انصاف میں تاخیر اینٹی-سی اے اے مظاہرین کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی: سی جے اے آر

کیمپین فار جیوڈیشیل اکاؤنٹیبلیٹی اینڈ ریفامرز نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ عدالتوں میں ضمانت کے معاملوں کو فیصلہ سنائے بغیر دو سال سے زائد عرصے سے التوا میں رکھا جا رہا ہے۔

کیمپین فار جیوڈیشیل اکاؤنٹیبلیٹی اینڈ ریفامرز نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ عدالتوں میں ضمانت کے معاملوں کو فیصلہ سنائے بغیر دو سال سے زائد عرصے سے التوا میں رکھا جا رہا ہے۔

گلفشاں فاطمہ۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@SafooraZargar)

گلفشاں فاطمہ۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@SafooraZargar)

نئی دہلی: کیمپین فار جیوڈیشیل اکاؤنٹیبلیٹی اینڈ ریفامر (سی جے اے آر) نے کہا ہے کہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے گرفتاری سے متعلق  مقدمات میں ضمانت کی کارروائی اور احکامات کے اعلان میں تاخیر انتہائی تشویشناک ہے اور موجودہ حکومت کے خلاف سوال کھڑے کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، سی جے اے آر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ‘عدالتی تاخیر کی وجہ سے اینٹی-سی اے اے  مظاہرین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور انہیں مسلسل قید میں  رکھ کر ان کی آزادی سے محروم کیا جا رہا ہے۔’

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ عدالتوں میں ضمانت کے معاملوں کو بغیر  فیصلہ سنائے دو سال سے زائد عرصے سے التوا میں رکھا جا رہا ہے، یہ گزشتہ چند سالوں میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ ایسا کرنا لوگوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘

گلفشاں فاطمہ کی ضمانت کی شنوائی  کی مثال دیتے ہوئے سی جے اے آر نے کہا، ‘دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا، جو اسی معاملے میں شریک ملزمان ہیں،انہیں  جون 2021 میں ضمانت مل گئی، جبکہ فاطمہ اب بھی جیل میں ہیں۔ فاطمہ کویو اے پی اے کے تحت ملزم بنایا گیا تھا اور انہیں  اپریل 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

دیوانگنا، نتاشا اور آصف کو ضمانت دیتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا، ‘ہم یہ کہنے کو مجبور  ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اختلاف کو دبانے کے لیے اور اس شدید خوف میں کہ معاملہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے، حکومت نے آئینی طور پر دیے گئے ‘احتجاج کے حق’ اور ‘دہشت گردانہ سرگرمیوں’ کے درمیان  کی لکیر کو دھندلا کردیا ہے۔‘

بعد میں دہلی پولیس نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔

سی جے اے آر کے بیان میں کہا گیا ہے، ‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر گلفشا ں فاطمہ کوضمانت مل جانی چاہیے تھی، کیونکہ دہلی پولیس کے مطابق، ان  کا رول مبینہ طور پر دیوانگنا اور نتاشا جیسا تھا۔ تاہم، غیر معمولی عدالتی تاخیر کے نتیجے میں گلفشاں چار سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں، ان کی درخواست ضمانت پر کوئی فیصلہ  نہیں سنایا گیا۔’

سی جے اے آر نے کہا، ‘ 1 مئی 2022 کو ضمانت کے لیے درخواست دینے کے بعد سے گلفشاں  کی ضمانت کا معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں 65 بار شنوائی  کے لیے درج کیا گیا ہے۔ اس پورے عمل کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ گلفشاں  کی ضمانت پر دہلی ہائی کورٹ میں صرف تیسری بار بحث ہونے والی ہے۔‘

سی جے اے آر کے بیان میں خالد سیفی کےمعاملے  کا بھی ذکر کیا گیا، سیفی نے بھی شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا۔

سی جے اے آر نے اپنے بیان میں کہا، ‘خالد سیفی کو 26 فروری 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا، اور دہلی ہائی کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواست پہلی بار 10 مئی 2022 کو درج کی گئی تھی۔ وہ جیل میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی ضمانت کی عرضی دہلی ہائی کورٹ میں دو سال سے زیادہ سے زیر التوا ہے۔ عدالت کی دو بنچوں نے ان کی ضمانت معاملے کی سماعت کی ہے، لیکن کوئی فیصلہ نہیں سنایا گیا ہے۔ کچھ دیگر شریک ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں بھی دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔‘

سی جے اے آر نے مزید کہا ہے کہ عدالتی تاخیر کے نتیجے میں سنگین ناانصافی ہو رہی ہے کیونکہ لوگ اپنی ضمانت کی درخواستوں پر کسی فیصلہ کیے بغیر جیلوں میں بند پڑے ہیں،جس کے باعث آئین کے تحت دیے گئے ان کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ چار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ایف آئی آر 59/20 میں مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہوئی ہے۔

سی جے اے آر نے کہا، ‘ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ نہ کرکے عدالت صرف دہلی پولیس کے محض الزامات، جن کی شنوائی کے دوران جانچ کی جانی ہے، کی بنیاد پر سیاسی اختلافات رکھنے والوں کے خلاف یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے مسلسل غلط استعمال کی اجازت دے رہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ،  ‘اس لیے ہم دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس سنگین ناانصافی کا نوٹس لیں اور یقینی بنائیں کہ ضمانت کے معاملات کا فیصلہ مقررہ وقت میں کیا جائے۔’

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘اس کویقینی بنانے کے لیے مناسب ادارہ جاتی طریقہ کار اپنایا جانا چاہیے، جیسے کہ اگر کسی جج کا تبادلہ یاپرموشن ہوتا ہے، تو انہیں ان تمام ضمانت کے معاملوں میں فیصلہ دینا ہوگا جن میں دلائل مکمل ہو چکے ہیں اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔‘