ہلدوانی تشدد: ہائی کورٹ نے 50 ملزموں کو ڈیفالٹ ضمانت دی

فروری میں اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں ایک مدرسے کے انہدام کے خلاف مسلمانوں کے مظاہروں کے دوران پولیس کی گولہ باری میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ مظاہرے میں مبینہ طور پر شمولیت کے الزام میں 84 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

فروری میں اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں ایک مدرسے کے انہدام کے خلاف مسلمانوں کے مظاہروں کے دوران پولیس کی گولہ باری میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ مظاہرے میں مبینہ طور پر شمولیت کے الزام میں 84 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons. CC BY-SA 4.0)

اتراکھنڈ ہائی کورٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons. CC BY-SA 4.0)

نئی دہلی: اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے اس سال فروری میں ہلدوانی میں ایک مدرسے کے انہدام کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے کیے گئے  مظاہرے کے پرتشدد ہونے کے بعد گرفتار کیے گئے 50  لوگوں کو ڈیفالٹ ضمانت دے دی ہے۔

پولیس کی گولہ باری میں کم از کم 5 افراد ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اتراکھنڈ اتھارٹی کے ذریعے منہدم کیا گیا یہ مدرسہ ریلوے کالونی حلقہ میں واقع تھا، جہاں 4000 سے زیادہ خاندان رہتے تھے۔ جب یہ منہدم  کیا گیا، تب  مرکزی حکومت کا ریلوے کی توسیع کے لیے زمین کے حصول کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا۔

رپورٹ کے مطابق ، مقامی پولیس نے تین ایف آئی آر درج کی تھی  اور جون تک احتجاج میں مبینہ طور پر شامل  ہونے کے الزام میں 84 مقامی لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ وقتاً فوقتاً ان کی حراستی مدت میں  توسیع ہوتی رہی۔ بعد میں تین میں سے دو ایف آئی آر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) بھی لگایا گیا، جس کے تحت ضمانت ملنا مشکل  ہوتا ہے۔

ڈیفالٹ ضمانت اس وقت دی جاتی ہے جب تفتیش مکمل نہ ہو اور ملزم کی حراست میں رہتے ہوئے مقررہ وقت میں چارج شیٹ داخل نہ کی جائے۔ سنگین جرائم کے لیے سی آر پی سی کے تحت یہ  حد 90 دن ہے، لیکن یو اے پی اے کے تحت اسے 180 دن تک بڑھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ استغاثہ عدالت کو اس تاریخ تک کی گئی تفتیش اور ملزم کی مسلسل حراست کی مخصوص ضرورت کے کے بارے میں مطمئن کر دے۔

اس سے قبل ایک ٹرائل کورٹ نے ملزم کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا –اس  فیصلے کو انہوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ استغاثہ کی طرف سے کوئی وجہ نہیں دکھائی گئی،یا ملزم کو مسلسل حراست میں رکھنے کے لیے ٹرائل کورٹ کی جانب سے کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، قانونی طور پر مطلوبہ کوئی خاص وجہ تو دور کی بات ہے۔

جسٹس منوج کمار تیواری اور جسٹس پنکج پروہت نے ملزمین کی عرضی کو برقرار رکھا اور نچلی عدالت کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کی بنیاد پر انہیں ضمانت پر رہا کرنے کی ہدایت دی۔

تاہم،معاملے میں چارج شیٹ آخر کار 6 جولائی کو داخل کی گئی، لیکن پہلے سیٹ کے  بندیوں کی  90 دن کی مدت 12 مئی کو ختم ہو گئی تھی۔ اس طرح، ہائی کورٹ نے مانا کہ 11 مئی اور 1 جولائی کو  ٹرائل کورٹ کی طرف سےدی گئی مدت میں توسیع ‘غلط اور غیر متوازن’ تھی۔

ملزمین کی نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن اور ان کی ٹیم نے کی۔