جہاں وزیرا عظم مودی نے علاقائی روابط کو سفارتی ترجیحات میں رکھا ہے، وہاں وہ اس بات کو سمجھنے سے آخر قاصر کیوں ہے کہ وسط ایشیا کے ساتھ روابط کشمیر سے ہوکر اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔
چند ماہ قبل وادی کشمیر میں حکام نے شہر سرینگر کے قلب میں واقع تاریخی عمارت یارقند سرائے کو مکینوں سے خالی کروانے کا حکم دے دیا، کیونکہ ان کے بقول یہ عمارت، جو ایک زمانے تک وسط ایشیا سے آنے والے تاجروں کے لیے رہائش اور منڈی کے بطور کام کرتی تھی، اب رہائش کے قابل نہیں رہ گئی تھی۔
مگر کیا اتفاق ہے، اس کے چند ہفتے بعد جب اس عمارت کو سرینگر میں خالی کروایا جا رہا تھا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس میں ازبیکستان، قزاخستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ترکمانستان، پاکستان کی مدد سے ایک مشترکہ قرار داد پیش کر رہے تھے، جس میں جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے روابط کو استوار کرنے پر زور دیا گیا اور اس کے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دینے کی گزارش کی گئی۔
یہ قرار داد جنرل اسمبلی میں اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔ اس موقع پر پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ انرجی کے حصول کے لیے ان دونوں خطوں کے باہمی روابط ضروری ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت سینٹرل ایشیا ساوتھ ایشیا پاور پروجیکٹ یعنی سی اے ایس اے–1000 پر سرعت کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ تاجکستان اور کرغیزستان سے بجلی کی ترسیل ممکن بنائی جا سکے۔
اس کے علاوہ ترمیز، مزار شریف، پشاور ریلوے پروجیکٹ پر بھی کام جاری ہے، جو وسط ایشیائی ممالک کو کراچی اور گوادر کی بندر گاہوں کے ساتھ جوڑے گا۔
قرون وسطیٰ اور اس کے بعد بھی کئی صدیوں تک یہ دونوں خطے دنیا کے مالدار علاقے تصور کیے جاتے تھے۔ 17ویں صدی میں جب یورپ اندھیروں میں ڈوبا تھا، ان دونوں خطوں کی دنیا کی 30فیصد تجارت اور 25فیصد مجموعی گھریلو پیداوار پر اجارہ داری تھی۔
ماہرین کے مطابق یہ اس لیے ممکن تھا کیونکہ یہ دونوں خطے ایک دوسرے کے ساتھ پامیر اور قراقرم سے گزرنے والی شاہراوں کے ذریعے مسلسل رابطہ میں تھے۔
خلیجی ممالک کی طرح ان وسط ایشائی ممالک کے ساتھ تعلقات چین،ہندوستان اور پاکستان کی سفارت کاری کے لیے ایک لازمی جز بن چکے ہیں۔ کیونکہ یہ تینوں ممالک انرجی کے فقدان کا شکار ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس آبادی کے لیے روزگار اور خوراک مہیا کروانے کے لیے صنعت کاری اور زراعت کی جدید کاری کے لیے ان کو انرجی کی اشد ضرورت ہے۔
جس طرح 20ویں صدی تیل کی صدی تھی، اسی طرح 21ویں صدی اب گیس کی صدی ہے، اور اس کے وسیع ترذخائر جنوبی ایشیا کے بغل میں یعنی وسط ایشیا میں ہی موجود ہیں۔ ازبیکستان میں دنیا کے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور یہ بجلی برآمد کرنے والے ممالک میں ہے۔
اس صدی کے اواخر تک جب جنوبی ایشیا پانی کے اکثر ذرائع خشک ہو چکے ہوں گے، پانی کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے تاجکستان ایک طاقتور ملک کے طور پر ابھرے گا۔دنیا کی چار فیصد پن بجلی کی پیداوار تاجکستان میں ہی ہوتی ہے۔ اس وقت جب خلیجی ممالک میں انرجی کے ذرائع محدود ہو رہے ہیں، وسط ایشیائی ممالک انرجی کے حصول کے متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ہندوستان میں ویسے تو عرصے سے ہی سفارت کاری میں علاقائی ربط سازی کو ایک اہم اکائی کے طورپر شامل کیا گیا ہے۔ مگر 2014 کے بعد وزیر اعظم نریندرمودی نے اس کو ایک نئی جہت دی۔ انہوں نے مختلف صوبوں کے ماضی کے تہذیبی ورثہ کو مختلف خطوں کے ساتھ روابط کو استوار کرنے کے لیے استعمال کرنے کاایک نیا طریقہ ڈھونڈنکالا۔
