گزشتہ سال دسمبر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سی اے اے مخالف مظاہرہ کے دوران ہوئےتشدد کے معاملے میں دہلی پولیس کی جانب سے دائر حلف نامے کے جواب میں عرضی گزاروں نے کہا تھا کہ پولیس نے مظاہرے دوران طلبا کو جس بےرحمی سے پیٹا، اس سے لگتا ہے کہ انہیں اوپر سے ایسا کرنے کا آرڈر ملا تھا۔
نئی دہلی: پچھلے سال دسمبر میں شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرہ کے دوران تشدد کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ میں داخل ایک عرضی پر دہلی پولیس کے حلف نامے کے بعد عرضی گزارکی جانب سے دائر جواب میں شامل کچھ بیانات پر سوموار کو اعتراض کیا گیا۔
پولیس نے وکیلوں، جامعہ کے طلبا، اوکھلا کے باشندوں کی جانب سے داخل مختلف عرضیوں کے جواب میں حلف نامہ داخل کیا تھا۔دہلی پولیس کی طرف سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ(ایس جی) نے معاملے میں عرضی گزاروں کی جانب سے داخل جواب کے کچھ پیراگراف میں استعمال کی گئی زبان پر سخت اعتراض کیا ہے۔
جواب کے بعض حصے کا حوالہ دیتے ہوئے سینئر لاء افسر نے کہا، ‘غیرذمہ دارانہ دلیل دینا آج کے وقت میں ایک چلن بن گیا ہے…یہ مظاہروں میں دیا جانے والا بیان ہے، عدالت میں اس طرح کی دلیل نہیں دی جا سکتی۔’مہتہ نے کہا کہ ایک عرضی گزار نبیلہ حسن کی جانب سے داخل جواب میں ‘غیرذمہ دارانہ ’ دلیل دی گئی ہے۔
حسن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عرضی گزاروں، طلبا اور وہاں کے باشندوں پر مبینہ طورپربے رحمی سے حملہ کرنے کے لیے پولیس کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے۔حسن کی عرضی میں یونیورسٹی کے اندرطلبا پر پولیس اور پیراملٹری فورسز کی مبینہ زیادتی کے خلاف کارروائی کے لیے ہدایت دینے کی اپیل کی ہے۔
ان کے ذریعے دہلی پولیس کے حلف نامے کے جواب میں دیے گئے بیان میں کہا گیا،‘واضح طور پر پولیس کو قانون توڑنے کی منظوری ملی ہوئی تھی۔ بہت امکان ہے کہ پارلیامنٹ کی طرف پرامن مارچ کے لیے جامعہ کے باہر جمع ہو رہے طلبا کی بےرحمی سے پٹائی اور ان کی ہڈیاں توڑنے کا آرڈروزیر داخلہ کی طرف سے آیا ہو۔’
اس میں آگے کہا گیا، ‘پولیس فورس نے اس طرح کا سلوک کیا جیسے کہ وہ (طلبا)ایک مجرم ہیں۔ ان کا رویہ ایسا تھا کہ عام آدمی کو بھی یہی لگتا کہ قانون توڑنے اورعام لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے پولیس فورس کو وزیر داخلہ سے ہدایت ملی ہوئی تھی۔’
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ان بیانات پر اعتراض کرتے ہوئے سالیسیٹر جنرل نے کہا، ‘اس جانکاری کا ماخذکیا ہے؟ کیا ثبوت ہیں؟ آپ آئینی اتھارٹی کو اس طرح بدنام نہیں کر سکتے۔ سب سامنے آ چکا ہے۔ میں شروع سے کہہ رہا ہوں کہ ایسی عرضیاں ایک ایجنڈے کے تحت داخل کی جا رہی ہیں۔’
اعتراضات کو نوٹس میں لیتے ہوئے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس پرتیک جالان کی بنچ نے حسن کی جانب سے پیش سینئر ایڈووکیٹ کولن گونجالوس سے پوچھا کہ وہ وزیر داخلہ کے خلاف اس طرح کے الزام کیوں لگا رہے ہیں اور ان سے کہا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کیا وہ انہیں ہٹا سکتے ہیں۔
اس پر گونجالوس نے کہا کہ وہ متعلقہ جملوں کوفوراً ہٹا دیں گے۔ مہتہ کے ذریعےذکر کیےگئے جملوں کو ہٹانے کے بعد وہ پھر سے جواب داخل کریں گے۔عدالت اب 13 جولائی کو اس معاملے پرشنوائی کرےگی۔ تشدد پر غور کرنے کے لیے ایک جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کو لےکر داخل چھ عرضیوں کی مخالفت کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ پولیس کی زیادتی کے دعوے بےبنیاد ہیں۔
معلوم ہو کہ جنوبی دہلی کے اس علاقے میں 15 دسمبر کو سی اے اے مخالف ایک مظاہرہ کے بعد جامعہ ملیہ کیمپس میں پولیس نے داخل ہو کر لاٹھی چارج کیا تھا اور یہاں ہوئےتشدد میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔پولیس پر الزام لگا تھا کہ اس نے بنا انتظامیہ کی اجازت کے یہ قدم اٹھایا اور لائبریری میں گھس کر طلبا کو بری طرح پیٹا۔
بتایا گیا تھا کہ اس مظاہرہ میں شامل کچھ مقامی لوگوں اور جامعہ کےطلبا نے پارلیامنٹ کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد انہیں پولیس کے ذریعے متھرا روڈ پر روک دیا گیا اور پھر تشدد ہوا۔اس سے پہلے 13 دسمبر 2019 کو بھی اس علاقے میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہوا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)