے 15 کلومیٹر دور جامنیر کے لیے نکلا تھا۔

ایک پولیس افسر نے بتایا کہ دو پہر 3.30 بجے کے قریب جب خان ایک لڑکی کے ساتھ ایک کیفے میں بیٹھا تھا تو 8-10 لوگ وہاں آئے اور اس کا موبائل فون چھین لیا اور اس کی جانچ کرنے لگے۔ فون میں ایک تصویر دیکھنے کے بعد انہوں نے اس پر حملہ کرنا شروع کر دیا اور اسے گھسیٹ کر کیفے سے باہر لے گئے۔

مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، یہ کیفے مقامی تھانے سے چند میٹر کے فاصلے پر تھا۔

اہلکار نے بتایا کہ خان کو اس کے گاؤں لے جایا گیا جہاں اس کی بار بار پریڈ کرائی گئی اور اس کے ساتھ مارپیٹ کی گئی، اور اسے اس کے گھر کے قریب ڈنڈوں سے مارا گیا۔

افسر نے کہا، ‘جب خان کے والدین اور بہن نے اسے بچانے کی کوشش کی تو انہوں نے ان پر بھی حملہ کر دیا۔’ مار پیٹ سے خان بے ہوش ہو گئے۔ اور ملزم اسے مردہ سمجھ کر گھر کے باہر چھوڑ گئے۔

گاؤں والے خان کو اسپتال لے گئے جہاں اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم اور پنچ نامے کی تحقیقات کے بعد لاش خان کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی۔

ان کے والد رحیم نے کہا، ‘سلیمان میرا اکلوتا بیٹا تھا اور پولیس میں بھرتی کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ تقریباً 15 لوگ اسے ہمارے گھر کے پاس لائے۔ وہ اسے لاتیں اور مکے مار رہے تھے، کچھ نے تو اسے ڈنڈوں سے بھی مارا۔ گاؤں والوں نے ہمیں اطلاع دی اور ہم اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے بھاگے۔ وہ بہت جارحانہ تھے اور ان میں سے کچھ نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ انہوں نے میری بیوی، بیٹی اور میرے 80 سالہ باپ کو بھی نہیں بخشا۔ انہیں بھی لات اور گھونسے مارے گئے۔’

انہوں  نے کہا، ‘میرے بیٹے کا خون بہہ رہا تھا، اس کے جسم کا ایک حصہ بھی زخموں کے بغیر نہیں تھا۔ انہوں نے گاؤں والوں کو دھمکایا تو کوئی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ میرے بیٹے کا کسی لڑکی سے افیئر نہیں تھا۔ افیئر کی کہانی بالکل جھوٹی ہے۔ انہوں نے بس میرے بیٹے کو نشانہ بنایا۔’

کئی گرفتار

بتایا گیاہے کہ اب تک آٹھ ملزمان میں سے چار کو منگل کو حراست میں لیا گیا اور انہیں 18 اگست تک پولس حراست میں بھیج دیا گیا۔ پولیس نے ان کی شناخت ابھیشیک راجکمار راجپوت (22)، گھنشیام عرف سورج بہاری لال شرما (25)، دیپک باجی راؤ (20) اور رنجت عرف رنجیت رام کرشن مٹاڈے (48) کے طور پر کی ہے۔

جامنیر کے پولیس انسپکٹر مرلیدھر کسار نے گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آدتیہ دیوڑے، کرشنا تیلی، شیجوال تیلی اور رشی کیش تیلی، جن کی عمر تقریباً 25 سال ہے، کو بدھ کے روز جلگاؤں کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا اور جمعرات کو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

اس واقعہ کے بارے میں ایکس پر پوسٹ کرنے والوں میں اے آئی ایم آئی ایم کے سابق ایم پی امتیاز جلیل بھی شامل ہیں ۔

انہوں نے لکھا، ‘ماب لنچنگ کا ایک اور معاملہ۔ جلگاؤں کے جامنیر تعلقہ کے ایک گاؤں میں سوموار کی دوپہر ایک 20 سالہ کالج کے طالبعلم کو اس کے والدین اور بہن کے سامنے غنڈوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ سلیمان خان پر اس الزام پر حملہ کیا گیا کہ وہ دوسری برادری کی لڑکی سے بات کر رہا تھا۔ پولیس اب آخری رسومات ادا کرنے کے لیے اہل خانہ پر دباؤ ڈال رہی ہے، جبکہ اہل خانہ تمام ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جلگاؤں پولیس سے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی اپیل۔’