جیسے مشرقی صوبہ اڑیسہ کو انڈونیشیا کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کےلیے استعمال کیا گیا۔ سابق فارن سکریٹری للت مان سنگھ کی قیادت میں کالنگا ڈائیلاگ کا ایک میکانزم ترتیب دیا گیا۔ کیونکہ اس صوبہ کے انڈونیشا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط رہے ہیں۔
اس صوبہ کے ایک سابق وزیر اعلیٰ بیجو پٹنائک، جو ایک مشاق پائلٹ بھی تھے نے 1947میں جواہر لال نہرو کی ایما پر ایک ریسکو آپریشن کرکے انڈونیشیا کے وزیر اعظم سوتان سجاریر اور نائب صدر محمدحتا ء کو ڈچ حملہ آوروں سے بچاکر ان کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔
اپنے آبائی صوبہ گجرات کو مودی نے افریقہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اشتراک و تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کیا، کیونکہ ان ملکوں میں ہند نژاد گجراتیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ اسی طر ح شمال مشرقی صوبوں میں علیحدگی کی تحریکوں، عسکری تنظیموں کی کثرت اور لاء اینڈ آرڈر کی ابتری کے باوجود، مودی نے اس خطے کو اپنی ایکٹ ایسٹ پالیسی کا محور بنادیا۔
ان صوبوں کی سرحدیں تجارت و نقل حمل کے لیے کھول دی گئی۔ برما اور بنگلہ دیش کی سرحد پر ہر ہفتہ ان علاقوں میں بارڈر ہاٹ یعنی لوکل بازار لگتے ہیں۔سرحدوں کے آر پار 20کلومیٹر اندر تک جانے کے لیے کسی بھی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ان ہی صوبوں سے گزرتے ہوئے کالا دان ٹرانسپورٹ کوریڈور برما کے روہنگیا اکثریتی صوبہ رخائن کو ہندوستان کے ساتھ جوڑنے کا کام کرے گا۔
اسی طرح جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کو ملیشیا اور سنگا پور اور اس کے اطراف کے ممالک کے ساتھ روابط کی ذمہ داری دی گئی۔ کیونکہ 13ویں صدی تک تامل ناڈو چولہ سلطنت کا پایہ تخت رہا ہے، اور مشرقی ایشیا کے ان ممالک تک اس کا دائرہ پھیلا ہوا تھا۔
انتہائی جنوبی صوبہ کیرالا کو عرب آؤٹ ریچ کے لیے استعمال کیا گیا۔اس صوبہ کے عرب ممالک کے ساتھ نہ صرف صدیوں پرانے رشتے رہے ہیں، بلکہ خلیجی ممالک میں مقامی ملیالی نسل کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
عرب ممالک کے باہر دنیا کی سب سے پہلی مسجد اسی صوبہ میں واقع ہے، جو پیغمبر حضرت محمد کے دور میں ہی عرب تاجروں نے مقامی حکمراں کے تعاون سے تعمیر کی اور ابھی بھی اسی شان سے کھڑی ہے۔اس مسجد کا ماڈل مودی عرب ممالک کے سربراہان کو پیش کرکے اس کو ایک آؤٹ ریچ کے بطور استعمال کرتے ہیں۔
اگر ان ریاستوں کے قدیمی رشتوں کو بنیاد بناکر جدید دنیا کے ساتھ رشتہ استوار کیے جاسکتے ہیں، تو آخر جموں و کشمیر کو وسط ایشیا کے ساتھ بطورآؤٹ ریچ کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے؟ اس معاملے میں ہندوستان اورپاکستان دونوں کنی کاٹ جاتے ہیں۔
معروف اسکالر صدیق واحد کے بقول، وسط ایشیا کے دورہ کے دوران و ہ قائل ہو رہے تھے کہ کشمیر جنوبی ایشیا کے بجائے وسط ایشیا کے زیادہ قریب ہے۔ کھانے پینے کی عادتیں کلچر، آرٹ، موسیقی ہو یا فن تعمیر، غرض قدم قدم پر وسط ایشیا میں کشمیر کی جھلک نظر آتی تھی۔گو کہ کشمیر پچھلی چار صدی سے زائد عرصے سے نوآبادیاتی تسلط کا شکار ہے، مگر اس کے باوجود 20 ویں صدی کے اوائل تک یہ جنوبی اور وسط ایشیا کے درمیان ایک تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔
اپنی کتاب ‘سینٹرل ایشیا اینڈ کشمیر : اے اسٹدی ان دی کونٹیکسٹ آف اینگلو رسین رائیولری‘ میں محقق پروفیسر کے وارکو رقمطراز ہیں کہ 18ویں اور 19ویں صدی میں سرینگر میں روسی اور وسط ایشیاء کے تاجروں کی خاصی آمد و رفت رہتی تھی۔ روسی تاجر خاص طور پر شال خریدنے سرینگر آتے تھے، کیونکہ کشمیر شالوں کی روس میں خاصی مانگ تھی۔ روس کی زار حکومت نے تو سائبریا میں پشمینہ بکریوں کو پالنے اور ان کے فارم ہاؤسز بنانے کی آفر کی تھی، تاکہ کشمیر کے شال بننے والے کاریگروں کو کم قیمت پر اون کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔فی الوقت یہ اون منگولیا سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خوتان اور یارقند سے قراقرم اور پامیر کے پہاڑی دروں سے جنوبی ایشیا کے شہروں کو جانے والے راستہ کشمیر سے ہوکر ہی گزرتے تھے۔ وارکو کے مطابق قدیم شاہراہ ریشم کے ساتھ قربت کی وجہ سے کشمیر وسط ایشا سے آنے والے تاجروں کے لیے اہم پڑاؤہوتا تھا۔
شاید کم ہی افراد کے علم میں ہوگا کہ 20ویں صدی کے اوائل تک لداخ خطے میں ترک زبان ہی رابطہ کا ذریعے اور دوسری زبان تھی۔ ابھی بھی اس خطے میں ایسے بزرگ افراد ملیں گے، جو ترک زبان کے ساتھ شد بد رکھتے ہیں۔
محقق سلیم بیگ کے مطابق ایک ترک ارگون قبیلہ اس خطے میں رچ بس گیا ہے۔ چند برس قبل ہی بیگ اور ان کے ساتھیوں نے ترک یادگار ژا سوما مسجد کی تزئین اور آرائش کی اور اس سے ملحق وسط ایشامیوزم کی بنیاد بھی ڈالی۔
پچھلی صدی نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لیے۔ سوویت یونین کے وجود سے تاجکستان، کشمیریوں کی دستبرد سے دور ہوگیا۔بعد میں کاشغر تک رسائی بند ہوگئی، جہاں سے کشمیر قالین و شالوں کے لیے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ 1947 نے تو ایسا قہر ڈھایا کہ لائن آف کنٹرول یا حد متارکہ نے تو نہ صرف زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک ایسی خونی لکیر کھینچی کہ اس کا رابطہ جنوبی ایشیا کے اکثر شہروں سے بھی کٹ گیا۔
جہاں وزیرا عظم مودی نے علاقائی روابط کو سفارتی ترجیحات میں رکھا ہے، وہاں وہ اس بات کو سمجھنے سے آخر قاصر کیوں ہے کہ وسط ایشیا کے ساتھ روابط کشمیر سے ہوکر اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔
ان دونوں خطوں کو درکنار کرکے بس افغانستان اور ایران کے راستے اس خطے تک پہنچنا معاشی طور پر بھی سازگار نہیں ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشا اور وسط ایشا کے روابط کو مسئلہ کشمیر نے یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔ قزاخستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی بھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔
مئی 2014کو جب پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نئی دہلی کے راشٹرپتی بھون یا صدارتی محل میں ہندوستان کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد ہوٹل پہنچے تو لابی میں چند لمحوں کی ملاقات کے دوران میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانی کی 700 سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں ہندوستان اور پاکستان بھی اس کا حصہ بن جائیں۔
میر سید علی ہمدانی، جن کی تربت تاجکستان کے صوبہ کلوب میں ہے، کی کشمیر میں وہی اہمیت ہے، جو جنوبی ایشیا کے دیگر علاقے کے مسلمانوں کے لیے خواجہ معین الدین چستی کی ہے۔ ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہوئے میر سید علی ہمدانی نے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے انہوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔
پورے جنوبی ایشیا میں کشمیر واحد خطہ ہے، جہاں اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن جوق در جوق اسلام کی پناہ میں آگئے۔
اقبال نے فارسی شاعری میں اپنے متعلق کہا ہے۔ تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر، دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است۔ مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی، برہمن زادہء راز آشنائے روم وتبریز است۔
میر سید علی ہمدانی تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انہوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر ابھی بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے اسلامک سینٹرز تھے۔
اقبال نے ہمدانی، جنہیں کشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے۔ سیدالسادات، سالار عجم، دست او معمار تقدیر امم، یعنی سیدوں کے سید اور عجم کے سردار۔ جس کے ہاتھ نے ایک قوم کی تقدیر بد ل ڈالی۔
مجھے یقین تھا کہ چونکہ 2014میں مودی کو سفارتی سطح پر آؤٹ ریچ کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تجویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیونکہ چند ماہ قبل تک بطو ر گجرات کے وزیر اعلیٰ کے کئی ممالک نے ان کے داخلہ پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ امریکہ تو ان کو ویزا بھی نہیں دے رہا تھا۔
چونکہ سید ہمدانی کی آرام گاہ تاجکستان میں واقع ہے، ہندوستان اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اس میں کشمیر کو شامل کرنا، مودی کے گلے اتر سکتا تھا۔ دونوں ممالک صوفی بزرگ کو وسط ایشیا کے ساتھ اپنے آؤٹ ریچ کا آئی کون یا علامت کے طور پر پروجیکٹ کر سکتے تھے۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ اکثر سیاستدانوں کی طرح میاں صاحب کی توجہ کا دورانیہ نہایت ہی کم ہے اور ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اس کے محرکات ان کو گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔
پاکستانی سیاستدان ویسے بھی کسی بھی ایسی تخلیقی اعتماد سازی یا موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات یا رعایت حاصل کروانے میں پس و پیش میں رہتے ہیں۔خیر اس وقت کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر پاکستانی یا پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومتیں مظفر آباد سے تاجکستان کے کلوب صوبہ تک افغانستان کے واخان کوریڈور کے راستے بس سروس شروع کرنے کے بارے میں غور کریں۔ بعد میں اس بس سروس کو سرینگر تک وسعت دی جاسکتی ہے۔
کشمیر کے مسئلہ کو سلجھا کرہندوستان اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجاتے ہیں، تو اس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ وسط ایشیائی ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اثر ر وسوخ کا استعمال کرکے دونوں ممالک کواس مسئلہ کو حل کرنے اور دیرپا امن قائم کروانے میں اپنا رول ادا کریں۔ کیونکہ اس کشیدگی کی وجہ سے ان کا سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ا ن کو وادی کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور رول ادا کرنا چاہیے۔
ان تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کے لیے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو خطہ کے لیے ایک وردان ثابت ہوگا اور اس سے عوام نفسیاتی طور پر کشادگی یا کھلا پن بھی محسوس کریں گے اور سرینگر کی یارقند سرائے ایک بار پھر گہما گہمی، تجارتی و عوامی روابط کا محور بن جائےگی۔
درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند